من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

کیمرہ کی آنکھ سے زینی کو نہ دیکھنے کے باوجود فاران کو یقین تھا کہ اس کا چہرہ فوٹو جینک تھا۔ صرف فوٹو جینک نہیں بلکہ وہ پچھلے کئی سالوں میں اس کی نظروں میں آنے والا سب سے خوب صورت چہرہ تھا۔
زینی کی زندگی کا پہلا فوٹو شوٹ اس کی زندگی کا بدترین فوٹو شوٹ تھا۔ فاران کی بے حد کوششوں کے باوجود وہ مسکرا نہیں پا رہی تھی یا کم از کم اس کی مسکراہٹ فاران کو مصنوعی لگ رہی تھی۔ آدھ گھنٹہ کی کوشش کے بعد فاران کو اندازہ ہو گیا تھا کہ زینی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور اسے اس مسئلے کو حل کرنا تھا۔
اس نے شوٹنگ روک دی اور وہ اسے لے کر اپنے آفس آگیا… وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ کیمرہ کانشس ہو رہی تھی… وہ نروس تھی وہ بیمار تھی یا کوئی اور مسئلہ تھا۔ کوئی گھریلو جھگڑا، کوئی مالی مسئلہ یا کچھ اور۔ اس کے پاس آنے والی ماڈلز کے ساتھ یہی سب مسئلے ہوتے تھے۔
کافی کے مگ کو ہاتھ میں تھامے اس میں سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھتے ہوئے زینی کسی بت کی طرح فاران کی ہمدردانہ انداز میں کی جانے والی باتوں کو سنتی رہی… وہ اسے یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ ان میں سے کسی مسئلے کا شکار نہیں تھی۔ کم از کم اس وقت نہیں۔
اس کا مسئلہ فاران سمیت وہ چاروں مرد تھے جن کے ساتھ وہ شوٹ کروا رہی تھی۔ وہ ان میں سے کسی کی نظروں کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ ان میں سے کسی مرد کی نظریں بھی قابل اعتراض نہیں تھیں۔ وہ بالکل پروفیشنل انداز میں اس کے ساتھ کام کر رہے تھے انہوں نے زینی کی خوبصورتی کے حوالے سے تو شاید کچھ سوچا ہو گا مگر اس کے جسم کے حوالے سے ان کے ذہنوں میں کچھ نہیں آیا ہو گا۔ وہ دن رات ماڈلز کے ساتھ کام کرتے تھے۔ فاران نے جان بوجھ کر اسے پہلی بار بے حد مہذب لباس میں شوٹ کروانا شروع کیا تھا۔ زینی کے بیک گراؤنڈ سے واقف ہونے کی وجہ سے وہ جانتا تھا کہ ایک دم سے ماڈرن لباس پہن کر کبھی کیمرہ کے سامنے کمفر ٹیبل نہیں ہو سکتی تھی۔
زینی کا جسم مکمل طور پر ان کپڑوں میں چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ایک اسٹوڈیو میں چار مردوں کے سامنے دوپٹے کے بغیر نہیں کھڑی۔ کسی میدان میں چار ہزار مردوں کے درمیان کھڑی ہے۔ وہ فاران کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ ہر بار فاران یا اسٹائلسٹ جب اس کے پاس آکر اس کے چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو کسی خاص پوز یا ایکشن کے لئے سیٹ کرنے کے لئے ہاتھ لگاتے تو وہ لمس زینی کے لئے جیسے کسی جلتے ہوئے انگارے کا لمس ہوتا ہے۔




اس کے جسم اور چہرے کو زندگی بھر کسی نامحرم مرد نے نہیں چھوا تھا۔ اور وہ اس چیز سے بھی بے حد خائف رہتی تھی… اسے تو کالج میں اگر کوئی لڑکی کسی وجہ کے بغیر ہاتھ لگاتی یا پاس سے گزرتے ہوئے ٹکرا جاتی تو وہ اس چیز کو بھی محسوس کرتی تھی اور یہاں وہ چاروں اتنی بے تکلفی کے ساتھ آکر اس کی ٹھوڑی، گردن، کندھے اور بازوؤں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ وہ گوشت پوست کے زندہ وجود سے یک دم کمرے میں پڑی کوئی آرائشی شے بن گئی تھی جسے ہر کوئی اپنی مرضی سے، اپنی پسند کے طریقے اور جگہ پر سیٹ کرنا چاہتا تھا۔
”اگر کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر کیا مسئلہ ہے؟”
فاران نے ہر سوال کے جواب میں اس کی نہیں، نہیں سے تنگ آکر بے ساختہ ایک بے تکا سوال کیا۔ دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔ زینی کافی کا مگ اپنے اندر انڈیل رہی تھی۔
”شوٹ اسٹارٹ کریں، میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔ بس کچھ وقت لگے گا۔”
کافی کا کپ خالی کرتے ہوئے اس نے فاران سے کہا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
فاران نے بے حد مختصر شوٹ کروائی تھی۔ اسے صرف یہ دیکھنا تھا کہ زینی کی فوٹو گرافس کے رزلٹ کیسے آتے ہیں۔ چار گھنٹوں میں پرنٹس آگئے تھے۔
فاران نے پہلی تصویر پر نظر ڈالتے ہی بے اختیار ٹیبل کے دوسری طرف اپنے مقابل بیٹھی زینی کو دیکھا۔ پھر اس نے دوبارہ زینی کو نہیں دیکھا۔ پورے پندرہ منٹ وہ ایک کے بعد ایک تصویر دیکھتا رہا۔ آخری تصویر دیکھنے کے بعد اس نے اسے میز پر رکھا اور انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر اپنی سیکرٹری سے کہا۔
”مس زینب کا کانٹریکٹ تیار کروائیں اور سائننگ اماؤنٹ کا چیک بھی۔”
وہ پندرہ منٹ میں پہلی بار زینی کو دیکھ کر مسکرایا اور اس نے ریسیور رکھ دیا۔ زینی بے تاثر انداز میں اسے دیکھتی رہی تھی۔
”اگر ایک برے شوٹ کی تصویریں اتنی کمال کی آسکتی ہیں تو ایک اچھے شوٹ کے ساتھ تو تم قیامت ڈھا دو گی۔”
فاران نے ان تصویروں کو زینی کی طرف کھسکاتے ہوئے کہا۔ زینی نے ان تصویروں پر نظر نہیں ڈالی۔ وہ فاران کو دیکھتی رہی ۔
”مجھے نہیں پتا، اس کمپنی کے کلائنٹ تمہیں پسند کرتے ہیں یا نہیں… مگر میں اپنی ایڈورٹائزنگ کمپنی کے لئے تمہیں سائن کر رہا ہوں۔۔۔۔” فاران نے اس سے کہا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد فاران نے کانٹریکٹ سائن کروا لیا تھا پھر اس نے ایک لفافہ میں زینی کو اس کی زندگی کا پہلا چیک دیا زینی نے لفافہ کھول کر اس پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ایک لاکھ کا چیک تھا۔
فاران کو یقین تھا۔ وہ اب ضرور مسکرائے گی۔ آخر وہ پیسے کے لئے ہی اس فیلڈ میں آئی تھی مگر وہ مایوس ہوا۔ اس نے کسی مسکراہٹ کے بغیر چیک واپس لفافے میں ڈالا اور اسے بیگ میں رکھ لیا۔
”ایک لاکھ کا چیک ہے۔” فاران نے اسے بتانا ضروری سمجھا۔ اسے ایک لمحہ کے لئے لگا کہ کہیں زینی نے رقم پڑھنے میں غلطی نہ کی ہو۔ ایک لاکھ کی رقم پر وہ خوشی سے چیختی نہ مگر کم از کم مسکراتی تو ضرور یا کچھ نروس ہی ہو جاتی۔ وہ لوئر مڈل کلاس سے آنے والی ماڈلز کو اسی طرح ری ایکٹ کرتے دیکھتا تھا۔
”میں نے پڑھ لیا ہے۔” زینی نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے اسی بے تاثر چہرے کے ساتھ کہا۔
٭٭٭
وہ شام پانچ بجے گھر لوٹی تھی اور ربیعہ اور نفیسہ تب تک بنا کچھ کھائے پیے اس کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ نفیسہ کا خیال تھا۔ وہ صبح انہیں نہیں تو ربیعہ کو تو ضرور کچھ بتا کر گئی ہو گی۔ مگر ربیعہ کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کس کام سے اور کہاں گئی تھی۔ نفیسہ کے بتانے پر خود اس کی حالت بھی غیر ہو گئی تھی۔ اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔سلمان گھر آیا تھا مگر انہوں نے اس سے بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ سلمان نے خود ہی زینی کے بارے میں پوچھا تھا مگر ربیعہ نے اس سے جھوٹ بول دیا کہ وہ رمشہ کے ہاں گئی ہے، سلمان مطمئن ہو کر ٹیوشن پڑھنے چلا گیا۔
پانچ بجے تک نفیسہ کئی بار گلی میں جھانک چکی تھیں اور ربیعہ مسلسل صحن کے چکر کاٹ رہی تھی۔ دونوں کے درمیان اب کسی بات کا تبادلہ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ آخر وہ ایک دوسرے سے کیا بات کرتیں۔
ٹھیک پانچ بجے دروازے پر دستک ہوئی اور ربیعہ بھاگتے ہوئے دروازہ کھولنے کے لئے گئی۔ زینی کو دروازے پر دیکھ کر جیسے اس کی جان میں جان آگئی تھی۔ کچھ یہی عالم صحن میں کھڑی نفیسہ کا تھا۔
زینی چپ چاپ اندر داخل ہوئی پھر کچھ کہے بغیر کمرے کی طرف چلی گئی۔ ربیعہ اور نفیسہ اس کے پیچھے گئی تھیں اور نفیسہ نے اندر جاتے ہی بے اختیار اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔ زینی چادر اتار کر رکھ رہی تھی اور اس کے اسٹیپس میں کٹے ہوئے بال اس کے کندھوں سے نیچے تک جھول رہے تھے۔
”تم نے بال کٹوا لیے؟”
زینی نے پلٹ کر بے حد اطمینان سے ماں کو دیکھا اور چادر الماری میں رکھتے ہوئے بولی ”ہاں!”
ربیعہ صدمے کے عالم میں اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی جلد چمک رہی تھی۔ اس کی بھنوؤں کی شیپ اس شیپ سے مختلف تھی جو صبح گھر سے نکلتے وقت تھی۔ زینی اگر چہ بہت اچھی طرح اپنا میک اپ صاف کرکے آئی تھی پھر بھی اس کے چہرے پر ایک نظر ڈال کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ بیوٹی پارلر سے ہو کر آئی ہے۔
”مگر کس لیے؟” ربیعہ پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی تھی۔
”کہاں گئی تھیں تم؟” نفیسہ نے بالوں کے بارے میں پوچھنے کا فیصلہ ملتوی کرتے ہوئے کہا۔ پہلے ضروری تھا کہ اس سے اس چیز کے بارے میں پوچھا جاتا جس نے انہیں صبح سے ہولایا ہوا تھا۔
”کام کرنے۔” وہ اب اپنے بستر پر بیٹھ کر ہاتھ سے اپنے جوتے کے اسٹیریپس کھول رہی تھی۔
”کیا کام؟… کون تھا وہ ڈرائیور؟ اور پانچ بجے تک تم کہاں رہی ہو؟” نفیسہ نے یک دم سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
”میں نے ماڈلنگ شروع کر دی ہے۔” زینی کا اطمینان قابل دید تھا۔
نفیسہ کو جیسے غش آنے لگا اور ربیعہ کا اوپر کا سانس اوپر رہ گیا۔
”میرے اللہ… تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ تمہیں پتا ہے، سارا محلہ تمہارے بارے میں پہلے ہی کیسی کیسی باتیں کر رہا ہے۔” نفیسہ نے بے اختیار چلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے اب اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی میرے بارے میں کیا کہتا ہے۔” زینی اسی طرح پرسکون تھی۔
”تجھے فرق پڑتا ہو یا نہ پڑتا ہو۔ تیرے باپ کو پڑتا ہے۔ ان کی عزت ہے اس۔۔۔۔”
زینی نے تلخ ہنسی کے ساتھ ماں کی بات کاٹی ”کتنی عزت ہے ان کی، میں جانتی ہوں۔”
”تمہیں کیا ہو گیا ہے زینی؟” اس بار ربیعہ آگے بڑھی۔
”مجھے عقل آگئی ہے۔” زینی نے اطمینان سے کہا۔
”مجھے پتا ہے، تم یہ سب کچھ صدمے کی وجہ سے کر رہی ہو۔ تم شیراز کی منگنی کے بعد روئیں نہیں نا اس لیے… ایک بار اچھی طرح رو لو، تمہارے دل کا غبار نکل جائے گا تو پھر۔۔۔۔”
زینی نے بے حد غصے سے اپنے کندھے پر رکھا ربیعہ کا ہاتھ جھٹک دیا۔ ”کیوں روؤں میں؟… ہر دفعہ میں ہی کیوں روؤں؟ اور میرے دل میں کوئی غبار نہیں ہے جسے نکالنے کے لئے مجھے آنسوؤں کی ضرورت پڑے۔”
”تو پھر تو یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے؟” نفیسہ نے بے چارگی سے کہا۔
”پیسے کے لئے۔”
نفیسہ اور ربیعہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئیں۔
”یہ شریف لڑکیوں کے کام نہیں ہیں زینی!” نفیسہ نے سمجھایا۔
”اسی لئے تو کر رہی ہوں۔ میں بھی تو شریف نہیں ہوں۔”
”تم سے کس نے کہا ہے، تم شریف نہیں ہو۔”
”کسی نے نہیں کہا؟ جا کر محلے والوں سے پوچھیں۔ رشتے داروں سے پوچھیں اور کچھ نہیں تو میرے کالج جا کر پوچھیں۔”
اس نے بے حد پر سکون انداز میں کہا مگر اس کے لہجے میں کسی چیز نے نفیسہ کو بری طرح کاٹا۔
”بکواس کرتے ہیں سب تمہیں کسی کی بات سننے کی ضرورت نہیں ہے۔” انہوں نے آنکھوں میں امڈتی نمی کو روکتے ہوئے بھرائی آواز میں زینی سے کہا۔
”یہی تو میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ آپ کو کسی کی بات سننے کی ضرورت نہیں ہے۔” زینی نے نفیسہ کی جیسے زبان پکڑی۔ وہ کچھ دیر پہلے اسے اسی محلہ سے ڈرا رہی تھیں۔
”یہ تمہارے پیسے۔” اس نے بیگ کھول کر ربیعہ کو ایک دن پہلے ادھار لیے ہوئے پیسے لوٹائے۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

One Comment

  • Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!