”اس دورمیں اگر کسی نے میری شخصیت کو مزید شکست و ریخت سے بچایا اور پھلنے پھولنے میں مدد دی، تو وہ مسز برتھا فلاورز تھیں۔ میری استاد، جنہوں نے خاموش دور میں مجھے کتابوں سے عشق کرنا سکھایا۔ انہوں نے مجھے ولیم شیکسپیئر پڑھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا، چارلس ڈکنز، ایڈگر ایلن پو، جارج ایلیٹ اور بے شمار عظیم مصنفوں اور شعرا سے متعارف کروایا۔ جیسے جیسے میں کتابیں پڑھتی گئی، میرا دماغ روشن سے روشن تر ہوتا گیا۔ میں نے اس زمانے میں شعرو شاعری کا آغاز بھی کر دیا اور باقاعدگی سے اپنی سوچوں کو ڈائری کے صفحات پر منتقل کیا کرتی رہی۔ پھر جب میں اپنے اندر جاری نفسیاتی و روحانی جنگ سے باہر آئی تواندر سے ایک مکمل طور پر مختلف انسان میں ڈھل چکی تھی۔“
دوسری جنگِ عظیم کے دوران بھی مایا کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دور میں سفید فام امریکیوں کا رویہ سیاہ فاموں سے اس قدر توہین آمیز تھا کہ اگر کوئی سفید فام سڑک کے کنارے جارہا ہوتا اور سامنے سے کوئی سیاہ فام آجاتا تو اسے سڑک کا کنارے بنے گندے نالے میں اترنا پڑتا، تاکہ سفید فام سکون سے اپنا پیدل سفر جاری رکھ سکے۔ مایا کا بھائی بیلے، چودہ برس کی عمر میں اس غیر منصفانہ رویے کے خلاف پراحتجاج رویہ اختیار کرنے لگا تولوگوں کے ذریعے اس کی شکایت دادی تک پہنچی۔ وہ جانتی تھیں کہ بیلے عمر کے جس حصے میں ہے، اسے یہ سمجھانا بہت مشکل ہو گا کہ آرکنساس کے سفید فام باغیانہ فطرت والے سیاہ فاموں کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا کرتے ہیں۔ جب ان کی پریشانی بڑھنے لگی تو انہوں نے بچوں کے والدین سے رابطہ کیا تاکہ انہیں ان کی ماں کے پاس کیلیفورنیا بھیجا جا سکے کیوں کہ وہاں وہ زیادہ محفوظ تھے۔ ان کی ماں کی جانب سے حامی بھرے جانے کے بعد دونوں بہن بھائی دادی کے ہم راہ آرکنساس کے نواحی علاقے سے کیلیفورنیا کی جانب روانہ ہوئے۔
مایا اپنی خودنوشت میں اپنی ماں سے چھ برس بعد ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
”میں جانتی تھی کہ جس خاتون کے حوالے مجھے دوبارہ کیا جا رہا ہے وہ میری والدہ ہیں، مگر میرا دل عجیب و غریب قسم کے وسوسوں میں گھرا ہوا تھا۔ نجانے کیوں مجھے خدشہ تھا وہ مجھے ناپسند کریں گی۔ پھرجب ٹرین پلیٹ فارم پر رکی اوردادی میرا اور بیلے کا ہاتھ تھامے ٹرین سے باہر آئیں تومجھے کچھ ہی دور، سرخ کوٹ میں ملبوس، اونچی ایڑی کے جوتوں اورہونٹوں پرسرخ لپ سٹک سجائے ایک طویل القامت خاتون ہماری منتظر نظر آئیں۔ میں دادی کی اوٹ میں ہونے کی ناکام کوشش کرتی چور نظروں سے اسے دیکھتی اس کے قریب ہوتی جارہی تھی۔ میری ماں نے مجھے دیکھتے ہی اپنے بازو میری سمت پھیلائے اور میں بادل نخواستہ اس کی بانہوں میں سمٹ گئی۔ وہ مجھے پیار کرتے ہوئے مایا تم تو ایک خوب صورت لڑکی میں ڈھل گئی ہو۔ ان کے الفاظ نے کچھ حد تک میری ڈھارس ضرور بندھائی مگر میں اب تک کوئی بھی لفظ ادا نہ کر پائی تھی۔ لگتا تھا سارے الفاظ کہیں کھو گئے ہوں۔“
ماں کے گھر کا ماحول، دادی کے گھر سے یکسر مختلف تھا مگر مایا کہتی ہیں کہ دادی نے ماں کے طور طریقے یا طرزِ زندگی پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ مایا کی ماں کو میوزک سے خاص شغف تھا۔ وہ روزانہ ہال میں تیز میوزک کی دھن پر جھوما کرتی۔ وہ ایک الگ ہی قسم کی عورت تھی۔دادی سے یکسر مختلف، مگر شفق رویہ رکھنے والی سمجھ دار خاتون جو مایا کو زندگی کی جانب واپس لانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہتی تھی۔ ایک روز اس نے رات کھانے کی میز پر مایا کے پاس آ کر کہا کہ کیا وہ اسے والدہ کہہ کر پکارنے میں دل چسپی نہیں رکھتی؟ مایا نے کوئی جواب نہ دیا تو اس کی ماں نے کہاکہ اگر انہیں ایک جگہ مل کر رہنا ہے تو کسی نہ کسی نام سے ایک دوسرے کو بلانا ہو گا۔ بیلے نے اس کی ہمت بندھائی تو اس کے منہ سے’ ’لیڈی“ کا لفظ ادا ہوا۔ اس کی ماں نے مایا کو شاباشی دیتے ہوئے یہ خطاب قبول کرنے کا اعلان کیا۔ وہ خوش تھی کہ مایا نے اسے بالآخر کوئی نام دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مایا اور ان کی ماں کے درمیان فاصلے کم ہونے لگے۔آنے والے وقت میں اس نے مایا کو زندگی کے ہر قدم پر بھرپور تعاون فراہم کیا۔ اگلے دو برسوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مایا کو جاب کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ یوں اسے پہلی خاتون امریکی سٹریٹ کار کنڈکٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اب مایا خوداعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو چکی تھی اور اپنی ماں سے بھی محبت کرنے لگی تھی۔
ایک رات مایا اپنی دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد رات بہت دیر سے گھر پہنچی۔ گھر کا دروازہ کھولتے ہی یک دم اس کے منہ پر ایک زوردار مکا رسید ہوا جس نے اس کے ہوش اڑا کر رکھ دئیے۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کے چہرے کو تکنے لگی جو شدید غصے کی حالت میں اس پر لعن طعن کر رہی تھی۔ شور کی آواز سن کرمایا کا سوتیلا باپ اور بیلے بالائی منزل سے نیچے آئے اور اس کی ماں کو سنبھالا۔ مایا کے بھائی نے بآوازِ بلند اعلان کیا کہ وہ اپنی پیاری بہن کو یہاں سے لے جائے گا۔ تبھی ان کی ماں نے چیختے ہوئے انہیں بتایا کہ مایا کے ساتھ جو کچھ بچپن میں ہوا، وہ ایسا کچھ بھی دوبارہ ہونے سے بہت خوف زدہ ہے اورہر حال میں اس کی بھلائی چاہتی ہے۔ اس نے مایا سے معافی طلب کی جسے مایا نے فوراً قبول کر لیا، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں سے دشمنی میں نہیں بلکہ پیار میں یہ سب ہوا تھا۔
تعلیمی دور مکمل ہوتے ہی سترہ سالہ مایا کی زندگی کو ایک نئے چیلنج کا سامنا تھا۔ اس نے اپنی ماں سے جب اپنے امید سے ہونے کا ذکر کیا تو اس نے مایا سے صرف دو سوالات پوچھے کہ کیا مایا اس شخص سے محبت کرتی ہے؟ اور کیا وہ مایا سے محبت کرتا ہے؟ مایا کا جواب نفی میں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غیر شادی شدہ کم عمرلڑکیوں کا ماں بن جانا خاصا معیوب خیال کیا جاتا تھا، تاہم اس کی ماں نے مایا کو احساس جرم دلانے کی بہ جائے اس کی ہمت بندھائی اور ہر حال میں اسے مضبوط رہنے کی تاکید کی۔ مایا کا کہنا ہے کہ ماں کی جانب سے زندگی میں ملنے والی اس عظیم سپورٹ نے اسے ہمیشہ زندہ رہنے کا حوصلہ دیا۔