فیس بکی شہزادہ — کوثر ناز

یوں تو کوئی بھی فیس بکی محبت کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور اگر اس کی مخالفت کرنے کی بات کی جائے تو ہم بھی ارسطو اور خلیل جبران کو کہیںپیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
جب آپ کی کوئی سکھی انباکس میں آکر محبت کا رونا روئے، اپنے دنوں کو حسین اور راتوں کو سہانی کہے، توعورتوں والی مخصوص رگ ہر لڑکی و عورت کے اندر پھڑپھڑانے لگتی ہے۔ تجسس پیٹ میں مروڑ ڈال دیتا ہے اور یہی نہیں بلکہ ایک آدھ عشقیہ چاہے بے وزن شاعری سے مزین پوسٹ آپ کسی دوست کی دیکھ لیں،تو من میں کھلبلی شروع ہوجاتی ہے کہ بھئی ضرور کہیں کوئی چاند چڑھایاجارہا ہے اور اگر اسٹیٹس ہو اداس و غمگین فروری مارچ میں بھی دسمبرو جنوری کی سی شاعری کا، تو اندازہ از خود لگالیا جاتا ہے کہ بھئی یہاں چاند گرہن لگا ہوا ہے۔
خیر سو باتوں کی چند باتیں یہ کہ فیس بکی محبت کے ہم چاہے لاکھ مخالف ہوں، لیکن سہیلی کا دل جو شہزادے میں اٹکا، توان کے غم میں شریک ہونے سے ہم بھی خود کو نہ بچا سکے۔ سہیلی کیا ”لنگوٹی یارنی” ہی کہہ لیں کہ بچپن سے ایک ساتھ کھیلے، اسکول ، کالج ساتھ پڑھے۔ ہاں البتہ اپنی اپنی ذاتیات کو چھپائے دوستی کا تعلق برقرار رکھا لیکن پھر ہماری سکھی کے سر پر حب محبت آن پڑی، تو ہم سے رجوع کرتے ہی بنی اور ہم ٹھہرے سدا کے ہم درد۔ فوراً سے پیشتر والدہ ماجدہ والے جذبات جاگے اور ان کے دل کے حال و احوال پر کبھی افسوس کرتے، تو کبھی حیران ہوتے اور آخر میں ان کی روداد سن کر ہم نے بھی فیصلہ کرہی لیا کہ اب جو بھی ہو سہیلی کو یوں تڑپنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ اس سلسلے میں چاہے باہر کی تھوڑی سی ہوا ہمیں ہی کیوں نہ کھانی پڑے۔
ارے… کیا کہا؟ پوری کہانی تو سنیے میاں و بیوی معذرت کہنے کا مطلب ہے کہ خاتون یا جو بھی آپ ہیں کہ بات کچھ یوں ہے کہ فیس بک پر اُنہیں بھی سچی محبت مل جایا کرتی ہے جنہیں بازار میں کوئی خراب خربوزہ تک نہ دے، لیکن بندہ جب ‘ پیج’ کا ایڈمن ہو، تو اسے خصوصی توجہ اپنے آپ مل جایا کرتی ہے۔ فیس بک کی دنیا میں پیج ایڈمن یا گروپ ایڈمن کی محبوبہ کی وہی اہمیت ہوتی ہے جو حقیقی زندگی میںفوجی کی بیوی کی یعنی کہ خاص الخاص شخصیت۔
تو بس بھئی یہاں پیج ایڈمن عرف شہزادہ نے دوست کے کومنٹ پر مسلسل ‘لو ‘ ری ایکٹ کرنا شروع کیا، تو یہاں دوست کے دل کی گھنٹی بج گئی۔ بجتے بجتے آواز مین گیٹ تک پہنچی اور شہر دل کا دروازہ ازخود کھل گیا۔ پھر وہ مکان محبت ڈھونڈ کر محترمہ کے کمرا دل میں گدی نشین ہو بیٹھے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ فیس بکی شہزادے سے سیدھی بادشاہِ دل تک کی ترقی مل گئی۔
