کوئی ہفتہ بھر تک یہی سلسلہ رہا۔ مگر اس کے بعد استاد کے تینوں ساتھیوں کے طور ایک دم بدل سے گئے۔ اب وہ اکثر آپس میں کھسر پھسر کرتے اور چپکے چپکے استاد کی حرکات و سکنات کو غور سے دیکھتے رہتے۔ خصوصا اس وقت جب حجامت کے بعد استاد گاہک سے اجرت وصول کرتا۔ وہ کن انکھیوں سے دیکھتے رہتے کہ استاد پیسے کس جیب میں ڈالتا ہے۔
ایک رات جب استاد دکان سے رخصت ہوا تو اس کے تینوں ساتھی دیر تک جاگتے اور آپس میں باتیں کرتے رہے۔ انہیں استاد کے خلاف کئی شکایتیں تھیں۔ جنہیں وہ اب تک بڑے صبر سے درگزر کرتے رہے تھے۔ مگر اب جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ استاد روپے پیسے کے معاملے میں بھی کھرا نہیں ہے تو وہ صبر نہ کرسکے۔ انہوں نے استاد کی اس دھوکابازی کی روک تھام کے لیے بہت سی تجویزیں سوچیں مگر کسی پر دل نہ جما۔ آخر بڑی رات گئے، ایک ترکیب ان کے ذہن میں آئی۔ وہ اطمینان سے سوگئے۔
دوسرے دن جب استاد دوکان پر آیا تو ان تینوں نے آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کردیا۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا، میں نے خود اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رات تم نے گاہک سے چونی لے کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی۔ حالانکہ سارے پیسے تم اپنی قمیص کی جیب میں ڈالا کرتے ہو۔
دوسرے نے کہا، تم بکتے ہو۔ تم خود پکے بے ایمان ہو۔ پرسوں گاہک نے تمہیں ایک دونی اور دو اکنیاں دی تھیں۔ ایک دوانی اور ایک اکنی تو تم نے جیب میں ڈال لی اور ایک اکنی چالاکی سیانگلیوں کے بیچ میں دبائے رکھی۔
اس پر تیسرے نے کہا:” ارے میاں لڑتے جھگڑتے کیوں ہو۔ جو ہوا اس کو تو کرو معاف آئندہ کے لیے میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی چاہے بھی تو اس قسم کا دھوکا نہیں کرسکے گا۔ وہ یہ کہ دروازے کے قریب میز کرسی ڈال دو۔ کرسی پر تو منشی کو بٹھادو اور میز پر ایک صندوقچی رکھ دو جس کے ڈھکنے میں سوراخ ہو۔ بس گاہک حجامت کے پیسے اس صندوقچی میں خود ہی ڈال دیا کرے۔ ہم میں سے کوئی خو د ایک پائی بھی وصول نہ کرے۔ منشی مفت میں روٹیاں بٹورا کرتا ہے۔ اس سے یہ کام کیوں نہ لیا جائے۔ یہ اس بات کا بھی دھیان رکھے گا کہ کوئی شخص بغیر اجرت دیے نہ چلا جائے۔ یا کھوٹے سکے نہ دے دے۔ پھر چاہو تو منشی ساتھ ساتھ کاپی میں رقمیں بھی لکھتا جائے گا۔ آخر کس لیے رکھا ہے اس کو!”
