من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

وہ اپنی پہلی ماڈلنگ اسائنمنٹ پر فاران کے ساتھ ملائیشیا جانے سے پہلے رمشہ سے ملنے گئی تھی۔
رمشہ کی منگنی ہونے والی تھی ان ہی دنوں میں فاران نے اسے بتایا تھا تب زینی کو احساس ہوا کہ وہ ماڈلنگ شروع کرنے کے بعد ایک بار بھی رمشہ سے نہیں ملی نہ ہی رمشہ نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ بی اے کے پیپرز ہو گئے تھے اور زینی نے پیپرز نہیں دیے تھے۔ ورنہ اور کہیں نہیں تو امتحان کے دوران ہی رمشہ سے اس کی ملاقات ہو جاتی۔
اس نے رمشہ کے گھر جانے سے پہلے فون پر اسے اپنی آمد کی اطلاع دی۔ اس نے کسی گرم جوشی کے بغیر اسے اپنے ہاں آنے کا کہا۔ وہ خوشی اس کے لہجے میں مفقود تھی جو پہلے زینی کے اس کے گھر آنے کی اطلاع پر ہوتی تھی اور اس کے گھر جا کر زینی کو احساس ہوا تھا کہ وہ ٹھنڈک صرف اس کی آواز میں ہی نہیں اس کے رویے میں بھی تھی۔
ان کے درمیان پہلے کی طرح باتیں نہیں ہوئی تھیں۔ مسلسل، بے مقصد، بے معنی اور بے تحاشا۔ آج صرف سوال جواب تھے۔ وہ بھی بے حد مختصر… اور خاموشی کے بہت سے چھوٹے بڑے وقفے… پھر چند لوازمات اور چائے… پھر چند اور سوال جواب۔
کوئی اور دوست ہوتی تو زینی اس کے گھر ان حالات میں کبھی نہ جاتی۔ مگر وہ رمشہ کی ممنون ہو کر وہاں گئی تھی۔ اس کے ریفرنس سے وہ فاران کے پاس گئی تھی۔ اور زینی کو احسان یاد رکھنا آتا تھا۔
زینی نے اس سے ملاقات کے دوران ایک بار بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھا تھا۔ اپنے گھر سے باہر صرف رمشہ کی نظریں تھیں جو اس کی آنکھوں کے خالی پن کو پہچان سکتی تھیں۔ صرف وہ تھی جو Before اور After کی تاریخ سے واقف تھی۔
مگر اسے حیرت تھی، رمشہ کے انداز میں اتنی ٹھنڈک کیوں تھی۔ کیا ان سب الزامات کی وجہ سے جو اس نے کالج میں اسے سنائے تھے؟ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ مگر معمہ زیادہ دیر تک معمہ نہیں رہا تھا۔
رمشہ زینی کو ہمیشہ کی طرح پورچ میں چھوڑنے آئی تھی۔ فاران کی گاڑی زینی کو لینے کے لیے آئی ہوئی تھی۔ زینی اس سے گلے ملنے کے بعد گاڑی کے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے اس میں بیٹھنے والی تھی۔ جب رمشہ نے اس سے کہا۔
Faran Bhai is married Zeni.
He has a beautiful wife and two kids.
)فاران بھائی شادی شدہ ہیں زینی! اور ان کی ایک خوبصورت بیوی اور دو بچے ہیں(
زینی کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔ بے حد شاک کے عالم میں اس نے رمشہ کو دیکھا۔ وہ یہ سب کچھ پہلے ہی جانتی تھی۔ پھر رمشہ اسے یہ سب کیوں بتا رہی تھی۔
”ان کی اپنی فیملی ہے۔ ان کا اپنا گھر ہے۔ اور اس میں ”کسی دوسرے ” کو جگہ نہیں ملے گی۔”




رمشہ نے اب اور زیادہ صاف لفظوں میں اس سے کہا، زینی پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی تو وجہ فاران تھا۔
”مجھے پتا ہے۔” اس نے بے حد مدھم آواز میں رمشہ سے کہا۔
”نہیں، تمہیں نہیں پتا۔ دیکھو، اگر تمہارا گھر بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا ہے تو اس میں تمہارا اپنا تو کوئی قصور ہو سکتا ہے، پر دنیا کی دوسری ایسی عورت کا قصور نہیں جو گھر بنا بیٹھی ہے۔” وہ بے حد پرسکون انداز میں اسے چابک مار رہی تھی۔
”تم اب ایک ماڈل ہو، تم کسی عورت کے جذبات اور احساسات کو نہیں سمجھ سکتیں۔ پھر بھی میں تم سے یہ کہہ رہی ہوں کہ تم میری بہت اچھی دوست رہی ہو۔ میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے۔ ایسا کچھ مت کرنا کہ مجھے تمہارے ساتھ اپنے تعلق پر پچھتاوا ہو۔”
زینی بے حد خاموشی سے دھواں دھواں چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ اس نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر لفظ نہیں تھے۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔ اثبات میں سر ہلایا اور پلٹ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
گاڑی رمشہ کے گھر سے باہر آگئی تھی۔ وہ جانتی تھی۔ وہ دوبارہ کبھی اب رمشہ کا سامنا کرنا نہیں چاہے گی۔
اس نے اپنے اور فاران کے تعلقات کے حوالے سے رمشہ کو کوئی وضاحت نہیں دی تھی۔ یہ ٹھیک تھا کہ وہ فاران کے ساتھ گھومتی پھرتی تھی۔ اور فاران اس پر بے تحاشا عنایات کر رہا تھا۔ مگر زینی جانتی تھی، وہ یہ عنایات زینی پر نہیں کر رہا تھا۔ سونے کی اس چڑیا پر کر رہا تھا جسے وہ اپنے پنجرے میں قید رکھنا چاہتا تھا۔
اسے فاران میں، فاران کی زندگی میں اور اس کے گھر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے دنیا کے کسی مرد کے گھر میں دلچسپی نہیں تھی۔ اور فاران تو وہ آخری آدمی بھی نہ ہوتا جس کا گھر وہ توڑنا چاہتی۔ رمشہ اسے یاد دلاتی نہ دلاتی، زینی کو یاد تھا کہ وہ رمشہ کا کزن تھا۔ وہ اس کے لیے ہمیشہ رمشہ کا کزن ہی رہتا ۔
”سگریٹ ہے تمہارے پاس؟”
ڈرائیور نے حیرانی سے پلٹ کر اسے دیکھا، وہ پہلی بار اس سے سگریٹ مانگ رہی تھی۔ بہت ساری ماڈلز سگریٹ پیتی تھیں وہ جانتا تھا پر زینی نے اس کے سامنے کبھی سگریٹ نہیں پیا تھا۔ ”پھر آج کیوں؟”
ڈرائیور نے خاموشی سے اپنا سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر پیچھے بڑھا دیا۔ زینی نے ایک سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔
بہت ضروری تھا، وہ کسی چیز کو جلاتی، اندر پہلے ہی سب کچھ خاکستر ہو چکا تھا۔ باہر جلانے کے لیے سب سے موزوں چیز وہ سگریٹ ہی تھا۔
٭٭٭
الٹی گنتی شروع ہو گئی تھی۔ وہ ملائیشیا میں شوٹنگ کے دوران روز ایک ایک دن گنتی۔ پندرہ تاریخ نہیں آرہی تھی۔ زینی کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی پھانسی کا دن قریب آرہا تھا۔ وہ سگریٹ تو پہلے ہی پی رہی تھی ملائیشیا میں اس نے شراب بھی پینا شروع کر دی تھی۔ وہ جیسے دنیا کی ہر وہ شے استعمال کرنا چاہتی تھی جس سے محبت جیسے روگ کا علاج ہو جاتا۔ وہ اسے بھول جاتی۔ نتیجہ وہی تھا۔ روگ وہیں تھا۔ اور زندگی یہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دنیا کا کوئی علاج اس پر کار گر ثابت نہیں ہو رہا تھا۔
وہ رات کو نیند کی گولیاں نہ لیتی تو اسے نیند نہ آتی وہ ساری ساری رات شیراز اور اس کی ہونے والی بیوی کے بارے میں سوچتی رہتی۔ اس کا DOPکینڈین تھا اور اس نے پہلے دو دن کی Photage کے بعد اسے وارننگ دے دی تھی، کہ وہ رات کو سوئے بغیر شوٹ کے لیے نہ آئے، کیونکہ اس کی Photage کے رزلٹ بہت برے آرہے تھے۔ یہ وارننگ صرف اسی نے نہیں فاران نے بھی اسے دی تھی۔ وہ لوگ ماڈلز کی لیٹ نائٹ پارٹیز اور ایکٹیویٹیز کے عادی تھے۔ اور وہ جانتے تھے کہ ماڈل خواہ کتنی خوبصورت ہو شوٹنگ کے لیے ساری رات جاگی ہوئی ماڈل سے زیادہ بد تر چہرہ کسی کا نہیں ہو سکتا تھا۔
”چاہے سلیپنگ پلز لے کر سوؤ یا شراب پی کر۔ بہر حال مجھے صبح تمہارا چہرہ فریش چاہیے۔ آنکھوں میں کسی سرخی اور تھکن کے بغیر۔ یہ کانٹریکٹ ختم ہوا تو تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن میری کمپنی سے اور بھی بہت سے کلائنٹس چلے جائیں گے۔”
فاران نے اسے دو ٹوک لفظوں میں صاف صاف بتا دیا تھا۔
”زینی رات کو نیند کی گولیاں لے کر سونے لگی تھی۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے انہوں نے اس پر اثر کرنا چھوڑ دیا تھا۔
ملائیشیا میں اس کے کمرشل کی شوٹنگ بہت اچھی ہوئی تھی۔ فاران کا بگڑا ہوا موڈ خود ہی ٹھیک ہو گیا تھا۔ اس کے التفات اور عنایات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا تھا اور بے تکلفی بھی کچھ بڑھنے لگی تھی۔
وہ ملائیشیا سے واپسی پر دوبئی آئے تھے۔ زینی EPB کی طرف سے منعقد کروائے جانے والے ایک فیشن شو میں اپنی زندگی کی پہلی کیٹ واک کرنے جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ اس شو میں باقی آٹھوں ماڈل لڑکے لڑکیاں پاکستان کے سپر ماڈلز تھے صرف وہ وائلڈ کارڈ انٹری تھی اور اس میں بھی بڑا ہاتھ فاران کے اس دوست ڈیزائنر کا تھا جس کے ملبوسات چند دوسرے ڈیزائنر کے ساتھ اس شو میں ڈس پلے (Display) کیے جانے تھے۔
”You are going to steal the show. فاران نے ہوٹل میں چیک ان کرتے ہوئے زینی سے کہا۔ وہ بے حد پر جوش تھا۔ اسے یقین تھا، وہ اگلی رات وہاں موجود پاکستان کی تمام سپر ماڈلز کے دل دہلا دینے والی تھی۔ باقی تمام ماڈلز تین دن پہلے وہاں آکر ریہرسلز شروع کر چکے تھے۔ زینی کے پاس ریہرسلز کے لیے صرف دو دن تھے۔
شو اگلی رات تھا۔ مگر فاران کو یقین تھا، وہ صبح آتی اور اسے رات کو بھی شو کرنا ہوتا تو وہ کر لیتی۔ وہ ملائیشیا میں اس شو کے لیے اسے بہت زیادہ تیاری کرواتا رہا تھا۔
مگر فاران صرف ایک بات نہیں جانتا تھا۔ وہ شو پندرہ کی رات کو تھا۔ ٹھیک اسی وقت جب پاکستان میں شیراز کی شادی ہو رہی ہوتی۔
یہ صرف زینی جانتی تھی۔ اسے اس رات ریمپ پر نہیں چلنا تھا۔ جلتے ہوئے کوئلوں پر چلنا تھا۔
٭٭٭
”کیا ہو رہا ہے تمہیں؟”
فاران نے کچھ حیران ہوتے ہوئے بیک اسٹیج اس سے پوچھا۔ اس کی رنگت خطرناک حد تک زرد ہو رہی تھی۔
ہیئر اسٹائلسٹ ابھی اس کے بال بنا رہا تھا۔ اس کا میک اپ کچھ دیر میں شروع ہو جاتا۔ اور وہ سامنے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔ اسے یقین تھا اس وقت شیراز کی ہونے والی بیوی بھی کسی پارلر پر بیٹھی میک اپ کروا رہی ہو گی۔
شاید اپنے بال بنوا رہی ہو گی اور اسی طرح آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی ہو گی۔
”لیکن وہ میری طرح خاموش نہیں بیٹھی ہو گی۔ وہ اپنے ہیئر اسٹائل اور میک اپ کے بارے میں بیوٹیشن کو بار بار ہدایات دے رہی ہو گی۔ وہ آج کے دن اپنے آپ کو شیراز کے لیے تیار کر رہی ہو گی۔
”اور میں اپنے آپ کو کس کے لیے تیار کر رہی ہوں؟ ایک چیک کے لیے؟”
آج سے پہلے زینی کو کبھی اپنا چہرہ دیکھ کر اتنا ترس نہیں آیا تھا جتنا ترس اس وقت آیا تھا۔ سامنے آئینے میں نظر آنے والا اس کا چہرہ سب کچھ کہہ رہا تھا۔ کون ہارا تھا؟ کون جیتا تھا؟ سب بول رہا تھا۔
وہ اپنے ہی عکس سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔ وہ عکس جیسے اس کی شکست بن کر اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا تھا۔
”کیا ہو رہا ہے تمہیں؟” فاران اتفاقاً اس کے پاس آیا تھا ورنہ وہاں اس کا کوئی کام نہیں تھا۔
‘زینی! یہ تمہاری زندگی کی پہلی کیٹ واک ہے۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

One Comment

  • Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!