غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

۸۔ رنگ

”رنگ ہارے گوریا تیرے محلوں میں رنگ ہیں
آتجھے مہندی لگاؤں میں لالوں لال لالوں لال۔”
اسمارہ ڈھولکی بجانے والی لڑکیوں کے پاس بیٹھی تھی۔ ایمن کی شادی ہورہی تھی۔ ہر روز ڈھولکی رکھی جاتی تھی۔ آج چونکہ بدرالدجا کو آنا تھا اس لیے آج کا فنکشن بڑے بیمانے پر کیا گیا تھا۔ اسمارہ نے کلائی اٹھا کر ٹائم دیکھا۔ فلائٹ آچکی تھی۔ وہ گھر پہنچنے والا ہوگا۔ وہ بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے قالین پر بیٹھی دروازے پر نگاہ جمائے ہوئے تھے۔
بدرالدجا کی گریجویشن ہوگئی تھی۔ گریجویشن کی تصویروں کے ساتھ اس نے اسمارہ کو ایک چھوٹی سی ویڈیو بھیجی تھی جس میں وہ ایک شاپنگ مال میں کھڑا تھا اور ایک کراپ چیکٹ ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی۔ سیاہ جیکٹ پر سفید دھاریاں تھیں اور بڑے خوبصورت سنہری بٹن لگے تھے۔
”میری جمیلہ کے لیے۔” بدر نے جیکٹ کیمرے کو دکھاتے ہوئے کہا ”بلیک اینڈ وائٹ… بیسٹ آپشن۔” وہ دیکھ کر ہنستی رہی تھی۔ بدر نے اس سے پوچھا تھا کہ اگر وہ کسی اور رنگ میں کچھ چاہتی ہے تو اسے بتائے۔ مگر اسمارہ نے اس کے بلیک اینڈ وائٹ پر ہی اکتفا کیا تھا۔ پنک اس نے کبھی پہنا نہ تھا، سرخ رنگ وہ صرف اپنی شادی پر پہننا چاہتی تھی اور کسی اور رنگ کے لیے اسے بدر پر بھروسہ نہ تھا۔ وہ کہتی کچھ اور وہ کچھ اور اٹھا لاتا۔ بلیک اینڈ وائٹ واقعی بیلٹ آپشن تھی۔
وہ وہاں بیٹھی ڈھولکی پر بجنے والا نیا گیت سنتی رہی۔
آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری
اے ری سکھی ری میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری
جگ اجیا رو جگت اجیا رو
میں تو ایسو رنگ اور نہیں دیکھی رے
میں تو جب دیکھوں مور سے سنگ ہے ری
آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری
اسمارہ کو یوں لگا یہ گیت صرف اس کے لیے گایا جارہا ہے۔ آج اس کے گھر میں رنگ تھا اور وہ خود اپنے محبوب کے رنگ میں مکمل طورپر رنگی گئی تھی۔ وہ وہاں بیٹھی اپنی engagement ring دیکھتی رہی۔ اس کی رِنگ میں ایک ہی ڈائمنڈ تھا۔ جیسے بدر الدجا دنیا میں صرف ایک تھا۔ پوری دنیا میں بدر جیسا کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ جگ اجیار وجگت اجیارو، میں تو ایسو رنگ اور نہیں دیکھی رے۔
لاؤنج کا دروازہ کھلا اور ایمن کے ساتھ بدرالدجا اندر داخل ہوا۔ اس کی نظر نے تیزی سے لاؤنج کا جائزہ لیا اور اسمارہ پر آکر ٹھہر گئی۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے چہرے پر طلوع ہوئی۔ اسمارہ کا دل اس کے کانوں میں آن ٹھہرا۔ واقعی بدر جیسا کون ہوسکتا تھا؟
ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی فنکشن ہونے لگا تھا۔ بدر کی گریجویشن اور ایمن کی شادی کی خوشی میں بی بی جان نے بھی انہیں ڈنر پر بلایا۔ اب چونکہ وہ آفیشل منگیتر تھا اس لیے اب وہ بنا اعتراض کھلے عام اسمارہ کو تحفہ دے سکتا تھا۔
رات کو وہ اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کہ اس کا فون آگیا۔ اس سے باتیں کرتے کرتے ہی اسمارہ نے اس کے لیے ہوئے گفٹس کھولنے شروع کیے۔ ایک تو وہ بلیک اینڈ وائٹ جیکٹ تھی جس کی ویڈیو وہ اسے بھیج چکا تھا۔ کچھ جیولری تھی اور ایک بے حد خوبصورت گولڈن کلچ تھا۔ اسمارہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی۔
”گولڈن؟ یہ بلیک کیوں نہیں ہے؟” اس نے پوچھا۔
”بلیک کے علاوہ بھی رنگ نظر آتے ہیں مجھے۔” بدر نے برامان کر کہا۔
اسمارہ ہنسنے لگی۔ ”ہاں آف کورس۔ بہت خوبصورت ہے یہ۔” وہ خوش ہوگیا۔
”خوبصورت ہے نا؟ یہ تم شادی پراستعمال کرنا، دلہن بن کے۔” اس نے کہا۔
”یہ بریسلٹ بھی بہت خوبصورت ہے۔” اسمارہ پیکٹس کھول رہی تھی اور ساتھ ساتھ تبصرہ کررہی تھی۔
”بس مجھے جو چیز اچھی لگی میں لیتا گیا۔” وہ بتا رہا تھا۔
اسمارہ نے آخری پیکٹ کھولا اور اس میں موجود چیز کو دیکھ وہ ہکا بکا رہ گئی۔
”بے بی جیکٹ؟” اس کے منہ سے شدید حیرت کے عالم میں نکلا۔ ایک ڈیڑھ سال کے بچے کے سائز کا فارمل سیٹ تھا۔ سفید پینٹ، سفید قمیض اور سفید لائنز والی بلیک جیکٹ جس پر سنہری بٹن لگے تھے۔
”یہ کس کے لیے؟” اسمارہ نے حیران ہوکر پوچھا۔
”میرے بیٹے کے لیے۔” بدر نے آرام سے کہا۔
”کون سا بیٹا؟” اسمارہ نے بھونچکا ہوکر پوچھا۔
”شیر دل” کھٹاک سے جواب آیا۔
”شیر دل؟” اسمارہ نے حیرت سے دوہرایا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”یار یہ جیکٹ اس جیکٹ کے ساتھ پر فیکٹلی میچ کرتی تھی جو میں نے تمہارے لیے لی تھی۔ میں نے فوراً خریدلی۔ بعد میں پھر پتا نہیں ملے نہ ملے۔ ہمارا بیٹا ہوگا تو اسے پہناؤں گا۔ پھر میں نے نام بھی سوچ لیا۔ شیر دل۔” بدر نے سنجیدگی سے بے بی جیکٹ کی توجیح پیش کی۔
”مجھے تو پسند نہیں آیا۔” اسمارہ نے منہ بنا کر کہا۔
”کیا؟ جیکٹ سیٹ؟” اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
”نہیں یہ نام۔ شیر دل بھی کوئی نام ہے؟” اسمارہ نے ناک چڑھا کر کہا۔
”ارے بڑا خوبصورت نام ہے! لڑکوں کے نام ایسے دلیرانہ اور مردانہ ہی ہونے چاہئیں۔” بدر نے تسلی دی۔
”یہ تمہیں لمبے لمبے نام رکھنے کا کیا شوق ہے؟ جیسے بدرالدجا۔ صرف بدر کیوں نہیں؟
”صرف بدر میں وہ بات نہیں جو بدرالدجا میں ہے۔ اسی طرح صرف شیر میں وہ بات نہیں جو شیر دل میں ہے۔ شیر دل بدرالدجا۔”
”میں تو نہیں رکھوں گی یہ نام!” اسمارہ نے احتجاج کیا۔
”میں تو یہی رکھوں گا اور پیار سے اسے شیرو بلایا کروں گا!” اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”خود سوچو شیر دل بدرالدجا کتنا لمبا نام ہے۔ چار نام ہوگئے یہ تو۔ اگر تم نے یہ نام رکھنا ہے تو اس کے نام کے آگے میں اپنا نام لگا دوں گی۔” اسمارہ نے ناراضگی سے کہا۔
”یعنی شیر دل اسمارہ؟” وہ حیران ہوا۔
اسمارہ کو ہنسی آگئی۔ ”نہیں شیر دل محی الدین۔”
”محی یادین؟” بدر نے معصومیت سے پوچھا۔
اور اسمارہ لاجواب ہوگئی۔ وہ بے اختیار ہنس پڑی۔ وہ بھی اس کی ہنسی میں شریک ہوگیا۔
٭…٭…٭
وہ اکلوتے لاڈلے بیٹے کی ہونے والی بیوی تھی لہٰذا ایمن کی شادی کے لیے اس کے کپڑے سسرال سے آئے۔ مہناز اس سے ذرا لیے دیئے رہتی تھیں۔ مگر انہیں دنیا کی بہت پروا تھی۔ دنیا دکھاوے کو ہی سہی وہ اس کے ساتھ تعلق داری کی تمام رسمیں نبھاتی ضرور تھیں۔
وہ ان کے پاس ہی بیٹھی تھی کہ بدر کا میسج آیا۔
”کیا کررہی ہو جمیلہ؟” اس نے پوچھا۔
”اپنی ساس کے پاس بیٹھی ہوں جیسی۔” اس نے شرارت سے کہا۔
”شیرو کی دادی سے کہو تمہیں ساتھ ہی لے آئیں۔” اس نے مشورہ دیا۔
”شرم کرو۔” اسمارہ نے جوابی نصیحت کی۔
”جس نے کی شرم، اس کے پھوٹے کرم۔” اس نے انکشاف کیا۔
”اچھا سنو۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ ہماری شادی کی بات بھی کرآئیں۔” آخری میسج آیا۔ اسمارہ نے مسکرا کر فون رکھ دیا۔ مہناز نے اٹھتے اٹھتے سرسری طور پر شادی کی بات کی اور وہ بھی اس طور کہ بدر انٹرن شپ کے لیے امریکہ واپس جائے گا۔ اس کی واپسی پر شادی کے بارے میں سوچیں گے۔ بی بی جان نے بھی جواباً واضح کردیا کہ اسمارہ کی گریجویشن سے پہلے وہ شادی نہیں کریں گے۔ خیر اس میں بھی بس سات آٹھ مہینے ہی رہ گئے تھے۔
لیکن اصل بات تو اسے چپکے سے ایمن نے بتائی۔
”یہ جو تمہارے منگیتر صاحب ہیں نابدرالدجا، دل توڑنے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں آج کل۔” ایمن نے اس کے ساتھ بیٹھے سرگوشی میں اسے بتایا۔
”کیا مطلب؟” اسمارہ نے چونک کر پوچھا۔
”علیزے۔ وہ ان صاحب کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہے۔ ان کو فون کرکے خوب لڑی جھگڑی، روئی دھوئی۔ شادی کرنے پر مجبور کرتی رہی۔” ایمن بتا رہی تھی اور اسمارہ دم سادھے سن رہی تھی۔ اسے بدر پر غصہ آیا۔ کرکے آیا ہوگا اس کے ساتھ بھی ایسی ہی نرمی بھری باتیں۔ جمیلہ کہا ہوگا اسے خوامخواہ تو پیچھے نہیں پڑ گئی وہ۔
”اس کے باپ نے پاپا کو فون کرکے بدر کے لیے بہت سی آفرز بھی کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیٹی کو بدر پسند آگیا ہے اور آج تک ایسا نہیں ہوا کہ بیٹی کی پسند کی چیز انہوں نے لا کر اس کی جھولی میں نہ ڈالی ہو۔ اب وہ بدر کے لیے جو گ لینے کو تیار ہے اور وہ اسے اس طرح غمزدہ نہیں…” بات کرتے کرتے ایمن کی نظر اسمارہ کے دھواں ہوتے چہرے پر پڑی۔ وہ بے اختیار پچھتائی۔ شاید اسے ان باتوں کا علم نہیں تھا جو منگنی ہونے سے پہلے گھر میں ہوتی رہی تھیں۔ اسی لیے اسے اتنا شاک لگا تھا۔ اور اگر اسے بدر نے یہ سب نہیں بتایا تھا تو اسے بھی نہیں بتانا چاہیے تھا۔
”لیکن تم فکر مت کرو۔ کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔ یہ وقتی جذبات ہوتے ہیں بے وقوف لڑکیوں کے۔ بدر ایسی کسی چیز سے متاثر ہونے والا نہیں ہے۔” وہ اسے تسلیاں دیتی رہی۔ اسمارہ خاموش رہی۔
بدر نے فون کیا، اسمارہ نے نہیں اٹھایا۔ اس نے میسجز کیے۔ اسمارہ نے جواب نہیں دیا۔ وہ شجاع سے ملنے کے بہانے گھر آیا، اسمارہ کمرے میں بند ہوگئی۔
تائی جان کے گھر ایمن کے لیے ڈھولکی رکھی گئی۔ اس نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کیا لیکن مہناز کا فون آنے پر مجبوراً جانا پڑا۔ بدر اس کے انتظار میں ہی کھڑا تھا۔ اس نے چہرے پر نو لفٹ کا بورڈ لگایا اور بی بی جان ے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ وہ دور دور سے اسے دیکھتا رہا اور پریشان ہوتا رہا۔ کچھ دیر بعد ایمن آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی۔ ”آؤ اسمارہ تمہیں اپنی جیولری دکھاؤں۔”
اسمارہ خوب سمجھتی تھی کہ وہ اسے کون سی جیولری دکھانے لے کر جانا چاہتی ہے مگر وہاں سب کے سامنے بیٹھے وہ اپنی نند کو انکار نہیں کرسکتی تھی۔ ایمن اسے پچھلے برآمدے میں لے آئی۔ توقع کے عین مطابق وہاں بدرالدجا اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔
”لو بھئی میں لے آئی ہوں اس کو۔ اب کر لو جو بھی بات کرنی ہے۔” ایمن نے گویا اسے بدر کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ جاتے جاتے اس نے اسمارہ کے کان میں سرگوشی کی۔ ”اچھی طرح پوچھ گچھ کرلو، چھوڑنا مت۔”
اسمارہ چہرے پر غصہ سجائے کھڑی رہی۔ بدرالدجا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھا دیا۔
”ناراض ہو؟” اس نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں!” کھٹاک سے جواب آیا۔
”Good!” بے ساختہ بدر کے منہ سے نکلا۔ اسمارہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
”نہیں میرا مطلب ہے اچھا ہے بات صاف ہوگئی کہ تم ناراض ہو۔” وہ جلدی سے بولا۔ اسے ویسے بھی اسمارہ کی یہ بات پسند تھی کہ گھما پھرا کر بات نہیں کرتی تھی۔ جو بات دل میں، وہی زبان پر، بدر کو اس کی باتوں سے معنی اخذ نہیں کرنے پڑتے تھے۔ دوسری طرف اسمارہ کو اس سے اس غداری کی امید نہیں تھی کہ وہ اس سے اتنی بڑی بات چھپائے گا۔
”تم نے مجھے علیزے والی بات کیوں نہیں بتائی؟” اسمارہ نے غصے سے پوچھا۔
”پاگل ہے یار وہ!ہمارے پاس کرنے کے لیے اپنی باتیں ہی بہت ہیں۔ اس کو کیوں بیچ میں لائیں؟” بدر نے کہا۔
”تم اس سے اچھی اچھی باتیں کرتے تھے؟” اسمارہ نے ناراضی سے پوچھا۔
”تو اور کیا بری بری باتیں کرتا؟” بدر نے حیران ہوکر کہا۔
”نہیں لیکن تم اس کو جتا دیتے کہ تم انٹرسٹڈ نہیں ہو۔” اسمارہ نے غصے سے کہا۔
”کوشش تو بڑی کی تھی۔” بدر نے گویا خود کلامی کی۔ اس کے انداز میں ایسی حیرت تھی کہ یا یقین نہ آتا ہوہ اتنی کوشش کے بعد بھی وہ اس کے پیچھے کیوں پڑی تھی۔
”تم نے اسے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتایا؟” اسمارہ نے تفتیش جاری رکھی۔
”ہاں۔” بدر نے اعتراف کیا ”وہ کچھ پوچھتی تھی تو بتانا ہی پڑتا تھا۔”
”تم اسے شعر سناتے تھے؟” اسمارہ کا غصہ بڑھتا جارہاتھا۔
”ہاں ایک دوبار کوشش کی تھی۔” بدر نے اعتراف کیا۔
”بائیکس اور گاڑیوں کی باتیں کیں تم نے اس کے ساتھ؟” وہ تلملا رہی تھی۔
”ہاں۔ جواب میں اس نے اپنے پسندیدہ کپڑوں کے برانڈ گنوانے شروع کردیئے۔” بدر نے ٹھنڈی سانس بھری۔
”تم اسے جمیلہ کہتے تھے؟” یہ آخری اور سب سے اہم سوال تھا۔
”نہیں۔ ایک بار بھی نہیں۔ تمہاری قسم۔” وہ بے ساختہ بولا۔
اسمارہ کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ دونوں کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
”تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا۔” اسمارہ نے آہستہ سے کہا۔
”تم کیا کرلیتیں؟” بدر نے اس کا گھٹنا چھو کر پوچھا۔
”تم اسے صاف صاف بتا دو کہ تم کسی اور سے محبت کرتے ہو۔” اسمارہ نے دھچے لہجے میں کہا۔
”بتایا تھا۔ جواب میں اس کے باپ کا فون آگیا پاپا کو۔” بدر نے لاپروائی سے کہا۔
”آنٹی کیا کہتی ہیں؟” اسمارہ نے بجھے دل سے پوچھا۔
”وہ جو بھی کہتی ہیں انہیں چھوڑو۔ تم یہ سنو کہ میں کیا کہتا ہوں۔” بدر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ ”یہ دیکھو میرا دل کیا کررہا ہے۔ اسمارہ… اسمارہ… اسمارہ۔” وہ ہنس پڑی۔
”مجھے تو صرف دھک دھک کی آواز آرہی ہے۔” اس نے ناز سے ہاتھ چھڑا کر کہا۔
”ٹھیک سے سنو۔ دیکھو یہ دل کہہ رہا ہے۔
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے
رہی فراغتِ ہجراں تو ہورہے گا طے
تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے۔”
وہ مسکرا کر اندر بجتی ڈھولکی کی آواز سنتی رہی۔ ہاں ٹھیک ہی تو ہے۔ ہورہے گا طے، جو جو مقام رہتا ہے۔
٭…٭…٭
”اپنے کپڑے پسند کرنے ہیں میں نے۔” وہ آج پھر اس کی یونیورسٹی میں موجود تھا۔
”تو کرو!” اسمارہ نے سموسہ کھاتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔
”تم کرو!” فرمائش آئی۔
”میں کیوں؟کپڑے تم نے پہننے ہیں یا میں نے؟” اس نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
”یار تم کتنی بے کار منگیتر ہو۔ نہ میرے ساتھ ڈنر پر جاتی ہو نہ شاپنگ پر۔” اس نے گلہ کیا۔ وہ سنی ان سنی کیے سموسہ چٹنی میں ڈبوتی رہی۔
”اور میں بھی تو تمہارے کپڑے پسند کے لایا کرتا تھا۔” اس نے ایک اور شکوہ کیا۔
”کون سے کپڑے؟ صرف بلیک کوٹ۔ اب تک چار بلیک کوٹ ہوچکے ہیں میرے پاس۔” اسمارہ نے تصحیح کی۔
”کتنا تنگ کرتی ہو تم مجھے۔ پہلے ہی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” وہ بڑبڑایا۔
”طبیعت کو کیا ہوا؟ بخار ہے؟” اب کے وہ چونکی۔ وہ خاموش رہا۔
”کھانسی زکام، پیٹ درد؟” وہ پوچھے گئی۔
”دل میں درد ہے۔” اس نے منہ لٹکا کر کہا۔
”انجائنا کا؟” اسمارہ کی شرارت کی رگ پھڑکی۔
”نہیں، انجانا سا۔” اس نے ڈرامائی انداز میں کہا۔ دونوں ہنسنے لگے۔
”کیا علاج ہے اس انجانے سے درد کا؟” اس نے ہنس کر پوچھا۔
”تمہارے ساتھ شاپنگ!” بدر نے فوراً علاج بتایا۔
”سوری اس درد کی دوا میرے پاس نہیں۔” اسمارہ نے کندھے اچکائے۔ ”کسی اور کے پاس جاؤ۔”
”کسی اور کے پاس گیا تو تم مارو دوگی مجھ غریب کو۔” اس نے معصومیت سے کہا۔
”ہاں یہ تو ہے۔” اسمارہ نے اتفاق کیا۔
”مارنے سے یاد آیا۔ کل میںنے بڑا عجیب خواب دیکھا۔” بدر کو یاد آیا۔
”کیا دیکھا؟”
”میں نے دیکھا مجھے گولی لگ گئی ہے ،سر میں۔” اس نے منہ لٹکا کر بتایا۔
”اے بدر!” وہ اچھل پڑی
”تمہیں پتا ہے اس کی کیا تعبیر ہے؟”
”کیا؟ جلدی بتاؤ۔ پچھلی دفعہ کے بعد تمہاری بتائی تعبیروں پر یقین کرنے لگا ہوں میں۔” اس نے جلدی سے کہا۔
”تمہیں بہت جلد کوئی بہت اچھی جاب ملنے والی ہے۔” اسمارہ نے ایکسائیٹڈ ہوکر کہا۔
”واقعی؟” وہ حیران ہوا۔
”ہاں نا! یہ نئی شروعات کا اشارہ ہے۔”
”اچھا؟” وہ خوش ہوگیا ۔”یہ کہاں سے نکالتی ہو تم تعبیریں؟”
”ابو کی لائبریری میں ایک بہت پرانی کتاب ہے خواب اور ان کی تعبیر اسی کو پڑھتی ہوں۔” اسمارہ نے دوسرا سموسہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”اتنے سموسے نہ کھاؤ موٹی ہوجاؤ گی۔ ویسے میں نے ایک دو جگہ اپلائی تو کیا ہے۔ ایک دو سال وہاں پریکٹس کرلوں تو زبردست CV بن جائے گی میری۔ تم چلو گی میرے ساتھ امریکہ؟”
”تمہارے ساتھ تو دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤں گی جیسی۔” اسمارہ نے پیار سے کہا۔
”تو پھر مارکیٹ چلو!” بدر نے فوراً فرمائش کی۔
”نہ!” اسمارہ نے نفی میں سر ہلایا۔ ”شادی کے بعد جہاں دل چاہے لے جانا۔ اس سے پہلے میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی۔”
”کیسی جمیلہ ہے؟ کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی!” وہ بڑبڑاتا رہا۔ اسمارہ بے نیازی سے اپنا سموسہ کھاتی رہی۔
٭…٭…٭
بی بی جان نے اسے کمرے میں بلایا۔ وہ آج ایک بار پھر اپنی مسہری پر زیورات کے ڈبے کھولے بیٹھی تھیں۔ وہ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔
”وہ لوگ سال کے اندر اندر شادی کرنا چاہتے ہیں۔ تم یہ زیور دیکھ لو۔ ان میں کون سا تم شادی کے دن پہنو گی؟ اس کے ساتھ اپنے جوڑے کا آرڈر کردینا۔ باقی جن زیوروں کے ساتھ بھی کپڑے بنوانا چاہتی ہو، بنوالو۔” انہوں نے زیورات کے ڈبے کھولتے ہوئے کہا۔
اسمارہ اشتیاق سے زیور دیکھنے لگی۔ اس کی نظر سیدھی کندن کے سیٹ پرپڑی۔ اسے بدر کا خیال آیا اگر وہ اس سے پوچھتی کہ شادی کا جوڑا کس رنگ کا بنوائے تو وہ کہتا سفید بنوالو۔ لیکن وہ لال جوڑا پہننا چاہتی تھی۔ اس نے ہمیشہ خود کو سرخ زرتار جوڑے میں دلہن بنے دیکھا تھا۔ اس نے مسکرا کرروبی اور زمرد جڑا سیٹ اٹھا لیا۔ خاصا وزنی سیٹ تھا۔
بی بی جان نے اس کا انتخاب دیکھا تو فخر سے مسکرائیں۔ ”میں نے اپنی شادی پر یہی سیٹ پہنا تھا۔” انہوں نے چمکتی آنکھوں سے جڑاؤ گلوبند کو دیکھتے ہوئے کہا ”یہ دیکھو اس کے ساتھ کی ماتھا پٹی۔” بی بی جان اسے زیور دکھاتی رہیں۔ کنگن، پہونچیاں، جھومر، ایک سے ایک خوبصورت زیور تھا ان کے خزانے میں۔
”یہ سب میرے ہیں۔” یہ سوال نہیں تھا۔ خوشی اور رشک میں گندھا ایک جملہ تھا۔
بی بی جان ہنس پڑیں ”سب تمہارے ہیں۔ یہ میرا جدی پشتی زیور ہے۔ میری نانی کی پڑنانی تک کی چیزیں اس میں شامل ہیں۔ اس سے کئی نسلوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ تم بیٹی ہو قدر کروگی۔”
”اتنے خوبصورت زیوروں کی تو ہر کوئی قدر کرے گی بی بی جان۔” اسمارہ نے ایک جڑاؤ آئینے میں اپنے کان میں پہنا جھمکا دیکھتے ہوئے کہا۔
”نابھئی آج کل کی لڑکیوں کا کیا بھروسہ۔ ماڈرن چیزیں پسند کرتی ہیں۔ کیا پتا پرانا کہہ کر بیچ دیں یا پڑوا لیں۔ ”بی بی جان نے منہ بنا کر کہا۔ ”پھر جذباتی وابستگی کی بھی تو بات ہے” یہ باتیں اسمارہ بچپن سے سنتی آرہی تھی۔ بی بی جان کا زیور، ابو کی پینٹنگز اور نایاب اینٹیک اسمارہ کی امانت تھے کیونکہ وہ بیٹی تھی اور بیٹیاں قدر کرنا جانتی ہیں۔
”بہوؤں کے لیے نئے زیور بنوانے پڑیں گے آپ کو!” اسمارہ ہنس کے کہا۔
بی بی جان کہے گئیں۔ ”خاندان میں بھی کوئی لڑکی نہیں کہ ان لڑکوں کے لیے دیکھ لوں۔ باہر سے ہی لانی پڑیں گی بہوئیں۔ خیر سے تم اپنے گھر کی ہو تو میں شہیر کے بارے میں بھی کچھ سوچوں۔ اس کا فرض بھی تو میرا ہے۔ ماں ہوتی تو چاؤ کرتی۔ یہاں تو نہ باپ کو پروا ہے نہ کسی اور کو۔” لیکن اسمارہ نہیں سن رہی تھی۔ وہ تو خیالوں میں اپنا ویڈنگ ڈریس ڈیزائن کررہی تھی۔ اپنا لال جوڑا۔
٭…٭…٭
آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری
مورے خواجہ کی نگری میں رنگ ہے ری
آج اسمارہ کو یوں لگ رہا تھا اس کی زندگی میں ہر رنگ ہے۔ ایمن کی مہندی تھی اور وہ رنگوں روشنیوں میں نہائی اس محفل میں کسی گیسٹ آف آنر کی طرح تھی۔ آج اس نے سبز جوڑا پہنا تھا مگر اس کا دل بہت سے رنگوں کی بہار سے سجا تھا۔ خوشی کا رنگ، محبت کا رنگ، پیا ملن کے انتظار کا رنگ۔ اسے زندگی قوسِ قزح کی مانند لگتی تھی۔ رنگ ہارے گوریا تیرے محلوں میں رنگ ہیں۔ صرف ایک لال رنگ کی کمی تھی، وہ بھی آنے والا تھا، مہندی کی صورت، سہرے کے پھولوں کی صورت، لال جوڑے کی صورت۔” آتجھے جوڑا پہناؤں میں لالوں لال لالوں لال!” وہ گنگناتی رہی۔
کسی نے اسے پکڑ کر بدرالدجا کے ساتھ کھڑا کردیا۔ تصویریں کھنچ رہی تھیں، ہنسی مذاق ہورہا تھا۔
”ڈانس کرو گی میرے ساتھ؟” بدر الدجانے اس کی طرف جھک کر پوچھا۔
”پاگل ہوگئے ہو؟” اسمارہ نے گھربا کر کہا۔
”ہاں۔ چار سال سے تمہارے پیچھے پاگل ہورہا ہوں۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ بتاؤ کرو گیڈانس؟” وہ پوچھ رہا تھا۔
”نہیں!” اسمارہ نے مسکراہٹ روکنے کی کوشش کرتے ہوئے بے اعتنائی سے کہا۔
”دیکھو! میں بھنگڑا ڈالتا ہوں، تم کتھک کرلو۔” بدر نے مشورہ دیا۔
”نہیں!” وہ اس کے پاس سے ہٹ کر زرینہ کے ساتھ جابیٹھی۔
مہمان آتے رہے۔ رونق میں اضافہ ہوتا رہا۔ خوشبوؤں اور رنگوں کی بہار تھی جو اس عظیم الشانe Marque میں اتر آئی تھی۔ لڑکیوں نے ڈھولک بجانا بند کردیا تھا۔ ساؤنڈ سسٹم پر میوزک لگایا جارہا تھا۔ ڈانس کی تیاریاں تھیں۔ اسمارہ نے دور سے بدر کو لڑکوں میں گھرے کھڑے دیکھا۔ کتنی ہی دیر وہ اسے دیکھتی رہی۔ بدر کی نظر اٹھی اور دونوں کی نظریں ملیں۔ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ بدر نے اسے آنے کا اشارہ کیا۔ اسمارہ نے ہنس کر نفی میں سرہلایا۔ بدر کے چہرے پرالتجا ابھری۔ اسمارہ نے دوسری دفعہ ہنستے ہوئے انکار کیا۔ اسی وقت مہناز کسی عورت کے ساتھ اس کے پاس آئیں۔ اسمارہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ مہناز نے ان خاتون سے اسمارہ کا تعارف کروایا۔ وہ ان سے باتیں کرنے لگی۔
گولی چلنے کی آواز کسی قیامت کی طرح آئی۔ آواز کے بعد ایک سیکنڈ کی خاموشی کی لہر اور پھر اس کے بعد چیخوں کی آوازیں۔ مہناز دھواں دھواں چہرے کے ساتھ ان آوازوں کی طرف لپکیں۔ اسمارہ نے لوگوں کو بھاگتے دیکھا۔ عورتیں چیخ رہی تھیں اور پھر اس نے اس ہجوم میں سے شجاع بھائی کو بھاگتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا۔ وہ چیخ چیخ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ اسمارہ کے کان سائیں سائیں کررہے تھے۔ شجاع بھائی کا رنگ سفید کیوں پڑ رہا تھا؟ کیا ہوا تھا؟ گولی کس نے چلائی تھی؟
شجاع بھائی نے اس کے پاس پہنچ کر اسے گھسیٹ کر فرش پر گرادیا۔
”اٹھنا مت اسمارہ! اٹھنا مت!” وہ چلائے۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس کے سکے اوپر حصار بنا لیا تھا۔
”کیا ہوا ہے شجاع بھائی؟ کس کو؟کس کو؟” لیکن وہ ان کے جواب کا انتظار نہیں کرسکتی تھی۔ اسے جاننا تھا، اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا، یقین کرنا تھا کہ اس کے واہمے غلط ہیں۔ کہ سب ٹھیک ہے۔ وہ تڑپ کر ان کے ہاتھوں سے نکلی اور تیر کی طرح اس جمگٹھے کی طرف لپکی جہاں سے دل چیر دینے والی چیخیں بلند ہورہی تھیں۔ اس نے اپنے پیچھے سے شجاع بھائی کوچلا چلا کر اپنا نام پکارتے سنا۔ اندھوں کی طرح راستہ بناتے وہ وہاں پہنچی جہاں کس کو گولی لگی تھی۔ اس نے دھکا دے کر سامنے کھڑے شخص کو پیچھے کیا اور کسی کے پیروں میں الجھ کر گرتے گرتے بچی۔ قالین پر مہناز بے ہوش پڑی تھیں اور ان کے برابر میں بدرالدجا اوندھے منہ پڑا تھا۔ آخری چیز جو اسمارہ نے دیکھی وہ رنگ تھے۔ سبز قالین کا رنگ اور اس کے اوپر بہتے سرخ خون کا رنگ۔ خون جو بدرالدجا کے سر سے بہہ کر پیروں میں آرہا تھا۔ لالوں لال لالوں لال۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!