اس پر پہلے نے کہا،” بہت ٹھیک۔ مجھے منظور ہے لیکن یہ نہیں مانے گا بے ایمانی جو ٹھہری جی میں۔”
اس پر دوسرے نے بھنا کر کہا، ”کیوں میں کیوں نہ مانوں گا۔ اچھا ہے، ایسا ہوجائے جھوٹ سچ آپ ظاہر ہوجائے گا۔”
تیسرے نے استاد سے پوچھا،” کیوں استاد تمہاری کیا رائے ہے؟ ”استاد کچھ نہ کہہ سکا، نہ اس تجویز کے حق میں نہ اس کے خلاف۔ اس نے خاموش ہی رہنے میں مصلحت سمجھی۔
دوسرے ہی دن سے اس تجویز پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ ہر روز رات کو دن بھر کی آمدنی کا باقاعدہ حساب ہوتا اور اس میں سے ہر ایک کو پورا پورا حصہ ملتا۔ چار دن نہ گزرنے پائے تھے کہ اس میں اتنی ترمیم اور کردی گئی کہ آمدنی کا حصہ بخرا روز کے بجائے ہفتہ کے ہفتہ کیا جائے۔ اس طرح ہر شخص کو معقول رقم مل سکے گی۔ ہر روز جو تھوڑے تھوڑے پیسے ملتے ہیں ان سے تو کسی کی بھی پوری نہیں پڑتی۔ ہاں اگر ہفتہ ختم ہونے سے پہلے ہی کسی ساجھے دار کو کچھ رقم کی ضرورت پڑجائے تو وہ منشی سے پرچی لکھواکر پیشگی لے سکتا ہے۔
استاد نے اس کی بھی نہ مخالفت کی نہ موافقت، وہ خاموش ہی رہا۔ مگر استاد اپنی اس خاموشی کو زیادہ دن تک قائم نہ رکھ سکا۔ ایک دن وہ صبح ہی صبح دکان پر پہنچا اور چموٹے پر استرے کی دھار کو گھستے ہوئے ایک دم اپنے ساتھیوں پر برس پڑا،
” بس جی بس!میں تم لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ انصاف کا تو آج کل زمانہ ہی نہیں ہے۔ تم نے گدھے اور گھوڑے کو برابر سمجھ لیا ہے۔ تم میں سے نہ تو کوئی میرے جتنا پرانا کاریگر ہے اور نہ ہنرمند۔ پھر ڈاڑھی مونڈنے میں میرا ہاتھ ایسا ہلکا ہے کہ ہرشخص مجھ ہی سے ڈاڑھی منڈانا چاہتا ہے۔ میں ایسے کئی آدمیوں کو جانتا ہوں کہ جب میں کام میں مصروف ہوتا ہوں تو وہ دکان میں آتے ہی نہیں بلکہ باہر ہی باہر ٹہلتے رہتے ہیں کہ کہیں دوسرے سے داڑھی نہ منڈوانی پڑجائے۔ پھر جہاں مجھے خالی ہوتے دیکھتے ہیں لپک کر میری کرسی پر آبیٹھتے ہیں۔ منشی اس بات کا گواہ ہے کہ میری روز کی کمائی تم لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اب تم ہی انصاف کرو کہ جب میں ہنرمیں بھی تم سے بڑھ کر ہوں اور گاہک بھی زیادہ میرے ہی پاس آئیں، کام بھی زیادہ میں ہی کروں، کمائی بھی زیادہ میری ہی ہو۔ تو پھر اس کی کیا وجہ کہ مجھے بھی اتنا ہی ملے جتنا تم سب کو ملتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تم لوگ میرا حصہ مجھے دے دو اور دکان خود کو سنبھال لو۔ اگر یہ نہیں تو کام کے لحاظ سے ہر ایک کی تنخواہ مقرر کردو۔ آمدنی میں سے تنخواہیں نکال کر جتنی رقم بچے گی وہ ہم چاروں آپس میں برابر برابر بانٹ لیا کریں گے۔ اگر تم کو یہ بات منظور ہو تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں۔ ورنہ صاحب ایسی دکان اور ایسی ساجھے داری کو میرا دور ہی سے سلام۔ بندہ کہیں اور قسمت آزمائے گا۔ جتنے پیسے مجھے یہاں ملتے ہیں اس سے زیادہ تو میں آنکھ بند کرکے جس سیلون میں چلا جاں لے سکتا ہوں۔”
