سر جھکائے اس نے فرش پر نظر آنے والے پیروں کو باری باری دیکھنا شروع کیا۔ نکاح خواں، ایجاب وقبول کی عبارت سے پہلے کے چند جملے ادا کر رہا تھا۔ اس کے اندر جیسے لاوا ابل پڑنے کو تیار تھا۔ وہ سارے ان لوگوں کے پاؤں تھے جو اس کے وجود کو سیڑھی بنا کر اوپر جانا چاہتے تھے۔ اس کا باپ، ماں، بہنیں۔ چند لمحوں کے لیے اسے لگا وہ سارے پیر اس کے جسم کے اوپر سے گزر رہے تھے۔ ہاتھیوں کے کسی جھنڈ کی طرح اسے روندتے رگیدتے ہوئے، چند لمحوں کے لیے اسے واقعی اپنا وجود بے حد کچلا اور مسلا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے جیسے گہرا سانس لے کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
آخر وہ کیوں ان لوگوں کے لیے سیڑھی بنے، انہیں اپنے اوپر سے گزرنے دے؟ اس نے سوچا۔ لیکن وہ کر کیا سکتی تھی۔ اس کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے۔
پھر اسے یک دم کسی کا خیال آیا۔ خوف کی ایک لہر سی اس کے جسم کے اندر سے گزری۔
”تم نے اگر ہاں کی تو میں خود کو گالی مار لوں گا۔ تمہارے گھر سے تمہاری بارات جائے گی تو میرے گھر سے میرا جنازہ۔”
اس کے کانوں میں اس کی دھمکی گونجی، اسے یقین تھا، وہ جو کہتا تھا کر گزرتا تھا۔ وہ یہ بھی جانتی تھی۔ وہ اس وقت ریوالور لے کر وہیں کہیں آس پاس ہو گا۔ وہ ”ہاں” کہتی، نکاح خواں باہر جا کر اعلان کرتا اور اس کے بعد…
میک اپ سے لپے پُتے چہرے پر بھی اسے پسینے کے قطرے نمودار ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اسے باہر بیٹھے اپنے سے بائیس سال بڑے بوڑھے بے حد معمولی صورت کے اس ”امیر آدمی” سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ جوشادی کے نام پر اس کا ”سودا” کرنے آیا تھا۔ اسے اتنی ہی نفرت اس کمرے میں موجود اپنے ”خونی رشتوں” سے ہوئی جن کی مرضی اور خوشی سے وہ سودا طے پایا تھا۔
ساری دنیا میں صرف ایک ہی شخص تھا جو اس سے محبت کرتا تھا اور وہ شخص اس شادی کی صورت میں آ پنی جان دینے کو تیار تھا۔ اسے وہ سارے وعدے یاد آئے جو وہ چار سال سے ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے تھے۔ سارے منصوبے، سارے خواب۔ اور اب نئی بھیانک تعبیر ان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی تھی۔ کہ وہ اسے بھی ایک خواب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک ڈراؤنا خواب۔
مووی کیمرے کی تیز روشنی جیسے اس کے چہرے کو جلا رہی تھی۔ کمرہ اس وقت لوگوں سے بری طرح بھرا ہوا تھا۔ اس کے چچا،ماموں، چچیاں، ممانیاں، محلے کی چند دوسری عورتیں ہر ایک وہاں جیسے کوئی تماشا دیکھنے کے لیے کھڑا تھا یا کم از کم وہ جس ذہنی حالت میں تھی اس کو ایسا ہی لگ رہاتھا۔
نکاح خواں اب بالآخر اس سے وہ سوال کررہا تھا جس کے جواب کی تیاری وہ پچھلے ایک ہفتہ سے کر رہی تھی، کمرے میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔
٭٭٭
”آج بہت جلدی گھر آگئیں… کالج تو اتنی جلدی بند نہیں ہوتا۔” ربیعہ نے دروازہ کھولتے ہوئے زینی سے کہا۔
”ہاں، بس آگئی۔” اس نے بے حد مبہم جواب دیا اور پھر اندر کمرے کی طرف جانے کے بجائے صحن میں بچھی چار پائی کی طرف آگئی۔
”سونے لگی ہو؟” ربیعہ نے اسے چار پائی پر لیٹتے ہوئے دیکھ کر حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں۔” زینی نے اس بار بھی اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ پھر چار پائی پر چت لیٹ گئی۔ ربیعہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اس کو دیکھتی رہی۔ زینی چار پائی پر چت لیٹی دیوار پر چڑھی انگور کی بیل کو دیکھ رہی تھی۔
”کیا سوچ رہی ہو؟” ربیعہ اس کے پاس آگئی۔
”کچھ نہیں۔” اس نے ربیعہ کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
”رمشہ سے ملیں؟” ربیعہ اس کے پاس چار پائی پر بیٹھ گئی۔
”ہاں!” وہ بد ستور انگور کی بیل کو دیکھتے ہوئے ربیعہ کے سوالوں کے جواب دے رہی تھی۔
”تمہاری اتنی لمبی غیر حاضری سے تو بہت پریشان ہوئی ہو گی وہ۔”
”نہیں۔ وہ خود بھی چھٹی پر تھی۔ اسلام آباد گئی ہوئی تھی ایک ہفتہ پہلے دوبارہ کالج جوائن کیا ہے اس نے ویسے بھی اب تو فارغ کرنے والے ہیں ایک دو دن میں۔ ساری کلاسز نہیں ہو رہی ہیں اب۔”
”اس کو پتا ہے تمہارے اور شیراز کے بارے میں؟” ربیعہ نے کچھ تامل کے بعد اس سے پوچھا۔
”پورے کالج کو پتا ہے میری منگنی ٹوٹنے کے بارے میں۔ محلے کی جو لڑکیاں کالج پڑھتی ہیں، انہوں نے سب کچھ بتایا ہوا ہے وہاں۔ رمشہ کو بھی کسی نے بتا دیا تھا۔”
”کیا بتا دیا تھا؟”
”یہی کہ میرے منگیتر نے مجھے رنگے ہاتھوں کسی لڑکے کے ساتھ گلی میں پکڑا ہے۔”
ربیعہ کا دل کٹا۔ اس نے ایسی لاتعلقی سے کہا تھا جیسے وہ اپنے بارے میں نہیں کسی دوسرے کے بارے میں بات کر رہی ہو۔
”کسی کو یقین نہیں آیا ہو گا کالج میں ان سب باتوں پر اور رمشہ کو تو بالکل بھی نہیں۔ میں جانتی ہوں سب وہاں تمہیں کتنا پسند کرتے ہیں اور چار سال سے دیکھ رہے ہیں سب تمہیں وہاں، اس بکواس پر تو کسی نے یقین ہی نہیں کیا ہو گا۔”
ربیعہ کے لہجے میں بے حد اعتماد تھا۔ زینی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اسی طرح خاموشی سے انگور کی بیل کی کو دیکھتی رہی جس پر صحن سے ایک چڑیا اڑ کر جا بیٹھی تھی۔ شاید اسے وہاں کوئی کیڑا نظر آیا تھا اور اب وہ پتوں میں اس کیڑے کو تلاش کرنے کے لئے چونچیں مارنے میں مصروف تھی۔ ربیعہ کچھ دیر اس کے جواب کی منتظر رہی۔ لیکن جب اس نے کچھ نہیں کہا تو ربیعہ نے جیسے قدرے بے صبری کے ساتھ اس سے دوبارہ پوچھا۔
”کیا کہا سب نے؟”
”کچھ نہیں۔” اس نے اسی لاتعلقی سے کہا۔
ربیعہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ”کچھ بھی نہیں؟ کسی نے کچھ بھی نہیں کہا؟”
زینی کبھی پریشان کالج چلی جاتی تھی تو سو لوگ اس کو تسلیاں دیتے پھرتے تھے۔ وہ بھی جو اس کو جانتے تک نہیں ہوتے تھے اور وہ گھر آکر بڑے فخریہ انداز میں ربیعہ کو یہ سب بتاتی تھی اور اب اس کی منگنی ٹوٹ گئی تھی اور کسی نے کچھ نہیں کہا۔ یہ ناقابل یقین تھا۔ ان چار سالوں کے دوران پورے کالج کو زینی کی صرف منگنی کے بارے میں ہی نہیں یہ تک پتا تھا کہ اس کا منگیتر بے حد قابل ہے اور سول سروس کے امتحان میں بیٹھنے سے لے کر اسے کوالیفائی کرنے تک سب کچھ کالج میں پہنچتا رہا تھا۔ ان ساری معلومات کو پہنچانے میں زینی کا نہیں محلے کی لڑکیوں کا ہاتھ تھا جو زینی کے کالج میں ہی اس کی جونیئر یا سینئر تھیں… اس کی منگنی کا کالج کی لڑکیوں کو پتا نہ ہوتا تو بہت سے رشتے زینی کے لیے کالج سے ہی آتے۔ لڑکیاں اس کے حسن پر کچھ اسی طرح فریفتہ تھیں وہاں۔
”زبان سے تو مجھ سے کسی نے کچھ نہیں کہا… نظروں سے بہت کچھ کہا۔” زینی ابھی بھی اس چڑیا کو دیکھ رہی تھی ”لڑکیاں مجھے دیکھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرتی رہیں، کچھ ہنستی رہیں، کچھ گھورتی رہیں یوں جیسے منگنی ٹوٹنے کے بعد میرے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔”
وہ اب بھی اس طرح بات کر رہی تھی جیسے کسی اور کی بات کر رہی ہو۔ ربیعہ کو دھچکا لگا۔
”رمشہ نے توکچھ کہا ہو گا تم سے؟” ربیعہ نے جیسے کسی آس میں پوچھا۔
”ہاں… وہ پریشان تھی۔ لڑکیاں میری عدم موجودگی میں اس سے آکر اس لڑکے کے بارے میں پوچھتی رہیں، جس کے ساتھ شیراز نے مجھے پکڑا تھا۔ ان میں سے کچھ رمشہ کو کالج کے گیٹ پر کھڑے ہونے والے کچھ لڑکوں کے نام اور حلیے بتاتی رہیں جو میرے لیے وہاں کھڑے ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا میں ان ہی میں سے کسی لڑکے کے ساتھ انوالوڈ تھی۔
کسی گاڑی والے امیر لڑکے کے ساتھ اس کے پیسے کے لئے، کیونکہ سب کو پتا ہے کہ میں غریب ہوں، غربت کی وجہ سے میں لالچ میں آگئی تھی۔”
چڑیا کو ابھی تک وہ کیڑا نہیں ملا تھا وہ ایک پتے سے دوسرے پر پھدک رہی تھی۔ اس کی ہر حرکت کے ساتھ زینب کی نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔
”بس سب نے یہی کہا، کسی نے کچھ اور نہیں کہا؟” ربیعہ کو جیسے شاک لگا۔
”نہیں۔ اور بھی بہت کچھ پوچھتی رہی تھیں لڑکیاں… یہ کہ شیراز نے مجھے اس لڑکے کے ساتھ کس حالت میں پکڑا تھا؟ کیا اس نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ یا ہم کوئی اور قابل اعتراض حرکت کر رہے تھے گلی میں؟ کچھ لڑکیوں نے رمشہ کو بتایا کہ شیراز نے مجھے گلی میں نہیں پکڑا، کسی لڑکے کے ساتھ اس کی گاڑی میں پکڑا تھا۔ کچھ نے رمشہ سے کہا کہ شیراز نے دراصل مجھے کسی لڑکے کے ساتھ کالج کے پاس کسی چھوٹے ہوٹل کے کمرے میں پکڑا تھا۔ وہ ہوٹل کا نام جاننا چاہتی تھیں۔ کچھ نے کہا کہ شیراز کو اکیڈمی میں اس لڑکے نے اپنے ساتھ میرے کچھ بلو پرنٹس بھیجے تھے۔ جن کو صرف شیراز نے نہیں وہاں پوری اکیڈمی نے دیکھا اور شیراز کی بے حد رسوائی ہوئی۔ کچھ نے رمشہ کو قسم کھا کر بتایا کہ انہوں نے خود کئی بار مجھے کالج کے باہر مختلف لڑکوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر جاتے دیکھا تھا بعض نے بتایا کہ میں گیٹ پر کسی لڑکے کو دیکھ کر مسکراتی تھی اور اشارے کرتی تھی۔”
ربیعہ کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ اس کا جسم کانپنے لگا تھا۔ وہ پچھتا رہی تھی۔ اس نے کیوں صبح اسے کالج جانے سے نہیں روکا تھا۔
”اللہ ان لوگوں کو، ان بہتان لگانے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔” ربیعہ کو بے اختیار رونا آگیا۔
”اللہ سب کا رب ہے۔ وہ سب کو معاف کر دیتا ہے۔” زینی کے لہجے کی سرد مہری نے ربیعہ کو اور رلایا۔
زینی ابھی بھی چڑیا کو دیکھ رہی تھی۔ ربیعہ نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ زینی کو دیکھا۔ وہ چارپائی کے سرہانے والی لکڑی کے فریم پر سر ٹکائے لیٹی ہوئی تھی۔ صحن میں اترتی دھوپ اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور اس دھوپ نے اس کے رنگ کو سنہری مائل سرخ کر دیا تھا۔ اس کے گلے اور کانوں میں کچھ نہیں تھا۔ البتہ بالوں کی بہت سی چھوٹی بڑی لٹیں اس کی گردن، پیشانی اور چہرے کے اطراف چپکی ہوئی تھیں۔ کالج کے سفید یونیفارم کی شرٹ کے کالر پر بھی اس کے بالوں کی چند چھوٹی چھوٹی لٹیں چپکی ہوئی تھیں۔ ربیعہ نے سفید رنگ کسی پر زینی سے زیادہ سجتا نہیں دیکھا تھا۔ لیکن پھر سوال یہ تھا کہ اس پر کیا نہیں سجتا تھا۔ اس کی بے حد تیکھی ناک کے اطراف میں پسینے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ وہ قطرے اس کے ماتھے، پیشانی اور گردن پر بھی نمودار ہو رہے تھے۔ چار پائی پر اس حالت میں لیٹی وہ ربیعہ کو کوئی مومی مجسمہ لگی تھی جسے دھوپ آہستہ آہستہ پگھلا رہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس سے نظر ہٹانا مشکل تھا۔ وہ فنا ”ہو جانے” والا حسن تھا اور وہ فنا ”کر دینے والا” حسن تھا۔
اس کی خوب صورتی دیکھ کر ربیعہ کو اور رونا آیا مگر زینی ارد گرد سے بے خبر اس بیل پر اسی چڑیا کو دیکھنے میں محو تھی۔ آخر اسے رزق کیوں نہیں مل رہا تھا؟
One Comment
Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear