غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

۹۔ آنسو

کہتے ہیں جب ستی دیوی اپنے باپ کے سجائے انگنا کے الاؤ میں جل مریں تو شیواجی ان کی سوختہ لاش اپنے کاندھے پر اٹھائے، غم کے اندھیروں میں لڑکھڑاتے، دنیا میں بھٹکتے پھرے تھے۔ ستی کا خون اور شیوا جی کے آنسو۔ جہاں گرے امر ہوگئے۔ سکیسر کی پہاڑیوں کے اندر ایک تالاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شیوا جی کا آنسو تھا۔ عقیدت منہ اس کے پانی کو شفا بنتا ہے۔ نہ پٹکے تو تیزاب۔ یہ تیزاب دل پر گرتا ہے۔ ایک ایک زخم، ایک ایک یاد، ایک ایک بات کھول کر رکھ دیتا ہے اور پھر قطرہ قطرہ جلاتا ہے۔ تڑپا تڑپا کر مارتا ہے۔
بدرالدجا مر گیا۔ اسمارہ کی آنکھ سے آنسو نہ ٹپکا۔ نہ اس وقت ٹپکا جب اس نے بدر کو سبز قالین پر اوندھے منہ پڑے دیکھا، نہ اس وقت ٹپکا جب اس نے اس کے خون کو بہہ کر اپنے پیروں میں آتے دیکھا۔ اس کے بعد کے واقعات اسمارہ کو ٹکڑوں میں یاد تھے۔ جیسے فلم کا ٹریلر جھلکیوں میں چلتا ہو۔ اسے شجاع بھائی کو اپنا بازو گھسیٹ کر کھینچتا یاد تھا۔ اس کے بعد اندھیرا تھا۔ اگلی یاد گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھی۔ ابو تیز رفتار ی سے گاڑی چلا رہے تھے۔ پھر اندھیرا۔ بی بی جان اس کا بازو پکڑ کر اسے گاڑی سے نکال رہی تھیں ۔
‘کون تھا؟” کسی نے سرگوشی میں پوچھا تھا۔
”پتا نہیں۔” شجاع بھائی نے ٹوٹتی آواز میں کہا تھا
”مگر وہ اسمارہ کا نام بھی لے رہا تھا۔”
یاد کی سکرین پر پھر سے اندھیرا چھایا تھا، اور پھر اگلا سین۔ وہ بی بی جان کی مسہری پر لیٹی تھی، وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے رو رہی تھیں۔ اندھیرا۔ اندھیرا۔ اندھیرا۔
اس کی آنکھ کھلی تو دن چڑھ آیا تھا۔ باہر آسمان روشن تھا مگر اس کے اندر اندھیرا کیوں تھا؟ اس کے کانوں میں کسی کی ہلکی سی آواز پڑی۔ ”رونا ضروری ہے اس کے لیے۔ جنازہ کب ہے؟ اسے لے جائیں۔ شاید وہاں جاکر۔”
اسمارہ کو لگا اس کے دل کو کسی نے لوہے کے بھاری ہتھوڑے سے کچل دیا ہو۔ وہ اذیت ناک یاد جو بے ہوشی نے اس سے دور کردی تھی، پوری طاقت سے اس پر حملہ آور ہوئی۔ بدرالدجا کا جنازہ۔ اسے اٹھ کر کھڑے ہونے کی مہلت بھی نہ ملی۔ اس نے ابکائی لی اور تیزی سے کروٹ بدل کر مسہری کے کنارے پر جھک گئی۔ اس کا پورا جسم جھٹکے کھانے لگا۔ زرینہ دوڑی ہوئی آئیں۔ اسے سنبھالا، منہ پوچھا، ماتھے پر آیا ٹھنڈا پسینہ صاف کیا اور پھر سے لٹا دیا۔ وہ چت لپٹی چھت کر دیکھی رہی۔
”رو لو بیٹی! بہہ جانے دو آنسوؤں کو” زرینہ نے روتے ہوئے کہا۔ اسمارہ خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھتی رہی۔ آج پھر اس کے دل و دماغ نے اسے دوٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا۔ دل تھا کہ اس میں جوار بھاٹا اٹھتا تھا۔ وہ بین کرتا تھا، چلاتا تھا۔ تڑپ، مرکر، پھٹا جاتا تھا اور دماغ تھا کہ دور کھڑا اسے تڑپتے دیکھتا تھا۔
وہ بدر کا آخری دیدار کرنے نہ جاسکی۔ وہ غم نہ مناسکی۔ اندر اٹھتے جوار بھاٹے کو آنسوؤں کا رستہ نہ ملا۔ اندر گرتے آنسو تیزاب بن گئے۔ یہ تیزاب سارا دن قطرہ قطرہ اس کے دل پر گرتا، شگاف ڈالتا، اس کے دل کا آخری ذرہ تک پگھلا ڈالتا اور جب وہ اندر سے ختم ہوجاتی تو اس پر نیند مسلط کردیتا۔ وہ اس نیند کے لیے احسان مند ہوتی، اذیت سے چھٹکارا پانے پر شکر گزار ہوتی مگر جب سے نیند سے اٹھتی تو دل اپنی تمام بافتوں، خلیوں اور یادوں کے ساتھ دوبارہ پہلے کی طرح تعمیر ہوچکا ہوتا۔ قطرہ قطرہ تیزاب پھر سے گرنے لگتا۔
وقت بے معنی ہوگیا۔ دن اور رات اپنی پہچان کھو بیٹھے۔ دن کس لیے تھا، رات کس لیے، اسے کچھ پتا نہ چلتا تھا۔ وہ سوتی، جاگتی، تڑپتی، مرتی رہی۔ اس کا وران اس تیزی سے گررہا تھا کہ وہ دنوں میں ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئی تھی۔ پانی بھی بیتی تو الٹیوں میں نکل جاتا۔ اسے انجکشن دیئے جاتے، ایک پہر کا آرام آتا اور پھر سے وہی۔ اسے ڈاکٹر کے مشورے پر سائیکالوجسٹ کے پاس لے جایا گیا۔ سائیکالوجسٹ نے تمام حالات سن کر تجزیہ کیا ۔”کلینکل ڈپریشن ہے انہیں۔ الٹیاں آنا، نیند آنا۔ یہ سب علامات ہیں کہ دماغ خود پر گزرنے والی ٹریجڈی سے ایڈجسٹ نہیں کرپارہا۔”
اسمارہ خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی۔
”آنسو کیوں نہیں نکلتے آپ کے؟” ڈاکٹر نے پوچھا۔
”پتا نہیں۔” اسمارہ نے خشک آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے آہستہ سے جواب دیا۔
”رونا چاہتی ہو؟” ڈاکٹر نے پوچھا۔ وہ خاموش رہی۔
”کیا سوچیں آتی ہیں دماغ میں؟” ڈاکٹر نے نیا سوال کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ اب بھی خاموش رہی۔
ڈاکٹر نے اپنا سوال دوہرایا۔ ”کیا خیال آتے ہیں ذہن میں؟ کیا تصویریں دکھاتا ہے دماغ؟”
وہ ہچکچائی۔ ”بچپن کی یادیں۔”
ڈاکٹر نے سرہلایا جیسے سمجھ گیا ہو۔ ”بچپن کی باتیں۔ جانتی ہو کیوں؟”
اسمارہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”دماغ اس غم کے ساتھ ڈپل نہیں کرپارہا۔ وہ اس سے نظریں چرا کر وہ وقت اور یادیں سامنے لارہا ہے جو تمہاری زندگی کا سب سے carefree وقت تھا۔ تم اسے راہِ فرار کہہ سکتی ہو۔”
لیکن ڈاکٹر نہیں جانتا تھا کہ اس کی سوچوں کی ہر راہ بدرالدجا پر ختم ہوتی تھی۔ وہ کچھ بھی سوچتی، کچھ بھی یاد کرتی، ہر یاد کی بھول بھلیاں اسے بدر تک لے جاتی تھیں۔ دماغ اسے بچپن میں بی بی جان کا لاڈ پیار یاد کرواتا اسے یاد آتا لوگ کہتے تھے۔ ”یہ تو بالکل دادی جیسی ہے!” اور اچانک ایک جملہ اس کے کانوں میں گونجتا ۔”شیرو کی دادی سے کہو تمہیں ساتھ لے آئیں۔” اس کا سانس بند ہونے لگتا۔ دماغ فوراً دوسری یاد نکال کرپیش کرتا… بھائیوں کے ساتھ کھیل کود، گرنا، چوٹ لگنا، بھائیوں کا کہنا’۔ ‘خبردار جو روئی!” اور ساتھ ہی بدر کی آواز۔ ”تمہاری سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم روتی نہیں۔” اسے اپنا بلی کا بچہ یاد آتا جو گاڑی کے نیچے آکر مرگیا تھا، جیسے بدرالدجا مر گیا تھا۔ وہ نہ اپنے بلی کے بچے کو بچا سکی نہ اپنے بدر کو۔ اس نے بچپن میں ایک مرتبہ اس کی جان بچائی تھی، تو پھر تو وہ اس کی ذمہ داری تھا۔ وہ دوسری مرتبہ اسے سامنے آکھڑی ہوئی ہوگی؟ اسے یاد کیا ہوگا؟ پکارا ہوگا؟ وہ نڈھال ہوجاتی، الٹیاں کرنے لگتی، سوجاتی۔ مگر اس کی آنکھ سے آنسو نہ نکلتا۔
ڈاکٹر نے زرینہ اور محی الدین کو بلا کر انہیں صاف صاف کہہ دیا۔ ”زندگی کی ہر ٹریجڈی کا کلوژر ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ آپ یہ سمجھ لیجیے کہ یہ نیزے کی انی ہے جو دل میں کھب کر ٹوٹ گئی ہے۔ اسے نکالنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اس سے ساری زندگی خون رستا رہے گا۔ آپ اسے جنازے پر لے جاتے تو شاید یہ کلوژر ہوجاتا۔ اب یہ تڑپ رہی ہے مگر اس لاوے کو نکلنے کی راہ نہیں مل رہی۔ آپ اسے بدر کے گھر لے جائیے۔ اس کا کمرہ، اس کی چیزیں دکھائیے۔ شاید وہ ان کے ذریعے اسے الوداع کہہ سکے۔”
جس دن بی بی جان اسے بدر کے گھر لے کر گئیں، سورج چمکتا تھا، ہوا ساکت تھی اور فضا میں اتنی ویرانی تھی کہ بھاگ جانے کو جی چاہتا تھا۔
مہناز اسے گلے لگا کر رونے لگیں۔ ان کی حالت ویسی ہی تھی جو ایک ماں کی ہوسکتی تھی۔ ایمن اس کے پاس بیٹھی رہی۔
”علیزے کے بھائی نے کیا قتل کیوں کہ وہ اسے کسی اور کا ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔” ایمن نے روتے ہوئے اسے بتایا۔ وہ خاموشی سے اسے تکے گئی۔
”وہ تمہیں بھی مارنا چاہتا تھا۔ تمہارا نام لے کر پوچھا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ مگر اس کے ساتھ آیا گارڈ اسے کھینچ کرلے گیا۔” ایمن نے سسکیوں کے بیچ اسے بتایا۔
اسمارہ کا دل سکڑ کر پھیلا۔ کاش وہ اس وقت اس کے ساتھ رہتی۔ اس نے اس سے اپنے ساتھ بھنگڑا ڈالنے کی فرمائش کی تھی۔ کاش اس نے اس کا ہاتھ جھٹک نہ دیا ہوتا تو آج وہ یہاں اکیلی نہ رہ گئی ہوتی۔ آخری لمحوں میں بھی اس نے اسے بلایا تھا، نظروں میں التجا کی تھی اور آخری لفظ، آخری پیغام، آخری اشارہ جو اسمارہ نے اسے کیا تھا وہ ”نہیں” تھا اور اس نے تو اسمارہ کو بتایا بھی تھا کہ اس خواب میں خود کو گولی لگتے دیکھا تھا۔ بالکل اس طرح سر میں جیسے اسے لگی تھی۔ پھر اس نے اسے کیوں نہیں بچایا؟ اسے سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا؟ اس کے ساتھ ہنس مذاق کیوں کرتی رہی؟ وہ اس کے ساتھ رہتی۔ اس کا سایا بن جاتی تو شاید وہ اس بے دردی سے نہ مارا جاتا۔ اذیت نے پچھتاوے کا روپ دھار لیا۔ تیزاب اور شدت سے گرنے لگا۔
ایمن رو رہی تھی۔ اسمارہ کھڑکی سے نظر آتے گھر کے باغ کو دیکھتی رہی۔ بدر کو گارڈننگ کا شوق تھا۔ وہاں اس کے ہاتھوں کے لگائے پھول کھلے تھے۔ اسمارہ نے لان میں بدر کے پالتو کتے ہیزل کو دیکھا۔ وہ سر پنجوں پر رکھے پام کے سائے تلے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ویسی ہی ویرانی تھی جیسی پورے گھر پر چھائی تھی۔ اسمارہ کی نظریں محسوس کرکے اس نے سر اٹھا کر اسمارہ کو دیکھا۔ اسے لگا جیسے وہ پوچھتا ہو بدر کہاں ہے؟ اسمارہ نے نظریں پھیرلیں۔ بدر نہیں تھا۔ وہ ہیزل کو چھوڑ گیا تھا، اس گھر کو چھوڑ گیا تھا، اسمارہ کو چھوڑ گیا تھا۔
٭…٭…٭
دن گزرے، راتیں گزریں۔ دن ہفتے بنے… ہفتے مہینے… تاریخیں بدلیں… موسم بدلے… نہ بدلا تو اسمارہ کا حال نہ بدلا۔ اس نے زندگی کا دروازہ خود پر بند کیا تو زندگی نے بھی دستک دینے کی زحمت نہ کی، بے نیازی سے آگے بڑھ گئی۔ اس کی صحت اس قابل نہ رہی تھی کہ یونیورسٹی جاسکتی۔ ماں باپ نے کہا ۔”تمہارے سر سے وار کے صدقہ کیا ایک سال۔ اگلے سال تھیسس کر لینا۔” وہ خاموش سے سنتی رہی۔ وہ بھائی جو اس کے ساتھ دھول دھپے کے عادی تھے، اب اسے شفقت سے گلے لگاتے، پاس بیٹھتے، ہنسانے کی کوشش۔ وہ سنجیدگی سے ان کی باتیں سنتی رہتی۔ بی بی جان سوچتی نظروں سے اسے دیکھتی رہتیں، اس کے دوائیاں بنائیں، اسے اکیلا نہ رہنے دیتیں۔
محرم آیا تو وہ اسے خاص طور پر بیان سنوانے لے گئیں۔ جانے سے پہلے انہوں نے اسے بٹھا کر سمجھایا۔ ”کربلا سے بڑی مصیبت کبھی کسی پر نہیں ٹوٹی۔ نہ کوئی اس سے بڑا غم ہے نہ جہاں میں اس سے بڑھ کر ہمت، صبر اور حوصلے کی داستان۔ آؤ آج آلِ رسول ۖ کے غم پر آنسو بہاؤ۔ تمہارے غمزدہ دل کو قرار آجائے گا۔”
وہ بیانِ کربلا سنتی رہی۔ اس کے دماغ نے سنگدلی سے اس کے ساتھ وہی لکا چھپی کا کھیل کھیلنا شروع کیا۔ بچپن کی یادیں، یادوں میں ہنسی، ہنسی میں آنسو۔ اور پھر اس کے آنسو دل پر گرنے لگے۔ آنکھ سے گرجاتے تو شاید اس اذیت میں کمی ہوتی۔
بیان ختم ہوا تو وہ باقی عورتوں کے ساتھ اس چبوترے کی سیڑھیوں پر آکھڑی ہوئی جس کے سامنے سے ذوالجناح کو گزرنا تھا۔ اس نے دور سے ذوالجناح کو آتے دیکھا۔ ایک ٹرانس کے عالم میں وہ سیڑھیاں اتری اور چلنے لگی۔ اردگرد ہجوم تھا، روتا ہوا، غم مناتا ہوا ہجوم۔ پھر اس نے ذوالجناح کو دیکھا۔ باقر بھائی اس کی رسی تھامے آتے تھے۔ وہ عین اس کے رستے میں کھڑی تھی۔ اس نے باقر بھائی کو چلاتے دیکھا۔ وہ اسے کچھ کہہ رہے تھے۔ اس نے سننے کی کوشش کی۔ ”اسمارہ ہٹ جاؤ۔ اسمارہ سامنے سے ہٹ جاؤ۔” باقر بھائی ذوالجناح کے ساتھ تھے مگر ہجوم کے بہاؤ میں وہ اسے روک نہیں سکتے تھے۔ اسمارہ رستے سے نہ ہٹتی تو کچلی جاتی۔ باقر بھائی کا سانس پھول رہا تھا۔ وہ پوری قوت سے بازو گھما کر اسمارہ کو ہٹنے کا اشارہ کررہے تھے۔ ”اسمارہ ہٹ جاؤ! اسمارہ ہٹ جاؤ!” وہ بت بنی کھڑی رہی۔ آنکھ کے کونے سے اس نے اپنی ماں کو سیڑھیوں پر بے ہوش ہوکر گرتے دیکھا۔ جن سیڑھیوں پر کبھی سفید پوش درویش بیٹھا کرتا تھا، آج وہاں اس کا باپ بیٹھا تھا اور اس کے آنسو اس کی داڑھی کو ترکر رہے تھے۔ اسمارہ بے حسی سے کھڑی رہی۔ باقر بھائی نے اسے دھکا دینے کو ہاتھ اٹھایا مگر دے نہ سکے اور پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ ذوالجناح عین اسمارہ کے سامنے آکر رک گیا۔ جو کبھی نہیں رکا تھا، آج تھم گیا۔ اسمارہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر اس کی گردن میں بازو ڈال دیئے۔ سنا ہے اس روز وہاں پورے دوگھنٹے ماتم ہوا تھا۔
٭…٭…٭
۱۰۔ فرض، قرض، مرض

محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرنا ہے۔
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں، طغیانی نہیں جاتی۔
اسمارہ کے آنکھ سے آنسو نہ بہے لیکن دل میں دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی لہریں گنتی تھی اور اذیت ہستی تھی۔ اس کی طبیعت سنبھل گئی تھی۔ کھانا بھی کھانے لگی تھی۔ سب کے درمیان بیٹھتی بھی تھی مگر اس کی خاموشی نہ ٹوٹی تھی۔ سب ہنستے بولتے۔ وہ خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھتی رہتی۔
زہرہ راجہ اس سے ملنے آئیں۔ کتنی ہی دیر اسے گلے سے لگائے رکھا۔ بہت دیر اس کے ساتھ بیٹھی ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں۔ زندگی کی باتیں، محبتوں کی باتیں، لاسی رنگ میں رنگی نرمی بھری باتیں۔ جاتے جاتے انہوں نے اس کا ہاتھ تھام کر چوما۔ ”خود پر رحم کرو۔” انہوں نے بے حد درد مندی سے کہا۔ وہ سر جھکائے ان کے ہاتھ میں تھامے اپنے ہاتھ کو دیکھے گئی۔ انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ ”خود پر نہیں تو اپنے ماں باپ پر رحم کرو۔” وہ چونک گئی۔ اتنی تکلیف دے رہی تھی وہ اپنے ماں باپ کو کہ اب لوگوں کو بھی نظر آنے لگا تھا؟
اس رات اس نے فون کھولا اور ایک ایک کرکے بدر کی تمام تصویریں اور میسجز ڈیلیٹ کرنے لگی۔ وہ تمام نظمیں جو اس نے اسے بھیج تھیں، وہ تمام تصویر، تشکر کے پیغامات، زندگی کے وہ سب لمحے جو وہ اس کے ساتھ شیئر کیا کرتا تھا۔ وہ شعر جو وہ اسے اٹھتے بیٹھتے سنایا کرتا تھا۔ وہ کرب کے ایک نئے الاؤ میں اتر کر انہیں ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکالنے لگی۔ ایک میسج پر پہنچ کر اس کی انگلیاں رک گئیں۔ بدر نے اسے ایک شعر بھیجا تھا۔
کرو کج جبیں یہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہوہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا۔
ایک گھنٹے بعد زرینہ اسے دیکھنے اس کے کمرے میں آئیں تو فرش پر بے ہوش پڑی تھی اور فون اس کے ہاتھ سے گرکرٹوٹ چکا تھا۔ اس کے دل کی طرح۔
٭…٭…٭
شہیر بی بی جان کے سامنے فرش پر بیٹھا تھا۔ اس کا سر ان کے گھنٹوں پر رکھا تھا۔ بی بی جان کے ایک ہاتھ میں تسبیح تھی۔ دوسرے ہاتھ سے وہ شہیر کا سر تھپک رہی تھیں۔
”میں نے دیر کردی!” وہ بڑ بڑایا۔ بی بی جان نے گہری سانس لی۔
”میں انتظار کرتا رہا کہ کچھ بن جاؤں، خود کو اس کے قابل کرلوں۔ معلوم ہوتا کہ آگ لوگ اتنی جلدی کریں گے تو کچھ کہہ دیتا، کچھ کرلیتا۔” اس نے سر اٹھا کر بی بی جان کو دیکھا۔
”اللہ کو اسی طرح منظور تھا۔” بی بی جان نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”لیکن اب… اب” شہیر کے انداز میں بے قراری تھی۔ اس نے بی بی جان کے ہاتھ دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیے۔
”اسمارہ کو مجھے دے دیجئے۔ میں نے پچپن سے اسے چاہا ہے۔ میری زندگی میں ماں باپ، بہن بھائی، سگا سوتیلا کوئی رشتہ نہیں۔ جو بھی ہیں بس آپ ہیں۔ آپ نے مجھ پر ہمیشہ احسان کیا ہے۔ ایک احسان اور کردیجئے۔ اسمارہ کو مجھے دے دیجئے۔” وہ گڑ گڑا رہا تھا۔
”ابھی ان باتوں کا وقت نہیں ہے شہیر حسین۔” بی بی جان نے سنجیدگی سے کہا۔ ”اس کی شادی ہونے والی تھی۔ اس نے اپنے آنکھوں کے سامنے اپنے منگیتر کو بے دردی سے قتل ہوئے دیکھا۔ قاتل تو اس کے بھی درپے تھا مگر وہ بچ گئی۔ ابھی وہ اس کی دہشت سے نہیں نکلی۔ پھر ظاہر ہے صدمہ بھی ہے۔ ابھی اتنی جلدی اسے کسی نئے رشتے میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔”
”تو پھر مجھ سے وعدہ کیجئے۔ جب بھی آپ کوئی فیصلہ اسمارہ کے لیے کریں گے، میرا حق مقدم رکھیں گے۔” وہ بے قراری سے التجا کررہا تھا۔ اس کی آنسو بھری آنکھوں میں تڑپ تھی۔
”ہاں بیٹا۔ ہمیں تم سے بڑھ کر کون ہے بھلا؟ لیکن اسمارہ کی شادی اس کی مرضی سے ہوگی۔ اگر وہ راضی ہوئی تو تمہارا ہی حق مقدم ہے۔” بی بی جان نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کرکہا۔
”میں اسے بہت خوش رکھوں گا بی بی جان۔ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ اب سے نہیں بچپن سے۔ میں اس پر آنچ بھی نہیں آنے دوں گا۔” اس کے آنسو اب اس کے گالوں پر لڑھک آئے تھے۔
بی بی جان نے ہلکے سے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔” ہاں شہیر حسین۔ مجھے معلوم ہے۔”
٭…٭…٭
آج وہ بڑے دنوں کے بعد زرینہ کے پاس کچن میں آکھڑی ہوئی تھی۔ وہ اسے وہاں دیکھ کر خوش ہوگئیں۔
”اچھا ہوا تم آگئی۔ میں بھی سوچ ہی رہی تھی کہ بریانی کو دم تو میری بیٹی کے ہاتھ کا لگنا چاہیے۔” انہوں نے مسکرا کر اس سے کہا۔ وہ سعادت مندی سے دیگچے میں چاولوں کی تہہ لگانے لگی۔ زرینہ اسے دیکھے گئیں۔ اسے دیکھ کر ان کا دل کٹتا تھا۔ اس کے چہرے پرزردی تھی۔ آنکھوں کے نیچے حلقے تھے۔ نہ کچھ کہتی تھی نہ دل کا حال سناتی تھی۔ اور کہتی بھی کیا؟ کس منہ سے ماں باپ سے کہتی کہ میں محبت اور محبوب کا سوگ مناتی ہوں۔ لیکن وہ ماں تھیں، بیٹی کے دل کا حال جانتی تھیں۔
”تم یونیورسٹی کب جانا شروع کروگی؟” انہوں نے پوچھا۔
وہ پوچھنا چاہتی تھیں ۔”تم زندگی کی طرف کب لوٹو گی؟” مگر پوچھا تو ایک عام سا سوال۔
”چلی جاؤں گی۔” اسمارہ نے آہستہ سے کہا۔
”کب؟” انہوں نے پوچھا۔
وہ خاموش رہی۔ اب وہ زیادہ تر باتوں کے جواب میں خاموش رہتی تھی۔ دیگچے کا ڈھکنا رکھ کے اس نے نگاہ اٹھائی تو اپنی ماں کا چہرہ دیکھ کر اسے دھکا سالگا۔ اسے خود پر افسوس ہوا۔ کتنے امتحان میں ڈال دیتا تھا اس نے اپنے ماں باپ کو۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ”میں جاؤں گی امی۔ بس ذرا میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ ٹھیک ہوتے ہی جاؤں گی۔”
زرینہ کوشش کرکے مسکرائیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی مسکراہٹ کی حقیقت معلوم تھی۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہی تھیں۔
٭…٭…٭
اسمارہ کا عجیب حال تھا۔ تنہائی میں ہوتی تو یادیں، باتیں، آوازیں اسے چین نہ لینے دیتیں۔ اسے تنہا بیٹھنے سے خوف آنے لگتا۔ وہ لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بے قرار ہوجاتی اور جب لوگوں میں آجاتی تو ہر کسی سے وحشت ہونے لگتی۔ دل چاہتا بھاگ جائے اور تنہا کسی کمرے میں بند ہوکر بیٹھ جائے۔ رحم کی وہ صفت جسے وہ اپنے عورت پن کا شاہ تاج سمجھتی تھی، اب اس کے ہاتھ سے سرکنے لگی تھی۔ اسے لوگوں سے، چیزوں سے، دنیا سے اور سب سے بڑھ کر خود سے نفرت ہوگئی تھی۔ وہ جو ”ہم” کے درجے پر پہنچنا چاہتی تھی، اب ”میں” کی سطح سے بھی گر رہی تھی اور بے بسی کے عالم میں خود کو گرتا دیکھ رہی تھی۔
اسی بے بسی کے عالم میں جب وہ اپنی تنہائی سے گھبرا کر بی بی جان کے پاس بیٹھنے آ رہی تھی، اس نے ان کے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اپنا نام سنا۔ وہ وہیں رک گئی۔ ”مجھ سے کہنے لگا میں اسمارہ کو بچپن سے چاہتا ہوں۔” بی بی جان کی آواز آئی۔ اسمارہ کا سانس بند ہوگیا۔ کس کی بات کررہی تھیں بی بی جان۔
”بہت رویا، منت سماجت کرتا رہا۔ ایک ہی بات کہتا رہا اسمارہ کو مجھے دے دیجیے، اسمارہ کو مجھے دے دیجیے۔” بی بی جان کہہ رہی تھیں۔
”کپڑے کی گڑیا تو نہیں ہے اسمارہ کہ اٹھا کر دے دیں اسے۔” زرینہ کی آواز میں ناگواری کی جھلک تھی۔
”کہا میں نے اسے۔” بی بی جان کی آواز آئی
”میں نے کہا شہیر حسین پر وقت ابھی ان باتوں کا نہیں۔”
اسمارہ کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ وہ سُن کھڑی اندر سے آتی آوازیں سنتی رہی۔
”شہیر؟ شہیر؟ آؤ بدرالدجا دیکھو تمہارے چھوڑے ہوئے مالِ غنیمت کو کون لوٹنے کو آیا ہے۔”
اندر بی بی جان کہہ رہی تھیں۔ ”لیکن زرینہ ہمیں اسمارہ کی شادی کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں تو کرنی ہے۔ ابھی صدمہ نیا ہے مگر سنبھل ہی جائے گی۔ شہیر گھر کا بچہ ہے۔ پھر چاہت رکھتا ہے۔ اگر اسمارہ اور شہیر کا رشتہ ہوجاتا ہے تو میرا فرض اور قرض ایک ساتھ ادا ہوجائیں گے۔”
اسمارہ وہیں کھڑی خالی الذہن کے عالم میں اندر ہونے والی باتیں سنتی رہی۔ کون سے قرض کی بات کررہی تھیں بی بی جان، اسے اس بات کی پروا نہیں تھی۔ اندھوں کی طرح راستہ ٹٹولتی وہ مڑی اور صحن کی طرف چل دی۔صحن کی پرلی دیوار کے ساتھ بی بی جان کے تخت پر شہیر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ کسی ہارے ہوئے شخص کی طرح، کسی گہری سوچ میں گم۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی اس کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ شہیر نے سراٹھایااور اسے دیکھ کر چونک گیا۔ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”اسمارہ” اس نے سسکتی ہوئی آواز میں صرف ایک لفظ کہا۔ اس ایک لفظ میں ہزاروں التجائیں تھیں۔ لاکھوں امیدیں تھیں۔
”میں بدر کی جگہ آپ کو نہیں دے سکتی شہیر بھائی۔” اسمارہ نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز آہستہ تھی لیکن اس میں صدیوں کے نوحے گونجتے تھے۔
”میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اسمارہ۔” شہیر نے تڑپ کرکہا۔
”لیکن میں نہیں کرتی شہیر بھائی۔ میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔” اس نے اسی آہستہ آواز میں کہا اور مڑ کر آہستہ قدموں سے چلتی اندھیرے میں گم ہوگئی۔ شہیر دیر تک وہیں کھڑا اس برآمدے کو دیکھتا رہا جہاں وہ گم ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
وہ گول کمرے میں بیٹھی تھی۔ کسی نے آکر بتی جلا دی۔ اس کی آنکھیں یکدم چند ھائیں۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھایا تو سامنے محی الدین کھڑے تھے۔ اس نے انہیں دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک خوبصورت ڈبہ تھا۔ وہ انہوں نے اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے خاموشی سے تھام لیا۔
”تمہاری سالگرہ کا تحفہ۔” انہوں نے شفقت سے کہا۔ اسمارہ سوچنے لگی۔” میری سالگرہ آج تھی؟ نہیں آج تو نہیں، پھر کب ہے میری سالگرہ؟” اس نے ذہن پر زور دینے کی کوشش کی۔ اِسے یاد نہیں آیا، محی الدین اس کا چہرہ دیکھتے رہے جس پر اس کی ذہنی کشمکش عیاں تھی۔
”تین دن بعد ہے تمہاری سالگرہ۔” انہوں نے اس کی مشکل آسان کی ۔”مگر میں نے سوچا یہ تحفہ آج ہی دے دوں۔ کل کی کیا خبر؟” وہ خاموش ہوگئے۔ وہ ڈبہ ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔
”دیکھو گی نہیں؟” انہوں نے پوچھا۔ وہ چونکی اور ڈبہ کھولا۔ مدر آف پرل کی انتہائی خوبصورت چھوٹی سی ڈش تھی جس کے کناروں پر سونے کی جالی تھی اور اس میں ننھے فیروزے جڑے تھے۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ محی الدین کو مایوسی ہوئی۔ یہ انٹیک انہوں نے بہت مشکلوں سے منگوایا تھا۔ منہ مانگی قیمت ادا کی تھی اس کے لیے۔ ان کی بیٹی آرٹ کی قدر دان تھی۔ یہی تحفہ انہوں نے اسے چھے مہینے پہلے دیا ہوتا تو وہ خوشی سے اچھل پڑی، ہنستے ہوئے ان کے گلے لگ جاتی۔ اسے اس طرح خاموش بیٹھے دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا۔
”پسند آیا؟” انہوں نے آس سے پوچھا۔
”جی۔” اسمارہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
بہت دیر دونوں باپ بیٹی خاموش بیٹھے رہے۔ وہ کچھ کہتی، روتی، دل کا حال سناتی تو وہ اس سے کچھ کہتے، سمجھاتے۔ پر اب کیا کریں؟ وہ سب کچھ اپنے دل میں رکھے بیٹھی تھی۔ ان کے بس میں ہوتا تو اپنا سب کچھ دے کر بیٹی کے چہرے پر رونق واپس لے آتے، اس کی چہکاریں جن سے کبھی یہ گھر گونجتا تھا، اسے لوٹا دیتے۔
”کیا کرو گی تم اپنی برتھ ڈے پر؟” انہوں نے بات چیت کی ایک اور کوشش کی۔
”کچھ بھی نہیں۔” اس سے سادگی سے جواب دیا۔
”کیوں؟ کچھ بھی کیوں نہیں؟” انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ خاموش رہی۔
”کب تک تم اپنی زندگی کو یوں اندھیرے میں بند کیئے بیٹھی رہو گی؟” انہوں نے نرمی سے پوچھا۔ وہ اب بھی خاموش رہی۔ اس نے اپنی زندگی کو یوں اندھیروں میں بند نہیں کیا تھا، اندھیرے آکر اس کی زندگی کو نگل گئے تھے۔
”تمہیں اندازہ ہے کہ تمہیں اس حال میں دیکھ کر تمہارے ماں باپ پر بیتتی ہے؟” محی الدین نے پوچھا۔ وہ سرجھکائے بیٹھی رہی۔
”میں جانتا ہوں جو ہوا وہ بہت ٹریجک تھا۔ کسی کو بھی دہشت زدہ کردیتا۔ مگر تم تو میری بہت بہادر بیٹی ہو۔ میرا دل روتا ہے تمہیں یوں دیکھ کر۔ آٹھ مہینے ہوگئے اس واقعہ کو۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں بیٹی یونیورسٹی کیوں نہیں جارہی؟ گھر میں بند کیوں ہوگئی ہے؟ مجھے لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں مگر وہی سوال میں خود بھی پوچھتا ہوں۔ جو دل میں ہے وہ کہو۔ ہمیں اس طرح اذیت مت دو۔” محی الدین کی آواز بھرا گئی۔
اسمارہ نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ اسے خود پر شرم آئی۔ خود پر لگائی ہوئی دفعات میں ایک دفعہ کا اضافہ اور ہوگیا۔
”کوئی بات نہیں ہے ابو۔ بس ذرا میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ ٹھیک ہوجائے گی تو میں یونیورسٹی جوائن کرلوں گی۔” اس نے تسلی دینے کی کوشش کی۔ مگر اس تسلی کا مصنوعی پن اتنا نمایاں تھا کہ دونوں کو ہی اس پر یقین نہ آیا۔ محی الدین نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اسے گلے لگا لیا۔ وہ ان کے سینے سے لگے ان کے اندر اٹھنے والی سسکیاں محسوس کرتی رہی اور تب اسے خیال آیا کہ آج اس نے زندگی میں دوسری مرتبہ اپنے باپ کو روتے دیکھا تھا اور دونوں مرتبہ ان کے آنسوؤں کی وجہ وہ تھی۔
٭…٭…٭
اس کی سالگرہ آئی، گزر گئی، عید آئی گزرگئی۔ اس کے کلاس فیلوز کے امتحان ہوئے، ان کی گریجویشن آئی، گزر گئی۔ لیکن اسمارہ کے لیے وقت وہیں ٹھہرا رہا۔ چار سال کی محبت کو وہ چند مہینوں میں نہیں بھلا سکتی تھی۔ یہی حال اس کے ماں باپ کا تھا۔ انہوں نے نازوں پلی بیٹی سے زندگی بھر محبت کی تھی، وہ اسے اس طرح آہستہ آہستہ ختم ہونا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ اسے ہنستے بولتے دیکھنا چاہتے تھے۔ چاہتے تھے کہ وہ زندگی جینا شروع کرے، پڑھائی کرے۔ اس کی شادی ہو، وہ اپنے گھر میں ہنستی بستی نظر آئے۔ مگر اس کی خاموشی نہ ٹوٹتی تھی۔ بیٹی کی نہ ٹوٹنے والی خاموشی نے باپ کو توڑ کر رکھ دیا۔
ہارٹ اٹیک دن میں ہوا۔ فوراً ہسپتال لے جایا گیا، شاید اسی لیے ان کے جان بچ گئی۔ اگر کہیں رات کو ہوتا تو اتنے شدید ہارٹ اٹیک سے شاید وہ جانبر نہ ہوپاتے۔ اسمارہ سفید چہرے کے ساتھ ICU کے باہر کھڑی، دروازے کی چھوٹی سی کھڑکی سے اندر باپ کو بے ہوش پڑے دیکھتی رہی۔ کوئی اندر جاتا یا باہر آتا تو دھکا لگنے سے وہ وہاں سے ہٹ جاتی مگر پھروہیں جا کھڑی ہوتی۔ وہاں کھڑے کھڑے اس کے پاؤں سوج گئے۔ وہ وہاں کھڑی ایک ہی بات سوچتی رہی، اپنے باپ کو اس حال میں پہنچانے کی ذمہ دار وہ تھی، جس طرح بدر کی موت کی ذمہ دار وہ تھی۔
”آخر کتنوں کی جان لو گی اسمارہ؟” وہ سنگدلی سے خود سے پوچھتی تھی۔
”کتنوں کو خود سے محبت کی سزا دوگی؟ تمہاری خود غرضی نے بدر کی جان لی۔ تمہاری محبت سچی ہوتی تو اپنے نہیں اس کے بارے میں سوچتیں۔اسے اپنی طرف کھینچنے کے بجائے علیزے سے شادی کے لیے کہتیں۔ اکیلی تو تم آج بھی ہو مگر بت کم از کم وہ تو زندہ ہوتا۔”
پچھتاوے کا الاؤ دن رات اس کے گرد جلتا تھا۔ اب بھی وہ اپنے باپ کو مشینوں کے حصار میں پڑا دیکھ کر اسی آگ میں جل رہی تھی۔
”میں آج بھی اتنی ہی غود غرض ہوں جتنی پہلے دن تھی!” اس نے خود اذیتی سے سوچا ۔”میری خود غرضی اور بے پروائی نے بدر کی جان لی۔ آج میرے باپ کی جان لے گی۔ وہ مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں انہیں یہ خوشی دوں گی۔ میری بے کار زندگی کسی کام تو آئے۔”
جس دن محی الدین گھر آئے، اس رات اسمارہ بی بی جان کے پاس گئی۔ اس نے سفید پڑے ہونٹوں پر سسکتی ہوئی مسکراہٹ سجا رکھی تھی۔
بی بی جان کی مسہری کے پاس کھڑے ہوکر اس نے صرف اتنا کہا۔ ”بی بی جان آپ شہیر بھائی کو ہاں کر دیجیے۔”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!