من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

وہ زمین پر نظریں جمائے جیسے بڑبڑا رہی تھی۔ ضیاء کو رنج ہوا۔ کیا تھا جو انہوں نے اتنے ہفتوں میں زینی کو پڑھ کر دم نہیں کیا تھا۔ کہاں کہاں وہ زینی کے لیے دعائیں نہیں کرواتے رہے تھے۔ پر سب کچھ ابھی بھی ویسا ہی تھا۔
وہ تین سال کی تھی جب اس نے ان کے ساتھ بندر کا تماشا دیکھا تھا اور پھر وہیں کھڑے کھڑے اس بندر کو گھر لے جانے کی فرمائش کی تھی۔ ضیاء ہنسنے لگے تھے۔ انہوں نے اس فرمائش کو اس کی معصومیت سمجھا تھا مگر یہ زینی کا ”مطالبہ” تھا، یہ انہیں چند منٹوں میں ہی اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ بندر کے بغیر وہاں سے جانے کو تیار نہیں تھی اور ضیاء ایک قدم بھی وہاں سے اٹھاتے تو وہ چیخیں مار مار کر روتے ہوئے بری طرح ان کی گرفت میں مچلنے لگی۔
انہیں یقین تھا وہ اسے نیچے اتارتے تو وہ زمین پر بیٹھ کر اسی طرح ٹانگیں چلاتی۔ انہوں نے اس سے بہت سے وعدے کیے تھے، بہت سی دوسری چیزیں دلوانے کی کوشش کی مگر زینی کو بندر اور صرف بندر چاہیے تھا اور ابھی چاہیے تھا۔ وہ بادل ناخواستہ مداری سے بندر کو خریدنے کے لیے بھاؤ تاؤ کرنے لگے۔ مداری وہ بندر بیچنے پر تیار نہیں تھا، البتہ اس کے گھر پر ایک اور چھوٹا بندر تھا جسے وہ ضیاء کو بیچنے پر تیار ہو گیا تھا مگر اس کا گھر جس کچی بستی میں تھا، وہ وہاں سے چار میل دور تھی۔
ضیاء زینی کو اٹھائے پیدل اس بندر والے کے ساتھ اس بستی میں گئے،وہاں سے وہ بندر خریدا اور ایک بار پھر چار میل کا فاصلہ طے کر کے جون جولائی کے موسم میں جب پسینے میں شرابور گھر پہنچے تو اس وقت عشاء کا وقت ہو رہا تھا۔ زینی بے پناہ خوش تھی۔ سارا راستہ باپ کے ہاتھ میں پکڑی رسی سے بندھے بندر کو اپنے ساتھ چلتے دیکھ کر ہنستی اور باپ سے باتیں کرتی رہی اور ضیاء اسے دیکھ کر خود بھی ہنستے رہے۔ وہ ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھے، ایک بندر کی رسی کو ہاتھ میں لیے گھر آتے دیکھ کر ان کے جاننے والوں نے کیا سوچا ہو گا، ضیاء نے یہ نہیں سوچا تھا۔ ان کے لیے اتنا کافی تھا کہ زینی پہلے کی طرح چہک رہی تھی۔
نفیسہ اس بندر کو دیکھ کر بے حد ناراض ہوئی تھیں یہ جان کر اس سے زیادہ کہ وہ بندر ضیاء کی اس ماہ کی تنخواہ کے چوتھائی حصے سے خریدا گیا تھا مگر نفیسہ کی ناراضی اب بے کار تھی، بندر خریدا جا چکا تھا۔
اگلے کئی دن زینی صحن میں بندھے اس بندر کے ساتھ کھیلتی رہی۔ یہ سلسلہ مزید طویل ہوتا اگر ایک دن ضیاء کی موجودگی میں وہ بندر اچانک زینی پر جھپٹ کر اس کے بازو کو اپنے کھرونچوں سے زخمی نہ کر دیتا۔ ضیاء نے شکرا ادا کیا تھا کہ وہ اس وقت وہاں تھے، ورنہ بندر زینی کو زیادہ نقصان بھی پہنچا سکتا تھا۔ وہ اس گھر میں بندر کا آخری دن تھا۔ ضیاء اگلے دن اسے کسی کو دے آئے تھے۔ زینی اگلے کئی دن اس بندر کے لیے روتی رہی مگر پھر آہستہ آہستہ بہل گئی۔
مگر اس کے بعد اسے ہمیشہ اپنی مرضی کی چیز ہر قیمت پر لے لینے کی عادت پڑ گئی تھی۔ وہ ضیاء کے ساتھ عید کے میلے میں جاتی اور سب سے مہنگے کھلونے پر ہاتھ رکھتی۔ ضیاء ایک لفظ کہے بغیر اسے وہ چیز دلا دیتے۔
زینی نے زندگی کوعید کا میلہ سمجھ لیا تھا، جہاں وہ جب بھی جاتی، سب سے مہنگی چیز کے ساتھ لوٹتی کیونکہ وہ باپ کے ساتھ جاتی تھی اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ باپ زینی کوخالی ہاتھ لے آتا اور آج پہلی بار باپ اپنی اولاد کو خالی ہاتھ دیکھ رہا تھا اور یہ چیز ان سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔




”خالد صاحب کا بیٹا بہت اچھا، بہت شریف لڑکا ہے۔ شیراز سے شکل و صورت میں کئی گنا اچھا ہے۔ صرف افسر نہیں ہے مگر زینی! وہ لوگ بہت قدر کریں گے تمہاری۔” ضیاء نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”بات شکل و صورت اور افسری کی ہے ہی نہیں۔ بات تو شیراز کی ہے۔ وہ جو مرضی ہو، شیراز تو نہیں ہو گا۔”
اس نے ایک بار پھر اسی طرح کہا تھا۔ ضیاء کو بے اختیار وہ بندر یاد آگیا تھا جو اسے بعد میں زخمی کر کے گیا تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے، ٹھیک اسی وقت زینی کو بھی وہ بندر ہی یاد آرہا تھا مگر اسے اس کے زخم یاد نہیں آئے۔ صرف یہ یاد آرہا تھا کہ باپ اس بندر کو خود ہی ایک دن کہیں چھوڑ آیا تھا اور وہ پھر کئی دن روتی رہی تھی۔
”وہ بازار کی کوئی شے ہوتی تو میں ہر قیمت پر اسے خرید کر تمہیں لا دیتا، پر وہ انسان ہے۔ میں انسان کو کیسے خرید کر لاؤں۔”
ضیاء نے دل گرفتگی سے کہا۔
”اس کی منگیتر کے باپ نے تو اسے خرید کر دے دیا اپنی بیٹی کو۔ انسان خریدے نہیں جاتے تو اس نے کیسے اسے خرید کر اپنی بیٹی کا مقدر بنایا۔”
وہ اب بھی جیسے عید کے میلے میں کھڑی تھی، جہاں کا سب سے مہنگا کھلونا اس کے بجائے کوئی اور بہتر دام دے کر اپنی بیٹی کے لیے لے گیا تھا۔
”جو انسان پیسے سے خرید اجا سکتا ہو، میں اپنی زینی کا مقدر اس کے ساتھ تو کبھی نہ جوڑتا۔” زینی نے گردن اٹھا کر باپ کو دیکھا۔
”چاہے زینی رو رو کر مر جاتی؟” اس نے باپ سے سوال کیا۔
ضیاء نے سر جھکا لیا۔ ان کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو بہنے لگے تھے۔ ”میں بہت بے بس ہوں زینی! بہت بے بس۔ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ اولاد کا مقدر ماں باپ کے ہاتھ میں ہوتا تو سارے ماں باپ پوری دنیا اٹھا کر صرف اپنی اولاد کو دے دیتے۔”
”دنیا کی بات نہیں تھی، یہ تو صرف ”ایک آدمی” کی بات تھی۔ صرف ایک آدمی کی۔”
”چھ ارب انسانوں میں ”میرا” بس وہی ”تھا” اور وہی ”ہے” باقیوں کی مجھ کو ضرورت نہیں ہے۔ بہتر ہوں یا بہترین، مجھے کیا کرنا ہے کسی کا۔”
اس کی آ واز میں شکست خوردگی تھی۔
”آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے مجھے اب۔ گلہ تو مجھے اللہ سے بھی نہیں ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی تکلیف اللہ مجھے کیسے دے سکتاہے۔”
”وہ تکلیف اس لیے دیتا ہے کہ ہم اسے یاد رکھیں، یاد کریں۔”
وہ ان کی بات پر جیسے تڑپ گئی۔
”یہ نہ کہیں۔ کم از کم آپ یہ نہ کہیں۔ کب یاد نہیں کرتی تھی میں اسے۔ کب یاد نہیں رکھا میں نے اسے۔ اللہ اگر دلوں کا حال جانتا ہے تو اس کو یہ تو پتہ ہو گا کہ شیراز مل جاتا تو وہ مجھے اور احسان مند پاتا… اور ذکر کرنے والا اور… اور شکر کرنے والا۔”
وہ رونے لگی تھی۔
”کوئی گناہ کیا ہے میں نے ابو! جس کے لیے اتنی ذلت، اتنی تکلیف دے رہا ہے اللہ مجھے۔ کچھ توخرابی ہے مجھ میں کہ اللہ نے میرے ہاتھ خالی کر دیے ہیں۔ کچھ تو خامی ہے آپ کی زینی میں جو آپ کو نظر نہیں آرہی، پوری دنیا کو نظر آرہی ہے۔”
وہ روتے ہوئے اٹھ کر چلی گئی۔ ضیاء بے بسی سے اسے جاتا دیکھتے رہے۔ اس رات ان کے گھر میں ایک بار پھر کسی نے کچھ نہیں کھایا تھا۔
٭٭٭
”تم کچھ کھا کیوں نہیں رہے بیٹا۔ کھاؤ۔”
نسیم نے شیراز سے کہا۔ آج ان کا اپنے نئے گھر میں پہلا کھانا تھا۔ ویک اینڈ تھا اور شیراز گھر پر ہی تھا۔ وہ سب پہلی بار اپنے گھر میں میز اور کرسیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے ورنہ اس سے پہلے وہ لوگ چار پائیوں، چوکیوں اور زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔ نسیم یہاں بھی اسی شان دار روایت کو آگے بڑھانا چاہتی تھیں۔ مگر شیراز نے انہیں سختی سے منع کیا تھا، بلکہ ان دو چوکیوں کو بھی پھنکوا دیا تھا جو نسیم اپنے پرانے گھر سے ساتھ لے کر آئی تھیں۔
”یہاں پر اس طرح کی کوئی حرکت نہ کریں کہ ملازم ہنسیں، اور بعد میں میرے سسرال والوں تک یہ خبر پہنچے۔ یہ دونوں ملازم جو اس گھر میں ہیں، یہ سعید انکل نے اپنے گھر سے بھجوائے ہیں۔ ایک ایک بات کی خبر دیں گے، وہاں۔” شیراز نے سب کو مطلع کر دیا تھا۔
تو اب مجبوراً سب کرسیوں پر بیٹھ کر ہی کھانا کھا رہے تھے۔ اور شیراز خود کھانا کم کھا رہا تھا، وہ ٹیبل پر بیٹھے باقی پانچ افراد کو کھانا کھانے کے آداب کے بارے میں لیکچر زیادہ دے رہا تھا۔ وہ جب بھی ان کے ساتھ کھانا کھاتا، اس کا زیادہ وقت اسی کام میں گزرتا۔ وہ اس پورے ٹولے کو اپر کلاس کا حصہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ اخبارات میں اپنی اور پورے خاندان کی تصویریں چھپوا کر اشتہار لگوا دیتا۔
مورخہ فلاں فلاں تاریخ سے میں اور میرا پورا خاندان لوئر مڈل کلاس کے بجائے اپنی بیوی اور اس کے خاندان کے طفیل اپر کلاس کا حصہ بن گئے ہیں۔ آئندہ ہر کوئی ہمیں خاندانی سمجھے اور ہمیں ”خاندانی” لوگوں کی طرح ٹریٹ کرے۔
شکریہ
ایک ”خاندانی” خاندان
شیراز کو صرف یہ پتا نہیں تھا کہ خاندانی کہلانے کے لیے کم از کم دو نسلوں کا منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونا ضروری تھا۔ صرف اپنے ہاتھ پاؤں مار کر دولت اکٹھی کر لینے سے کوئی خاندانی نہیں بن جاتا نہ ہی اشرافیہ کا حصہ کہلاتا ہے اور اس لحاظ سے خود سعید نواز بھی ایک ”مڈل کلاسیا” ہی تھا۔
”بیٹا! کھاؤ… کیوں نہیں کھاتے۔”
نسیم نے ایک بار پھر واویلا کیا۔ شیراز کا دل چاہا، وہ ان سے کہے۔ ”پہلے آپ ‘تمیز سے کھائیں’ پھر میں کھاؤں گا۔” نسیم فلیٹ ڈنر پلیٹ میں صرف چمچہ کی مدد سے چاول کھانے کی کوشش میں پلیٹ کے ارد گرد چاولوں کی چار دیواری بنا رہی تھیں۔ وہ کانٹا پکڑے ہوئے تھیں۔ مگر اسے صرف پکڑے ہوئے تھیں۔ وہ بھی شیراز کے پر زور اصرار اور دباؤ پر، لیکن اسے استعمال نہیں کر رہی تھیں۔ نتیجہ وہی تھا، جس طرح کا شینا کے گھر منگنی پر نکلا تھا۔ لیکن آج شیراز کو زیادہ تکلیف نہیں ہو رہی تھی کیونکہ یہاں اس کی سسرال میں سے کوئی موجود نہیں تھا۔
”ابھی شادی میں کچھ دن ہیں، میں تب تک انہیں سدھا لوں گا۔”
اس نے روانی میں سوچا پھر یک دم گڑبڑا کر اپنے جملے کی تصیح کی۔
”سکھا لوں گا۔ ” اس نے ایک نظر ٹیبل پر موجود تمام لوگوں پر ڈالتے ہوئے بالآخر ان کبابوں کو اپنی پلیٹ میں ڈالا جنہیں لینے پر نسیم اصرار کر رہی تھیں۔
برائی ہاتھ سے کھانے یا زمین پر بیٹھ کر کھانے میں نہیں تھی۔ برائی شیراز اور اس کے خاندان کی سوچ میں تھی وہ زبردستی اپر کلاس کا حصہ بننے کے لئے اپنے طور طریقوں کو آلائش سمجھ رہے تھے۔
جو انسان اپنے اصل سے بھاگتا ہے، وہ پھر ساری زندگی بھاگتا ہی رہتا ہے۔ کیونکہ اصل کبھی نہیں چھپتا، کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس پر لحاف ڈالیں، غلاف یا مٹی۔ یہ کہیں نہ کہیں سے پھر باہر نکل آتا ہے ہزار سروں والے اژدھے کی طرح جس کا ہزارواں سر کاٹتے کاٹتے پچھلے نو سو ننانوے پھر نکل آتے ہیں۔
شیراز کو احساس نہیں تھا کہ جڑی بوٹیاں صاف کرتے کرتے اس نے اپنی جڑیں کاٹنا شروع کر دی تھیں۔ اپر کلاس، رولنگ ایلیٹ بوژوا، Haves اس نے صرف یہ ٹرمز سنی تھیں صرف ان کا پر تعیش لائف اسٹائل للچاتے ہوئے ساری عمر دیکھا تھا۔ اس نے تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھا تھا۔ اس نے ان کی زندگی جی کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ اب جینے والا تھا۔ یا پھر ”جی” کر مرنے والا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

One Comment

  • Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!