محبت شروع ہوئی تو پیج ایڈمن پر دل ہارے بیٹھی کئی سو حسیناؤں کی حس بیدار ہوئی تو کسی نے اسے فوراً سے پیشتر جذبہ ہم دردی کے تحت بھابی تسلیم کرلیا، تو کچھ جذباتی ہوکر پیج چھوڑ گئیں جب کہ درمیان والی کبھی بھابی کے کومنٹ کو لائک کرکے بھائی کی توجہ سمیٹتی کہ وقت پڑنے پر شہزادے کے دل کی مرہم پٹی کرسکیں اور پھر خاتون اوّل یعنی کہ بھئی پیج ایڈمن کی محبوبہ ہونے کا درجہ پاسکیں۔ کیا کہا ایسا نہیں ہوتا؟
آپ ذرا ادبی قسم کے میاں و بیوی مطلب خواتین و حضرات ہیں۔ ورنہ تو میری بات سے مکمل اتفاق کرتے، لیکن ایک مثال تو یہاں یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ کسی ایسے حضرت کو لیجیے جسے ہم دردی بٹورنے کا شوق ہو اور پھر مرنے مرانے کی باتیں بھی کرتا ہو، تو پھر وہاں خواتین کی ہم دردیاں دیکھیں۔ ہر خاتون و دوشیزہ انہیں غمِ بیکراں کے سمندر سے نکالنے کو بے تاب نظر آئے گی ( اس بات سے بے خبر کہ حضرات سمندر عشق میں غوطے لگانے کا کئی سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔)
خیر اس سب سے الگ ہم فیس بکی محبت کے پروان چڑھنے پر بھی کسی دوراہے کا شکار نہیں!
محبت سہیلی کے دل میں جڑ پکڑنے لگی، تو غیر مردوں کو ایڈ کرنا تو دور سہیلی کے لیے ان کا کومنٹ لائک کرنا بھی ممنوع ٹھہرا۔ دوسرے معنوں میںآئی ایس آئی کا ایسا ایجنٹ ان کے پیچھے لگ گیا جو چوبیس گھنٹے ان کی چوکیداری کرتا رہتا۔ ساتھ ہی فیس بکی خدا کے طور پر اس کی آئی ڈی کا کرتا دھرتا بھی بن گیا۔ ہمیں علم ہوا، تو شکر کا کلمہ پڑھا کہ اپنی کوئی تصویر محترمہ کو فیس بک کے ذریعے ارسال نہیں کی تھی۔خیر ان کی محبت کی شدتیں بڑھیں، تو بات میسجز، واٹس اپ اور فون کالز سے آگے بڑھ کر ملاقات تک آپہنچی ۔ ملاقات کی سبیل ہمارے ذریعے نکل سکتی تھی سو انہیں ہمیں یاد کرتے ہی بنی۔ ہم مرتے کیا نہ کرتے کہ مصداق اگلے ہفتے کا پلان ترتیب دے بیٹھے اور وہ اپنے بلیچ، فیشل وغیرہ پر دن رات صرف کرنے لگیں۔ ایک روز عورتوں کے حمام خانے ( پارلر) میں بھی ہو آئیں۔
متوقع ملاقات کے روز ہم بس میں بیٹھے شہر کے مشہور ترین پارک میں جا پہنچے اور شہزادے صاحب کے انتظار میں نگاہیں داخلی دروازے پر جما دیں۔ دل کی دھڑکنیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں، چہرے پر قوس قزاح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے، مسکراہٹ تھی کہ ایک پل کے لیے ہونٹوں سے جدا ہی نہ ہورہی تھی اور ہم نقاب لگائے ان کی چوکیداری پر معمور ہوگئے کہ تب ہی ایک طرف سے ایک ہینگر ہوا کے دوش پر ہلتا ہلتا ہماری طرف آتا دکھائی دیا، تو دوست کی تمام تر حسیں بیدار ہوتے دیکھ کر ہم بھی چوکنا ہو بیٹھے۔ اتنا تو علم تھا کہ شہزادے صاحب انتہائی نازک طبیعت کے انسان ہیں، لیکن کس قسم کے ہوں گے کیا علم تھا؟ ہمیں لگا کہ یہ جو خاصا اسمارٹ سا بندہ کلف زدہ اکڑی شرٹ اور نئی نویلی پینٹ کے سہارے چلا آرہا ہے وہ آگے گزر جائے گا، لیکن جب دوست کے نزدیک آکر رکا، تو ہم نے صدمے سے سہیلی کے چہرے کا طواف کیا اور جس کے بعد اندازہ ہوگیا کہ وہ ‘ سویٹ سیلفی’ کے خالقوں سمیت ان کے پرکھوں تک کو گالیوں سے نواز رہی ہوگی کیوں کہ ان کا ردعمل بھی ہم سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ وہ حیران سی اس کلف زدہ شخص کو دیکھتی رہی جو سویٹ سیلفی کے استعمال سے دھوکے دے کر حسن کے قصیدے سن سن کے ہوا میں اڑ رہا تھا اور آج زمین پر آنے کے بعد وہ آدھا جسم ہوا میںہی چھوڑ آیا تھا۔ بہ قول شہزادے صاحب کے کہ وہ پچھلے دنوں اس قدر بیمار ہوئے کہ اب آدھے رہ گئے ہیں۔ ساتھ ہی دوائیوں نے ان کا رنگ کچھ سیاہی مائل کردیا ہے۔
اتنے میں بھی گزارا ہوجاتا، اگر وہ گفتگو کرنے کے فن سے آشنا ہوتے۔ سہیلی کو سمجھنے میں ذرا دیر نہ لگی کہ جن پوسٹس کو پڑھ پڑھ کر وہ پھولی نہ سماتی تھیں اوردوسرے پیجز پڑھ پڑھ کر ہنستی تھی کہ ان کے محبت نامے دنیا اپنے اپنے بگڑے کام سنوارنے کے لیے استعمال کیا کرتی ہے۔ ان کے خالق ابھی تک گمنام ہی ہیں! وہ نہ جانے کیا کیا باتیں کررہا تھا، لیکن ہماری سہیلی تھی کہ اپنی ازلی شرمیلی فطرت کے باعث ان کی جانب نگاہ اٹھا کر نہ دیکھ پارہی تھی، لیکن ان کے چہرے کے زاویوں سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ گھڑی کی ٹک ٹک سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں ہے۔ وہ بھی ہماری طرح چھے فٹ کے قد سمیت مکمل ہیرو کے خواب دیکھا کرتی تھی اور شہزادہ گلفام کو دیکھ کر تمام تر خوابوں کے شرمندہ تعبیر کرنے کی تدبیر ناکام نظر آئی تو آنکھوں سے خواب از خود اڑ گئے۔
ملنے کی جس قدر جلدی تھی۔ واپسی بھی اتنی ہی افراتفری میں ہوئی۔ محترم شہزادے نے بہت اصرار کیا کہ کسی ٹو اور تھری اسٹار کیفے سے ایک کپ کافی یاپھر کسی اچھی جگہ سے آئس کریم ہی کھا لی جائے لیکن سہیلی کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ دل کے ساتھ پیٹ بھی بھرچکا ہے۔
خواتین و حضرات واپسی کے سفر پر ہم دونوں نے ہی رنجیدہ و سنجیدہ ہوتے ہوئے ایک ایک فیصلہ کرلیا… سہیلی نے نئی سم مع نیا اکاونٹ بنانے کا فیصلہ کیا جب کہ ہم نے پھوپھی کے بیٹے کے آئے ہوئے رشتے کو قبول کرنے کا جاں گسل کام سر انجام دیا۔
ویسے آپ کا کیا خیال ہے؟ تجربہ کیا کہتا ہے آپ کا؟
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو

Read Next

اسرار — عمارہ جہاں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!