ڈرائیور نے دروازے پر دستک دی۔ نفیسہ نے دروازہ کھولا۔ اس وقت زینی آیا کرتی تھی مگر آج وہاں ڈرائیور کھڑا تھا اس نے سلام کر کے ایک لفافہ نفیسہ کی طرف بڑھایا۔
”یہ کیا ہے؟ زینی کہاں ہے؟” نفیسہ نے گھر سے قدم نکال کر باہر دیکھتے ہوئے قدرے تشویش سے کہا۔
”وہ اپنے گھر میں ہیں۔” ڈرائیور نے انہیں بتایا۔
”اپنا گھر؟ کیسا گھر؟” نفیسہ کو جیسے کرنٹ لگا۔
”انہوں نے ڈیفنس میں گھر لے لیا ہے۔ کہہ رہی تھیں، آپ کو بتا دوں اور یہ خط دے دوں۔”
نفیسہ کو ٹھنڈے پسینے آگئے۔ ڈرائیور کے ہاتھ سے خط لے کر بنا ایک لفظ کہے انہوں نے دروازہ بند کر دیا۔ زینی ہر روز ایک نئی قیامت ان پر توڑ رہی تھی۔ اور یہ سلسلہ پتا نہیں کہاں جا کر رکنے والا تھا۔
کانپتے ہاتھوں سے لفافہ کھولتے ہوئے انہوں نے خط نکالا اور اسے کھول کر پڑھنے لگیں۔
“میری وجہ سے آپ کے گھر میں بہت مسئلے پیداہو رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتی میری وجہ سے زہرہ آپا، ربیعہ یا سلمان کی زندگی خراب ہو۔ اس لیے میں نے بہتر سمجھا کہ میں آپ کا گھر چھوڑ دوں۔ اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنا خیال رکھنا سیکھ لیا ہے۔ آپ کو اپنے گھر کا پتا بھجوا رہی ہوں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ لوگ میرے پاس آئیں اور مجھ سے ملیں۔ لیکن دوبارہ مجھے واپس لے جانے کے لیے مت آئیں۔ میں واپسی کے سارے راستے بند کر آئی ہوں۔”
آپ کی بد قسمت اور نافرمان بیٹی
زینب ضیا
نفیسہ کا ذہن ماؤف ہونے لگا، انہوں نے کبھی زینی کو اس طرح گھر سے رخصت کرنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا اور انہیں اگر شک بھی ہو جاتا کہ وہ گھر چھوڑنے کی نیت سے صبح سامان اکٹھا کر کے بیگ میں بھر رہی تھی تو وہ کبھی اسے گھر سے نکلنے نہ دیتیں۔ وہ گھر سے چند ایک چیزیں ہی لے کر گئی تھی۔ زیادہ لے جاتی تو انہیں شک بھی ہوتا۔ لیکن اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ زہرہ اور ربیعہ کے سسرال والوں کا کس طرح سامنا کریں گی۔ زینی کے یوں چلے جانے پر انہیں کون سا نیا جھوٹ گھڑ کر سنائیں گی اور ضیاء شام کو گھر آئیں گے تو ان سے کیا کہیں گی۔ انہیں اپنے شوہر پر اس وقت بے پناہ ترس آیا تھا۔
٭٭٭
”کیسا لگا تمہیں یہ گھر؟”
وہ فاران کی بات پر کھڑکیوں سے باہر نظر آتے لان کو دیکھ کر چونکی۔ وہ اس کے پاس آن کھڑا ہوا تھا۔ وہ دونوں لاؤنج میں کھڑے تھے۔
”اچھا ہے۔ ” زینی پلٹ کر صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ اور بیگ سے منرل واٹر کی بوتل نکال کر گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگی۔
فاران بے اختیار جھلایا تھا۔ ”آخر کیا چیز خوش کرے گی تمہیں؟”
”Why are you so cold?” وہ اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ اس نے پچھلے سالوں میں درجنوں ماڈلز کو شوبز میں انٹروڈیوس کروایا تھا۔ مگر صرف سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی بوتل سے گھونٹ گھونٹ پانی پیتی لڑکی تھی جسے وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
وہ رمشہ کی وجہ سے اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں ایک ایک بات جانتاتھا، یہاں تک کہ شیراز اور اس کے رشتے کی تفصیلات بھی۔لیکن اس کے باوجود زینی اس کے لیے معمہ بنی ہوئی تھی۔ وہ اس کے اندر جھانک نہیں سکتا تھا اور یہ چیز اسے زچ کر رہی تھی۔
ڈھیروں ماڈلز تھیں جو ایسے ہی حالات کا شکار ہو کر اس کے پاس آتی رہی تھیں۔
کچھ منگنیاں تڑوا کر، کچھ شادیوں کے ناکام ہونے کے بعد اور کچھ Break-ups کے بعد، کئی اس کے پاس بیٹھ کر روتی رہی تھیں۔ کئی اس کے گلے لگ کر بلکتے ہوئے اپنے بوائے فرینڈ یا شوہر کی بے وفائی کے قصے سناتی رہی تھیں۔ کئی روتے ہوئے اپنے سابقہ یا حالیہ بوائے فرینڈ کو گالیاں دیتے ہوئے اس سے ٹشو لے لے کر آنسو پونچھتی رہی تھیں۔
