زینی نے واپس ڈریسنگ روم میں آکر ڈریس اتارنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ وہ جیسے اس کے جسم کو جلا رہا تھا۔ وہ اس کا دوپٹہ اور جوتے ڈریسنگ روم تک آتے آتے اتار آئی تھی۔ اسٹائلسٹ نے بڑی احتیاط سے اس کا دوپٹہ اتارا تھا اور ساتھ اسے تنبیہہ کی تھی۔ وہ بڑی لاپروائی اور جلد بازی سے چیزیں اتار رہی تھی۔ وہ لباس خراب ہوتا تو ڈیزائنر بہت ناراض ہوتی۔
”مجھے پتا ہے، یہ میرا لباس نہیں ہے۔ یہ کسی کا ہے۔” اس نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
ڈریسنگ روم کے قد آدم آئینوں کے سامنے اپنے آپ کو دیکھ کر وہ چند لمحوں کے لیے خود بھی ٹھٹک گئی تھی۔ اسے نہیں پتا شیراز کی بیوی نے آج کون سا لباس پہنا تھا مگر وہ اپنی شادی پر سرخ لباس ہی پہننا چاہتی تھی۔ شیراز بھی یہی چاہتا تھا۔ اسے یقین تھا، وہ سرخ لباس میں بہت خوبصورت لگتی ۔
وہ خوب صورت لگ رہی تھی۔ کم از کم آئینے تو اس سے یہی کہہ رہے تھے۔ وہ زیور اتار کر باہر اسٹائلسٹ کو دے چکی تھی۔ وہ بغیر زیور اور بغیر دوپٹے کے صرف وہ سرخ عروسی لباس پہننے ہوئے تھی جس کی مالیت لاکھوں میں تھی۔ فرق صرف یہ تھا، وہ اس کی شادی کا لباس نہیں تھا۔
وہ ایک ماڈل تھی دلہن نہیں تھی۔ اسٹیج پر اس پر پڑنے والی نظروں میں ستائش ہوتی، چاہ نہیں۔ کوئی زینی کو ماڈل اور عورت ہونے کا فرق اس سے زیادہ اچھی طرح نہیں سمجھا سکتا تھا۔
٭٭٭
وہ اس کے بعد وہاں نہیں ٹھہری تھی۔ فاران اس پر چیختا چلاتا رہا تھا مگر وہ ہوٹل میں اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ اس کے پیچھے کمرے تک بھی آیا تھا مگر زینی نے دروازہ نہیں کھولا نہ ہی فون کا ریسور اٹھایا جو بار بار بج رہا تھا۔ اسے یقین تھا۔ وہ اب انٹر کام کے ذریعے اسے دروازہ کھولنے پر مجبور کرتا۔ اس نے اپنا سیل فون پہلے ہی بند کر دیا تھا۔
انٹر کام جب وقفے وقفے سے بار بار بجنے لگا تو اس نے بالآخر اسے اٹھا کر بے حد ناراضی میں کسی کو بھی اپنے کمرے میں آنے یا کوئی پیغام یا کال اس کو دینے سے انہیں سختی سے منع کر دیا۔ کسی نے دوبارہ اسے ڈسٹرب نہیں کیا۔
کمرے میں جتنے سگریٹ تھے۔ اس نے چند گھنٹوں میں انہیں پھونک دیا۔ پھر وہ سلیپنگ پلز کی بوتل نکال کر بیٹھ گئی۔ اس کے بغیر اسے نیند نہیں آنی تھی۔
ایک لمحے کے لیے اس کا دل چاہا، وہ ایک گولی کے بجائے بوتل کی پوری گولیاں نگل لے۔ کم از کم اس کے بعد اس کی زندگی میں کوئی اگلا دن نہ آتا۔ پھر اسے اخبار میں لگنے والی خبریں اور اپنے گھر کے باہر اخبار والے اور ان میں پھنسے ضیاء کا چہرہ نظر آیا۔ اس نے گولیوں کی بوتل واپس دراز میں رکھ دی۔ وہ اب سونا بھی نہیں چاہتی تھی۔
کمرے میں چکر کاٹتے کاٹتے وہ ایک بار پھر شیراز کے پاس پہنچ گئی تھی۔
”زینی! تم جانتی ہو، میں تمہیں شادی پر کیا تحفہ دوں گا؟”
”کیا؟”
”ڈائمنڈ رنگ۔”
”اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟”
”بھئی! کہیں سے بھی آئیں تمہیں کیا۔ بس تمہیں دوں گا میں۔”
کمرے میں ننگے پاؤں چکر کاٹتے زینی نے بے بسی سے سوچا۔ کیا وہ اسے ڈائمنڈ رنگ دے رہا ہو گا۔ وہ رنگ جو اسے زینی کو دینی تھی۔ کمرے میں یک دم اسے بے حد گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے پہلے کولنگ تیز کی پھر کھڑکی کھول کر بالکونی میں سانس لینے چلی گئی۔ سانس نہیں آرہا تھا۔ پتہ نہیں۔ آج کی رات سب کچھ کیوں خراب تھا۔ وہ دوبارہ اندر آگئی۔ چپ چاپ کھڑی کمرہ دیکھتی رہی۔
پھر وہ ننگے پاؤں اپنے کمرے سے باہر نکل کر نیچے ہوٹل کی لابی میں آگئی تھی۔ وہ اس وقت تنہائی سے بھاگنا چاہتی تھی۔ لوگوں کا شور سننا چاہتی تھی شاید باہر کا شور اس کے اندر پھیلی قبر جیسی خاموشی کو توڑ دیتا شاید باہر لوگوں کے بیچ آکر ان کے چہروں کو دیکھتے وہ یہ بھول جاتی کہ وہ اس وقت کسی دوسری عورت کے ساتھ تھا۔ اس کے بیڈ روم میں۔
زینی کی وحشت بڑھ رہی تھی۔ وہ بے مقصد ننگے پاؤں لابی میں ادھر سے ادھر پھر رہی تھی، یہ جانے بغیر کہ اس کا حلیہ اور انداز اسے بہت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے تھے۔
پر اسے کیا پرواہوتی۔ ایک ہلکی سی ڈھیلی جینز اور ٹاپ میں ملبوس کسی میک اپ اور جیولری کے بغیر تراشیدہ بالوں کو کھلا چھوڑے۔
وہ اس وقت بھی اس لابی میں موجود اور ادھر سے اُدھر جانے والی حسین ترین عورتوں میں سے ایک تھی۔ وہاں موجود ایشیائی اور یورپی مردوں نے اسے شام کے شو کی ایک ماڈل کے طور پر پہچانا ہو یا نہ پہچانا ہو لیکن بہر حال وہ اب اسے دیکھ رہے تھے۔ اور جو اس کا چہرہ دیکھ کر اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے۔ وہ اس کے ننگے پیروں کو دیکھ کر اسے دیکھنے لگے تھے۔
Excuse me Madam! Are you looking for someone?
)ایکسکیوزمی میڈم! کیا آپ کو کسی کی تلاش ہے؟(
ہوٹل کے عملے کے ایک رکن نے اسے بار بار ایک ہی جگہ پھرتے دیکھ کر روکا تھا۔ زینی ٹھٹک گئی۔ تو کیا اب یہ دنیا کو بھی نظر آنے لگا ہے کہ میں کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ اس نے وحشت بھری نظروں سے اس آدمی کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
”No۔” وہ ایک بار پھر اسی طرح پھرنے لگی تھی۔ عملے کے اس رکن کو اس کے ذہنی توازن پر شبہ ہوا۔ مگر پھر وہ کندھے اچکا کر وہاں سے چلا گیا۔ یہاں اس ہوٹل میں اس طرح کے بہت ”پیس” آتے تھے۔
اور تب ہی وہ لابی میں بنے ایک سٹنگ لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئی۔ اس نے آس پاس کے صوفوں پر بیٹھے دوسرے مردوں کو نہیں دیکھا تھا۔ ان میں کچھ غیر ملکی تھے۔ صرف ایک ایشیائی تھا اور زینی کو یہ پتا نہیں تھا کہ وہ بہت دیر سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ہر حرکت، ہر سرگرمی کو تب سے جب وہ لفٹ کا دروازہ کھول کر لابی میں آئی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا اسے کیا پریشانی تھی۔ اس کا کیا مسئلہ تھا مگر وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ وہ پریشان تھی۔ وہ کیا کوئی بھی اس کی شکل دیکھ کر جان جاتا مگر وہ یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ اس کے اتنے قریب آکر بیٹھ جائے گی۔
وہ فیشن شو میں اگر ان لوازمات کے ساتھ قیامت لگ رہی تھی تو ان تمام لوازمات کے بغیر اس بدرنگی جینز اور ٹاپ میں بھی اتنے ہی تباہ کن حسن کی مالک تھی۔ اس نے پری زاد کو دیکھتے ہوئے اعتراف کیا۔
پری زاد یا زینی؟ وہ سوچتے ہوئے اٹکا۔ وہ کسی دوست کے ساتھ شو کے بعد بیک اسٹیج گیا تھا۔ وہ زینی سے ملنا چاہتا تھا۔ ایک بار اس کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا اور وہاں اس نے زینی کو فاران کے ساتھ جھگڑتے دیکھا تھا۔ فاران اس کو زینی کہہ رہا تھا۔ دوسرے لوگ پری زاد۔ وہ اس کے پاس نہیں گیا۔ اسے فوراً احساس ہو گیا تھا کہ وہ اس کے پاس جانے کا مناسب اور موزوں وقت نہیں تھا۔ وہاں سے آتے ہوئے اس نے قدرے مایوسی کے ساتھ سوچا تھا۔ شاید اب وہ دوبارہ اس چہرے کو نہیں دیکھ سکے گا۔ وہ اگلی صبح کی فلائٹ سے واپس کینڈا جا رہا تھا۔