استاد کی یہ تقریر اس کے تینوں ساجھیوں نے بہت غور اور توجہ سے سنی۔ اس میں کچھ باتیں ٹھیک بھی تھیں۔ مثلاً ہنر مندی میں استاد واقعی ان تینوں سے کہیں بڑھ کرتھا۔ مگر اس کا یہ مطلب تھوڑا ہی تھا کہ وہ ساجھے داری میں اپنی ہنرمندی کا ناجائز دبا ڈالے۔ جب ساجھا ہی ٹھہرا تو ہنر کی کون پروا کرتا ہے۔ ساجھا ایک کنبہ کی طرح ہے۔ جس میں کمانے والے فرد اپنی اپنی بساط کے مطابق کنبہ کی پرورش کرتے ہیں۔ کم و بیش کمانے والوں یا نہ کمانے والوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جاتی اور یہ استاد کی حددرجہ کم ظرفی ہے کہ وہ زیادہ ہنرمند اور کم ہنرمند کا سوال اٹھاکر ساجھے میں تفریق پیدا کرنا چاہتا ہے۔
استاد کے دکان سے قطع تعلق کر لینے کا مطلب بھی وہ خوب سمجھتے تھے۔ اس کامطلب تھاایک بھاری رقم بطور معاوضہ استاد کو دینا اور یہ رقم ان کے پاس نہ تھی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ یہ تینوں دکان سے علیحدہ ہوجاتے مگر علیحدہ ہوکر جاتے تو کہاں جاتے۔ نہ کام ہی میں ایسی مہارت تھی کہ دوسری جگہ آسانی سے نوکری مل سکتی اور نہ سرچھپانے ہی کا کوئی ٹھکانہ تھا۔ لہذا گلے شکوے تو انہوں نے بہت کیے مگر انجام کار انہوں نے استاد کی تنخواہوں والی شرط مان ہی لی۔ تنخواہیں مقرر کرنے کے مسئلے نے خاصا طول کھینچا۔ آخر بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ استاد کو تو ڈیڑھ سو روپے ماہوار ملے اور اس سے نچلے کاریگر کو ایک سو بیس۔ تیسرے کو سو اور چوتھے کو اسی۔ ساتھ ہی یہ بھی قرار پایا کہ تنخواہوں کا حساب مہینے کے مہینے ہوا کرے۔
استاد دل میں بہت خوش تھا کہ بالآخر اس نے اپنا تفوق اپنے ساتھیوں پر قائم کرلیا۔ ادھر اس کے ساتھی کچھ دن پژمردہ رہے۔ مگر پھر مہینے کے بعد ایک معقول رقم ہاتھ آنے کے خیال نے رفتہ رفتہ ان کا غم دور کردیا۔ اور وہ بڑی بیتابی سے مہینہ کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ خدا خدا کرکے جب مہینہ ختم ہوا اور تنخواہ کا دن آیا تو یہ دیکھ کر ان چاروں حجاموں کی حیرانی اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی کہ پچھلے مہینے دکان سے جو آمدنی ہوئی تھی، اس میں سے ان کی آدھی آدھی تنخواہیں بھی نہیں نکلتی تھیں۔ ان لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا اس بات پر ہوا کہ دکان پہلے زیادہ ترقی پر تھی۔ گاہک بھی پہلے سے زیادہ آرہے تھے مگر اس کے باوجود انہیں جو رقم ملی اس کا یومیہ ابتدائی دنوں کے یومیہ سے بھی کم تھے۔ منشی کے کھاتے کی جانچ پڑتال کی گئی۔ مگر اس نے پائی پائی کا حساب بتا دیا۔ ہر شخص کی روز کی کمائی، چاروں کی روز کی کمائی، ہفتہ کی کمائی، مہینہ کی کمائی۔ الگ الگ بھی اور مشترکہ بھی، پورا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ کیا مجال جو کوئی شخص اس کے حساب میں غلطی نکال سکے۔