مگر زینی کی طرح چپ سادھ کر اس کے سامنے گونگوں کی طرح نہیں بیٹھی رہی تھیں۔
اس کے پاس ماڈلنگ کرنے والی لڑکیاں پیسے کے لیے آتی تھیں۔ شہرت کے لیے، اپنا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے یا بدلے کے لیے، وجہ جو بھی ہوتی تھی لیکن پیسہ دیکھ کر وہ آپے سے باہر ہو جاتی تھیں اور جس کلاس سے زینی کا تعلق تھا، اس کلاس سے آنے والی لڑکیاں تو پیسہ دیکھ کرخود پر قابو ہی نہیں رکھ پاتی تھیں۔ خوشی ان کے پورے وجود سے چھلکتی تھی۔
اور یہاں زینی سرد مہری کی حد تک بے نیاز نظر آتی تھی۔ اگر پیسہ خوش نہیں کرتا تھا تو پھر آخر وہ لینے کیا آئی تھی ماڈلنگ میں۔
”مجھے تو یہ پتا نہیں میں دنیا میں کیا لینے آئی ہوں۔ تم ماڈلنگ کی بات کرتے ہو۔” اس کے اس سوال پر وہ بے اختیار ہنس پڑی تھی۔
”گاڑی چاہیے مجھے اپنی اور ایک ڈرائیور بھی۔ کب تک تمہاری گاڑی لے کر پھروں گی۔” اس نے فاران کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی بات بدل دی۔
”چند دنوں میں آجائے گی وہ بھی۔” فاران نے اسے مطلع کیا۔
”تم اکیلی رہو گی۔ یہاں؟” زینی نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔
”میرا مطلب ہے، تمہاری فیملی ساتھ شفٹ نہیں ہو رہی؟” فاران اس کی نظروں سے کچھ خجل ہوا۔
”فی الحال نہیں۔ لیکن کوشش کروں گی، وہ لوگ بھی جلد ہی آجائیں یہاں۔”
اس نے اپنے پاؤں ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا اور پانی کی بوتل بند کرنے لگی۔
اسے اپنا گھر یاد آرہا تھا۔ اس شان دار کرائے کے بنگلے میں بیٹھ کر اپنے باپ کا رزق حلال کی کمائی سے بنایا ہوا دو کمرے کا وہ گھر یاد آرہا تھا۔
٭٭٭
چوکیدار نے بیل بجانے پر پہلے باہر جھانک کر دیکھا پھر گیٹ کھول کر باہر نکلا۔
”کس سے ملنا ہے؟” اس نے ضیاء سے پوچھا۔
”یہاں میری بیٹی ہے۔ زینب!”
ضیاء نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ وہ گھر پہنچتے ہی اسے واپس لانے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن یہاں اس بنگلے کے سامنے کھڑے ہوئے ان کو یک دم اپنا آپ بونا لگنے لگا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ زینب سے اپنا کیا رشتہ بتائیں۔
چوکیدار نے سر سے پیر تک انہیں دیکھا، پھر کہا۔
”یہ تو میڈم پری زاد کا گھر ہے۔”
ضیاء کچھ بول نہیں سکے۔ انہوں نے اس کاغذ پر نظر ڈالی جس پر زینب کے ہاتھ سے اسی گھر کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ پھر گھر کی نمبر پلیٹ پر نظر ڈالی اور چوکیدار کی طرف کاغذ بڑھایا۔
”دیکھیں، یہ اسی گھر کا ایڈریس ہے، اسی گھر کا فون نمبر ہے؟”
چوکیدار نے کاغذ پر نظر دوڑائی۔ ”ہاں فون نمبر بھی یہیں کا ہے۔ پر میڈم نے تو نہیں بتایا کہ۔” وہ کچھ کہتے کہتے سوچ کر رکا۔ ”تمہاری بیٹی دیکھنے میں کیسی ہے؟”
اس اجڈ چوکیدار نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ضیاء سے بیٹی کی شناخت پوچھی۔ ضیاء بول نہیں سکے کوئی باپ بیٹی کوکبھی نہیں ”دیکھتا۔”
”جوان ہے؟ خوبصورت ہے؟” چوکیدار نے ان کے چپ رہنے پر اگلے سوال کیے۔ ضیاء کو جیسے کسی نے گالی دی۔ اب کیا ان کی اس پردہ کرنے والی تہجد گزار بیٹی کا تعارف اس کی ”جوانی” اور ”خوبصورتی” سے ہو گا۔
”اوہ… بابا… کچھ بولو۔۔۔۔” چوکیدار اب بے چین ہو رہا تھا۔
”وہ… ماڈلنگ کرتی ہے۔” ضیاء نے سر جھکا کر کہا۔
”اچھا ہماری میڈم بھی کچھ اسی طرح کا کام کرتی ہے۔ پر وہ تو ملائیشیا گئی ہے کچھ ہفتوں کے لیے۔”
ضیاء کو لگا کسی نے انہیں زندہ قبر میں گاڑ دیا تھا۔
*****
One Comment
Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear