من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

”You have to give your best” فاران نے اسے چیئر اپ کرنے کی کوشش کی تھی۔
”فاران! یہاں سے چلے جاؤ، مجھے خاموشی کی ضرورت ہے۔” اس نے یک دم بے حد ترشی سے اس کی بات کاٹ دی۔ فاران بولے بولتے چپ ہو گیا۔ اس کے ماتھے پر ناگواری تھی مگر وہاں سے چلا گیا۔
میک اپ آرٹسٹ اب اس کے پاس آکر اس کا میک اپ کرنے لگا تھا۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے اس کا دل چاہا۔ وہ شیراز کی بیوی کو دیکھے۔ یہ دیکھے کہ کیا وہ اس جیسی خوبصورت ہے۔ کیا وہ شیراز کو زینی جیسی خوبصورت لگ سکتی تھی۔ اسے اس وقت اپنا چہرہ بے حد بد صورت لگنے لگا تھا۔ بے حد۔
”Great skin, lovely features.”
میک اپ آرٹسٹ اس کا میک اپ کرنے ہوئے بے اختیار کہہ رہا تھا۔
“Your face is a beautician’s delight.”
زینی کو لگا وہ اس پر طنز کر رہا تھا۔ اس کے چہرے میں خوبصورتی کہاں تھی صرف آنکھیں، ناک اور ہونٹ تھے۔ گال، ماتھا اور ٹھوڑی تھی اور یہ ساری چیزیں ہر ایک کے چہرے پر ہوتی ہیں۔
خوب صورتی تو اس چہرے میں ہوتی جسے شیراز محبت سے دیکھتا جسے وہ چھوتا۔ اس نے اس کی بیوی کا نام سوچنے کی کوشش کی۔ کیا نام ہو گا اس کا؟ اور شیراز کے ہونٹوں سے کیسا لگتا ہو گا۔ مگر کیا شیراز اس کو نام سے پکارے گا یا کچھ اور کہے گا۔
زینی نے اختیار آنکھیں بند کیں۔ میک اپ آرٹسٹ نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”آنکھیں کیوں بند کر لیں؟” زینی نے آنکھیں کھول دیں۔
”کیا آنکھ میں کچھ پڑ گیا؟” اس نے اس کی مسکارا لگی آنکھوں میں امڈتی نمی کو دیکھ کر کہا۔ زینی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ بڑی احتیاط سے اس کی آنکھیں چیک کرتے ہوئے بولا۔
”کیا نکالوں؟”
”بینائی۔” وہ مدھم آواز میں بڑبڑائی جو وہ سن نہیں سکا۔
”مجھے تو کچھ نظر نہیں آرہا۔”
”مجھے بھی کچھ نظر نہیں آرہا۔” وہ ایک بار بڑبڑائی۔ وہ دوبارہ مطمئن ہو کر اس کا میک اپ کرنے لگا۔




اسے پارٹی وئیر کے Segment میں کیٹ واک کرنی تھی اور فاران بے حد نروس تھا۔ اس کا اتنے دنوں کا اعتماد ختم ہو چکا تھا۔ بیک اسٹیج اسے جس موڈ میں دیکھ کر گیا تھا، اس کے بعد اس نے اپنی ساری امیدوں اور توقعات کو ایک طرف رکھ دیا تھا۔
اسے Sana and Safinaz کی پارٹی لائن کے لیے پہلی کیٹ واک کرنا تھی۔ وہ اس کا پہلا Segment اور وہ چوتھے نمبر پر تھی۔ اس سے پہلے کی تینوں ماڈلز رن وے پر آچکی تھیں۔
فاران نے زندگی میں پہلی بار آڈینس میں بیٹھ کر انگلیاں چٹخائیں۔ اسے اسٹیج پر آنے میں چند سیکنڈز کی تاخیر ہو چکی تھی اس سے پہلے آنے والی تینوں ماڈلز رن وے کا چکر لگا کر اسٹیج پر اپنی جگہیں لے چکی تھیں اور رن وے خالی تھا۔ چوتھی ماڈل ابھی تک نہیں آئی تھی۔
فاران نے اسے بے اختیار زیر لب گالی دی اور اس سے پہلے کہ وہ اٹھ جاتا ”پری زاد” اسٹیج پر آگئی تھی۔ وہ بے اختیار بیٹھ گیا۔ اس کی نظریں پری زاد پر چپک گئی تھیں۔ صرف اس کی نہیں پورے ہال کی نظریں پری زاد پر چپک گئی تھیں۔
وہ واقعی رن وے پر کوئین کی طرح چلتی آرہی تھی۔ رن وے کے اطراف میں بیٹھے فوٹو گرافرز اور کیمرہ مین کے کیمروں کا رخ بدل گیا تھا… ”یہ کون ہے؟” فاران نے اپنے آس پاس سر گوشیاں سننی شروع کر دی تھیں۔ ہال میں بیٹھنے فیشن جرنلٹس نوٹس لینا شروع ہو گئے تھے۔ وہ رن وے کے درمیان آچکی تھی۔
فاران نے بے ساختہ اعتراف کیا تھا اس نے زینی کو کبھی اس سے زیادہ شان دار انداز میں کیٹ واک کرتے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے زینی کو کبھی اس سے زیادہ باوقار نہیں دیکھا تھا۔ اس نے کبھی زینی کو اس سے زیادہ ہوش اڑانے والے انداز میں نہیں دیکھا تھا۔
وہ رن وے پر نہیں چل رہی تھی۔ ہال میں بیٹھے مردوں کے دلوں پر چل رہی تھی۔ اس کے انداز میں غرور تھا۔ تفاخر تھا، تمکنت تھی۔ ملکہ جیسے اپنے دربار میں آ ئی تھی۔ وہ رن وے کے چکر لگا کر اب اسٹیج پر اپنی جگہ لینے واپس جا رہی تھی۔ پانچویں ماڈل اسٹیج پر انٹری دے رہی تھی۔ ہال میں کسی کو اب پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں ماڈل میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔
پورا ہال صرف اس ایک کونے کو دیکھنے میں مصروف تھا جہاں پری زاد کھڑی تھی، جہاں پری زاد توقف کر رہی تھی، جہاں پری زاد نے قدم اٹھایا تھا۔ جہاں پری زاد نے Exit کی تھی۔
فاران نے ٹھیک سوچا تھا کیٹ واک کوئین آچکی تھی۔
وہ اگلے segment میں پانچویں نمبر پر آئی تھی۔ اس بار وہ ایک ایوننگ گاؤن میں تھی۔ جو Off the Shoulder تھا اور ”ہال کا حال” ایک بار پھر پہلے جیسا ہی ہوا تھا۔
اس بار اسے اسٹیج پر ٹھہرنا نہیں تھا، صرف کیٹ واک کر کے چلے جانا تھا اور اس کے Exit پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے فاران بھی ہال سے تقریباً بھاگتے ہوئے بیک اسٹیج چلا گیا تھا۔ وہ اپنا لباس تبدیل کروانے کے لیے کسی کو مدد کے لیے کہہ رہی تھی۔
اس نے فاران کو تمتائے ہوئے چہرے کے ساتھ دور سے آتے دیکھ لیا تھا اور اس کے پاس آنے سے پہلے ہی اسے بے حد تلخی اور تنبیہہ کرنے والے انداز میں ہاتھ کے اشارے سے کہا ”Dont” فاران کے قدم وہیں جم گئے۔
وہ اسے ایک بار پھر کچھ کہنے سے روک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر ویسی ہی وحشت تھی۔ فاران اس کے قریب نہیں آیا مگر بیک اسٹیج ہی ٹھہرا رہا۔
اس وقت اس پری زاد سے لوگوں کو دور رکھنا تھا۔ ڈیزائنرز سے، جرنلسٹ سے، فیشن کوارڈینیٹرز سے۔ وہ اس کی دریافت تھی۔ اس کی محنت تھی۔ اس کا پھل بھی اس کو کھانا تھا۔
زینی کپڑے تبدیل کر کے اب بیک اسٹیج کے ایک کونے میں بیٹھ کر سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہی تھی اور فاران لوگوں کو اس کی طرف آنے نہیں دے رہا تھا۔
”آپ مجھے اس کا مینجر سمجھ لیں، مجھ سے بات کریں۔” زینی نے اسے کسی سے کہتے سنا۔
”مینجر۔” وہ بڑبڑائی۔ وہ ایک بار پھر شیراز کی شادی میں جا پہنچی تھی۔
”نکاح… اب یقینا نکاح ہو رہا ہو گا۔” اسے لگا جیسے کسی نے اس کے سامنے اس کی زندگی کے سب سے قیمتی اثاثے کی بولی لگانا شروع کر دی ہو۔ اسے یاد نہیں اس نے کتنی بار تصور میں اپنا اور شیراز کا نکاح ہوتے دیکھا تھا۔ سینکڑوں نہیں، ہزاروں بار… وہ اپنی زندگی کے اس سب سے قیمتی لمحے کی بے حد شدت سے منتظر تھی۔ کاغذ پر چند دستخط شیراز کو ہمیشہ کے لیے اس کی ملکیت بنا دیتے اور اب چند دستخط اسے کسی اور کا بنا رہے تھے۔
اور اب شیراز منتظر ہو گا وہ اپنی بیوی کو دیکھے، اس کی بیوی اس کے سامنے لائی جانے والی تھی۔
”اوہ زینی… ٹینا… اسٹیج سے اترتے ہوئے سلپ ہو گئی ہے، اس کے پاؤں میں موچ آگئی ہے۔ وہ فائزہ سمیع کا Segment نہیں کر سکتی۔ فائزہ چاہ رہی ہے تم ٹینا کو Replace کر لو۔” فاران کچھ ہانپتا کانپتا یک دم اس کے پاس آیا۔
”کر لیتی ہوں۔” وہ شکست خوردہ انداز میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ چند منٹوں میں فائزہ کی پوری ٹیم اس کے گرد کھڑی تھی وہ ان Accessories کو دیکھ رہی تھی جو اسے پہننا تھیں۔ تب ہی فائزہ کا اسسٹنٹ اس کا لباس لے کر آگیا تھا۔ زینی نے نظر اٹھا کر دیکھا اور ساکت رہ گئی۔ وہ عروسی لباس تھا۔
”میں کسی برائیڈل کی ماڈلنگ نہیں کروں گی۔ ” وہ یک دم غرا کر فاران سے بولی۔
”لیکن کیوں زینی! یہ فائزہ کا آج کا سب سے قیمتی برائیڈل ہے اور یہ ٹینا کی بد قسمتی ہے کہ وہ سلپ ہو گئی ورنہ تو۔۔۔۔”
”یہ ٹینا کی نہیں میری بد قسمتی ہے کہ وہ سلپ ہو گئی۔” زینی بڑبڑائی تھی۔
”جو بھی ہے میں یہ نہیں پہنوں گی۔” اس نے بلند آواز میں کہا۔
اگلے پانچ منٹوں میں وہاں جمگھٹا لگ گیا تھا۔ فائزہ سمیع سمیت ہر ایک اسے وہ لباس پہننے پر مجبور کر رہا تھا۔
”آخر انکار کی وجہ کیا ہے؟ لباس بالکل قابل اعتراض نہیں۔ سب سے مہنگا ہے۔ کلر بھی تمہارے کمپلیکیشن پر سوٹ کرے گا۔ تمہیں برا لگنے کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔” ہر ایک اس سے اس لباس کو نہ پہننے کی وجہ جاننا چاہ رہا تھا۔
وہ ان سے کہنا چاہتی تھی۔ مسئلہ لباس کے ساتھ نہیں ہے۔ مسئلہ آج کی رات کے ساتھ ہے۔
٭٭٭
اسے فیشن شوز میں دلچسپی نہیں تھی۔ اسے جن لوگوں سے ملنا تھا، انہیں اس شو میں دلچسپی تھی۔ حل وہی تھا جو وہ ہمیشہ نکالا کرتا تھا۔ وہ تقریباً اس وقت ہال میں آیا تھا جب شو اپنے اختتامی آدھ گھنٹے میں داخل ہو چکا تھا۔
فائزہ سمیع کی برائیڈل لائن ڈسپلے کی جا رہی تھی۔ اس نے سیل فون پر بات کرتے ہوئے اپنی مطلوبہ میز کو تلاش کیا اور اس کی طرف بڑھنے لگا اور تب ہی شو کی آخری ماڈل شو کا آخری لباس پہن کر اسٹیج پر نمودار ہوئی تھی۔ اس نے سرسری نظروں سے اسے دیکھا اور اس کے بعد وہ سیل فون پر بات کرنا بھول گیا۔ اس کے چہرے کا رنگ چند لمحوں کے لیے فق ہو گیا تھا۔
وہ پتھر کے بت کی طرح کھڑا اسے رن وے پر کیٹ واک کرتے اپنی طرف آتے دیکھتا رہا۔ اس نے زندگی میں کسی عورت کو سرخ عروسی لباس میں اس قدر خوبصورت لگتے نہیں دیکھا تھا۔ سرخ لباس اسے خوبصورت بنا رہا تھا یا وہ سرخ لباس کو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
”You are in my way ”وہ چونک کر پیچھے مڑا۔ کسی نے اس سے کہا تھا اور پھر اسے راستے سے ہٹنے کے لیے اشارہ کیا۔ وہ سب سے قریبی میز کی چند خالی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ وہ رن وے کے آخری حصے پر پہنچ چکی تھی اور اس کی میز اس کے بالکل سامنے تھی۔ دونوں کی نظریں ایک لمحہ کے لیے ملی تھیں پھر پری زاد وہاں کھڑی ہو گئی۔ پورا ہال اسے سر سے پاؤں تک دیکھنے میں مصروف تھا۔ مرد اس کے جسم کے دلکش خدوخال کو سراہ رہے تھے۔ عورتیں اس کے لباس کی ڈیزائننگ اور کام کو۔ صرف وہ تھا جس نے ایک لمحے کے لیے بھی پری زاد کے چہرے سے نظر نہیں ہٹائی تھی۔ اس کے لیے پری زاد آج کے بعد صرف ایک ہی چہرے کا نام تھا۔
پری زاد اب رن وے پر واپس جا رہی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار اس فیشن شو میں پہلے نہ آنے پر پچھتایا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

One Comment

  • Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!