ربیعہ کو یاد نہیں پڑتا تھا کبھی اس نے زینی کو کسی کا دل دکھاتے دیکھا ہو۔ اس کی یادداشت میں اس سے منسوب ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے وہ اس کا گناہ کہتی یا جس کے لئے وہ ایسی سزا کی حق دار ٹھہرتی وہ اسے اندر باہر سے جانتی تھی۔ وہ جتنی خوب صورت باہر سے تھی، اس سے زیادہ اندر سے خوب صورت تھی، زینی کو دیکھتے ہوئے اسے بے اختیار اللہ سے شکوہ ہوا۔ آخر اس نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔
”رمشہ کو تو کسی بات پر یقین نہیں آیا ہو گا۔” بہتے آنسوؤں کے درمیان اس نے ایک بار پھر زینی کو مخاطب کیا۔ اس کے بات کرنے کا انداز اسے چبھ رہا تھا۔ ”یہ زینی نہیں ہے وہ اس طرح بات نہیں کرتی تھی۔”
”اس نے یہ نہیں کہا کہ اسے ان باتوں پر یقین ہے مگر اس نے مجھے یہ سب کچھ بتایا۔ اس کو ان باتوں پر یقین نہ ہوتا تو وہ سب کچھ مجھے نہ بتاتی۔” زینی نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”وہ بے چاری کنفیوز ہو گئی ہو گی… یہ سب کچھ سن سن کر۔ تم نے اسے بتانا تھا کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے، بہتان ہے۔”
”کیوں؟” زینی نے جیسے ٹکڑا توڑ جواب دیا۔
”یہ تو بتانا پڑتا ہے ناکہ سچ کیا ہے۔”
”میرے پاس سچ بتانے کے لئے وقت نہیں تھا۔ مجھے جانا تھا کہیں۔” زینی نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”تم کالج سے کہیں گئی تھیں؟” ربیعہ چونک گئی۔
”گھر آگئی تھی۔” زینی کا انداز ویسا ہی ٹھنڈا اور لاتعلق تھا۔
”رمشہ نے تم کو تسلی تو دی ہو گی؟”
”وہ میں نے اسے دی تھی۔” اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ربیعہ اس کی بات سمجھ نہیں سکی۔
”مجھے پتا ہے، تمہیں بہت زیادہ دکھ ہوا۔۔۔۔”
”کس چیز کا دکھ…؟” اس نے ربیعہ کی بات کاٹ دی۔
چڑیا کو کیڑا مل گیا تھا۔ وہ اب اسے کھا رہی تھی پھر وہ یک دم بیل سے اڑ گئی۔
زینی کی نظروں نے بیل سے آسمان تک اس کا تعاقب کیا۔ پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ زینی نے مطمئن ہو کر پوری گفتگو میں پہلی بار ربیعہ کو دیکھا۔
”ان سب باتوں کا دکھ۔۔۔۔” ربیعہ نے رنجیدگی سے کہا۔
”چہرے کو صرف کالک ملنے والا پہلا ہاتھ میلا کرتا ہے۔ اس کے بعد لاکھ ہاتھ چہرے پر کالک ملیں۔ آدمی ان کو کبھی نہیں گنتا۔ صرف پہلا ہاتھ یاد رہتا ہے۔”
ربیعہ کچھ بول نہیں سکی۔ اسے لگا زینی کے دماغ کو کچھ ہو گیا تھا۔ ورنہ وہ اس طرح کی باتیں کب کرتی تھی اور آج وہ روئی تک نہیں ورنہ وہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنسوؤں کا سیلاب لے آتی تھی اور آج ان باتوں میں کوئی بھی چھوٹی بات نہیں تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ زینی سے کیا کہے۔ وہ اس وقت کسی تسلی، کسی دلاسے کی محتاج نہیں لگ رہی تھی۔
”اچھا اب اٹھو، جا کر نماز پڑھو۔ اذان ہو رہی ہے۔” زینی نے ربیعہ کا ہاتھ تھپک کر بڑے پیار سے اسے پچکارا۔
”تم نہیں پڑھو گی؟” ربیعہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”نیک لوگ پڑھتے ہیں۔ میری عبادت کی ضرورت نہیں ہے اللہ کو۔” اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔
ربیعہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس نے نہیں کہا۔ وہ صحن میں لگے نل سے وضو کر کے اندر کمرے میں نماز پڑھنے چلی گئی۔
بیس منٹ کے بعد ربیعہ نماز پڑھ کر صحن میں نکلی تو ایک لمحہ کے لئے دھک سے رہ گئی تھی۔ صحن کے وسط میں تیز دھوپ میں زینی اپنے کالج کی سفید چادر سر سے پاؤں تک اوڑھے لیٹی تھی۔ اس چار پائی پر اس کا وجود ربیعہ کو چند لمحوں کے لئے کسی لاش جیسا لگا تھا۔ وہ تیزی سے اس کے پاس آئی اور اس نے چادر اس کے سر سے کھینچ کر پکارا۔ ”زینی!” زینی نے آنکھیں کھول کے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی یوں جیسے وہ کچی نیند سے اٹھی ہو۔
”یہاں سے اٹھ جاؤ۔ اندر کمرے میں کپڑے بدل کر لیٹ جاؤ، امی آنے والی ہوں گی۔ تمہیں اس طرح یہاں دیکھیں گی تو پریشان ہوں گی۔”
ربیعہ نے کہا تو زینی اس چادر کو اتارتے ہوئے خاموشی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
ربیعہ نے باورچی خانے میں جاتے جاتے ایک بار اسے پلٹ کر دیکھا پھر کچھ مطمئن ہو گئی۔ وہ اپنی چادر تہہ کرنے میں مصروف تھی۔
ربیعہ کو صحن میں اسے سفید چادر اوڑھے لیٹا دیکھ کر کوئی شائبہ نہیں ہوا تھا۔
”زینی واقعی مر گئی تھی۔”
٭٭٭
نفیسہ نے ہکا بکا انداز میں دروازے پر کھڑے ڈرائیور کو دیکھا۔
”زینب بی بی کو بھیج دیں، گاڑی آگئی ہے۔”
اس نے ایک بار پھر مودب انداز میں اپنا جملہ دہرایا۔ شاید اسے لگا تھا کہ نفیسہ کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ نفیسہ اس وقت صبح سویرے صحن کے کونے میں دانہ چگنے والی چڑیوں کے لئے دانہ پھینک رہی تھیں۔ انہوں نے دروازہ کھولا تھا۔
”کیسی گاڑی؟” نفیسہ نے ہکا بکا انداز میں پوچھا۔
”فاران صاحب نے بھجوائی ہے۔”
”کون فاران؟ تمہیں غلطی ہوئی ہے شاید تم کسی غلط محلے میں آگئے ہو۔” نفیسہ کو یک دم خیال آیا لیکن اس سے پہلے کہ ڈرائیور کچھ کہتا، اس نے ان کے عقب میں نمودار ہوتی زینب کو دیکھ لیا تھا۔
”تم باہر بیٹھو، میں آتی ہوں۔” نفیسہ نے یک دم پلٹ کر زینب کو دیکھا جو ڈرائیور سے مخاطب تھی۔
”جی اچھا!” وہ کہہ کر چلا گیا۔
”یہ کس گاڑی کی بات کر رہا تھا… کہاں جانا ہے تمہیں؟”
نفیسہ نے بے حد پریشان ہو کر زینی سے پوچھا۔ جو اپنے بیگ میں کچھ ڈالتے ہوئے اسے بند کر رہی تھی۔
”کام پر جانا ہے مجھے۔” اس کے انداز میں بلا کا اطمینان تھا۔
”کیسا کام؟ تم کو تو کالج جانا تھا۔” نفیسہ مزید پریشان ہوئیں۔
”کالج جانا چھوڑ دیا ہے میں نے اور کام شروع کر دیا ہے۔” زینی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
”تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ ماں باپ کو پتا نہیں۔ ماں باپ سے پوچھا نہیں اور نوکری کرنے لگیں۔ یہ کیسی نوکری ہے؟ کہاں جانا ہے تمہیں؟” نفیسہ نے بے اختیار اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر شاک کے عالم میں کہا۔
”سب کچھ آکر بتاؤں گی۔ فی الحال تو مجھے دیر ہو رہی ہے۔” اس نے ماں کو نرمی سے صحن کے کھلے دروازے سے ہٹایا اور باہر نکل گئی۔ نفیسہ کو جیسے غش آگیا تھا۔
”وہ کہاں چلی گئی تھی۔ اسے کیا ہو گیا تھا۔” انہوں نے بے اختیار صحن کی دہلیز سے باہر نکل کر دیکھا۔ زینی تیز قدموں کے ساتھ گلی کا موڑ مڑ رہی تھی۔ نفیسہ کو لگا وہ ہمیشہ کے لئے ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔
٭٭٭
دکھ انسان کو یا تو ریت کی دیوار کی طرح ڈھا دیتا ہے یا چٹان کی طرح کھردرا اور سخت بنا دیتا ہے۔ بہت بار یہ ہو اتھا کہ زینب ضیاء ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئی تھی مگر چٹان کی طرح کھردری پہلی بار بنی تھی۔ ریت شیشہ بن جائے تو ہاتھ لگانے والوں کو اس طرح زخمی کرتی ہے کہ وہ دوبارہ ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔
شیراز نے زینی کے بارے میں ایک کے سوا سارے اندازے ٹھیک لگائے تھے۔ وہ گھریلو، سلجھی ہوئی، سلیقہ مند لڑکی بری طرح اس کے عشق میں گرفتار تھی۔ وہ اس کے ساتھ سوسائٹی میں یا اس سوسائٹی میں نہیں چل سکتی تھی جس کا حصہ بننے کا شیراز خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے ساتھ وہ دولت نہیں لا سکتی تھی۔ جس دولت کے شیراز خواب دیکھتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ ان موضوعات پر بحث نہیں کر سکتی تھی جن موضوعات پر شیراز اس سوسائٹی کی عورتوں کے ساتھ بات کر سکتا تھا وہ غریب تھی، جذباتی تھی، کمزور تھی، ڈرپوک تھی، خود اعتماد نہیں تھی، تصورات میں رہنے والی تھی دوسروں پر انحصار کرنے والی تھی۔ بات بات پر رو پڑنے والی تھی۔
لیکن وہ بے وقوف نہیں تھی۔
اس نے کالج میں چاہے اسلامیات اختیاری اور ہوم اکنامکس پڑھی تھی۔ اس نے ساری عمر چاہے اردو میڈیم میں پڑھا تھا، وہ چاہے شیراز کی طرح امتحانوں میں ٹاپ نہ کرتی رہی تھی۔ مگر زینب ضیاء بہر حال بیوقوف ہرگز نہیں تھی۔ صرف یہ تھا کہ اس کو کبھی اپنی ذہانت کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی نہ ہی کبھی ایسا موقع آیا تھا۔ زینب ضیاء نے اگر چار سال کی منگنی میں شیراز کی فطرت کو نہیں جانا تھا تو یہی فاش غلطی شیراز اکبر نے بھی کی تھی۔ اپنی تمام تر ذہانت اور علم کے دعوے کے باوجود وہ زینب ضیاء کو نہیں جان سکا تھا۔
٭٭٭
”بال کاٹ دیں اس کے۔ اتنے لمبے بال ماڈلنگ میں نہیں چلتے۔”
فاران نے جملے کا پہلا حصہ ہیر اسٹائلسٹ سے اور دوسرا زینی سے کہا اور اب وہ اس ہیر اسٹائلسٹ کے ساتھ زینی کے لئے ایک پرفیکٹ اور موسٹ سٹائلش ہیئر اسٹائل کو ڈسکس کرنے میں مصروف تھا۔
زینی کھلے بالوں کے ساتھ سیلون کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔ گھر سے باہر کسی نے آج تک اس کے سر کے بالوں کو نہیں دیکھا تھا اور وہ آج یہاں ان دو غیر مردوں کے سامنے بال کھولے بیٹھی تھی۔ تکلیف اسے صرف اپنے سر اور جسم سے اس چادر کو ان لوگوں کے سامنے اتارتے ہوئے ہوئی تھی جو وہ اوڑھ کر وہاں تک آئی تھی، بال کھولتے ہوئے نہیں۔
وہ بال شیراز کو بے حد پسند تھے… پسند؟ نہیں وہ مرتا تھا ان پر۔ اس نے Clippers کے ساتھ کٹنے والی بالوں کی اپنی پہلی لٹ آئینہ میں ہیر اسٹائلسٹ کے ہاتھ میں دیکھتے ہوئے سوچا… اس کے بعد سوچنے کی نوبت نہیں آئی۔ ہیر اسٹائلسٹ کے ہاتھ اب بے حد پروفیشنل انداز میں یکے بعد دیگر اس کے بالوں کی مختلف لٹوں کو Clippers کے ساتھ برق رفتاری سے کاٹنے لگے تھے۔ وہ زینب ضیاء کے پورٹ فولیو کے لئے اس کے پہلے شوٹ کی تیاری تھی جو ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے ایک نئے برانڈ کی کمپین کے لئے ماڈل کے انتخاب کے سلسلے میں فاران کو پریزنٹیشن کے لئے تیار کرنا تھا۔
One Comment
Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear