فاران ایک مشہور اسٹائلسٹ سے اس کی گرومنگ کروا رہا تھا۔ وہ سارا سارا دن چھ چھ انچ کی ہیل کے ساتھ کیٹ واک کرنا سیکھتی رہتی۔ اس کے چلنے کے انداز میں قدرتی طور پر شاہانہ پن تھا اور اس کے جسم میں بے پناہ لوچ اور یہ چیزیں فاران اور اس اسٹائلسٹ نے پہلی بار اسے کیٹ واک کرانے کی کوشش کرتے ہوئے نوٹ کر لیا تھا۔ باقی ساری چیزیں اس کو سکھانا ان کے لئے کیک واک ثابت ہو رہی تھی۔
فاران کو کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی کیٹ واک کوئین کو گروم کر رہا تھا۔ اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ اگلے پانچ سالوں میں اگر اسے صرف اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ رکھ سکا تو وہ اس کے ذریعے کروڑوں کمانے والا تھا۔
اور اگلے پانچ سال اسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے صرف کانٹریکٹ کافی نہیں تھے۔ وہ جانتا تھا، ایک بار زینی منظر عام پر آگئی تو اس پر آفرز کی بھر مار ہو جائے گی اور ان میں سے ہر آفر ایک سے بڑھ کر ایک ہو گی پھر ان حالات میں زینی کو صرف اپنے ساتھے باندھے رکھنا ناممکنات میں سے تھا… اسے اس پر جال ڈالنا تھا۔
٭٭٭
”بھائی! یہ گھر اب ہمارا ہے؟” شبانہ نے بے یقینی سے گھر میں ادھر ادھر پھرتے ہوئے شیراز سے پوچھا۔ وہ اس دن اپنے پورے خاندان کو وہ بنگلہ دکھانے کے لئے لے کر آیا تھا جو شینا کو جہیز میں ملنے والا تھا، وہاں آج کل مرمت ہو رہی تھی۔
اور اس بنگلے میں آکر شیراز کے گھر والوں کو جیسے اپنے آپ پر قابو نہیں رہا تھا۔ وہ سب ادھر سے ادھر گھومتے ہوئے اپنے لیے کمرے منتخب کر رہے تھے۔
شیراز بے حد فخریہ انداز میں آ نہیں ایک ایک چیز دکھا رہا تھا۔ یوں جیسے وہ سب کچھ اس کی بیوی کے جہیز کا نہیں تھا اس کی اپنی برسوں کی محنت کا حاصل تھا اور اکبر تو اپنے بیٹے پر نثار ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہاں سوچا تھا کہ ان کی اکلوتی نرینہ اولاد کے مقدر میں اتنا ”رزق” تھا۔
”یہ ماسٹر بیڈ روم ہے۔ یہ میں آپ دونوں کے لئے تیار کروا رہا ہوں۔ میں اور شینا دوسرے بیڈ روم میں رہیں گے۔” شیراز نے نسیم اور اکبر کو ماسٹر بیڈ روم میں لے جاتے ہوئے کہا۔ خیر انہیں ماسٹر بیڈ روم کی تو کیا سمجھ آتی، ان کے لئے بس یہی کافی تھا کہ گھر کے سب سے بڑے کمرے میں ان کا بیٹا ان کو رکھ رہا ہے۔
”اور بھائی! میں اوپر والی منزل پر الگ کمرہ لوں گی۔” نزہت نے فوراً یاد دلایا۔
”لے لینا بھئی، لے لینا۔ اوپر والے سارے کمرے خالی ہیں۔ تم لوگ لے لینا ایک ایک۔” شیراز نے مسکراتے ہوئے بہن کو اطمینان دلایا۔
”میں تو بھائی یہاں آتے ہی اپنے محلے کی ساری سہیلیوں کو اپنے گھر بلاؤں گی۔ انہیں بھی تو پتا چلے، ہم کہاں رہ رہے ہیں۔” شبانہ نے بھی اپنے مستقبل کے ارادوں کا اظہار کیا۔
”بلا لینا اپنی سہیلیوں کو مگر پہلے اس گھر میں ہم کو آ تو لینے دو۔” شیراز نے اس کا سر تھپتھپایا۔
”اور وہ جو اپنا گھر ہے، اسے کیا کریں گے؟” اکبر کو خیال آیا۔
”اسے بیچ دیں گے۔ اب اس محلے کے اتنے چھوٹے سے گھر کا ہمیں کیا کرنا ہے۔” شیراز نے اپنا ارادہ بتایا۔
”بیچنے کے بجائے کرائے پر چڑھا دیں تو ماہانہ کچھ آمدنی ہوتی رہے گی۔” اکبر نے کہا۔
”کتنی ماہانہ آمدنی ہو جائے گی۔ سات آٹھ سو روپے۔ چھوڑیں، اب وہ زمانے گئے کہ اس ماہانہ آمدنی پر جئیں گے ہم لوگ۔ اب تو اس سے دو گنا روزانہ خرچ کیا کریں گے ہم۔” شیراز نے بے حد تنفر سے کہا۔
”کیوں بیٹا! کتنی تنخواہ لگے گی تمہاری؟” نسیم نے بے حد اشتیاق سے پوچھا۔
”تنخواہ کو چھوڑیں امی! سرکاری نوکری میں ”تنخواہیں” نہیں ہوتیں ”کمائیاں” ہوتی ہیں۔”
اس کی بات پر اکبر نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا۔افسر اولاد کا باپ ہونے کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
”پھر بھی… محلے کی عورتیں پوچھتی ہیں۔ مجھے بتانا ہے انہیں۔”نسیم نے اصرار کیا۔
”ایک تو آپ اس محلے کی عورتوں کو بھول جائیں اب۔ ہم اب ان جیسے نہیں رہے۔ ان سے اوپر ہو گئے ہیں۔ ان سے میل جول ختم کریں۔ یہ نہ ہو کہ یہاں پر محلے کے لوگوں کی قطاریں لگ جائیں۔” شیراز نے یک دم کسی خدشے کے پیش نظر کہا۔
”نہیں! نہیں بیٹا! تم فکر ہی مت کرو۔ ہم کوئی بے وقوف ہیں کہ محلے کے لوگوں کو یہاں بلانا شروع کر دیں۔” اکبر نے فوری طور پر شیراز کو تسلی دی۔
”اور ہاں، وہ گاڑی کا کیا ہوا۔” اکبر کو یک دم یاد آیا۔
”گاڑی بھی آجائے گی۔ ایک نیا ماڈل آنے والا ہے۔ میں اس کا انتظار کر رہا ہوں۔ جب سسرال والوں سے گاڑی لینی ہے تو پھر لیٹسٹ ماڈل کیوں نہ لو۔”
شیراز نے ہنس کر کہا۔ نسیم اور اکبر دونوں فہمائشی انداز میں ہنسے۔
”تمہارے سسرال والے بڑے دل کے لوگ ہیں۔ دو چار لاکھ کم زیادہ ہو جانے سے ان کو فرق نہیں پڑے گا۔ اکبر نے سعید نواز کی تعریف کی۔
”یہ تو مجھے بھی پتا ہے، اسی لیے تو انتظار کر رہا ہوں نئے ماڈل کا۔”
”بیٹا! ہمیشہ اپنے سسرال والوں کی عزت کرنا، ساس سسر کے فرماں بردار رہنا۔” نسیم نے یک دم شیراز کو نصیحت کرنی شروع کر دی۔
”ایسے اچھے لوگ کہاں ملتے ہیں آج کل کے زمانے میں۔” اکبر نے بھی مداخلت کی۔ ”وہ تمہیں اپنا بیٹا بنا رہے ہیں تو تم بیٹا بن کر دکھانا۔”
”انشاء اللہ تعالیٰ۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔ ماں باپ نہ بھی کہتے تو بھی یہ تو اس کے اپنے دل کی آواز تھی۔
نسیم کا بس چلتا تو وہ اسی وقت شیراز کی ایڈاپشن کے کاغذات تیار کر کے شیراز کو سعید نواز کا متنبیٰ بنا دیتیں۔ وہ اس کروڑوں کے گھر کو دیکھ کر اس وقت اتنی ہی جذباتی ہو رہی تھیں۔
”اور کبھی شینا کو کوئی تکلیف نہیں ہونا چاہیے۔ میں اسے بہو نہیں، بیٹی بنا کر اس گھر میں لاؤں گا اور یاد رکھنا، اسے تم سے کوئی شکایت ہوئی تو میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گا۔”
اکبر بھی کچھ مزید جذباتی ہو گیا۔ اس وقت شینا کے لیے سب کے دل میں پیار کے سوتے پھوٹ رہے تھے۔
”میں تو خیر اس کو بیٹیوں سے بھی بڑھ کر رکھوں گی۔” نسیم نے اپنا عزم دہرایا۔
”اور میں نے تو بھابھی کو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دینا۔ میں تو کھانا اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گی انہیں اور ایک سال تک تو ہم نے ان سے ویسے ہی کوئی کام نہیں کروانا۔” نزہت کے دل میں بھی بھابھی کی محبت جوش مار رہی تھی۔
”بالکل، اپنی بہو کو ہتھیلی کا چھالہ بنا کر رکھنا ہے میں نے۔” نسیم نے تائید کی۔ آخر شینا نے ان سب کی قسمت بدل دی تھی تو پھر کروڑوں کی اس جائیداد کے ساتھ آنے والی بہو پر کس کو پیار نہ آتا۔
شیراز مسکراتے ہوئے ان سب کی باتیں سنتا رہا۔ اس کے تصور میں اس وقت شینا تھی۔ وہ اب اسے اس گھر میں اپنے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭
”سنا ہے زینی نے کوئی نوکری کر لی ہے۔”
ربیعہ کی ہونے والی ساس اس دن ان کے گھر آئی تھیں اور نفیسہ کو ان دنوں اگر کسی کی آمد کا اندیشہ تھا تو وہ ان ہی کی آمد تھی۔ زبیدہ ان کی چھوٹی بہن تھیں اور بہت اچھے مزاج کی تھیں مگر نفیسہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ نسیم کے ساتھ بے حد انسیت رکھتی ہیں اور اس وقت بھی نسیم کے پاس سے ہی آرہی تھیں اور شاید زینی کی اس نوکری کے بارے میں بھی انہیں نسیم نے ہی مطلع کیا تھا۔
زبیدہ کو اگرچہ شیراز اور زینی کی منگنی ٹوٹنے کا افسوس تھا مگر بہر حال انہوں نے ابھی تک اس بارے میں نفیسہ سے افسوس کے علاوہ زینی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ شاید ان کے دل میں کہیں زینی کے لئے کوئی نرم گوشہ تھا جو اب بھی اسے قصور وار سمجھنے سے انکاری تھا۔ وہ اس سے پہلے بھی دو تین بار آئی تھیں اور ہر بار زینی کی حالت دیکھ کر وہ مزید رنجیدہ ہو کر واپس جاتی تھیں۔
”ہاں، وہ ایک آفس میں اس کی دوست نے لگوایا ہے اسے۔” نفیسہ نے ان سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”مگر کیوں؟ آپا آپ کو پتا ہونا چاہیے۔ خاندان والے پہلے ہی بہت باتیں کر رہے ہیں اس کے بارے میں۔” زبیدہ نے اعتراض کیا۔
”وہ چھوڑ دے گی۔ ذرا دل بہل جائے گا، اس لیے کام کر رہی ہے۔ چھوڑ دے گی وہ۔” نفیسہ نے جھوٹ بولا۔
”دل بہلانے کے لئے نوکری ہی کرنا رہ گیا ہے۔ پہلے بھی اس کے گھر سے باہر نکلنے کی وجہ سے ہی مسئلہ ہوا۔ آپ کو تو چاہیے تھا کہ اس کو گھر سے باہر ہی نہ جانے دیتیں۔”
نفیسہ نے قدرے شرمندہ انداز میں چائے لاتی ہوئی ربیعہ کو دیکھا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں چرائیں۔ ربیعہ نے چائے کی ٹرے تپائی پررکھ دی۔ وہ بے حد پریشان تھی۔ زینی کے آنے کا وقت ہو رہا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی۔ زبیدہ سے زینی کی ملاقات ہو۔ وہ اگرچہ ابھی بھی چادر لے کر ہی باہر آتی جاتی تھی مگر اس کے حلیے میں زمین آسمان کا فرق آچکا تھا اور تراشدیدہ بالوں کے ساتھ زبیدہ کے سامنے آنا جیسے قیامت لانے کے مترادف تھا۔ ربیعہ کو زینب کے حلیہ کا ہی خوف نہیں تھا بلکہ اس کو زینی کی زبان سے بھی خوف آرہا تھا۔ زبیدہ اس سے جاب کے حوالے سے کچھ پوچھ لیتیں تو…؟
ربیعہ کے پیٹ میں جیسے کوئی گھونسے مارنے لگا۔ وہ دعا کر رہی تھی کہ یا تو زینی کو آج دیر ہو جائے یا پھر زبیدہ چائے پی کر چلی جائیں یا پھر…؟ وہ کچھ اور دعا مانگنے کے لیے سوچنے والی تھی، جب دروازہ پر دستک ہوئی تھی۔ ربیعہ نے اطمینان سے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”لگتا ہے زینی آگئی۔” ”اس وقت آتی ہے وہ؟” مغرب میں تھوڑا وقت رہ گیا تھا اور اس وقت زینی کا گھر آنا زبیدہ کے لئے بے حد قابل اعتراض بات تھی۔
”نہیں، عام طور پر تو جلدی آجاتی ہے۔ آج کہہ کر گئی تھی کہ ذرا دیر سے آئے گی۔ کسی دوست کی طرف جانا ہے۔” نفیسہ نے بمشکل مسکراتے ہوئے کہا۔
ربیعہ جلدی سے دروازے کی طرف گئی۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے چوکھٹ پر کھڑی زینی سے گھبرائے ہوئے انداز میں سر گوشی کی۔
”چھوٹی خالہ آئی ہیں۔ انہیں مت بتانا کہ ماڈلنگ کر رہی ہو اور نہ ہی ان کے سامنے اپنے بال دکھانا۔ چادر کو اچھی طرح لپیٹ۔۔۔۔”
ربیعہ کی بات ادھوری رہ گئی۔ زینی اسے بڑے آرام سے ایک طرف کرتے ہوئے اندر داخل ہو گئی تھی۔
”السلام علیکم خالہ!” وہ اندر داخل ہوتے ہی اپنی چادر اتارتے ہوئے سامنے بیٹھی زبیدہ کی طرف گئی۔ چار پائی پر زبیدہ کے ساتھ بیٹھی نفیسہ نے بے اختیار اپنے دانت پیسے۔ زینی کے عقب میں کھڑی ربیعہ نے بے بسی سے ماں کو دیکھا اور زبیدہ چائے کا دوسرا گھونٹ لیتے لیتے رک گئیں۔ ان کی نظریں زینی کے بالوں پر تھیں۔ ایک نظر انہوں نے زینی کو دیکھا پھر نفیسہ کو۔
”تم نے بال کب کٹوائے؟” انہوں نے سلام کا جواب دینے کے بجائے اس سے سوال کیا اور زینی نے اس بات کو محسوس کیا تھا۔
One Comment
Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear