من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

”کھانے میں کیا ہے؟” وہ اب یوں ربیعہ سے پوچھ رہی تھی جیسے گفتگو ختم ہو گئی تھی، ربیعہ کو اس کا ذہنی توازن واقعی خراب لگا تھا۔
”تمہارے باپ کو پتا چلے گا تو وہ۔۔۔۔” اس نے پلٹ کر ماں کی بات کاٹ دی۔
”وہ کچھ نہیں کہیں گے… اگر کہیں گے بھی تو مجھ سے کہیں گے… میں بات کر لوں گی ان سے… کھانا ملے گا یا میں باہر جا کر کھا آؤں۔”
نفیسہ کو لگا۔ قیامت پہلے نہیں آئی تھی۔ قیامت اب آنے والی تھی۔ ربیعہ اور نفیسہ اسے اس طرح دیکھ رہی تھی۔ جیسے وہ ان دونوں کے لئے بھوت بن گئی تھی۔ زینی چند لمحے ان کے جانے کی منتظر کھڑی رہی پھر خود ہی کمرے سے نکل گئی۔
”ابو کو بتا دیں امی! اسے وہی روک سکتے ہیں۔ یہ ہماری بات نہیں مانے گی۔” ربیعہ نے شاک کے عالم میں ماں سے کہا۔
”آخر کتنے عذاب اکٹھے کروں میں ان کے لئے۔ کتنے ہفتوں کے بعد وہ پچھلے چند دنوں سے کچھ سکون میں ہیں اور اب کیا سوچیں گے وہ۔ میری تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کو ماڈلنگ کا خیال کہاں سے آگیا۔ اس نے تو کبھی ٹی وی تک شوق سے نہیں دیکھا۔”
”رمشہ نے کام دلوایا ہو گا اسے… اس نے اس سے کچھ عرصہ پہلے ماڈلنگ کا کہا تھا۔” ربیعہ نے نفیسہ کو بتایا۔
نفیسہ یک دم اب ربیعہ پر برسنے لگیں کہ اس نے انہیں اس بارے میں پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ورنہ وہ اس کا اور رمشہ کا میل جول ختم کر وا دیتیں۔
ربیعہ گھبرائے ہوئے انداز میں وضاحتیں دیتی رہی اور کچن میں بیٹھی زینی بے حد اطمینان سے کھانا کھاتے ہوئے اندر سے آنے والی آوازیں سنتی رہی۔
٭٭٭




ضیا بے یقینی سے زینی کا چہرہ دیکھتے رہے۔ نفیسہ نے ان کے آفس سے آنے کے کچھ دیر بعد ہی انہیں زینی کی ماڈلنگ کے بارے میں بتا دیا تھا اور ضیاء کو یقین نہیں آیا تھا مگر اس کے کمرے میں جا کر اس کا سامنا کرتے ہی انہیں جیسے کرنٹ لگا تھا۔ اس نے بے حد دھڑلے سے اقرار کیا تھا کہ جو کچھ انہوں نے نفیسہ کے منہ سے سنا ہے وہ سب سچ ہے۔
”مجھ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا قدم۔۔۔۔”
اس نے باپ کی بات کاٹ دی۔ ”آپ سے پوچھتی تو آپ اجازت دیتے؟”
”نہیں۔ کیونکہ میں تمہیں ایسا کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا جس پر لوگ انگلیاں اٹھائیں۔”
”لوگ پہلے ہی مجھ پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔” اس نے تلخی سے کہا۔
”نہیں زینی! عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں ایسے کام نہیں کرتیں۔” ضیاء نے اسے نرم آواز میں سمجھایا۔
”تو پھر کیا کرتی ہیں؟… شوہروں کے ہاتھوں جہیز کم لانے کی وجہ سے پٹتی ہیں؟ یا پیسے کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنی منگنیاں تڑواتی ہیں۔ پیسے کے بغیر کوئی گھرانہ عزت دار نہیں ہوتا نہ کہلاتا ہے۔”
”تم نا سمجھی کی باتیں کر رہی ہو۔” ضیا نے اسے ٹوکا۔
‘میں آپ کو وہ سچ بتا رہی ہوں جس سے آپ نے ہمیشہ نظریں چرائیں۔” اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”زینی…!” ضیا نے اس سے کچھ کہنا چاہا۔
”آج آپ کے پاس پیسہ ہوتا تو آپ کی بیٹیوں کے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔” اس نے تلخی سے کہا۔
”شیراز کے لالچ اور کم عقلی۔۔۔۔” اس نے ضیاء کی بات کاٹ دی۔
”شیراز نے کچھ غلط نہیں کیا… اس نے جو کیا ٹھیک کیا۔ آخر کیا ملتا اس کو آپ کی بیٹی سے شادی کر کے۔” وہ باپ کے بالمقابل کھڑی ہو گئی۔ ”غلطی آپ نے کی کہ آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ آپ کو اپنی بیٹیاں بیاہنی ہیں اور جب ان کو بیاہنا ہے تو ان کو کچھ دینا بھی ہے… کم از کم اتنا تو دینا ہی چاہیے جتنا دنیا آپ سے مطالبہ کرتی۔”
”میں نے تم لوگوں کوہمیشہ حلال کھلایا اور مجھے اس پر فخر ہے۔”
ضیا نے دل گرفتی سے کہا۔ یہ وہ اولاد تھی جس نے ان سے تو کیا کبھی کسی کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔
”اور اس فخر کی وجہ سے آپ کی ایک بیٹی سسرال میں تماشا بنی ہوئی ہے اور دوسری خاندان میں۔”
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ سب کچھ مجھ سے تم کہو گی۔”
”آپ مجھے ماڈلنگ چھوڑنے کا کہیں گے تو میں یہی سب کچھ کہوں گی آپ سے۔”
”کیوں اس طرح کرنے لگی ہو زینی تم…؟” ضیا نے رنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
زینی اس بار کچھ نہیں بولی۔ باپ کی کسی بات نے پہلی بار اسے خاموش کروایا تھا۔
ضیاء کے سوال کا جواب زینی کے پاس نہیں تھا۔ اسے خود بھی یہ پتا نہیں تھا، وہ یہ سب کچھ کیوں کرنے لگی تھی۔
انسان کو اگر اس نے چھوڑا ہو جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے تو وہ رنج میں اس کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے لگتا ہے جو اس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہو۔ زینی بھی یہی کر رہی تھی۔ یہ انتقام نہیں ہوتا سیلف میکنزم ہوتا ہے، دوبارہ ویسی تکلیف سے بچنے کی کوشش۔ وہ کچھوے کی طرح اپنے خول میں بند ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ اپنے ارد گرد دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش میں اس نے ان سارے تعلقات، سارے رشتوں، ساری محبتوں کو خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ اس خوف اور عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ کہ کل کو کوئی اس کے ساتھ دوبارہ وہی کچھ کر سکتا ہے جو شیراز نے کیا تھا۔ وہ صرف یہ بھول گئی تھی کہ وہ سارے اس کے ”خونی رشتے” تھے۔
وہ کسی دوسرے کو اپنے احساسات کیا سمجھاتی۔ اسے تو خود بھی احساس نہیں تھا کہ وہ کیا چیز تھی جو اسے مار رہی تھی۔ ہتک، شرم، ذلت، غربت، فریب، غم، غصہ یا پھر شیراز کا چھوڑ دینا۔
اس کے اندر سوالوں کا ایک ہجوم تھا اور ان میں سے کسی کا بھی جواب اسے مل نہیں پا رہا تھا۔ اس کے وجود کے اندر جیسے دھند ہی دھند تھی جس میں اس کو رستہ نہیں مل پا رہا تھا وہ درد کا Epicenter ڈھونڈتی پھر رہی تھی اور اس تلاش نے اس کو درد سے زیادہ بے حال کر دیا تھا۔
٭٭٭
ضیاء نے اس رات اس سے مزید بات نہیں کی۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ ان کی بات نہیں سنے گی۔ پر انہوں نے ہار نہیں مانی تھی۔ وہ مزید کوشش کرنا چاہتے تھے۔
اگلے چند دن نفیسہ، ربیعہ، سلمان اس کو دن رات سمجھاتے رہے۔ وہ روزانہ اطمینان سے فاران کے آفس جاتی شام کو آکر ان سب کی باتیں سنتی پھر اطمینان سے چادر اوڑھ کر سو جاتی۔ اگلی صبح وہ ایک بار پھر آفس جانے کے لیے تیار ہوتی۔
ایک شان دار گاڑی میں روز وہاں آمد و رفت نے محلے میں مزید سرگوشیوں اور چہ میگوئیوں کو جنم دیا تھا۔ نفیسہ اور ربیعہ لوگوں سے جھوٹ بولتے بولتے تنگ آگئی تھیں اور انہیں یقین تھا کہ کسی نے ان کی اس بات پر یقین نہیں کیا ہو گا کہ زینی کسی دفتر میں کام کرنے لگی تھی آخر وہ کون سا دفتر تھا جس کی ایسی شان دار کار ایک عام ورکر کو اس کے گھر سے پک اور ڈراپ کے لئے بھجوائی جاتی تھی اور وہ بھی زینی کے لئے جس نے ابھی بی اے کی ڈگری تک نہیں لی تھی۔ شیراز اور اس کے گھر والوں کے الزامات پر جیسے مہر ثبت ہونا شروع ہو گئی تھی اور نفیسہ اور ربیعہ اس دن سے ڈر رہی تھیں جب زینی کا پہلا اشتہار منظر عام پر آتا اور ان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہو جاتا۔
اور ضیاء وہ اب زینی کو سمجھنے کی کوشش کو ترک کر کے صرف اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح ان کے آفس کے وہ دوست زینی کے لئے اپنے بیٹے کا رشتہ لے آئیں۔ انہیں زینی کی فوری شادی ہی اس مسئلے کا حل نظر آرہی تھی۔ خالد صاحب ان دنوں اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے اور انہوں نے ضیاء سے اس شادی کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ گھر آنے کے بارے میں وعدہ کیا تھا اور ہر گزرنے والا دن ضیاء کو جیسے قیامت کا دن محسوس ہوتا تھا۔
٭٭٭
زینی کو اس ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرتے زیادہ دن نہیں لگے تھے۔ صرف شروع کے دن تھے جب وہ ٹھٹکتی جھجکتی، سہمتی، ہچکچاتی، سکڑتی، سمٹتی رہی تھی۔ پھر جیسے ایک ہی منتر تھا جو وہ اپنے آگے آنے والی ہر رکاوٹ، ہر گرہ پر پھونکنے لگی تھی۔
”وہ آپ کے گھر سے جہیز کے نام پر کچھ نہیں لے کر آئے گی کم از کم عزت تو لائے۔”
A beautiful woman with all these qualities or a
beautiful woman with laods of cash
)ایک عورت ان تمام خصوصیات کے ساتھ یا ایک خوب صورت عورت کروڑوں کیش کے ساتھ؟(
وہ پہلا منتر پھونکتی۔ وہ کام نہ کرتا تو دوسرا یاد کرتی۔ عزت اور حیا نام کی چیز چند لمحوں کے لئے بھک سے اس کی دنیا سے غائب ہو جاتی۔ وہ شوٹ کرواتے وقت فوٹو گرافر یا اس کے اسٹنٹ کی ہدایات نہیں سنتی تھی۔
”Smile, chin up, move to the left, don’t bend, straighten your shoulders, bend backwards, pout your lips, raise your left eye brow, look upwards, tuck your tummy in, hold your breath, there it is.”
وہ فوٹو گرافر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے کانوں میں کچھ اور سن رہی ہوتی تھی۔ شیراز کا خط پکڑنا، نسیم کا دروازہ نہ کھولنا، نفیسہ کا منگنی کا سامان واپس لانا، ضیا کا اکبر اور نسیم کے گھر سے نامراد واپس آنا، شیراز کو لکھے جانے والے خط، اپنے ہاتھ سے ربیعہ کا انگوٹھی اتارنا، ضیاء کا اکیڈمی میں شیراز سے ملاقات کے دوران کہی جانے والی باتیں دہرانا۔
ہر فوٹو شوٹ کے دوران اس کا ذہن ان ہی سب باتوں کو دہرا رہا ہوتا اور ان سب واقعات کے ساتھ منسلک تکلیف اور ذلت کا احساس اتنا شدید تھا کہ وہ کسی بھی قابل اعتراض لباس کو پہن کر محسوس کی جانے والی ذلت کو وقتی طور پر جیسے فراموش کر دیتی تھی۔ ماضی اس کے لئے جیسے حال میں انستھیزیا کا کام کرنے لگا تھا۔
وہاں آنے والے بہت سے دوسرے ماڈل لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ اس کی جان پہچان اور ہیلو ہائے ہونے لگی تھی۔ مگر زینی کے رویے میں کوئی بات ایسی تھی کہ سب اس سے بدکتے تھے یا پھر خار کھاتے تھے اور رہی سہی کسرا س کی خوب صورتی اور اسٹائل پورا کر رہے تھے۔ وہ ہر ماڈل لڑکی کو خوف اور عدم تحفظ کا شکار کر رہی تھی۔ کل کس کا تھا؟ یہ ہر ایک کو پہلے ہی دیوار پر لکھا نظر آنے لگا تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

One Comment

  • Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!