مایا کے بیٹے کلائیڈ کی پیدائش کے بعد اسے سان فرانسسکو سے بہتر جاب کی آفر ہوئی تو اس نے ماں سے اجازت طلب کی۔ اس موقع پر مایا کی ماں نے اسے یہ نصیحت کرتے ہوئے اجازت دے دی کہ اپنے گھر کی دہلیز پار کرنے کے ساتھ ہی وہ آزاد زندگی کی جانب قدم رکھنے والی ہے اور اسے اپنی ماں اور دادی سے سیکھے ہوئے تمام سبق یاد رکھنے ہوں گے۔ مایا کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی ماں کو ہمیشہ بہادری اور جرات کے ساتھ حالات سے لڑتے دیکھا۔ وہ عزت اور وقار سے جینا جانتی تھی اور اس بات نے مایا کو اس کا گرویدہ بنا لیا تھا۔
1951ءمیں مایا نے ایک یونانی موسی قار سے شادی کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ موسیقی اور رقص و سرور کی محفلوں میں دل چسپی لینے لگی تھی۔ شادی کے بعد وہ بیٹے کے ہم راہ نیویارک منتقل ہو گئی۔ شراب اور سگریٹ نوشی کی عادت اپنانے کے ساتھ اس کے حلقہ ¿ احباب میں بھی زیادہ تعداد موسیقی کی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تھی۔ اس دور میں اس نے اپنا ایک بینڈ بنانے کے بعد البم بھی ریلیز کیا۔ شادی کے تین برس بعد مایا کو یہ احساس ہوگیا کہ یہ فیصلہ بالکل غلط اور محض جلد بازی پر مبنی تھا۔
1954ءمیں شوہر سے طلاق لینے کے بعد اسے میوزیکل کنسرٹس کے سلسلے میں پورے یورپ کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران مایا کی ملاقات شوبز، فائن آرٹس، سیاست اور علم وادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والی بے شمار شخصیات سے ہوئی۔ یہی دورتھا جب اس نے میوزیکل ڈائریکٹرز اور دیگر ساتھیوں کے مشورے سے ہر جگہ مارگریٹ جانسن کی بجائے اپنا نک نیم ” مایا اینجلو“ متعارف کروایا، جسے اس کے مداحوں نے بے حد سراہا۔ اپنی غیر معمولی ذہانت کے باعث مایا کو دنیا کے جس خطے میں بھی رہنے کا موقع ملا، وہاں اس نے مقامی زبان سیکھی جب کہ وہاں کے رسم و رواج اور اطوار کا بھی گہرا مشاہدہ کیا۔
60ءکی دہائی اس کے ادبی و سیاسی کیرئیر کے حوالے سے نہایت اہم رہی۔ اس دوران اس کی ملاقات سیاہ فاموں کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے عظیم لیڈر مارٹن لوتھر کنگ اور میلکم ایکس سے ہوئی۔ اس نے ان کی تحریکوں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنے زورِ قلم سے بے شمار مقالے و مضامین بھی شائع کئے۔ اس نے اپنی شخصیت میںچند بنیادی اور مثبت تبدیلیاں لانے کا ارادہ کیا جن میں شراب اور سگریٹ نوشی سے مکمل اجتناب اور اپنی توجہ تعلیم کی جانب مبذول کرنے کا فیصلہ شامل تھا۔
1961ءمیں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ایک دیرینہ دوست کے ہم راہ مصر منتقل ہو گئی جہاں اسے ایک انگریزی ہفت روزہ اخبار میں بہ طور ایڈیٹر کام کرنے کا موقع ملا۔ اگلے برس وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ گھانا جا بسی جہاں کی بڑی یونیورسٹی میں اس نے بہ طور ایڈمنسٹریٹر کام کیا۔ 1967ءمیں نیویارک واپسی پر مایا کی ملاقات سیاہ فام امریکی مصنف اور نقاد جیمز بالڈون سے ہوئی جس نے بنیادی طور پر مایا کو اپنی سوانح عمری لکھنے کی جانب راغب کیا۔
1968ءمیں مایا کی عین چالیسویں سالگرہ کے دن مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کر دیا گیا۔ یہ مایا کے لیے کسی عظیم سانحے سے کم نہ تھا۔ اس نے مارٹن لوتھر کنگ کا جلسوں اور سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں بہت ساتھ دیا تھا۔ اپنے عظیم لیڈر اور دیرینہ دوست کی موت نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نازک وقت میں جیمز بالڈون نے اسے زندگی کی جانب لوٹ آنے میں مدد دی اور اسے سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے مضامین لکھنے اور ٹی وی پرڈاکیومینٹریز تیار کرنے میں بھرپور مدد فراہم کی۔
1969ءمیں مایا کی پہلی سوانح عمری”i know why the caged bird sings“ منظر عام پر آئی جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں دھوم مچا دی اور مایا اینجلو کو ادبی طور پر ایک بڑا نام تسلیم کر لیا گیا۔
1970ءکی دہائی مایا کے لیے مزید کام یابیوں کا پیغام لائی۔ اس کی دوستی اوپرا ونفرے کے علاوہ دیگر اہم شخصیات سے ہوئی جب کہ ”جارجیا جارجیا“ نامی پہلا سکرین پلے لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔اسی دور میں اس کی دوسری اور پھر تیسری سوانح عمری شائع ہوئی۔ اسے ”روٹس“ نامی ٹی وی سیریز میں اداکاری کے جوہر دکھانے کا بھی موقع ملا۔
80ءکی دہائی میں مایا کی جہاں اپنے دوسرے شوہر سے طلاق کے چرچے عام ہوئے، وہیں ادبی حلقوں میں چوتھی اور پھر پانچویں سوانح حیات کی اشاعت سے ان کی شہرت کو چار چاند لگے ۔ بہ طور لیکچرر انہوں نے فلسفے، دین، اخلاقیات، سائنس اور تھیٹر کے مضامین پر دنیا بھر میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
90ءکی دہائی کے شروع ہی میں مایا کو اپنی ماں کی موت کے اندوہ ناک صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی حلف برداری کی تقریب میں مایا نے اپنی مشہور زمانہ نظم ©”On The Pulse Of Morning” پڑھی جس کے بعد وہ مایہ ناز امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کے بعد پہلی ادبی شخصیت بن گئیں جنہیں کسی امریکی صدر کی حلف برداری پر مدعو کیا گیا۔ 1996ءمیں مایا اینجلو کا فلم ڈائریکٹ کرنے کا خواب بھی پایہ ¿ تکمیل کو پہنچا۔
2000ءمیں مایا کو اپنے اکلوتے اور پیارے بھائی کی موت نے ادھورا کر ڈالا۔ وہ اپنے بھائی کے بارے میں لکھتی ہیں۔
” بیلے نے میرا زندگی کے ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا۔ وہ روحانی طور پر مجھ سے بہت قریب رہا اور اپنے دل کی بات اس کے روبرو پیش کرنے میں مجھے کبھی جھجک محسوس نہ ہوئی۔ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ میں اب کبھی اس کی آواز نہ سن پاﺅں گی۔“
مایا کی چھٹی اور پھرساتویں سوانح عمری شائع ہوئی تو وہ پچاسی برس کی عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ عمر کے اس حصے میں بھی مایا اینجلو نے لکھنے لکھانے کی عادت ترک نہ کی حالاں کہ ان کی صحت اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی۔
سوانح عمری کی سات کتابیں، مضامین کی تین اور شاعری پر مبنی لاتعدادکتابوں کی مصنفہ مایا اینجلو جنہیں پچاس سے زائد اعزازی ڈگریاں اور دنیا بھر سے ان گنت شان دار ایوارڈز حاصل ہوئے، اپنی زندگی کے تمام پہلووں کو دنیا کے سامنے لے کر آئیں۔ ان کا مشہور قول ہے :
” آپ کو زندگی میں بے شمار شکستوں کا سامنا ہو گا، مگر آپ نے شکست تسلیم نہیں کرنی۔ یہی آپ کی کام یابی ہے۔“
اپنی مثالی زندگی سے دنیا بھر کو متاثر کرنے والی مایا اینجلو، مئی 2014ءمیں کام یابیوں کی ایک طویل داستان رقم کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئیں۔ ان کی تحریریں رہتی دنیا تک ہمارے مشعلِ راہ اور رہنمائی کا سامان مہیا کرتی رہیں گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