غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

۵، می رقصم

ڈیرایمن آپا!
Guess what۔ کل رات قوالی پر مجھے وہ لڑکی ملی جس نے بچپن میں مجھے پول میں ڈوبنے سے بچایا تھا اور بوجھیں وہ کون نکلی؟ The willow damsel۔ وہ ارسلان اور حسیب کی کزن ہے، نقاب نہیں لیتی اور گاڑیوں اور بائیکس کی شوقین ہے۔ آج خالہ کے گھر لنچ ہے اور وہ دوبارہ آئے گی۔
تشکر اتفاقات کے لیے اور تشکر اس خیال کے لیے جو حقیقت میں بدل جائے۔
بدرالدجا
P.S: اس کا نام اسمارہ ہے۔
٭…٭…٭
ڈیر بدر!
ارے یہ دنیا کتنی چھوٹی ہے اور یہ اتفاق تو ذرا کچھ زیادہ ہی نہیں ہوگیا؟ جس لڑکی کے خیالوں میں تم پچھلے ایک مہینے سے گم ہو، وہ اتنی قریبی رشتہ دار ہے اور رشتہ دار بھی وہ تو تمہاری جان بچا چکی ہے۔ مجھے تو کچھ کچھ کیوپڈ کی شرارت کے آثار نظر آرہے ہیں۔
ایمن
P.S: تو کب بھیج رہے ہو اپنی تازہ نظم؟
٭…٭…٭
ڈیر آپا!
ابھی لیجیے
کیسا لگتا ہے
جب جنت زمیں پر آن اترے تو؟
راتوں، رستوں، سایوں سے
خیالوں کے کنائیوں سے
روشن کی جوت ابھرے تو
کیسا لگتا ہے؟
کتابیں، پھول، خوشبو، چاندنی
نشاطِ ساز
امنگ، البیلا پن، آنند، مسرت
کسی یادِ رفتہ کی آواز
سب ہی مل کر
زندگی میں رنگ بھر دیں تو
کیسا لگتا ہے؟
بدرالدجا
٭…٭…٭
ڈیر بدر!
ooh lala! یہ تو تم آج لنچ کے بعد بتانا کہ کیسا لگتا ہے۔
ایمن
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اگلے دن اس کی آنکھ صبح ہی صبح کھل گئی اور پہلا خیال ہی اسے اسمارہ کا آیا۔ اس نے بڑی احتیاط سے اپنے لیے کپڑے سلیکٹ کیے۔ کل وہ اس سے بے حد مرعوب ہوگیا تھا مگر اسے اس بات کا احساس تھا کہ شاید وہ اسے متاثر کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کا ارادہ تھا کہ آج خود کو بے نیاز اور لاپروا ظاہر کرے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ بارہ بجتے ہی وہ ڈرائنگ روم کے دروازے پر آنکھ، کان اور تمام حسیات جما کر بیٹھ گیا۔ برا ہو اسلطان کے دوست کا جس نے بلیرڈ کی گیم کے لیے اسے پچھلے کمرے میں بلوا لیا اور جب وہ بصد مشکل ان سے جان چھڑا کر ڈرائنگ روم میں واپس آیا تو وہ آچکی تھی اور صوفے پر بیٹھی خالو جان یعنی اپنے تایا سے باتیں کررہی تھی۔
کھانے کے دوران بھی وہ اسے دیکھتا رہا۔ پتا نہیں کس رنگ کا لباس پہن رکھا تھا اس نے۔ بدر نے غور نہیں کیا۔ وہ تو بس اس کا کسی راج ہنس کی طرح بیٹھنا، اس کے ہاتھوں کا اٹھنا (جسے دیکھ کر اسے اپنے willow tree کا خیال آتا تھا) اور اس کی مسکراہٹ دیکھتا رہا۔ کیسی grace تھی اس کی ہر جنبش میں۔ مضبوطی اور نزاکت جیسے یکجان کردیئے گئے ہوں۔ چونکہ وہ فیملی ممبر تھی اس لیے میزبانی کے فرائض بھی انجام دے رہی تھی۔ لوگوں سے کھانے کا پوچھتے وہ اس کے پاس بھی آئی۔
”ہیلو بدرالدجا۔” اس نے مسکرا کر کہا۔
”ہیلو اسمارہ’۔’ بدر نے بے حد مہذب بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ”How are you?”
”I am good۔ آپ کیسے ہیں؟ آپ نے کھانا ٹھیک سے کھایا؟” اسمارہ نے اپنی پرفیکٹ انگریزی میں پوچھا۔
بدر نے مسکرا کر اثبات میں جواب دیا اور وہ آگے بڑھ گئی۔ بدر نے خاموشی سے خود کو شاباش دی۔ رعبِ حسن کے سامنے اس نے اپنی cool قائم رکھی تھی۔
کھانے کے بعد بلیر ڈروم میں شطرنج کا کھیل جمائے بدر اور ارسلان کھیل رہے تھے۔ کچھ لوگ اردگرد بیٹھے انہیں کھیلتا دیکھ رہے تھے اور مشورے دے رہے تھے۔ کچھ بلیرڈ کھیل رہے تھے۔ ایک جگہ آکر بدر پھنس گیا۔ آخر بہت سوچ بچار کے بعد اس نے گھوڑا بڑھا کر قربان کیا اور کوئین کو بچا لیا۔ بے ساختہ کسی نے اس کے پیچھے سے کہا ”Brilliant move!” بدر نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی کرسی کے پیچھے اسمارہ کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر ستائش تھی۔ بدر کا سیروں خون بڑھ گیا۔ دل کیا اپنے ہی کندھے پر تھپکی دے کر کہے۔ ”شاباش بیٹا! She thinks you are brilliant۔” پر اب مصیبت یہ ہوگئی کہ اس کا ذہن بٹ گیا۔ کیسے فوکس کرسکتا تھا کھیل پر جب وہ اس کے عین پیچھے کھڑی تھی اور غور سے اسے کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک منٹ بعد ہی وہ دوبارہ پھنس چکا تھا۔ تین منٹ تک سوچتے رہنے کے بعد بھی اسے کوئی چال نہ سوجھی تو پیچھے سے ایک چوڑیوں والا ہاتھ سامنے آیا اور کوئین کو اٹھا کر عین نشانے پر رکھ دیا۔
”رانی کو رکھ دیا نشانے پر! مجھے مجبور نہ کرنا اسے بچانے پر۔” ارسلان نے نعرہ لگایا۔
”کوئین مرجائے گی میری۔” بدر نے خاموشی سے کہا۔
”ہاں مگر کنگ بچ جائے گا۔” اسمارہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”اور یہاں سے فیل بڑھا کر اس کا گھوڑا مارو اور پھر سیدھے چیک میٹ۔”
”Brilliant move!” بدر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ وہ گیم جیت گیا۔ اٹھتے ہوئے اس نے اسمارہ کا شکریہ ادا کیا۔
”میں تو سمجھا تھا آپ صرف سوئمنگ میں اچھی ہیں۔ آپ تو شطرنج کی بھی چیمپئن نکلیں۔” اس نے ستائش سے کہا۔
”نہ میں سوئمنگ چیمپئن ہوں نہ شطرنج۔ بس بی بی جان کے ساتھ کھیلتی ہوں تو کچھ مووز آتی ہیں۔” اسمارہ مسکرائی۔
”تو سوئمنگ چھوڑ دی کیا؟” اس نے پوچھا۔ دل میں سوچا کہ کیا غضب کیا، اب ڈوبتے ہوؤں کو کون بچائے گا؟
”نہیں۔ بس کچھ نئی دلچسپیاں شروع ہوگئیں تو پرانی کم ہوگئیں۔” اسمارہ نے کہا۔
”اچھا، کیا نئی دلچسپیاں؟” بدر نے دلچسپی سے پوچھا۔ دل ہی دل میں اس نے دعا کی کہ وہ شاعری کا نام لے دے۔
”بس ہیں کچھ۔” اسمارہ نے ٹالا ۔”پھر پڑھائی کی بھی مصروفیت ہے۔ آپ کیا کرتے ہیں؟” اس نے آخر میں سوال کیا۔
”میں Law کررہا ہوں۔ یونیورسٹی آف شکاگو سے۔” بدر نے بتایا۔
وہ دونوں چلتے ہوئے بلیئرڈ ٹیبل کے گرد آکھڑے ہوئے تھے اور وہاں کھیلنے والوں کو دیکھتے ہوئے باتیں کررہے تھے۔ حسیب نے اس کا آخری جملہ سن لیا۔
”کس پر رعب ڈال رہے ہو اپنے Law پروگرام کا؟ ان محترمہ کا جانتے کس میں ایڈمشن ہوا ہے؟”
”کس میں؟” بدر نے دلچسپی سے پوچھا۔
”Mechatronics!” حسیب نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا ”Mechanical plus Electronic Engineering۔ یعنی ڈبل جنجال۔ ہمیں دیکھو ایک سیدھی سادی کمپیوٹر انجینئرنگ ہی نہیں کی جاتی۔”
اسمارہ نے متانت سے مسکرا کر cue حسیب کے ہاتھ سے لے لی اور کنارے پڑے بال سے نیٹ کے پاس والے بال کا نشانہ لیا۔
اور جب بدرالدجا اس کے لگائے نشانے سے بال کو نیٹ میں جاتا دیکھ رہا تھا تو اس نے چپکے سے اس کے نام کے آگے ایک اور خانے پرٹک لگا دیا۔
٭…٭…٭
اس رات بی بی جان تایا جان کے گھر رک گئیں اور جب جب بی بی جان رکتی تھیں تو اسمارہ کارکنا لازمی ہوتا تھا اور اس کے ساتھ تینوں بھائی بھی رک جاتے تھے کیونکہ ارسلان اور حسیب کے ساتھ ان کی بہت دوستی تھی۔ رات گئے تک ان کی گیمز چلتیں۔ تایا کے گھر کے گراؤنڈز وسیع و عریض تھے جن کا بڑا حصّہ کینٹ کے پرانے چھتناور درختوں سے سجا تھا۔ یہ درخت چار دیواری کے ساتھ پھیلے ہوئے تھے۔ اگلے خالی حصے میں نیٹ لگا کر بیڈ منٹن اور ٹینس کھیلی جاتی تھی۔ دوسرے گراؤنڈ میں باسکٹ بال کورٹ تھا۔ آج شام کو بارش ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے کوئی کھیل نہ ہوسکا۔ رات کے کھانے کے بعد سب لوگ خوشگوار موسم انجوائے کرنے کے لیے برآمد میں بیٹھے رہے۔ جوں جوں رات بیتتی گئی، لوگ اٹھ اٹھ کر اندر جاتے رہے۔ آخر میں صرف لڑکے رہ گئے۔ اسمارہ بھی بی بی جان کے ساتھ اندر چلی گئی۔ بدر الدجا کو یوں لگا گویا چاند پھیکا پڑ گیا اور ستارے مدھم ہوگئے۔ وہ خاموشی سے بیٹھا سب کی باتیں سنتا رہا۔ بارہ بجے کے قریب اس نے اسے آتے دیکھا۔ اس کے ہاتھوں میں ٹرے تھی جس میں کافی کے بڑے بڑے مگ رکھے تھے۔ اس کا دل کھل اٹھا۔
”میں نے سوچا آپ لوگوں کو ذرا مزید جگا دوں کافی کے ساتھ۔” اس نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ساتھ سینڈوچز اور بسکٹ بھی تھے۔ بدر نے دل میں اس کے نام کے آگے ایک اور ٹک لگایا اور کافی کا مگ اٹھا لیا۔ ”تم کیوں نہیں سوئیں ابھی تک؟” قاسم نے پوچھا۔
”کتاب پڑھ رہی تھی، وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔” اس نے بیٹھتے ہوئے کہا۔ بدر نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ چاند چمکنے لگا تھا اور ستارے جھلمل جھلمل کررہے تھے۔ ہوا، پتے، چاندنی اور اس کا دل سب رقص کے عالم میں تھے۔ اس نے مسکرا کر کافی کا ایک گھونٹ لیا۔ یہ رقص کا عالم اس کافی کا اعجاز تھا یا اس کی موجودگی کا، اس نے کافی کو غور سے دیکھا۔ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ اس رات وہاں بیٹھے بدر نے اسمارہ نے بہت سی باتیں کیں اور ہر بات کے ساتھ اس کی پسندیدگی میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس نے اسمارہ کو بتایا کہ وہ شاعری کرتا ہے۔
”رئیلی! اردو یا انگلش؟” اسمارہ نے متاثر ہوتے ہوئے پوچھا۔
”دونوں۔” بدر نے بتایا۔
”واؤ! کچھ سنائیے۔” اسمارہ نے اپنی شفاف آنکھیں اس پر جما کر کہا۔
بے اختیار بدر مسکرایا۔ اسے اپنی وہ نظم یاد آئی جو اس نے ایمن آپا کو بھیجی تھی۔ کیا وہی سنا دے۔ اسے خاموش دیکھ کر اسمارہ خود ہی کہنے لگی۔ ”ویسے انگلش پوئٹری مجھے اس طرح متاثر نہیں کرتی جیسے اردو پوئٹری کرتی ہے۔”
”Same here!” وہ بے ساختہ بولا۔
اسمارہ مسکرائی۔ وہ اس کی مسکراہٹ کو، اس کی اٹھی ہوئی گردن کو، اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کافی کے مگ کو دیکھتا رہا۔ اس کی ہر جنبش اسے اب بھی اسی طرح متاثر کررہی تھی جیسے پہلے دن کیا تھا۔
