غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

۶۔ کتابیں، پھول، ریشم اور چاندنی

بدرالدجا دو مہینے پاکستان میں رہا۔ کبھی تایا کے گھر، کبھی حویلی میں، کبھی فارم ہاؤس پر، اس کی کئی ملاقاتیں اسمارہ کے ساتھ ہوئیں۔ ہر ملاقات میں اس کی پسندیدگی کا گراف اونچا ہوتا گیا۔ ان کی ہر ملاقات لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئی۔ وہ اس سے اسی طرح بات کرتی تھی جیسے وہ باقی سب سے کرتی تھی۔ بڑی تہذیب کے ساتھ، مسکرا کر۔ لیکن بدر کو کچھ اندازہ نہ ہوسکا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ ویسے وہ ٹام بوائے تھی۔ کرکٹ کھیلتی تھی، ویٹ لفٹنگ کرتی تھی اور بھائیوں کے ساتھ پنجے لڑائی تھی اور وہ جو اس کا عجیب سا کزن تھا، جو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مقابل کو اس طرح گھورتا تھا جیسے آرپار دیکھ رہا ہو۔ اس نے اس زور سے اس کا بازو مروڑا کہ دن میں تارے تو ضرور نظر آگئے ہوں گے۔ بدر کو بڑی خوشی ہوئی۔ اگرچہ وہ اس کے غصے سے تھوڑا خائف بھی ہوا مگر اس کے ساتھ وہ ہمیشہ بڑی politely پیش آتی تھی، اس کے لیے یہی کافی تھا۔
امریکہ جانے کے بعد اس نے اسمارہ کو اپنی یونیورسٹی کی انجینئرنگ exhibition کی تصویریں دکھانے کے بہانے ایک مختصر سی ای میل کی۔ اسمارہ نے ان پر اپنا تبصرہ اسے جواباً میل کیا اور کچھ سوالات پوچھے۔ بدر نے بسردچشم اس کے سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر اسے بھیجے۔ وقتاً فوقتاً دونوں میں ای میلز کا تبادلہ ہونے لگا۔ کچھ عرصے بعد اس نے اسمارہ کو فیس بک پر فرینڈز ریکوئسٹ بھیجی جو قبول کرلی گئی۔ یوں دونوں میں ایک مستقل رابطے کا آغاز ہوا جو دوستی میں بدل گیا۔
اگلے سال کی چھٹیوں میں وہ پاکستان آیا تو سب سے زیادہ خوشی اسے اسمارہ سے ملنے کی تھی۔ فارم ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ سب کے ساتھ بیٹھے وہ اپنی اپنی یونیورسٹیز، پڑھائی اور بائیکس کی باتیں کرتے رہے۔ بدر چپکے چپکے اسے دیکھتا رہا۔ وہ جب اسے دیکھتا تھا، وہ اسے پہلے سے زیادہ خوبصورت، زیادہ پر اعتماد اور زیادہ اچھی لگتی تھی۔
چند ہفتوں بعد ایمن بھی نیویارک سے پہنچ گئی۔ آتے ساتھ ہی اس نے بدر کو گھیر لیا۔
”کب ملوارہے ہو؟” اس نے پوچھا۔
”آج، ابھی، اس وقت۔” بدر نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا۔
سہ پہر کا وقت تھا جب دونوں حویلی پہنچے۔ صحن میں چھڑکاؤ کردیا گیا تھا اور بی بی جان اپنے تخت پر بیٹھی ایک عورت کے بیمار بچے کی نبض دیکھ رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر خوش ہوئیں۔ وہ اس زمانے کی خاتون تھیں جب رشتے دار اور احباب بلا تکلف ملنے جلنے آیا کرتے تھے اور ان ملاقاتوں کا مقصد سوائے باہمی تعلقات کے فروغ کے اور کچھ نہیں ہوتا تھا اور بدر تو ارسلان اور حسیب کی وجہ سے گھر کے لڑکوں کا دوست بھی تھا۔ اتفاق یہ کہ بچوں میں سے کوئی بھی گھر پر نہیں تھا۔ لڑکے اپنے کاموں سے نکلے ہوئے تھے، اسمارہ ماں کے ساتھ بازار گئی ہوئی تھی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ کر بدر اور ایمن واپس آگئے۔
بدر کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر ایمن کو اس پر ترس آگیا۔ اس نے اس تسلی دی۔ ”دل چھوٹا کیوں کرتے ہو اگر ملاقات نہیں ہوئی؟ اچھا ٹھہرو میں کچھ کرتی ہوں۔”
وہ ماں کے پاس گئی اور انہیں ایک چھوٹی موٹی دعوت کے لیے آمادہ کیا ۔”امی اس دفعہ میں اور بدر دونوں لاہور میں ہیں۔ پھر پتا نہیں کب اکٹھے ہوں، آپ فیملی اور فرینڈز کے لیے ایک ڈنر ارینج کریں۔”
مہناز اور الطاف دونوں پارٹیوں کے شوقین تھے۔ الطاف کے فارن سروس میں ہونے کی وجہ سے دعوتیں، ڈنر، پارٹیاں ان کے پروفیشن کا تقاضہ بھی تھا اور تعلقات بڑھانے کا ذریعہ بھی۔ ایمن اور بدر کابچپن ملکوں ملکوں گھومتے گزرا تھا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،یوکے، امریکہ اور اب پھر پاکستان۔ اب ان چھٹیوں میں وہ یہاں اکٹھے تھے تو دعوت تو بنتی تھی۔ ہوتے ہوتے مہمانوں کی لسٹ بیسیوں لوگوں تک پہنچ گئی جن میں اسمارہ کی فیملی بھی شامل تھی۔
شام کو مہمان آنے سے پہلے ایمن نے بدر سے پوچھا ۔”تم کس حد تک سیریس ہو؟”
”کیا مطلب؟” بدر نے چونک کر پوچھا۔ دونوں لان میں کھڑے تھے جہاں گول میزیں سفید اور سنہری پوشوں سے سجائی جارہی تھیں اور ان پر پھول رکھے جارہے تھے۔
”مطلب یہ کہ اسمارہ کے لیے تمہاری پسندیدگی کس حد تک ہے؟ میں اسی نظر سے اسے دیکھوں اور اسی طرح اس سے ملوں۔” ایمن نے سنجیدگی سے کہا۔
بدرالدجا کچھ دیر سوچتا رہا ۔”آپا مجھے لگتا ہے کہ وہ میرے لیے بہت سوٹ ایبل ہے۔ وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے، فیملی جانی پہچانی ہے اس لیے ممی پاپا کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا،ہمارے ہم پلہ لوگ ہیں۔ آپ کو پتا ہے ممی ان باتوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ لیکن سارا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے یا نہیں۔” وہ خاموش ہوگیا۔ یہ خیال کہ شاید وہ کسی اور کو پسند کرتی ہو بڑا پریشان کن تھا۔
”تو آج پتا کرلو۔” ایمن نے مشورہ دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”کیسے؟” اس نے بوکھلا کر پوچھا۔
”یہ بھی میں بتاؤں؟” ایمن نے گھورا۔ ”وہ جو تمہاری گرل فرینڈ تھی، کیا نام تھا اس کا؟”
”کون سی والی؟” بدر نے معصومیت سے پوچھا۔
”ہیں؟ کتنی گرل فرینڈز تھیں تمہاری؟” ایمن نے چونک کر پوچھا۔
”تین۔” اس نے آرام سے بتایا۔ جیسے امتحان کے مارکس بتا رہا ہو۔
”اچھا! مجھے تو صرف ایک کے بارے میں پتا ہے۔” ایمن برامان کر بولی۔
”کیونکہ وہ چند دنوں کے لیے بننے والی گرل فرینڈز تھیں۔ Nothing serious۔ آپ کس کی بات کررہی ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”وہ موٹی والی۔” ایمن نے کہا۔
”اچھا چیلسی کی بات کررہی ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”ارے آج پتا چلا تم چیلسی کی ٹیم کو کیوں سپورٹ کرتے ہو۔” دونوں ہنسنے لگے۔
”ہاں تو اپنی گرل فرینڈز سے کس طرح پوچھا تھا تم نے کہ وہ تمہیں پسند کرتی ہیں یا نہیں؟”
”پہلی بات تو یہ کہ میں نے کبھی کسی سے نہیں پوچھا، انہوں نے مجھے خود بتایا۔ دوسری بات یہ کہ مجھے خود وہ کوئی خاص پسند نہیں تھیں لہٰذا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ان کی پسند ناپسند سے۔”
”بہرحال کھانے کے بعد غزل کی محفل ہے۔ سب غزلیں سن رہے ہوں گے، تم اس سے پوچھ لینا۔”
اسمارہ اپنی فیملی کے ساتھ آئی۔ چونکہ ایمن بی بی جان سے مل چکی تھی اس لیے وہ ان سے اور ان کے ساتھ کھڑی اسمارہ سے چند منٹ باتیں کرتی رہی۔ انہیں لا کر صوفوں پر بٹھایا اور وہاں بھی کچ دیر ان کے ساتھ بیٹھی رہی۔
“You have my approval”، اس نے بدر کے پاس آکر اعلان کیا۔ وہ یہ سن کر بڑا خوش ہوا۔
”میں یہ سوچتی تھی کہ کوئی کیسے دو تین ملاقاتوں میں کسی کو اتنا پسند کرسکتا ہے؟ لیکن واقعی اس میں کوئی بات ہے۔ اور میں صرف بیوٹی کی بات نہیں کررہی۔ موٹی چیلسی اس سے زیادہ پیاری تھی۔”
”خدا کا خوف کریں آپا! کہاں یہ کہاں وہ۔” بدر نے برامان کر کہا۔ اسے اسمارہ سے زیادہ کوئی اچھا نہیں لگتا تھا۔
ڈنر ہوا، غزل کی محفل میں ایمن اسے لے کر اسمارہ کے پاس جا بیٹھی۔ وہ باتیں کرتے رہے۔ پڑھائی کی باتیں، سپورٹس کی باتیں، میوزک کی باتیں، ادھر ادھر کی باتیں۔ پھر ایمن اٹھ گئی،لیکن وہ بیٹھا رہا۔ باتوں کے ٹاپک ختم ہوگئے، باتیں ختم ہوگئیں۔ دونوں خاموش ہوکر غزل سننے لگے۔ ہر عورت کے اندر قدرت نے ایک گھنٹی رکھ دی ہے جو اسے مرد کی نظر، نیت اور ارادے سے باخبر کردیتی ہے۔ اسمارہ کے اندر کی گھنٹی ہر مرتبہ بدر کو دیکھ کر بجتی تھی اور جتنی دیر وہ اس کے پاس بیٹھا رہتا تھا، یہ گھنٹی بجے چلی جاتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ گھنٹی اس کی آنکھوں میں جلنے والی جوت ایک وجہ سے بجتی تھی یا خود اس کے دل میں بدر کو دیکھ کر بجتی تھی۔ وہ بس اپنے اندر سے ابھرنے والی اس موسیقی کو سنتی اور اس کا دل اس تال پر رقص کرتا رہتا۔
اس نے ساتھ بیٹھے بدر کو گہرا سانس لیتے دیکھا۔ وہ کچھ مضطرب سا تھا۔ کبھی کھنکھار کر گلا صاف کرتا، پہلو بدلتا، کچھ کہتے کہتے رک جاتا۔
”تم کچھ کہنا چاہتے ہو بدر الدجا؟” اسمارہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس اچانک حملے پر وہ کچھ گڑ بڑا سا گیا۔ بے اختیار اسے اپنا وہ ”شاید” یاد آیا جو اس نے پہلی ملاقات میں اس کے سوال کے جواب میں کہا تھا اوا اس پر بے حدو حساب پچھتایا تھا۔ وہ دوسری مرتبہ نہیں پچھتانا چاہتا تھا۔ اس ”شاید” کی تو ایسی کی تیسی۔ وہ اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں اس پر جمائے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے جواب کا انتظار کررہی تھی۔ وہ سنبھلا ۔
”میں…” وہ ہچکچایا۔
”I really like you Asmara۔ میں نے جب پہلی مرتبہ تمہیں دیکھا تھا تب ہی سے…” اس نے آخرکار کہہ دیاکتنا بوجھ اتر گیا دل سے۔
”میں پہلی نظر کی liking میں یقین نہیں رکھتی۔” اسمارہ نے صاف گوئی سے کہا۔
”چلو چھٹی ہوئی!” بدر نے مایوس ہوکر سوچا۔
”لیکن مجھے تب اچھا لگا تھا جب تم مجھے ڈھونڈنے اندھیرے میں چلے گئے تھے۔” اسمارہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔ بدر اسے دیکھتا رہا۔
”تمہیں اندھیرے سے ڈر لگتا ہے نا؟” اسمارہ نے نرمی سے پوچھا۔
”ہاں۔” بدر نے شرمندگی سے اعتراف کیا۔
”پھر تم مجھے لانے کیوں گئے؟” اس نے پوچھا۔
”کیونکہ کسی لڑکی کو اندھیرے جنگل میں اکیلے بھیجنا بڑی غیر مہذب بات ہے۔ تمہاری جگہ میری بہن ہوتی، دوست ہوتی، کوئی بھی لڑکی ہوتی۔ میں کبھی اکیلے نہ بھیجتا، خود ساتھ جاتا۔ اس وقت بھی تمہارے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ نہیں گیا، اس کا مجھے افسوس ہے۔” بدر نے سنجیدگی سے کہا۔
“I liked that!” اسمارہ نے شفاف لہجے میں کہا۔
”میں تو سمجھتا تم پر میرا امیریشن بڑا برا پڑا ہوگا۔” وہ سر جھکا کر بڑ بڑایا۔
”وہ کس بات پر؟” وہ حیران ہوئی۔
”وہی… وہ ڈوبنے والی بات، صادقین کی پینٹنگ دیکھ کر ڈرنے والی بات اور پھر یہ اندھیرے میں جاکر…” وہ بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔ کتنا مشکل تھا اپنی شرمندگیاں گنوانا۔
”وہ تو بچپن کی باتیں تھیں۔ بچپن میں میں بہت لڑاکا تھی… بہت روتی تھی… تووہ تو سب بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔” وہ کہہ رہی تھی۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ ”رہی اندھیرے سے ڈرنے والی بات تو نوے فیصد لوگ ڈرتے ہیں، نارمل بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم اس کے باوجود مجھے لانے گئے اور جب تک میرے محفوظ ہونے کا پتا نہیں چلا، واپس نہیں آئے۔”
بدر اسے دیکھتا رہا۔ بے اختیار اس نے اسمارہ کا گھٹنا چھوا۔
”مجھے لگتا ہے مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔” اس نے جگمگاتی آنکھوں کے ساتھ کہا۔
اسمارہ ہنس پڑی۔ بدر نے اس کے گالوں کو سرخ ہوتے دیکھا۔ اس نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔ دونوں خاموش سے مسکراتے ہوئے غزل سننے لگے۔ دونوں کے دل ایک ہی تال پر دھڑک رہے تھے۔
٭…٭…٭
”اس مرتبہ واپس جاکر یا ماہا R-6 لینے کی سوچ رہا ہوں۔” بدرالدجا نے اسے بتایا۔ دونوں گھوڑوں پر بیٹھے تھے۔ فارم ہاؤس میں پکنک تھی۔ کچھ لوگ سوئمنگ میں مصروف تھے، کچھ رائیڈنگ کررہے تھے۔ اسمارہ اور بدر دونوں گھڑ سواری کے شائق تھے۔ بڑے سے گراؤنڈ کا چکر لگا کر وہ دونوں اب درختوں کے نیچے اپنے گھوڑوں کو دکھی چال چلا رہے تھے۔
”واؤ !R-6۔ شجاع بھائی کو بڑا شوق ہے R-6 کا مگر ابو لے کر نہیں دیں گے۔ جتنی قیمت میں ایک بائیک آئے گی، اتنی قیمت میں گاڑی آسکتی ہے۔” اسمارہ نے اپنی گھوڑی کی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”امریکہ میں اتنی expensive نہیں تھی۔” بدر نے بتایا۔
”مطلب وہ بائیک چلانے کے لیے امریکہ آنا پڑے گا؟” اسمارہ نے ہنس کر پوچھا۔
”آئیڈیا برا نہیں۔ کوئی plan ہے امریکہ آنے کا؟” بدر نے امید سے پوچھا۔
”ابھی تو نہیں۔ شاید انگلینڈ جائیں۔ ابو کی وہاں کوئی کانفرنس ہے۔” اسمارہ نے بتایا۔ دور کسی نے شاٹ گن کا فائر کیا۔ شاید نشانہ پریکٹس چل رہی تھی۔ اسمارہ کی گھوڑی بدکی اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہوگئی۔ اسمارہ نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی مگر توازن نہ رکھ سکی، الٹ کر گری۔ اس کا پاؤن زین میں پھنسا رہ گیا اور وہ گھوڑی کے ساتھ دور تک گھسٹتی چلی گئی۔ بدر نے تیزی سے گھوڑا اس کے پیچھے ڈالا۔ اس کے قریب پہنچ کر اس نے ہات بڑھا کر گھوڑی کی باگ پکڑلی۔ گھوڑی رک گئی۔ بدر بجلی کی سی تیزی سے گھوڑے سے اتر اور اس کا پاؤں زین سے آزاد کرایا۔ اسمارہ خشک پتوں سے بھری زمین پر کہنی کا سہارا لے کر اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”گھوڑے سے گر کر کبھی ایک دم نہیں اٹھنا چاہیے۔ سب سے پہلے اس بات کا یقین کرو کہ گردن پر چوٹ تو نہیں آئی۔” بدر نے پنجوں کے بل اس کے پاس زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
اسمارہ نے گردن آہستہ سے دائیں بائیں گھما کر ہڈیوں کے ثابت ہونے کا یقین کیا۔ لیکن چوٹ وہاں نہیں کہیں اور آئی تھی۔ زمین پر گھٹنے سے اس کی کلائی سے لے کر بازو میں کسی کانٹے دار جھاڑی نے چیرا ڈال دیا تھا اور اس میں سے خون بہہ رہا تھا۔ بدر نے اس کا بازو پکڑ کر آستین فولڈ کی۔ خون بہتا دیکھ کر اس کادل ڈوبنے لگا۔ وہ ایسا ہی نرم دل تھا۔ دوسری طرف جن محترمہ کے زخم آیا تھا، وہ نہایت اطمینان سے زمین پر بیٹھی زخم کا جائزہ لے رہی تھیں۔ بدر نے ادھر ادھر دیکھا جیسے زخم پر باندھنے کے لیے کسی چیز کی تلاش میں ہو۔ پھر اس کی نظر اسمارہ کے دوپٹے پر پڑی۔ اس نے اس کے پلو کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”خبردار!” اسمارہ نے ڈپٹ کر کہا ۔”سوچنا بھی مت، سوٹ خراب ہوجائے گا میرا۔”
”ارے! خون بہہ رہا ہے۔ بند کرنا ضروی ہے۔” وہ حیران ہوا۔
”ابھی ٹھیک ہوجائے گا۔” وہ لاپروائی سے بولی۔
”لاجمیلہ” بدر نے بے ساختہ اس کا گھٹنا چھو کر کہا۔ اس کے لہجے میں نریم اور شفقت تھی۔
”کیا؟” اسمارہ نے حیران ہوکر کہا۔
بدر بے اختیار ہنس پڑا۔ ”لاجمیلہ… مطلب…” وہ کچھ ہچکچا کر خاموش ہوگیا۔
”کیا مطلب؟” اسمارہ متجسس تھی۔ یقینا جمیلہ اس کی کوئی دوست رہی ہوگی۔
”پہلے تم اس پر مجھے اپنا دوپٹہ باندھنے دو پھر بتاؤں گا۔” بدر نے کہا۔
”میرا سوٹ” اسمارہ متامل ہوئی۔
”پلیز۔” بدر نے نرمی سے کہا ”میں نیالے دوں گا۔ پلیز مجھے باندھنے دو۔” اسمارہ کا دل پگھل گیا۔ وہ بھائیوں اور بھائیوں جیسے کزنز میں پلی بڑھی تھی۔ اسے جب کوئی چوٹ لگتی تھی تو عام طور پر دو طرح کے جملے سننے کو ملتے تھے۔ ”کچھ نہیں ہوتا، ذرا سی چوٹ ہے۔ لڑکی نہ بنو۔” یا پھر”خبردار جو روئی، جینا حرام کرن۔” وہ درد برداشت کرنے اورنہ رونے کی عادی تھی۔ اسے اپنے زخم خود دھو کر خود ہی مرہم پٹی کرنے کی عادت ہوگئی تھی۔ یہ پہلا شخص تھا۔ جسے اس کے درد سے تکلیف ہورہی تھی اور وہ اس کے کندھے پر دھموکہ جڑ کر اسے نہ رونے کا حکم دینے کے بجائے مہم پٹی کی فکر میں تھا۔ اس نے خاموشی سے دوپٹہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
”پھاڑنا مت۔ ویسے ہی باندھ دو۔” اسمارہ نے آہستہ سے کہا۔
”ابو کی پوسٹنگ دو سال تک سعودی عرب میں بھی رہی۔” بدر نے اس کے بازو پر دوپٹہ لپیٹتے ہوئے بتانا شروع کیا۔ ”وہاں میرے بہت سے عربی دوست تھے۔ ان کے ساتھ رہتے عربی بولنے کی عادت ہوگئی۔ میرا ایک دوست ہر لڑکی کو جمیلہ کہتا تھا۔ جمیلہ مطلب خوبصورت لڑکی، حسینہ۔ لاکا مطلب نہیں۔ لاجمیلہ کا مطلب ،نہیں اے خوبصورت لڑکی۔”
اسمارہ ہنس پڑی۔ ”تو اپنے دوست کی طرح تم بھی ہر لڑکی کو جمیلہ کہتے ہو؟” اس نے پوچھا۔
”نہیں ہر لڑکی کو تو نہیں۔ صرف خوبصورت لڑکیوں کو۔” اس نے معصومیت سے بتایا۔ وہ دوپٹہ لپیٹ چکا تھا۔
”مثلاً؟” اسمارہ نے پوچھا۔
بدر نے کھڑے ہوکر ہاتھ بڑھایا اور اسے نرمی سے کھینچ کر کھڑا کردیا۔
”مثلاً ماما، ایمن آپا اور اب تم۔” اس نے اس کے سامنے کھڑے مسکرائے ہوئے بتایا۔
اسمارہ نے ہاتھ بڑھا کر گھوڑی کی باگ پکڑلی۔ بدر نے اسے چڑھنے میں مدد دی۔ وہ خود بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔
”میں سمجھی جمیلہ تمہاری کسی گرل فرینڈ کا نام تھا ”اسمارہ نے گھوڑی کو ہلکی سی ایڑھ لگاتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ اس کا نام تو چیلسی تھا۔” بدر نے آرام سے بتایا۔ اسمارہ یکدم خاموش ہوگئی۔ بدر نے اس کی خاموش محسوس کی۔
”دیکھو اس سے پہلے کہ تمہیں کسی اور سے پتا چلے، میں خود ہی تمہیں بتادوں۔ چیلسی سے میری دوستی تھی لیکن کوئی سیریس والی دوستی نہیں تھی۔” اس نے وضاحت کی۔ اسمارہ خاموش رہی۔ کچھ دیر دونوں خاموشی سے چلتے رہے۔ بدر دل ہی دل میں کچھ پریشان ہا۔ شاید وہ ناراض ہوگئی تھی۔
دونوں اب فارم ہاؤس کی بلڈنگ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ اسمارہ نے گھوڑی کا رخ موڑ کر بدر کے مقابل کرلیا۔
”اسے بھی تم جمیلہ کہا کرتے تھے؟” اس نے پوچھا۔
”کبھی نہیں۔ ایک مرتبہ بھی نہیں۔” بدر نے بے ساختہ کہا۔
وہ مسکرائی ”گڈ۔” اس نے گھوڑی کو ایڑھ لگاتے ہوئے کہا۔ بدر ہنس پڑا۔ دونوں کے گھوڑے پھر سے برابر چلنے لگے۔
دور پول کے کنارے بیٹھے شہیر نے دونوں کو ساتھ ساتھ آتے دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا۔
٭…٭…٭