فلائٹ بہت صبح کی تھی۔ اپنا سامان پیک کرنے کے بعد وہ ہمیشہ کی طرف سونے کے بجائے لابی میں آکر بیٹھ گیا تھا۔ اسے فلائٹ سے پہلے کبھی نیند نہیں آتی تھی۔ وہ پہلے کے چند گھنٹے اسی طرح ضائع کیا کرتا تھا۔
لیکن آج معجزوں کی رات تھی۔ کم از کم اس کے لیے کہ وہ نہ صرف اسے دوبارہ بلکہ اپنے اتنے قریب دیکھ رہا تھا۔
”سگریٹ لے سکتی ہوں؟”
اس نے یک دم پری زاد کو اٹھ کر ایک قریبی صوفے پر بیٹھے غیر ملکی کے پاس جا کر سگریٹ مانگتے دیکھا۔ اس غیر ملکی نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے میں رکھتے ہوئے زینی کو نہ صرف ایک سگریٹ دیا بلکہ لائٹر سے اسے سلگا بھی دیا۔ وہ شکریہ ادا کر کے دوبارہ اپنے صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ ایک ہاتھ سے سگریٹ کے کش لیتے ہوئے اس نے دوسرے ہاتھ سے اپنا ماتھا پکڑ لیا۔
قریبی صوفے پر بیٹھے اس کا دل چاہا، وہ اس کے پاس جا کر اس سے بات کرے۔ اس سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھے۔ کیا پریشانی ہو سکتی ہے پری زاد کو؟ اس نے دلچسپی سے سوچا۔
اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر اس کے پاس جاتا۔ اس نے پری زاد کو ایک بار اٹھتے اور پہلے کی طرح لابی کے چکر کاٹتے دیکھا۔ وہ جیسے نیند میں چلنے والے کی طرح بے مقصد پھر رہی تھی۔ اس نے دور بیٹھے اس کے ننگے پیروں کو دیکھا۔ اسے یقین تھا وہ خوب صورت نرم و نازک پاؤں اب تک بہت گندے ہو چکے ہوں گے۔
وہ ایک بار اٹھ کر اس کے پاس جانا چاہتا تھا۔ کچھ دیر بیٹھا وہ لفظ ڈھونڈتا رہا جس سے وہ پری زاد سے بات شروع کرتا اور جب تک اسے لفظ ملے، اس نے پری زاد کو دوبارہ لفٹ میں سوار ہوتے دیکھا۔
وہ بے حد پچھتایا… یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ وہ ضرورت سے زیادہ محتاط تھا۔ ضرورت سے زیادہ سوچتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ وقت لیتا تھا اور اکثر چیزیں کھو دیتا تھا۔ اس نے ایک بار پھر کسی کو کھو دیا تھا۔ اسے ایک عجیب سی بے چینی ہوئی۔
وہ اٹھ کر ریسپشن پر آگیا۔ اس نے پری زاد کے کمرے کا نمبر پوچھا اور پھر ریسپشنسٹ سے اس سے بات کروانے کے لیے کہا۔
”سوری سر! انہوں نے منع کیا ہے کہ ہم کوئی بھی کال انہیں نہ دیں نہ کسی کو ان کے کمرے میں جانے دیں۔”
”لیکن وہ ابھی یہاں تھیں۔” اسے حیرانی ہوئی۔
”ہاں، لیکن وہ شو کے بعد سے کسی سے نہیں مل رہیں۔ کچھ لوگ ان کے کمرے کا دروازہ بجا کر بھی آئے ہیں۔ انہوں نے دروازہ نہیں کھولا۔۔۔۔”
وہ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا پھر اس نے ریسپشنسٹ کے پیچھے دیوار پر لگے اس وال کلاک کو دیکھا جو دوبئی کا لوکل ٹائم بتا رہا تھا۔ اسے چیک آؤٹ کر جانا چاہیے تھا۔
”میرے کمرے سے میرا سامان منگو ادیں۔ میں چیک آؤٹ کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے کہا ریسپشنسٹ فون کا ریسور اٹھا کر عملے کے کسی رکن کو اس کے سامان کے متعلق ہدایات دینے لگی۔
اس نے اپنا والٹ نکالا اور اس سے اپنا ایک وزیٹنگ کارڈ نکالا اور اس کی پچھلی طرف کچھ لکھا۔ پھر اسے ریسپشنسٹ کی طرف کھسکا دیا۔
”پری زاد کب چیک آؤٹ کر رہی ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”آج دس بجے۔”
”ٹھیک ہے، آپ تب انہیں میرا یہ کارڈ دے دیں۔”
”اوکے سر۔” ریسپشنسٹ نے سر ہلاتے ہوئے وہ کارڈ لے لیا۔
٭٭٭
وہ تین ہفتے کے بعد لاہور واپس آئی تھی اور آتے ہی چند گھنٹوں کی نیند لینے کے بعد اس نے بینک سے کچھ رقم نکلوائی اور وہ چیزیں نکالیں جو اپنے گھر والوں کے لیے لے کر آئی تھی، وہ جانتی تھی۔ اسے گھر جاتے ہی بہت لعنت ملامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح اچانک بغیر بتائے گھر چھوڑ دینا بہت بڑا فیصلہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ ضیاء اسے واپس لے جانے کے لیے وہاں آتے رہے ہوں گے اور وہ یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ وہ ملائیشیا جا چکی تھی۔
چوکیدار نے استفسار پر اسے بتا دیا تھا کہ کوئی آدمی زینب کو تلاش کرتا وہاں تک آیا تھا اور اس نے اسے پری زاد کے ملائیشیا جانے کا بتا دیا۔ وہ دوبارہ نہیں آیا۔ زینی جانتی تھی وہ ناراض ہوں گے۔
”آپ کا نام زینب ہے کیا؟” چوکیدار نے اس سے پوچھا۔ زینی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چوکیدار کو جواب مل گیا۔
زینی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر سے نکل گئی۔ چوکیدار کو وہ نورانی چہرے والا آدمی یاد آیا جس کے ماتھے پر محراب تھی۔
”کیسے کیسے شریف اور نیک آدمیوں کی اولادیں ایسے کاموں میں آجاتی ہیں… ٹھیک ہی کہتے ہیں، اولاد بڑی آزمائش ہوتی ہے۔” اس نے گیٹ بند کرتے ہوئے سوچا۔
گاڑی گلی میں اسی جگہ کھڑی کروا کر زینی گاڑی سے شاپرز لیے اتر گئی۔ آج پہلی بار وہ چادر کے بغیر صرف دو پٹہ گلے میں ڈال کر اس محلے میں آ ئی تھی۔ اب کیا بناوٹ اور منافقت کرتی وہ۔ چند ہفتوں میں اس کا پہلا کمرشل آن ایر ہو جاتا۔ جگہ جگہ بل بورڈز لگ جاتے۔ پھر سر ڈھانپ کر کیا چھپا لینا تھا اس نے۔
پہلی گلی سے گزرتے ہوئے اس نے کچھ لوگوں کو بہت عجیب انداز میں خود کو گھورتے پایا۔ ان کی نظروں نے اسے کوئی عجیب سا احساس دیا۔
وہ اپنی تنگ گلی میں داخل ہو گئی۔ چند گھروں کے بعد اس کا گھر تھا اور اس نے اپنے گھر سے پہلے ایک پھر دوسری عورت کو نکل کر گلی میں دوسری طرف جاتے دیکھا۔ انہوں نے اس طرف نہیں دیکھا تھا ورنہ وہ زینی کو دیکھ لیتیں۔
اپنے گھر کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اسے احساس ہوا، اس کے گھر کا دروازہ ابھی تک کھلا تھا۔ یہ عجیب بات تھی، کسی نے ان عورتوں کے نکلنے کے بعد دروازہ بند کیوں نہیں کیا۔ وہ اب دروازہ کے سامنے پہنچ گئی تھی اور تب ہی اسے اندر کچھ اور عورتوں کے ہونے کا بھی احساس ہوا۔ دروازہ واقعی کھلا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے وہ ان عورتوں کے اندر ہونے کی وجہ سے اندر جانے سے جھجکی تھی۔ وہ اس وقت ان کے سوالوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
مگر بہر حال جی کڑاکر کے اس نے قدم دروازے سے اندر رکھا اور پھر وہیں جم کر رہ گئی۔ صحن میں سفید چادر پر کچھ عورتیں بیٹھی سپارے پڑھ رہی تھیں۔ اس نے نفیسہ کو دیکھا۔ اس نے زہرہ کو دیکھا۔ اس نے ربیعہ کو دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں پکڑے شاپرز گر پڑے۔ اسے پتا چل گیا تھا وہ سفید چادر کس کے لیے بچھی ہوئی تھی۔
*****
One Comment
Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear