منیر نیازی
ثوبیہ امبر
انسان نے جب شاید آوازسے،لفظ ،حرف اور زبان ایجاد کی تھی،جب وہ بے شعور جانوروں سے ممتاز ہوا تھا،اس نے پتھر پر کنندہ استعاروں کو جب جب مفہوم دیے تھے،اپنے آپ سے روشناس ہوا تھا، اپنے تن من کے اندر پنپتے جذبوں کو الگ الگ کیا تھا، اسے محبت، شگفتگی، نفرت، عداوت، دوستی، دشمنی سمجھ آنے لگی تھی،تو اس نے شاعری کی تھی۔ انسانی جذبوں، روایتوں، تاریخوں، تہذیبوں، تمدنوں، اثاثوں، کہانیوں، کتھاو ¿ں، داستانوں، تاریخوں حادثوں، لوک داستانوں، موسموں، پھولوں، ببولوں، رنگوں، چھاو ¿ں، وصل اور فراق کو گوہر نایاب کو ڈھالنے والی سیپ شاعری ہوتی ہے۔یہ سیپ ہی پانی کو گوہر بناتی ہے اور شاعر ہی وہ سینہ ہوتا ہے جس میں پوشیدہ رہتی ہے۔انسان کو شاعری، گیت، ردھم سے اس قدر لگاو ¿ ہے کہ کوئی زبان ،کوئی تہذیب کوئی خطّہ زمین اس سے خالی نہیں۔ انسان نے فصلوں کی کٹائیوں،اپنوں کے وصل اور جدائیوں میں ہمیشہ شاعری کی ہے ،گیت گائے ہیں۔ اس نے اپنے جذبوں کو جب جب لفظوں میں ڈھالا ہے، خود بہ خود شاعری اس پروارد ہونے لگی ہے۔
منیر نیازی ویسا ہی شاعر تھا جیسے شاعروں کے خواب، تکیے نیچے شاعری کی کتاب رکھ کر سونے والی لڑکیاں دیکھتی ہیں، ایسا شاعر جو دکھنے میں یونانی اپالو جیسے پر وجہیہ،پر کشش ،خوبصورت ہوتا ہے ، فطرت میں فقیر،غنی اور بے نیاز اور طبیعت میں قلندر ہوتا ہے۔ وہ شاعر جو یا تو کتابوں میں ملتے ہیں یا اگر زمانے کے ہاتھ لگیں تو زمانہ ان کا زمانہ ہونے پہ ناز کرنے لگتا ہے۔منیر نیازی کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اس قدر پر وجیہہ تھے کہ مال روڈ لاہور پر لوگ انہیں مڑ کر دیکھتے تھے۔ وہ خانپور کے خان تھے، نیازی۔۔۔ لیکن اتنے بے نیاز کہ یہ بے نیازی ان کی وجہ ¿ شہرت اور وجہ ¿ بدنامی بھی بنی لیکن ان کے ہنر کو آلودہ نہ کر سکی۔
منیر نیازی زندگی کے سینے میں دھڑکتا شاعر تھا، جس کی شاعری میں زندگی ایسے ہی گھلی ہوئی تھی جیسے پانی میں شربت۔ لیکن زندگی کا شربت صرف میٹھا نہیں ہوتا ہے، کبھی کبھار تو اتنا کڑوا ہوتا ہے کہ نگلتے نگلتے جان کنی کا عذاب لگنے لگتا ہے ۔منیر نیازی، اپنے وقت سے پہلے یا بعد کے شاعر نہیں ،وہ انسان کے ایسے جذبوں کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ ہر عہدکے انسان کے شاعر ہیں۔ایک حساس انسان جس کی زندگی کے پیالے میں ایک ناکام محبت، ایک جان لیوا تنہائی اور ہمہ وقت ہجوم کی صورت گھیرے تنہائی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک رائیگانی ہے، دیس نکالے کی ایک ایسی خلش جو کبھی ان کے لفظوں سے گئی ہی نہیں، اور تضیع اوقات و جذبات کا ایک ایسا احساس جو کہیں کسی اور شاعر کے ہاں ملا بھی نہیں۔الفاظ جتنے سادہ ہیں اتنے گہرے ۔غزلیں زبان زد عام۔ ایک ایسی پر اسراریت جو دیو مالائی داستانوں میں کسی سوئے ہوئے محل کی اندر ہی جا کے محسوس کی جا سکتی ہو۔اگر میں منیر نیازی کو ان کے ہی شعر میں بیان کروں تو کہوں گی۔
کل دیکھا ایک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
ہوشیارپور میں پیدا ہونے والے منیر نیازی نے میٹرک کے بعد ہندوستان کی ’رائیل نیوی‘ میں شمولیت اختیار کی اور یہاں ہی کچھ دوستوں کی مہربانی سے منیر نیازی ادب کی طرف راغب ہوئے۔ سمندر کے کنارے شاعری پڑھتے وارد وہوا کہ یہ فوجی نظم و ضبط طبیعت سے میل نہیں کھا تا البتہ شعر دل پر خوب اترتے ہیں۔اپنی شاعرانہ اور باغیانہ طبیعت کے باعث وہاں سے بن بتائے ،سب چھوڑ چھاڑ نکلے جس کی سزا بھی ملی ، لیکن منیر نیازی نے اپنے اندر کے شاعرکوزندہ رکھنے کا سوچ لیا تھا۔
بے چین بہت رہنا،گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
اور صرف ممبئی میں ہونے والی واقعات نے ہی منیر نیازی کو شاعر نہیں تھا بنایا ۔ ان کی والدہ ایک باذوق خاتون تھیں جو شاعری سے خاص شغف رکھتی تھیں۔پھر منیر نیازی نے دیال سنگھ کالج لاہور، امر سنگھ کالج سری نگر میں پڑھا۔اور تعلیم سے اس سفر میں منیر نیازی کو متاثر کرنے والے خوبصورت اساتذہ ،علامہ تجویر نجیب آبادی ،سید عابد علی عابد،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم تھے۔ منیر نیازی نے لاہور سے نکلنے والی پرچے ’زمیندار ‘ میں کالم لکھے۔ایک رسالہ ’ست رنگ‘ نکالا۔
منیر نیازی کی شاعری میں ایک پر اسراریت ہے، ایک تحیر کی فضاءہے جو کہ اجنبی بھی ہے اور جانی پہچانی بھی، جسے جاننے کا تجسس بھی ساتھ ساتھ بڑھنے لگتا ہے۔ایک حساس شاعر کی طرح فطرت سے محبت بھی کی اور اس فطرت وقدرت میں بھرے مناظر کو اپنے لفظوں میں ڈھالا بھی اور ایسی کئی تصاویر پیش کیں جو ان سے پہلے اردو شاعری میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ان خوبصورت تصویروں،رنگوں اور فضاو ¿ں کی موجودگی منیر نیازی کے بچپن، جوانی کی فضاو ¿ں کے مرہون منت تھی۔اتنے رنگ، ہوا، جنگل، دھنک، شام۔۔۔ یہ منیر نیازی کا ہی خاصہ تھا کہ ہجر و وصال کے قصوں سے نکل کر شاعری قدرتی نظاروں سے، دلی کیفیات کے ساتھ ہم آہنگ ہوئیں۔
چھوٹا سا اک گاو ¿ں تھا
جس میں دیے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے،تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دوری نے گھیرا
اتنی بڑی تنہائی تھی جس میں،
جاگتا رہتا تھا دل میرا
بہت قدیم فراق تھا جس میں،
ایک مقرر حد سے آگے
سوچ نہ سکتا تھا دل میرا
ایسی صورت میں پھر دل کو
دھیان آتا کس خواب میں تیرا
راز جو حد سے باہر میں تھا
اپنا آپ دکھاتا کیسے؟
سپنے کی بھی حد تھی آخر
سپنا آگے جاتا کیسے؟
پاکستانی فلموں کے لیے کئی گیت لکھے۔
’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو!‘
یہ وہ گیت تھا جس نے منیر نیازی کو پاکستان فلم انڈسٹری میں نام اور پہچان دی اور معاشرے میں شہرت۔ منیر نیازی کا کہنا تھا کہ اس گیت کی اجرت یا اعزازیہ دو ہزار روپے طے ہوئے تھی جبکہ انہیں ادائیگی دو سو روپے کی گئی۔یہی وہ رویے،وہ واقعات تھے کہ منیر نیازی جیسا حساس ،خوددار شخص یک لخت تنہا ہوا۔ وعدہ ٹوٹنے سے بری طرح ٹوٹا۔ اور اپنے اصولوں کے ساتھ کونے میں لگ گیا۔اور اس فریب کاری کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔
اگر شیکسپیر نے کبھی اپنے کردار کے ذریعے ہر زمانے کا معنی کے لحاظ سے خصوصی اورکثرت استعمال کے لحاظ سے عمومی سوال کیا تھا ‘To be or Not to be?’ ،اسی طرح ہر حساس ،سوچ رکھنے والے ،آرٹسٹ انسان کی طرح منیر نیازی کے اندر بھی ہونے نہ ہونے کا چھٹپٹا رہا۔
’زندہ رہیں تو کیا ہے،جو مر جائیں ہم تو کیا؟‘
منیر نیازی کی شاعری میں ایک ایسی انفرادیت اور ایک ایسا خالص پن تھا جو اس سے پہلے کسی شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔ پہلے شاعری کسی نہ کسی کلاسک شاعر کے زیر اثر لکھی گئی لیکن منیر نیازی کا لب و لہجہ خالص اپنا تھا۔ تصویروں میں بات کی،اس سے پہلے استعارے وغیرہ استعمال کیے گئے لیکن ایک منظر کو ایک نظم میں، واضح کر دینا صرف منیر نیازی نے ہی یہ روایت ڈالی۔
جس وقت منیر نیازی نے اپنی شاعری سے اردو ادب کو نئے موسم عطا کیے تھے تب فضاءیوں تھی کہ ہر شاعر کسی نظریے، کسی کیمپ کا حصہ تھا۔اور اپنے نظریہ کو شاعری میںلانا اور اس کا پرچار کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی ۔لیکن منیر نیازی نے ایسا نہیں کیا ،اپنے کسی بھی ذاتی نظریہ کو بھی شاعری کے ذریعے مقبول عام کرنے کی کوشش نہ کی اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ poetic convictionکی کمی یا تخلیقی جذبہ کی کمی کسی سہارے کو تلاش کرتی ہے،کسی کیمپ کا حصی بنتی ہے۔منیر نیازی اتنا خالص شاعر تھا کہ اس نے شاعری کو ہی اوڑھنا بچھونا بنایا ۔ ان کے ہم عصر بیشتر شعراءکسب معاش کے لیے کسی نہ کسی شعبے سے منسلک رہے ، لیکن منیر نیازی نے شاعری ہی کی، شاعری ہی جی اور وہ ایک خالص شاعر کی طرح ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔ان کے پاس نہ کوئی اور ذریعہ معاش تھا اور نہ کوئی اور شغل ہی۔
منیرنیازی نے اپنی شاعری میں تصورات کو بہت مختلف طریقے سے استعمال کیا، اور انہوں نے اپنے تصور میں ابھرتی تصویروں کو لفظوںاور ،استعاروں ذریعے ،صرف بتایا نہیں بلکہ وہ تصویریں ہو بہو پڑھنے والوں کے ذہنوں پر بنائیں۔ اور یہ ہنر منیر نیازی سے پہلے کسی اردو شاعر کی ہاں نہیں ملتا۔
جس طرح منیر نیازی کی اردو شاعری ،اپنے الگ لب و لہجے اور پر فسوں ماحول کی وجہ سے پہچانی گئی بالکل ویسے ہی منیر نیازی کی پنجابی شاعری،اپنے پیشوا پنجابی شاعروں سے مختلف تھی۔ پنجابی شاعری میں مرشد،تصوف، عشق مجازی اور عشق حقیقی کا خیال ،زیادہ تر قلم بند ہوئے اور عام انسان ،اس کے خیال ،اس کی بے کسی کی تصویر بہت کم دیکھنے میں آئی۔ وہاں منیر نیازی کی شاعری ایک نئے تصور کی کہانی تھی۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ انٹر میں اردو کے ایک لیکچر کے دوران ،اردو کی استاد نے پنجابی کے اشعار بولے تھے۔
کجھ انج وہ راواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وہ سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
یہ قطعہ جو سنتے ہی یاد ہو گیا تھا، جو اتنا سادہ اور عام فہم تھا، اور اتنا ہی گہرا۔ منیر نیازی کی پنجابی شاعری میں بھی وہی رنگ، درد اور احساس ہے جو کہ اردو شاعری میں۔ لیکن پنجاب کی مٹی کی خوشبو اور اس زبان کا خالص پن، اس زبان کے لفظوں میں چھپے معنی اور حکمت منیر نیازی کی شاعری میں رچی بسی ہے۔
کس دا دوش سی کس دا نیئںسی
ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نئیں
ویلے لنگھ گئے توبہ والے
راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں
اردو ادب کے بڑے ناموں کی طرح منیر نیازی نے بھی اپنے کندھوں پر ہجرت کا ان دیکھا بار اٹھا ئے رکھا۔ جو ان کی تحریروں میں کبھی واضح ،کبھی مدھم رہا لیکن یہ کسک ہنوز قائم رہی۔ اپنی ایک نظم میں خانپور ، اس کے در و دیوار، اس کی مسجدیں، مندر ، صورتیں اور مورتیں یاد کیں۔ ایک بڑی نسبت اور خواب کو چھوڑ کر منیر نیازی ،ایک نئے خواب اور ایک نئی نسبت کے لیے پاکستان آئے لیکن، اس نئی ریاست کے اندر ان کے خواب کی تعبیر حسب منشاءنہ تھی۔ جس جنت نظیر ریاست یا شہر کا خواب، منیر نیازی جیسے حساس شاعر نے دیکھا تھا وہ تو کہیں نظر ہی نہ آیا۔ شاید اسی لیے وہ اس شہر کی نفی میں رہے ۔ان کی شاعری میں ایک لا حاصل سی جستجو تھی، ایک مکمل انسان، ایک مکمل، خوبصورت شاعر، ایک حسین شہر کو دیکھنے کی۔جو اس کار دراز میں کبھی شاید کسی بھی انسان کی پوری نہ ہوئی ۔
ایک نگر ایسا بس جائے،جس میں نفرت کہیں نہ ہو
آپس میں دھوکہ کرنے کی ظلم کی طاقت کہیں نہ ہو
پاکستان کے حالات ، اس نگر کی نفسا نفسی ، یہاں ہونے والی بھاگ دوڑ سے گھبرا کر کہا۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ان کی لکھی گئی کئی غزلیں گائی گئیںجو کہ مقبول عام ہوئیں ۔ان کی کئی کتابوں کی رائیلٹی ملنے کے بھی معاملات خراب رہے۔ منیر نیازی ان چند اردو کے شعرا میں سے تھے جن کو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔کتابیں شائع کرنے والے حضرات نے خوب دھن کمایا لیکن شاعر کی حالت زارنہ بدلی۔
شاعر، ادیب، آرٹسٹ کے بارے میں ایک عمومی تاثر ہوتا ہے کہ یہ لوگ جتنے حساس ہوتے ہیں، اتنے خود پسند یا پھر نر گسیت کا شکار ہوتے ہیں۔منیر نیازی کے بارے میں یہ رائے تھوڑی شدت سے تھی کیونکہ منیر نیازی نے اپنی نرگسیت کا برملہ اظہار کیا ۔ اگر ناقدین اور قارئین کا کہنا تھا اور ہے کہ منیر نیازی نے اردو غزل اور نظم میں اپنے ہنر سے نئے رنگ اور زندگی بھر دی تو منیر نیازی کو اس کا پورا ادراک ہے۔اور اس بات کا اظہار بھی خوب کیا۔اور منیر نیازی نے کسی اور کو مانا بھی نہیں،جس پر اہل ہنر کو اعتراض بھی رہا لیکن، حیرت تو یہ ہے کہ کسی اور کو نہ ماننے والے منیر نیازی کو سب سراہنے پر مجبور نظر آئے، اس کے ہنر اور کمال کی داد دیے بغیر کوئی رہ بھی نہ سکا۔ چاہے وہ اشفاق احمد ہوں یا پھراحمد ندیم قاسمی۔
منیر نیازی اولاد کی نعمت سے محروم رہے ،اور جب اس بارے میں یہ سوال کیا گیا کہ ایک حساس انسان کے طور پر وہ اپنی اس محرومی کو کیسے دیکھتے ہیں تو ان کا جواب ان کی شخصیت کی عکاسی تھا کہ ’میں ایک خدا پرست انسان ہوں،جو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ خدا کی مرضی ہے‘۔ یہ وہ توکل، وہ یقین، وہ غناءتھا جس نے منیر نیازی کا گھر تمام عمر سادہ رکھا،انہیں درویش بنائے رکھا، اور طلب کا کوئی بھی پیالہ کبھی منیر نیازی کے ہاتھ میں کسی نے دیکھا ہی نہیں۔ چائے وہ کوئی مالی معاونت ہو یا جھوٹی سچی پذیرائی۔لوگوں کا کہنا ہے منیر سادہ دل درویش تھا جس نے شاعری کے علاوہ نہ کچھ کمایا نہ کچھ جمع کیا۔ جیسے کئی شعراءکی کئی کہانیاں اور قصے ،دوستیاں اور قربتیں زمانے میں عام ہوئیں، منیر نیازی وہاں بھی علیحدہ،منفرد اور خاص رہے کہ کوئی ایسا قصہ کیا، ایسی افواہ بھی منیر نیازی کے حصے میں نہ آئی۔ شاید منیر نیازی کی انا اتنی بلند تھے کہ یہ بے نیازی ان کی فطرت کا حصہ بن گئی تھی۔اور شاید کالج کے زمانے میں کی گئی محبتوں کو کافی سمجھا،حالانکہ منیر نیازی کا کہنا تھا کہ محبت ایک بار نہیں ہوتی،یہ با ر بار ہو جانے والا حادثہ ہے۔
منیر نیازی کی زندگی کی کہانی ایک عام پاکستانی شاعرکی کہانی ہے جس میں ایک حساس روح کی زندگی کے اتار چڑھاو ¿ ہیں، ہجرت در ہجرت کے عذاب ہیں، جس کے باعث منیر نے کہا تھا۔
تم نے تو عادت ہی بنا لی اپنی منیر
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
علامہ اقبال نے کہاتھا کہ ’ قومیں شاعروں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور آباد یا برباد سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں‘۔ منیر نیازی ایک ایسا ہی خوددار شاعر تھا جو شکستہ دل، شکستہ حال رہا لیکن اپنی خودداری سے دستبردار نہ ہوا۔ وہ ایک ایسے ملک میں رہا جہاں سچے جذبوں کو لکھنے والے مفلوک الحال رہتے ہیں اور جھوٹے وعدے کرنے والے حکمران بن جاتے ہیں۔پھر چاہر ساغر صدیقی ہو،حبیب جالب ہو یامنیر نیازی ، کوئی حکومتی سر پرستی ان کے نصیب میں نہیں آتی۔
منیر نیازی کی زندگی جس قدر خالی نظر آتی ہے ان کی شاعری اتنی بھرپور ہے۔کوئی جذبہ،کوئی رنگ کوئی خیال ایسا نہیں جو لفظوں میں ڈھالا نہ ہو۔ اگر میں ایک ایک کر ے ان کے شعر اور تشریحات کروں تو شاید ایک کتاب بھی کم پڑ جائے ۔ ان کے کچھ اشعار جو زبان زد عام ہوئے جن پر عام لوگوں، شاعروں اور لکھاریوں نے سر دھنے اور جو ایک بار سننے سے بھی تا حیات یاد رہ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ چند اشعار یہ ہیں۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہر یار میں آنے نہیں دیا
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں تیرے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
ہے جس کے بعد عہد زوال آشنا
اتنا کمال ہم کو خدا نے نہیں دیا
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں۔
رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا
اتنا میں چپ ہوا تماشہ نہیں ہوا
میری ساری عمر کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
منیر نیازی وہ حساس شاعر جو اپنا کلام پڑھتا تھا تو آنسوو ¿ں کی لکیر اس کی آنکھوں میں دیکھنے والوں کو رلا دیتی تھی۔ جس کی نظمیں اور غزلیں اردو شاعری میں کبھی فراموش نہیں ہو سکتیں۔جو محبت کرنے ، بچھڑنے والوں، ہجرت کرنے والوں اور پھر شہر ظلمت میں پسنے والوں کے جذبات کو زبان دے گیا۔
ان کی نمایا ںکتابیں’تیز ہوا اور تنہا پھول‘، ’جنگل میں دھنک‘ اور ’دشمنوں کے درمیان شام‘ ’ماہ منیر‘جبکہ پنجابی کلام کے دو مجموعے ’سفر دی رات‘،’رستہ دسن والے تارے‘
انتظار حسین جو خود منیر نیازی کے مداح تھے ،ان کا کہنا تھا کہ منیر نیازی کی زندگی ’دشمنوں کے درمیان شام‘ ہی تھی۔ ایسے ہجوم میں ایک حساس روح کی تنہائی جو کبھی بھی ہجوم میں گھل مل نہ سکا۔
حکومت پاکستان کی طرف کی سے انہیں ’پرائڈ آف پر فارمنس ‘ اور ’ستارہ امتیاز‘ دیے گئے۔ منیر نیازی نے اَسّی برس کے لگ بھگ عمر پائی اور اپنی جوانی میں اپالو دکھنے والا حسین شاعر، جسے رومانویت اور جدت پسند شاعری پر ملکہ حاصل تھا، اس اجنبی دنیا سے رخصت ہوا۔آخر میں شوکت واسطی کا یہ شعر۔
شوکت ہمارے ساتھ بڑاحادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
___________________________________________________________________