غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

۷۔ سوزو ساز

اسمارہ نے کھڑکی کھول کر گلی میں جھانکا۔ وہ وقت پر پہنچی تھی۔ بارات گزر رہی تھی۔ ڈھول بج رہا تھا، نوٹ وار کر پھینکے جارہے تھے۔ اسمارہ نے جھک کر دلہا کی شکل دیکھنے کی کوشش کی۔ ”افوہ بے چارہ بڑا ہی بدشکل دلہا تھا!” اس نے جھرجھری لی۔” پتا نہیں کیسے شادی کرلیتی ہیں لڑکیاں ایسے بدشکل مردوں سے؟” اسے بدر کا خیال آیااوربے اختیار اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔” بدر تو بڑا ہینڈسم ہے بھئی!” پہلے پہل جب وہ کوئی بارات گزرتے دیکھتی تھی تو اسے اپنی شادی کا خیال آتا تھا۔ وہ خود کو زرتار جوڑے میں دلہن بنا دیکھتی تھی، دلہا بس ایک بے چہرہ، موہوم سا خیال ہوتا تھا جو اس سین میں ایک جملۂ معترضہ کی طرح موجود ہوتا تھا۔ اب تصور میں اس دلہا کی جگہ بدر نے لے لی تھی۔
پچھلے ساڑھے تین سالوں سے دونوں کی دوستی اور محبت اس طرح قائم تھی اور اس میں اسمارہ سے زیادہ بدر کا ہاتھ تھا۔ وہ تیز مزاج تھی، وہ نرم خوتھا۔ وہ نڈر تھی، جلدباز، کسی چیلنج کو قبول کرتی تو بغیر سوچے سمجھے اس میں کود پڑتی۔ وہ ہوش مند تھا۔ اسے چیزوں کا، حالات کا پریکٹیکل رخ دکھاتا رہتا تھا۔ وہ ”میں” تھی، وہ ”ہم” تھا۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ پہلے پہل وہ صرف اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوا تھا، پھر پسند کرنے لگا اور پھر محبت، یہ محبت وقت کے ساتھ ساتھ کم نہیں ہوئی تھی، بڑھی تھی۔ کیونکہ اس محبت میں دوستی اور اعتماد کا رنگ غالب تھا۔ وہ بدر کے لیےtwo in one دوست تھی۔ ایک ایسا دوست جس سے لڑکوں والے ہر شوق پر بات کی جاسکے اور ساتھ ہی جس کی دوستی زندگی کو محبت اور نزاکت بھری گرمجوشی سے بھر دے۔
وہاں کھڑکی میں کھڑے کھڑے اس نے مسکرا کر ہاتھ میں پکڑے فون پر بدر کا مسیج کھولا جو آج صبح آیا تھا۔ پچھلے تین سال سے یہ اس کی روٹین تھی۔ روز صبح اٹھ کر وہ فون کھولتی تو اس میں بدر کا مسیج ضرور ہوتا تھا۔ لاہور اور شکاگو کا بارہ گھنٹے کا فرق تھا۔ وہ ہر رات سونے سے پہلے اسے آخری مسیج کرتاتھا جو اس کے لیے صبح کا پہلا پیغام ہوتا تھا۔ اکثر وہ اسے اپنی کوئی نئی نظم بھیجتا، کبھی صرف ایک شعر، کبھی کوئی تصویر، کبھی کوئی ویڈیو۔ لیکن ہر مسیج کا اختتام ہمیشہ ایک ہی بات پر ہوتا تھا۔ تشکر پر …یہ اس کے لیے ایک ritual تھا، ایک رسم جو تہہ دلِ سے منائی جاتی تھی۔ ہر روز وہ اسے بتاتا کہ آج وہ کن چیزوں کے لیے شکر گزار ہے اور وہ اس سے پوچھتا کہ آج اس کے دن میں، اس کی زندگی میں ایسی کون سی بات، خیال یا چیز ہے جس کے لیے وہ دل خوشی اور تشکر محسوس کررہی ہے اور سچ تو یہ تھا کہ یہی ایک چیز تھی جو اس کی زندگی میں بہت مثبت توانائی بھر دیتی تھی۔ ہر وقت شکر گزاری کا احساس، ہر چیز کو نئی نظر سے دیکھنا۔ ہر جذبے، ہر تحفے، ہر نعمت کو اپنا حق سمجھ کر وصولنے کے بجائے تشکر سے، عاجزی سے قبول کرنا۔ ہر نہ ملنے والی چیز پر بھی شکر کرنا۔ آج صبح بھی اس نے اپنی نظم بھیجی تھی، تشکر کی رسم کے ساتھ۔
گرزیست مانندِ رنگ ہوتی
تو زندگی کو اپنی میں رنگ دیتا
سبز
بہارِ نو میں نئی پھوٹتی کونپلوں کا رنگ
تہہ سمندر کی قدیم کائی کا رنگ
باغِ شاہاں کی نایاب گھاس کا رنگ
فراق کا، نراس کا رنگ
نشاطِ وصل کی آس کا رنگ
گرعشتق مانندِ رنگ ہوتا
تو اپنے عشق کو میں رنگ دیتا
نیلا
وسیع آسماں کا رنگ
بحرِ بے کراں کا رنگ
جس کی تہہ میں ان گنت خزانے مستور ہیں
صدیوں سے عشاق کے دستور ہیں
شفاف پانی کا رنگ
جو نہ ملے تو میں نہ رہوں
گرلوگ مانندِ رنگ ہوتے
تو اپنے آپ کو میں رنگ دیتا
خاکی
انکسار کارنگ
دلِ افگار کا رنگ
ترکیب اِنسان کا رنگ
دھرتی مہربان کا رنگ
زرخیز، مضبوط، شفیق
زندگی جس سے نمو پاتی ہے
اور واپس اس میں لوٹ جاتی ہے
تشکر زندگی کے لیے، زندگی کے رنگوں کے لیے، تمہارے لیے
بدرالدجا
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تمہارے لیے!” اس نے لکھا تھا۔ اسمارہ کتنی ہی دیر اس کے نام کو اور پیغام کو دیکھتی رہی۔ مسکرا کر اس نے کھڑکی بند کی اور کمرے سے نکل آئی۔ راہداری سے گزرتے گزرتے اس کی نظر نیچے صحن میں پڑی اور وہ گرتے گرتے بچی۔ صحن میں بی بی جان، قاسم اور شجاع بیٹھے تھے اور ان کے پاس بدرالدجا بیٹھا تھا۔ وہیں کھڑی ستون سے سر ٹکائے وہ اسے صحن میں بیٹھے بی بی جان سے باتیں کرتے دیکھتی رہی۔ اسے خیال آیا کہ جب وہ اس سے پہلی مرتبہ ملی تھی، اس وقت کے مقابلے میں وہ کتنا بڑا بڑا اور میچور لگنے لگا تھا۔ اس نے داڑھی رکھ لی تھی۔ وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ بدرالدجا کی نظر اٹھی اور اس پر پڑی۔ وہ ہلکے سے مسکرایا۔ اسمارہ نے اسے غیر محسوس طریقے سے اپنا فون ہاتھ میں لیتے دیکھا اور پھر اسمارہ کے فون کی مسیج ٹون بجی۔ اسمارہ نے دیکھا۔ بدر کا میسج تھا۔ ”کیا دیکھ رہی ہو جمیلہ؟”
”تمہیں دیکھ رہی ہوں جیسی۔” وہ شرارت سے اسے جیسی کہتی تھی ”یہ داڑھی اچھی لگ رہی ہے تم پر۔ بڑے ہوگئے ہو۔”
اسمارہ نے اسے ہنستے دیکھا ۔
”نیچے تو آؤ” اس نے فرمائش کی۔
”کیوں؟” اسمارہ نے پوچھا۔
”کیوں مطلب؟” وہ حیران ہوا۔
”بغیر اطلاع آنے والوں مہمانوں سے میں نہیں ملتی۔” اسمارہ نے نخرہ دکھایا۔ اس نے اسے نخرہ کرنا سکھا دیا تھا۔ اب بھگتے۔
”یہ ظلم نہ کرو، مرجاؤں گا۔” اس نرمی نے ہی تو اسے مارڈالا تھا۔ اس نے جلدی سے راہداری کی دیوار پر لگے آئینے میں بال درست کیے اور بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگی۔ سیڑھیوں کی پہلی لینڈنگ ایک دوسری راہداری میں کھلتی تھی۔ وہاں اچانک کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ وہ گرتے گرتے بچی۔ اس نے غصے سے پلٹ کر دیکھا۔ شہیر اپنی سخت گرفت میں اس کی کلائی تھامے کھڑا تھا۔ اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں دبا دبا سا غصہ تھا۔
”کہاں جارہی ہو؟” اس نے سختی سے پوچھا۔
”میرا ہاتھ چھوڑیں شہیر بھائی۔ میرا غصہ جانتے ہیں آپ۔” اسمارہ نے سرد مہری سے کہا۔
”میں تو اور بھی بہت کچھ جانتا ہوں۔ اس لڑکے سے تمہارا کیا چکر چل رہا ہے سب پتا ہے مجھے۔”۔شہیر نے تلملا کر کہا۔
”گڈ! خوشی ہوئی سن کے۔” اسمارہ نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر کہا۔
”میں سب کو بتادوں گا۔” وہ غرایا۔
اسمارہ ایک سیڑھی چڑھ کر اس کے مقابل آکھڑی ہوئی۔ آج تک کوئی ایسا مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو اسمارہ کو دھمکی دے، یہ شہیر کس کھیت کی مولی تھا۔
”آپ کیا بتائیں گے، میں خود سب کو بتاؤں گی۔” اس نے شہیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حقارت سے کہا۔ سر اونچا کیے وہ بڑی متوازن چال سے سیڑھیاں اتر گئی۔ شہیرلب بھینچے کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
بدر کے جانے کے بعد اسمارہ کو کور یئرسے کچھ گفٹس موصول ہوئے۔ رات کو بدر کا فون آیا۔ ”کیسے لگے گفٹس؟” اس نے پوچھا۔
”بہت اچھے۔ بلیک کوٹ تو بہت خوبصورت ہے۔” اسمارہ نے مسکرا کرکہا۔
وہ خوش ہوگیا۔”اچھا ہے نا؟ اسے دیکھتے ہی مجھے تمہارا راخیال آیا۔ میں نے سوچا یہ تو کسی بہت ہی جمیلہ لڑکی پر اچھا لگے گا اور تم سے زیادہ جمیلہ تو کوئی نہیں۔”
”ایک بات تو بتاؤ۔ تم ہر دفعہ میرے لیے یاوائٹ لاتے ہو یا بلیک۔ کوئی اور رنگ تمہیں پسند نہیں؟” اسمارہ ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔
”اچھا واقعی؟ نہیں یار ہر دفعہ بلیک کہاں لاتا ہوں۔” وہ حیران ہوا۔
”یاد ہے وہ بلیک کوٹ جو تم میرے لیے پچھلی دفعہ لائے تھے؟ جس کے کندھوں پر گولڈ ایمبرائیڈ ری تھی۔” اسمارہ نے یاد دلایا۔
”یار اصل میں مجھے تم یا تو وائٹ میں اچھی لگتی ہو یا بلیک میں” بدر نے بات بنائی۔
”یہ کہو کہ تمہیں باقی رنگوں کی پہچان ہی نہیں۔” اس نے شرارت سے چھیڑا۔
وہ ہنسنے لگا۔ ”ویسے تمہارابھائیوں کے ساتھ پلنے بڑھنے کا ایک یہ بڑا فائدہ ہے مجھے۔ تمہیں لڑکوں کی limitations کے بارے میں کچھ سمجھانا نہیں پڑتا۔”
”لیکن یہ جو آج نظم بھیجی ہے تم نے، وہ بھی تو رنگوں کے متعلق تھی۔” اسمارہ نے یاد دلایا۔
”یا راتنے رنگ توپتہ ہی ہیں مجھے۔ گھاس کا رنگ، آسمان کا رنگ۔ لیکن یہ جو تم لڑکیوں نے ہر رنگ کے ہزار شیڈز نکال لیے ہیں نا ان سے بڑا ڈر لگتا ہے مجھے۔ اس لیے حفظِ ماتقدم کے طور پر میں یا وائٹ لیتا ہوں یا بلیک۔”
”اچھا مسٹر حفظِ ماتقدم اب فون بند کرو مجھے بی بی جان سے کچھ بات کرتے جانا ہے۔” اسمارہ نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”اچھا سنو میں تمہارے لیے ایک اور گفٹ لایا ہوں۔” بدر نے جلدی سے کہا۔
”ایک اور بلیک کوٹ؟” اسمارہ نے ہنس کر پوچھا۔
”اونہیں یار۔ تم فون بند کرو میں تمہیں اس کی تصویر بھیجتا ہوں۔” بدر نے کہا۔
”ہیں؟ تصویر کیوں؟ خود کیوں نہیں دیا؟” اسمارہ نے حیران ہوکر پوچھا۔
”ابھی پتا چل جائے گا۔ اوکے خدا حافظ۔” اس نے جلدی سے کہہ کر فون بند کردیا۔ اسمارہ نے حیران ہوکر فون کو دیکھا۔ اسی وقت میسج آیا۔ اس نے کھولا۔ مخمل کی ڈبیا میں ایک بے حد خوبصورت رنگ تھی۔ ایک ڈائمنڈ کی رنگ۔ اسمارہ نے اسے تصویر میں اپنی انگلی میں پہنے دیکھا اور مسکرا دی۔ بدر کا میسج آیا ”تمہارے لیے، engagement ring۔ آج میں ماما سے بات کرنے لگا ہوں۔” وہ مسکرائی۔ پھر اس نے میسج ٹائپ کیا۔
”میں بھی۔” اور فون بند کرکے رکھ دیا۔
٭…٭…٭
بی بی جان خاموشی سے اس کی بات سنتی رہیں۔
”اس نے رشتے کے سلسلے میں کچھ کہا ہے یا فلرٹ کررہا ہے؟” آخر میں انہوں نے پوچھا۔
وہ ہنس پڑی۔ ”جی اس نے پروپوز کیا ہے۔”
”شادی کے بعد کہاں رہنے کا ارادہ ہے اس کا؟ یہاں یا امریکہ؟” بی بی جان نے پوچھا۔
”پاکستان رہنے کا ارادہ ہے۔ شاید CSS کا امتحان دے۔ لیکن جو بھی کرے گا، رہے گا یہاں ہی۔” اسمارہ نے بتایا۔
”ماں باپ راضی ہیں اس کے؟” سب سے اہم سوال آیا۔
”وہ بات کرے گا۔” اسمارہ نے سرجھکا کر کہا۔
”چلو ٹھیک ہے جب بات کرے گا تو دیکھیں گے۔ تمہاری شادی بہرحال تمہاری مرضی سے ہی ہوگی۔” انہوں نے کہا۔ اسمارہ مسکرانے لگی۔ بی بی جان کے سپورٹ کا اسے ہمیشہ ہی یقین رہتا تھا۔
دوسری طرف بدرالدجا کا معاملہ اتنا آسان ثابت نہیں ہوا جتنی اس کو امید تھی۔ مہناز اس کی بات سن کر خاموش ہوگئیں۔ بدر نے حیرت سے ان کے چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھرتے دیکھا۔
”ہے کیا اس لڑکی میں شکل و صورت کے سوا؟” انہوں نے سرد مہری سے پوچھا۔
”شکل و صورت کے سوا؟” بدر نے حیرت سے دوہرایا۔ اسے ہمیشہ یہی امپریشن ملا تھا کہ مہناز اسمارہ کو بہت پسند کرتی ہیں۔ اس نے ہمیشہ ان سے اسمارہ کی تعریف ہی سنی تھی۔
”وہ بہت لائق ہے، انجینئر بن رہی ہے، ویل گرومڈ ہے، اچھی فیملی سے ہے…” بدر نے گنوانا شروع کیا۔
”میں فیملی میں تمہارا رشتہ نہیں کرنی چاہتی” مہناز نے بات کاٹ کرکہا۔
”Immediateفیملی تو نہیں ہے وہ ہماری” بدر نے یاد کروایا۔
”وہی تو۔ خالہ کا سسرال ہے۔ نازک رشتے ہیں یہ۔ میں ایک نازک رشتہ اور جوڑلوں؟” مہناز نے نیا اعتراض کیا۔
بدر نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔ مہناز اس قسم کی باتیں کرنے والوں میں سے نہیں تھیں۔
”میں تمہارے لیے لڑکی پسند کر چکی ہوں۔” انہوں نے قطیعت سے کہا۔
”شادی میری ہونی ہے ماما تو میری پسند کی لڑکی سے ہوگی ورنہ نہیں۔” بدر نے ناراضی سے کہا۔
”اور اگر میں یہاں راضی نہ ہوں تو؟” مہناز نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
بدر الدجا نے گہرا سانس لیا۔ ”میرا خیال ہے ابھی ہم اس ڈسکشن کو یہیں ختم کریں۔ جب آپ ذرا لاجیکل موڈ میں ہوں گی پھر بات کریں گے۔” وہ اٹھ گیا۔
لیکن بعد میں ہونے والی ڈسکشن بھی اتنی ہی مشکل ثابت ہوئی جتنی پہلی۔ اس مرتبہ مہناز نے الطاف کو بھی بحث میں شامل کرلیا۔
”تم ابھی بہت ینگ ہو۔ اپنا بیچلرز کرو، پریکٹس کرو، پھر شادی کے بارے میں سوچنا۔” الطاف نے اسے معاملے کا دوسرا رخ دکھایا۔
”پاپا بیچلرز تو میرا چھے مہینے تک ہوجائے گا اور میں ابھی شادی کا کہہ بھی نہیں رہا۔ ابھی آپ engagementکردیجئے۔ شادی اس کی گریجویشن کے بعد ہوتی رہے گی۔” بدر نے کہا۔
”ساری پلاننگ اس کے ساتھ کرچکے ہو تو ہم سے کیا پوچھ رہے ہو؟” مہناز نے غصے سے کہا۔
”ماما میں نے کسی کے ساتھ کوئی پلاننگ نہیں کی۔ میں صرف ایک آپشن دے رہا ہوں آپ کو۔” بدر نے تحمل سے کہا۔
‘اس کے ساتھ کوئی پلاننگ نہیں کی؟ تو پھر اس کے لیے پاگل کیوں ہورہے ہو؟ تم اس سے کہیں بہتر لڑکی ڈیزرد کرتے ہو۔ اندرون شہر کے گلی محلوں کی لڑکی کیا تعارف بنے گی تمہارا؟” مہناز کا لہجہ سخت تھا۔
”کم آن ماما۔ ہمارے گھر سے آٹھ گنا بڑی ہے اس کی حویلی!” بدر نے احتجاج کیا۔
”لیکن سوچ تو چھوٹی نکلی نا۔ اچھا لڑکا دیکھ کر پھنسا لیا!” مہناز نے غصے سے کہا۔ بدر کو اسمارہ کے لیے یہ الفاظ سن کر تکلیف ہوئی۔ وہ اسمارہ پر ہونے والی بات برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
”وہ کچھ نہیں جانتی۔ یہ دلچسپی میری طرف سے ہے۔” اس نے اسمارہ کا دفاع کیا۔ اگر جانتا کہ اس سے بات کیا رخ اختیار کرے گی تو نہ کرتا۔
”بس تو پھر کیا پرابلم ہے؟ تم اس سے صرف ظاہری طور پر متاثر ہوگئے ہو۔ جس لڑکی سے میں تمہیں ملواؤں گی، وہ ہر لحاظ سے اس سے اچھی ہے۔” مہناز نے اطمینان سے کہا۔
”ماما پلیز !” اس نے بے ساختہ کہا۔
”میری بات سنو!” مہناز نے بات کاٹ کرکہا ”اندرون شہر میں رہنے والی لڑکی جس کا باپ مفت کے مریض دیکھتا ہے تمہارے کیریئر کے لیے کیا کرسکتی ہے؟ میں نے جسے تمہارے لیے منتخب کیا ہے اس کا باپ سیکٹری ٹو چیف منسٹر ہے۔ لڑکی خوبصورت ہے، یو کے سے پڑھی ہے۔ تم خود سو چو ایسی فیملی میں شادی کرکے تمہارے کیرئیر کو کتنا بوسٹ مل سکتا ہے۔”
تو آخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ وہ خاموشی سے ان کی شکل دیکھتا رہا۔
الطاف اس کی خاموشی کو نیم رضا مندی سمجھے اور سنجیدگی سے اسے سمجھانا شروع کیا۔ ”دیکھو تم پاکستان میں سیٹل ہونا چاہتے ہو۔ اگر تم اس فیملی کے داماد بنتے ہو تو خواہ پریکٹس کرو، CSS کرو، بزنس کرنا چاہو، کچھ بھی کرنا چاہو تمہارے لیے ہر پیشہ خودبخود آسان ہوتا جائے گا حتیٰ کہ اگر تم پاکستان سے باہر بھی رہنا چاہو تو وہاں بھی ان کے کانٹیکٹس تمہارے شاندار مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ صرف وقتی پسندیدگی کے لیے ایک برائٹ فیوچر کا دروازہ خور پر بند مت کرو۔”
بدر خاموشی سے سنتا رہا۔ مہناز کو یہ خاموشی بہت حوصلہ افزا معلوم ہوئی۔ انہوں نے لوہے پر آخری ضرب لگانے کی کوشش کی۔ ”تم اس سے ملو تو سہی۔ میں دعوے سے کہتی ہوں وہ تمہیں اتنی پسند آئے گی کہ تم فوراً ہاں کردوگے۔”
اسمارہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ہاں؟ بدر کے دل کو ناقابلِ بیان تکلیف ہوئی۔ وہ خاموشی سے کچھ بھی کہے بغیر اٹھ گیا۔
چند دن بعد وہ اسمارہ سے ملنے اس کی یونیورسٹی گیا۔ اسمارہ اسے وہاں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ اس سے پہلے کبھی اس سے ملنے یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔
”آج کل تم سر پرائز بہت دینے لگے ہو۔ پہلے اچانک پاکستان آگئے اور اب یہاں۔” اسمارہ نے اس سے کہا۔ دونوں گراؤنڈ میں بنچ پر بیٹھے تھے۔ اسمارہ اس کے آنے سے خوشی تھی۔ ”یہ نہ ہو واپس بھی یونہی چلے جاؤ چپکے سے۔” اس نے ہنس کر بات پوری کی۔
بدر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ عام طور پر بہت خوش مزاج تھا، ہنستا مسکراتا رہتا تھا۔ آج اس کی مسکراہٹ اداس تھی اور آنکھوں میں ملال۔ وہ بہت خاموش، بہت سنجیدہ تھا۔
”کیا بات ہے بدر؟” اسمارہ نے تشویش سے پوچھا۔
بدر نے گہرا سانس لیا۔ ”میں نے اپنے پیرنٹس سے ہماری شادی کی بات کی تھی۔”
اسمارہ کے دل نے ایک دھڑکن مس کی۔
”پھر؟” اس نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد آس میں گھر کر پوچھا۔
بدر چند لمحے اسے دیکھتا رہا جیسے سوچ رہا ہو کہ اگلی بات بتائے نہ بتائے۔ پھر اس کے چہرے کے تاثر نے اسے عجیب طریقے سے سہارا دیا۔ یہ اسمارہ تھی، کوئی عام سے لڑکی نہیں جو اس کے مشکل وقت میں اس کے لیے ایک liability بنتی، جس سے اسے کوئی بری خبر چھپانے کی ضرورت پڑتی۔ بہت سی چیزوں میں وہ اس سے زیادہ مضبوط تھی۔
”وہ میری شادی کسی اور سے کرنا چاہتے ہیں۔” اس نے کہا اور پھر اسمارہ کے چہرے کو رنگ بدلتے دیکھا۔ اسے افسوس ہوا۔ شاید اسے اتنی صاف گوئی سے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔
”تم کیا چاہتے ہو؟” اسمارہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
بدرالدجا کو اس سوال پر پہلے حیرت ہوئی پھر غصہ آگیا۔
”تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں کیا چاہتا ہوں؟” اس نے غصے سے پوچھا ۔”چار سال میرے ساتھ گزار کر آج تم مجھ سے یہ پوچھ رہی ہو؟”
اسمارہ کو حیرت ہوئی۔ وہ عام طور پر غصے میں نہیں آتا تھا۔ غصے والی تو وہ تھی۔ اسمارہ کو اس پر ترس آیا۔ وہ نرم مزاج تھا۔ ہوتا اس کے کسی بھائی جیسا تو نہ ماں کی پرواہ کرتا نہ باپ کی۔ ڈٹ جاتا اور اپنی منوا کر چھوڑتا۔ مگر بدر spiral تھا، سب کو ساتھ لے کر چلنے والا۔
”تم اس لڑکی سے شادی کرلو۔” اسمارہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”مشورے کا شکریہ۔ اب یہی کروں گا۔” بدر نے غصے سے کہا۔ اسمارہ کو پھر سے حیرت ہوئی۔ اس بار حیرت خود پر تھی۔ وہ ایسی بات سن کر خاموشی بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھی۔ فوراً غصے سے چٹخ جاتی۔ تو پھر اب کیوں خاموشی تھی؟ شاید دل پر رنج اس قدر سوار تھا کہ سانس تک نہ آتا تھا، غصہ تو دور کی بات تھی۔
شاید بدر کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا۔ ”I am sorry” اس نے ہلکے سے اس کا گھٹنا چھوکر معذرت کی۔ اسمارہ یک ٹک اپنے سامنے دیکھتی رہی۔ پھر اس نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔ بدر کو لگا شاید وہ روپڑے گی مگر وہ اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔ بدر نے اپنے دل میں اس کے لیے محبت کی ایک نئی لہرا ٹھتے محسوس کی۔ اس نے اسے کبھی روتے نہیں دیکھا تھا اور دل میں وہ اس بات پر بڑا شکر کیا کرتا تھا۔ اسے روتی ہوئی لڑکیوں کو چپ کروانا نہیں آتا تھا۔ اسمارہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سیدھی اور صاف بات کیا کرتی تھی۔ نہ روتی ،نہ ایموشنلی بلیک میل کرتی، نہ نخرے دکھاتی۔ اسمارہ بھائیوں کے ساتھ پلی بڑھی تھی اور اس چیز کے بہت فائدے تھے بدر کے لیے اور ایک مرتبہ اس نے یہ بات اس سے کہہ بھی دی تھی۔
”تمہاری ایک بات بہت اچھی ہے کہ تمہارے اعصاب مضبوط ہیں۔ تم روتی نہیں۔” اس نے کہا تھا۔ وہ خاموش ہوگئی تھی۔
”ہاں مگر میں…” وہ ہچکچائی۔
”تم کیا؟” بدر نے پوچھا۔
”میں روتی نہیں، الٹیاں کرنے لگتی ہوں۔” اسمارہ نے بتایا۔
”کیا مطلب؟” بدر حیران ہوا۔
”مطلب جب stress آنسوؤں میں ریلیز نہ ہو تو میرا سسٹم اس طرح ری ایکٹ کرتا ہے۔” اسمارہ نے کچھ شرمندگی سے کہا۔ بدر بے ساختہ ہنسنے لگا۔
”یہ تو بڑی مشکل ہوگئی جمیلہ۔ دیکھو نا اگر تمہیں رونے کی عادت ہوتی تو میں وعدہ کرتا کہ آئندہ تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں گا۔ اب تم سے کیا وعدہ کروں؟” اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ وہ آج بھی نہیں جانتا تھا کہ اس سے کیا وعدہ کرے۔
”اب کیا ہوگا؟” اسمارہ نے پوچھا۔ اس کی آواز نے بدر کو اس کے خیالوں سے کھینچ نکالا۔
”میرے پاس اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔” بدر نے کہا۔ اسمارہ نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ بدر نے بات جاری رکھی۔
”میں اپنے پیرنٹس کا پریشر ٹالنے کے لیے اس لڑکی سے مل لیتا ہوں۔ اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ مجھے اچھی لگی تو میں اس سے شادی کرلوں گا ورنہ انہیں میری بات ماننی ہوگی۔ اس سے ملنے کے بعد جب میں انکار کروں گا تو وہ مجھ پر زبردستی نہیں کریں گے۔” اسمارہ خاموشی سے سے دیکھتی رہی ”لیکن یہ بات ان سے کہنے سے پہلے میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ اگر تم اس بات سے comfortable ہو تو میں یہ کروں گا ورنہ نہیں۔” بدر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ اسمارہ اب بھی خاموش رہی۔
بدر نے اس کا گھٹنا چھوا۔ ”یہ میرا تم سے وعدہ ہے جمیلہ۔ میری شادی ہوگی تو تم سے ورنہ نہیں۔”
اسمارہ جانتی تھی وہ سچ کہہ رہا ہے۔ وہ اس کی خاطر ماں باپ سے لڑتا جھگڑتا تو اس کے مضمرات اسمارہ ہی کو بھگتنے پڑتے۔ وہ ہلکا سا مسکرائی۔ ”ٹھیک ہے۔ تم اس سے مل لو۔”
٭…٭…٭
جس دن بدر علیزے سے ملنے گیا، اسمارہ کو ایک پل چین نہ آیا۔ وہ بدر کو تقریباً چار سال سے جانتی تھی۔ اسے اس پر یقین تھا کہ وہ اسے دھوکہ نہیں دے گا مگر دل تھا کہ قابو میں نہ آتا تھا۔ اسے اپنے وہ بڑے بول یاد آرہے تھے جو وہ بدر سے کہا کرتی تھی۔ وہ جب بھی محبت کا اظہار کرتا، وہ لاپروائی سے کہتی۔ ”میں تو ایسی محبت میں یقین نہیں رکھتی کہ ایک شخص زندگی کا مقصد بن کر رہ جائے۔ وہ نہ ملے تو انسان ٹوٹ جائے، مر جائے۔” اور اب اسے یوں لگتا تھا، بدر اس کی زندگی سے نکل گیا تو وہ ٹوٹ جائے گی، مر جائے گی۔
رات کو بدر کا فون آیا۔ ”مل آئے اس سے؟” اسمارہ نے بمشکل لہجے میں لاپروائی سمو نے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔” بدر نے مختصر جواب دیا۔
”کیسی ہے دیکھنے میں؟” کہتے ساتھ ہی اسمارہ کو خود بھی یقین نہ آیا کہ اس نے یہ ٹپیکل جیلس لڑکیوں والا سوال پوچھا ہے۔ وہ خود کو ان چیزوں سے ماورا سمجھتی تھی۔
بدر کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ”جمیلہ ہے۔”
اسمارہ کو غصہ آگیا۔ اس نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ”کتنی جمیلہ؟” اس نے لہجے کو حتیٰ الامکان ہموار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
”بہت جمیلہ۔” بدر نے آہستہ سے کہا۔
اسمارہ کا غصہ لاوے کی طرح چڑھا اور آتش فشاں کی طرح پھٹا ”تم… جاؤ پھر اسی جمیلہ کے پاس۔” اس نے دانت پیس کرکہا اور کھٹاک سے فون بند کردیا۔
بدر فون ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے اسی وقت فون کرکے اسمارہ کو منانا چاہیے مگر وہ اس قدر رنجیدہ تھا کہ کچھ بھی کرنے کو اس کا دل نہ چاہتا تھا۔ وہ علیزے سے ملنے اس کے گھر گیا تھا اور وہاں اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے وہ جان گیا تھا کہ اس کی ماں علیزے کو اسمارہ پر فوقیت کیوں دے رہی تھی۔ اس عالیشان، تمام ماڈرن سہولیات سے سجے گھر کا اسمارہ کی پرانی حویلی سے کوئی موازنہ نہ تھا۔ Belgium کے کرسٹل، ایرانی قالین، ڈیزائنر فرنیچر، نوکروں کی فوج ظفر موج۔ وہ وہاں بیٹھے ان تمام چیزوں کو گن سکتا تھا جن سے اس کے ماں باپ متاثر ہوئے تھے۔ علیزے خود بھی ایک سجا سجایا ڈیکوریشن پیس تھی۔حسین، خود میں مگن، خود سے بھرپور، خود سے آگے کچھ نہ دیکھنے والی۔ یا شاید وہ اس کا اسمارہ سے موازنہ کررہا تھا۔ اسے اس کے نخرے دیکھ کر الجھن ہونے لگی تھی۔ ساری ملاقات میں زیادہ تر وہ ہی بولتی رہی۔ بدر خاموشی سے سنتا رہا۔
گھر آیا تو مہناز اسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔
”کیسی لگی علیزے؟” انہوں نے اشتیاق سے پوچھا۔
بدر جواب سوچ کر آیا تھا ۔”ٹھیک ہے۔ اتنی جلدی کیا کہہ سکتا ہوں؟” اگر وہ فوراً کہہ دیتا کہ اچھی نہیں لگی تو پھر ایک نہ ختم ہونے والی لاحاصل بحث چھڑ جاتی جس کا ہدف لازمی طور پر اسمارہ ہوتی۔
”ہاں تو اس سے روز ملو، دیکھو، بات چیت کرو۔ میں کل تمہاری لنچ کے لیے جم خانہ میں بکنگ کروا دیتی ہوں۔ تم اسے ناپسند کرہی نہیں سکتے۔” مہناز نے یقین سے کہا۔
اگلے دن لنچ کے بعد بدر نے اسمارہ کو فون کیا۔ ”آج میں نے اپنی زندگی کا سب سے مشکل لنچ کیا۔” وہ اس قدر تھکا ہوا اور پریشان لگ رہا تھا کہ اسمارہ کو اس پر ترس آگیا۔
”کیوں اتنا برا کھانا تھا؟” اس نے اسے ہنسانے کی کوشش کی۔ وہ مزید اداس ہوگیا۔
”یار وہ بڑی عجیب لڑکی ہے۔ میں تو اس کے ساتھ دو گھنٹے نہیں گزار سکا۔ ماما اس کو ساری زندگی کے لیے میرے سر پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔” وہ پھٹ پڑا۔
اسمارہ کو دل پر ٹھنڈی پھوار گرتی محسوس ہوئی۔ بدر کی اداسی سے قطع نظر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔
”کیوں ایسا بھی کیا کہہ دیا اس نے؟” وہ بڑے شوق سے اس کی برائیاں سننا چاہتی تھی۔
”تمہاری طرح وہ بھی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے لیکن یار اسے تو لاڈپیار نے بگاڑ دیا ہے۔ دو گھنٹے میں اس نے سوائے شکایت کے کچھ نہیں کیا۔ وہ مسلسل مجھے بتاتی رہی کہ اس وقت کیا کیا چیزیں اس کی مرضی اور پسند کی نہیں ہیں اور کن چیزوں سے اسے نفرت ہے اور وہ کس لائف سٹائل کی عادی ہے اور اگر اسے اس کی پسند کی چیز نہ ملے تو وہ کس طرح پاگل ہوجاتی ہے۔” بدر کے لہجے میں دبا دبا سا غصہ تھا۔
”اوہو تم تو واقعی بہت پریشان ہوئے ہوگے اتنی نیگٹو انرجی سے۔” اسمارہ نے اپنی خوشی چھپاتے ہوئے ہمدردی سے کہا۔
”صرف پریشان؟ میں تو پاگل ہونے والا تھا۔” بدر نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”اوپر سے خواب بھی اتنا برا دیکھا میں نے کل رات۔”
”کیا دیکھا؟” اسمارہ نے پوچھا۔
وہ کچھ ہچکچایا۔ ”دیکھا کہ منگنی ہورہی ہے میری۔ تمہارے ساتھ نہیں اس کے ساتھ۔”
”ارے یہ تو بہت اچھا خواب ہے بدر!” اسمارہ نے خوشی سے کہا۔
”ہیں؟” بدر کو اس کی صحیح لدماعیٰ پر شبہ ہوا۔
”زندگی میں ہمیشہ خواب کے الٹ ہوتا ہے۔ کسی کو مرتا دیکھو تو سمجھو اس کی لمبی زندگی ملے گی۔ تمہارے خواب کا مطلب ہے کہ تمہاری منگنی مجھ سے ہوگی۔” اسمارہ نے خوشی خوشی بتایا۔
”اور شادی؟” بدر نے مشکوک ہوکر کہا۔
”شادی بھی نا جیسی۔ منگی مجھ سے ہوگی تو شادی بھی مجھ ہی سے ہوگی۔” اسمارہ نے ہنس کر کہا۔ بدر ہنس پڑا۔ ”تمہیں معلوم ہے آج میں کس چیز کے لیے شکر گزار ہوں؟”
”کس چیز کے لیے؟”
”تمہارے لیے۔” بدر نے بے ساختہ ۔کہا ”عذاب کے بعد راحت کے لیے۔”
اسمارہ کا دل کھل اٹھا۔ ”اور میں تمہارے لیے بدرالدجا!” اس نے نرمی سے کہا۔ ”میں تمہارے لیے بہت شکر گزار ہوں۔”
٭…٭…٭
دو مہینے میں بدرالدجا کو کم از کم پچیس مرتبہ علیزے سے ملنا پڑا۔ اس نے دسویں ملاقات کے بعد ہی صاف لفظوں میں مہناز سے کہہ دیا کہ وہ علیزے سے شادی نہیں کرسکتا۔ بحث نئے سرے سے شروع ہوگئی۔ اس بحث پر فل سٹاپ ایمن کے آنے سے لگا۔ وہ گھر کی بڑی بیٹی تھی اور الطاف اس کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اس نے ماں باپ کو بٹھا کر ان سے بات کی۔
”کیسے فورس کرسکتے ہیں آپ اس کو شادی کے لیے؟ وہ اسے پسند نہیں کرتا تو زبردستی کیوں کررہی ہیں اس پر؟” ایمن نے کہا۔
”بے وقوف ہے بدر۔ سونے کو چھوڑ کر مٹی کے پیچھے پڑا ہے۔” مہناز نے غصے سے کہا۔
”زندگی اس نے گزارنی ہے ماما۔ مٹی ہو یا پتھر۔ وہ جہاں کہتا ہے، اس کی وہاں شادی کریں۔” ایمن نے قطیعت سے کہا۔
ایمن کو بدر کے لیے بہت جنگ لڑنی پڑی۔ دوسری طرف بدر اُڑ گیا تھا۔ مہناز کو یہ بات بھی کھائے جارہی تھی کہ جو بیٹا ان پر جان چھڑکتا تھا، اب ایک لڑکی کے پیچھے ان کے سامنے تن کر کھڑا تھا۔ ایمن کی دن رات کوششوں سے الطاف تو مان گئے مگر مہناز کو بہت اعتراض تھے۔ وہ علیزے کے ماں باپ سے اپنی دلچسپی کا ذکر کرچکی تھیں۔ اسی لیے ان لوگوں نے بدر کو اس سے ملنے کی اجازت دی تھی۔ اب انہیں اپنے سوشل سرکل میں اپنی بے عزتی کا ڈر تھا۔ وہ علیزے کی بااثر فیملی سے خائف تھیں۔ وہ اسمارہ کا علیزے سے موازنہ کرتے نہ تھکتی تھیں۔ لیکن ایمن کی ایک دلیل نے ان کے سارے اعتراضات کا منہ بند کردیا۔ ”ابھی تو آپ کردیں گی اس کی شادی… دباؤ ڈال کر، ایموشنلی بلیک میں کرکے۔ پھر بعد میں کیا ہوگا یہ سوچا آپ نے؟ اگر اس نے علیزے کو خوش نہ رکھا تو؟ اگر طلاق پر نوبت پہنچ گئی تو؟ آپ جانتی ہیں کہ پانچ کروڑ سے کم حق مہر نہیں رکھوائیں گے۔ دے سکیں گی آپ اتنا؟ اور جس بااثر فیملی سے آپ ابھی ڈر رہی ہیں، وہ ایسے وقت جو کچھ کریگی، وہ ہینڈل کرسکیں گی آپ؟”
فیصلہ ہوگیا۔ بہت رونے دھونے، ناراضگی، منت سماجت سے ہی سہی مگر آخر کار فیصلہ بدرالدجا کے حق میں ہوگیا۔ اگست کے آخری ہفتے ہیں، امریکہ جانے سے ایک ہفتہ پہلے ایک سادہ سے فنکشن میں بدرالدجا اور اسمارہ کی منگنی ہوگئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!