اسمارہ کو بدر کی ہر بات پسند تھی۔ بہت سی باتوں میں وہ ایک جیسے تھے اور بہت سی میں متضاد۔ دونوں کو کتابوں سے عشق تھا، دونوں شاعری کاذوق رکھتے تھے۔ دونوں کو پھول، بچے، جانور، چاندنی راتیں پسند تھیں۔ مگر اسمارہ آتش مزاج تھی، وہ ٹھنڈے مزاج کا تھا۔ اسمارہ کو اچھا لگتا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں موجود عورتوں کو سرآنکھوں پر بٹھاتا تھا۔ ماں سے، بہن سے اور خود اسمارہ سے اس کا تعلق بہت نرمی، شفقت اور عزت کا تھا۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال، معمولی معمولی باتوں پر توجہ۔ وہ ان کے نخرے اٹھاتا تھا۔ اپنی ضرورتوں، اپنے کاموں کو پس پشت ڈال کر ان کے کام کرتا تھا۔ اس کی انرجی spiral انرجی تھی۔ ہر کسی کو ساتھ لے کر چلنے والا۔ شفقت کرنے والا، محبت کرنے والا۔ وہ ان نایاب لوگوں میں سے تھا جو ”میں” نہیں ہوتے ”ہم” ہوتے ہیں۔ اسمارہ نے مرد دیکھے تھے۔ دبنگ، رعب ڈالنے والے، چیلنج کرنے والے، حکم دینے والے۔ اس کے تو خاندان کی عورتیں بھی مردوں سے کم نہیں تھیں۔ اسے بھی ان ہی صفات کے ساتھ پروان چڑھایا گیا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ خود کو نسائیت کے رنگ میں رنگا محسوس کررہی تھی۔ اس لیے کہ ایک مرد اسے اس کا احساس دلا رہا تھا۔ ساری زندگی کی عادتوں کو وہ بدل نہیں سکتی تھی۔ نہ اسے بات بات پر روٹھنا آتا تھا، نہ نخرے اٹھوانا مگر وہ اس کی توجہ کو،نخرے اٹھانے کو بہت انجوائے کرتی تھی۔
بدر کی عادت تھی کہ کسی بات پر خوش یا ایکسائٹڈ ہوتا یا پیار سے کچھ کہنا چاہتا تو ہلکے سے اس کا گھٹنا چھوتا۔ وہ شرارت سے گھٹنا پر ے کر لیتی۔ اس کا ہاتھ ہوا میں لہرا کر رہ جاتا۔ وہ بالکل برا نہ مانتا، ہنس پڑتا۔ وہ اسے شعر سناتا، وہ جواباً اسے روبوٹکس کی پیچیدگیاں سمجھانے لگتی۔ وہ صبر سے سنتا رہتا۔
”سمجھ رہے ہو؟” وہ ڈانٹ کر پوچھتی۔
”لاجمیلہ!” وہ بے بسی سے کہتا۔
”بے کاروکیل بنو گے تم۔” وہ اعلان کرتی۔
”اچھا۔” وہ سر تسلیم خم کردیتا۔ یہ نہ پوچھتا کہ وکالت کا روبوٹک سے کیا تعلق؟
”اچھا کیا؟” وہ رعب سے پوچھتی۔
”اچھا مطلب ٹھیک ہے جمیلہ۔” وہ نرمی سے کہتا۔
”جمیلہ مت کہو مجھے!” وہ حکم دیتی۔
”کیوں؟” وہ حیران ہوتا۔
”یوں لگتا ہے کسی گاؤں کی بوڑھی عورت کا نام ہو۔” وہ ناک چڑھا کر کہتی۔
”اچھا جمیلہ۔” وہ بے ساختہ کہتا۔ دونوں ہنسنے لگتے۔
ایک دن اسمارہ نے اسے اپنے کتھک سیکھنے کے راز میں شریک کرلیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔
”ارے! تم بہت ٹیلنٹڈ ہو۔” اس نے خوش ہوکر تعریف کی۔ دونوں فون پر بات کررہے تھے۔
”بس دیکھ لو۔” اسمارہ مسکرائی۔
”تمہیں پتا ہے جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو میں اس بات پر بڑا احیران ہوا تھا کہ اس لڑکی کی موومنٹ میں مضبوطی، سختی، نرمی اور نزاکت سب اکھٹی کیسے ہیں۔ اب پتا چلا کہ یہ وہ انوکھی لڑکی ہے جو آرم ریسلنگ کرتی ہے اور کتھک کرتی ہے۔ واہ یونیک!”
اسمارہ اس کی تعریف سے خوشی ہوئی۔
”اچھا تو پھر کب دکھا رہی ہو کتھک؟” بدر نے پوچھا۔
”کبھی نہیں۔” اسمارہ نے آرام سے کہا۔
”کیوں؟” وہ حیران ہوا۔
”مردوں کے سامنے رقص نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے میں نے ابو سے۔ کلاس تو میں بس اپنے شوق سے لیتی ہوں۔” اسمارہ نے بتایا۔
”لیکن میں کوئی غیر تو نہیں۔ ہماری تو شادی ہونے والی۔” بدر نے بے ساختہ کہا۔
اسمارہ خاموش ہوگئی۔ اس کا دل دھڑکنے لگا تھا۔ یہ بات بدر نے پہلی مرتبہ کہی تھی۔
”یہ کس نے کہا؟” اس نے خود کو بے نیاز ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
”میں کہہ رہا ہوں۔”
”زبانی کلامی بات کا کیا اعتبار؟”
”اچھا اس دفعہ پاکستان آؤں گا تو تمہارے لیے رِنگ لے کرآؤں گا۔” اس نے وعدہ کیا۔
اسمارہ مسکرائی۔ پتا نہیں اس کی ایسی سنجیدہ باتوں پر اس کی شرارت کی رگ کیوں پھڑک جاتی تھی۔
”لے آنا۔” اس نے بے نیازی سے کہا ۔”لیکن رقص میں تمہیں پھر بھی نہیں دکھاؤں گی۔”
”کیوں جمیلہ؟” اس نے پیار سے پوچھا۔
”کیونکہ میں تو تم سے شادی نہیں کروں گی۔ میں تو اپنی انجینئرنگ کروں گی، جاب کروں گی، ٹھاٹھ سے رہوں گی۔”
”اس ٹھاٹھ میں مجھے بھی شریک کر لینا۔” وہ بھی شرارت کے کھیل کو سمجھتا تھا، اس کے ساتھ کھیلنے لگتا۔
”امریکہ چھوڑنا پڑے گا۔” اس کے ناز سے کہا۔
”تم کہو تو دنیا بھی چھوڑ دوں۔” وہ نیا زمندی سے بولا۔
”شادی تو پھر بھی رہ ہی جائے گی۔” وہ بے ساختہ بولی۔ دونوں ہنسنے لگے۔
٭…٭…٭
وہ امریکہ سے اسے لمبے لمبے فون کرتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس کے اتنا دور ہونے پر چڑ جاتی۔ ایک مرتبہ وہ دو ہفتے تک اسے فون نہ کرسکا۔ وہ ناراض ہوگئی۔ اس نے فون کیا تو وہ اس پر الٹ پڑی۔
”فون مت کیا کرو مجھے۔” اس نے ناراضی سے کہا۔
”ارے کیوں؟” وہ حیران ہوا۔
”میری مرضی۔ مت بات کرو مجھ سے” اس نے غصے سے حکم دیا۔
”اف کتنا غصہ کرتی ہو تم! تم سے نہ کروں تو پھر کس سے بات کروں؟”
”چیلسی سے” وہ ابھی تک ناراض تھی۔
”ہیں؟ چیلسی کدھر سے آگئی؟” اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
”مجھے کیا پتا؟ تم اتنی دور بیٹھے ہو، کیا پتا ملتے ہی ہو چیلسی سے۔” وہ بے حد خفا تھی۔
”اوہ تو یہ بات ہے!” بدر نے گہرا سانس لیا۔ ”یار ایک کانفرنس میں بزی تھا۔ کال نہیں کرسکا۔I am sorry۔”
لیکن اسمارہ کا غصہ ایک سوری سے ٹھنڈا ہونے والا نہیں تھا۔ وہ اسے بھی ویسا ہی دکھ پہنچانا چاہتی تھی جیسا اس کے دل کو ہوا تھا۔
”تمہیں پتا ہے میں کسی کو پسند کرتی تھی۔” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پہلا وار کیا۔
”اچھا؟ کس کو؟” اس نے بے نیازی سے کہا۔
”تو اس نے کیوں چھوڑ دیا تمہیں؟” بدر نے پوچھا۔
”اس کی ایسی کی تیسی۔ وہ مجھے کیوں چھوڑتا، میں نے چھوڑا اسے۔” اس نے غصے سے بل کھا کر کہا۔
”اس کا مطلب تم اسے پسند نہیں کرتی تھیں۔ ورنہ نہ چھوڑتیں۔ جیسے مجھے نہیں چھوڑا۔ ایک سال ہوگیا۔ تم اب بھی مجھے پسند کرتی ہو۔” بدر نے اطمینان سے کہا۔
اسمارہ کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی۔
”میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔” اس نے بے بسی سے آخری کوشش کی۔
”کیوں جمیلہ؟” اف یہ نرم آواز، یہ پیار سے جمیلہ کہنا۔
”کیونکہ تم چیلسی کا ذکر کرکے میرا دل دکھاتے ہو۔” اس نے ناراض ہوکر کہا۔
”میں نے کب کیا ذکر؟ چیلسی کی بات تو تم نے شروع کی۔” اس نے یاد دلایا۔
اسمارہ لاجواب ہوگئی۔ وہ ہمیشہ اسے اسی طرح لاجواب کردیتا تھا اور عجیب بات یہ کہ اسے اس سے لاجواب ہونا اچھا لگتا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!