قاعدہ ہے کہ روپیہ باہر سے آنے والا ہو یا بندھی ہوئی تنخواہ ہو تو انسان خواہ مخواہ اپنا خرچ بڑھا لیتا ہے یا اس کے بھروسے پر قرض لے لیتا ہے۔ ان میں سے دو حجام، ایک استاد اور ایک اسی امید پر محلے کے بعد دکانداروں کے مقروض ہوگئے۔ قرض خواہ کے تقاضوں کا ڈر تو تھا ہی۔ آئندہ قرض کا دروازہ بند ہوجانے کا بھی احتمال تھا۔
اس روز رات کو جب وہ دکان بڑھانے لگے تو حد درجہ دل شکستہ اور مایوس نظر آتے تھے۔ سب سے زیادہ مسکین پن منشی کے چہرے سے ٹپک رہاتھا۔ ہر چندا س کی کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی پھربھی اپنے آقاؤں کی اس مصیبت میں وہ برابر کا شریک نظر آتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ان کے قریب آیااور درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں جھجک جھجک کر کہنے لگا:
”آپ لوگوں نے میرے ساتھ جو بھلائی کی ہے میں عمر بھر اسے نہیں بھول سکتا، آج آپ کو پریشان دیکھ کر میرا دل بے حد کڑھا ہے۔ اب میں آپ کو سچی بات بتاتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ جب میں اپنے وطن میں بنئے کے ہاں نوکر تھا تو ہر مہینے تنگی ترشی کرکے اپنی تنخواہ میں سے کچھ روپے بچالیا کرتا تھا۔ چند مہینوں میں خاصی پونجی جمع ہوگئی، وطن سے چلتے وقت ساتھ لیتا آیا اور یہاں ڈاک خانے میں جمع کرادی تاکہ آڑے وقت میرے کام آئے۔۔۔ مگر اب آپ کو پریشان دیکھ کر دل نے گوارا نہ کیا کہ میرے پاس روپیہ ہو اور میں اسے اپنے بھائیوں سے چھپائے رکھوں۔۔۔ اگر آپ کہیں تو کل میں ڈاک خانے سیاپنا روپیہ نکال لاؤں۔ آپ اسے کام میں لائیے۔ جب دکان کی آمدنی بڑھ جائے تو مجھے لوٹا دینا میں کوئی نفع نہیں لوں گا۔”
”تمہارے پاس کتنے روپے ہیں؟ ”حجاموں نے پوچھا۔ کچھ تامل کے بعد منشی نے دھیرے سے کہا:” سوروپے!” دوسرے دن منشی ڈاک خانے سے سو روپے نکال لایا۔ اور ان سے الگ الگ رسید لے کر وہ رقم ان میں تقسیم کردی۔ اس طرح ان کی پریشانیاں کسی قدر دور ہوگئیں مگر اگلے مہینے دکان میں اس سے بھی کم آمدنی ہوئی۔ اب تو یہ لوگ بہت ہی گھبرائے۔ منشی نے بڑی چھان بین کے بعد آمدنی کے کم ہونے کی یہ وجہ دریافت کی کہ چونکہ چوک کے دوسرے ہیئرکٹنگ سیلونوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یا مندے کی وجہ سے اپنے ہاں کی اجرتیں کم کردیں ہیں، اس لیے وہ گاہک جو محض کفایت کے خیال سے ان کے ہاں لپک آئے تھے۔ اب ان سب سیلونوں میں بٹ گئے ہیں۔
ان لوگوں نے منشی کی بات کا کچھ یقین کیا کچھ نہ کیا۔ بہرحال وہ اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ چونکہ منشی اب کے اپنے بھائی سے سو روپے قرض لے آیا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کو زیادہ پریشانی نہ اٹھانی پڑی۔ تیسرے مہینے صورت حال کچھ سدھر گئی اور انہوں نے کسی قدر اطمینان کا سانس لیا۔ مگر چوتھے مہینے آمدنی ایک دم پھر کم ہوگئی اس پر ستم یہ ہوا کہ اس دفعہ منشی نے ان کی امداد کرنے سے باکل معذوری ظاہر کردی۔ اس نے کہا:”بھائیو۔ اگر میرے پاس روپیہ ہوتا یا میں کہیں سے لاسکتا تو میں آپ کے قدموں میں نچھاور کردیتا۔ لیکن میرے پاس جو کچھ تھا میں پہلے ہی آپ کی نذر کرچکاہوں۔”
اس روز تو انہوں نے زیادہ اصرار نہ کیا مگر دوسرے دن صبح ہوتے ہی چاروں نے منشی کو آ گھیرا۔ جب ان کی خوشامدوں اور التجاؤں کی حد نہ رہی تو منشی نے کہا،” اچھا بھائیو شام تک صبر کرو۔”
شام ہوئی تو وہ چاروں حجاموں سے یوں مخاطب ہوا،” صاحبو۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دکان کی حالت کبھی نہیں سدھرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے اپنی اپنی جو تنخواہیں مقرر کر رکھی ہیں، آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دکان چلے اور آپ کی پریشانیاں دور ہوں تو سب سے پہلے آپ اپنی اصلاح کیجیے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ آپ سب اپنے اپنے اخراجات کو کم کیجیے۔ اور دوسرے یہ کہ آپ اپنی اتنی ہی تنخواہیں مقرر کیجیے جتنی عام طور پر اس قسم کے سیلونوں میں ملازموں کو دی جاتی ہیں۔ اگر آپ میری تجویز کی ہوئی تنخواہ منظور کر لیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں بلکہ اس بات کا ٹھیکہ لیتا ہوں کہ ہر مہینے آپ کو پوری تنخواہ ملا کریگی۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر آپ میرے کہنے پر چلیں تو آپ کو ہر مہینے کی پہلی کو پیشگی ہی تنخواہ مل جایا کرے گی۔ یہ روپیہ کہاں سے آئے گا اس سے آپ کو مطلب نہیں۔ چاہے میں چوری کروں، ڈاکہ ڈالوں مگر آپ کو تنخواہ پیشگی ہی ملتی رہے گی۔ آپ نے میرے ساتھ ایسی بھلائی کی ہے کہ میں عمر بھر بھول نہیں سکتا۔ اور بھائیو اگر آپ کو یہ شرط منظور نہ ہو تو آپ جانیں اور آپ کا کام۔ میں آپ کے لیے روپے کا بندوبست نہیں کرسکتا۔”
چند لمحے خاموشی رہی۔ اس کے بعد استاد نے منشی سے پوچھا،” اچھا بتا ؤتو تم ہماری کیا تنخواہیں مقرر کرتے ہو؟”
منشی نے جواب دیا،” گستاخی معاف، میں زیادہ سے زیادہ آپ کو اسی روپے دے سکتا ہوں۔ دوسرے نمبر والے کو ساٹھ، تیسرے کو پچاس اور چوتھے کو چالیس۔ اگر آپ لوگ یہ تنخواہیں منظور کرلیں تو میں ابھی جاکر، چاہے مجھے دگنے تگنے سود پر قرض ہی لینا پڑے آپ سب کے لیے دو سوتیس روپے بطور پیشگی تنخواہ کے لے آتا ہوں۔ اور وعدہ کرتا ہوں کہ ہر مہینے اسی طرح آپ کو پیشگی تنخواہ ملا کرے گی۔ یاد رکھو میرے دوستوں یہ تنحواہیں کسی بڑے ہیرکٹنگ سیلون کے ملازموں کی تنخواہوں سے کم نہیں ہیں۔ آپ لوگ جاکر خود دریافت کرسکتے ہیں۔ البتہ اپنے ملازموں کو پیشگی تنخواہیں دینا صرف اسی سیلون کی خصوصیت ہوگی۔”
منشی کی یہ تقریر سن کر چاروں حجام گم سم سے رہ گئے۔ اور کسی نے اس کی بات کا جواب نہ دیا مگر یہ خاموشی بڑی صبر آزما تھی۔ انہوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر گردنیں جھکالیں۔
٭…٭…٭