اسمارہ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”شاید اس وجہ سے کہ بچپن سے ابو نے شاعری کا ذوق پیدا کیا میرے اندر۔ صوفیانہ کلام پڑھایا، اساتذہ کا کلام پڑھایا۔ غالب تو گویا گھول کر پلا دیا۔”
”ہاں مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے میں بچپن میں ایک دفعہ آپ کے گھر آیا تھا۔ انکل نے سب کو ہیرسنائی تھی۔” بدر نے کہا۔
اسمارہ ہنس پڑی۔” ہاں یہ تو ابو کا فیورٹ کام تھا۔ ہیر گانا اور سنانا۔”
بدر کہہ رہا تھا ۔”مجھے اس لیے یاد ہے کہ آپ لوگ اپنے ڈرائنگ روم کو گول کمرہ کہتے تھے اور میں بڑا حیران ہوا تھا کہ کمرہ تو چوکور ہے، اسے گول کیوں کیا جارہا ہے؟”
اسمارہ مسکراتی رہی، یہ سوال وہ خود بھی پوچھا کرتی تھی۔
”اور اس گول کمرے میں صادقین کی ایک پینٹنگ لگی تھی۔ میں اسے دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا تھا۔” بدر نے اپنی دھن میں بتایا۔
اسمارہ کو کافی پیتے پیتے اچھولگ گیا۔ اسد نے ہاتھ بڑھا کر دو دھموکے اس کی کمر پر جڑے۔ ”آرام سے بجیا!” اس نے دانت نکال کرکہا۔
لیکن اسمارہ ہنس رہی تھی۔ ہنسی روکنے کی کوشش میں اس کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔
”اچھا تو وہ آپ تھے؟” اس نے ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
بدر کچھ پریشان ہوا، کچھ شرمندہ۔ بھلا اس میں اتنا ہنسنے والی کیا بات تھی۔
”I am sorry” اسمارہ نے آنکھیں پونچھ کر کہا ۔
”میرا مقصد آپ کا مذاق اڑانا نہیں تھا۔ دراصل ہم بچپن سے اس مہمان بچے کا قصہ سنتے آئے ہیں جو صادقین کی پینٹنگ دیکھ کر ڈر گیا تھا اور اپنے ابو سے پوچھا تھا کہ کیا یہ بھوتوں کی تصویریں ہیں؟” وہ پھر سے ہنسنے لگی۔ بدر نے مسکرانے کی کوشش کی مگر شرمندگی سے اس کی بری حالت تھی۔ اسے معلوم ہوتا کہ اس کے بچپن کی بے وقوفی ابھی تک یاد رکھی گئی ہے تو کبھی یہ بات نہ کرنا۔ اسے خیال آیا کہ جس طرح وہ اپنے دل میں اسمارہ کے نام کے آگے ٹک لگا رہا ہے، وہ بھی اس کے نام کے آگے لگا رہی ہوگی۔ بدرالدجا… جوڈوبنے لگا تھا اور جو صادقین کی پینٹنگ دیکھ کر ڈر گیا تھا۔ وہ خاموشی سے کافی پیتا رہا۔ اسمارہ اس کی حالت سے بے خبرو بے نیاز اپنے کزن سے باتیں کرتی رہی۔
”یار اس کپ کو دیکھ کے مجھے کچھ یاد آرہا ہے۔” شجاع نے کافی کا کپ غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا یاد آرہا ہے؟” ارسلان نے پوچھا۔
”صبح جب ہم پچھلی دیوار کے ساتھ کھڑے تھے، میرے ہاتھ میں ایسا ہی ایک کپ تھا۔ وہ میں نے باؤنڈری وال پر رکھ دیا تھا اور پھر اٹھانا بھول گیا۔” شجاع کہہ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک پر سوچ تاثر تھا۔ ”ہے کوئی ایسا شیر کا بچہ جو اس وقت اس کپ کو اٹھا کر لائے؟” شجاع نے باری باری سب کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
خاموشی چھا گئی۔ پچھلی دیوار کے پاس درخت بے حد گھنے تھے۔ ان کے بیچ جھاڑیاں تھیں۔ بس ایک چھوٹا موٹا سا جنگل ہی تھا وہ۔ رات کا ایک بجا تھا۔ آسمان پر بادل تھے اور رات اندھیری تھی۔ کسی کا دماغ خراب تھا کہ وہ کپ اٹھانے جاتا؟ سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر اس نے اسمارہ کو اٹھتے دیکھا۔ ”میں لاؤں گی” اس نے اطمینان سے کپڑے جھاڑ کر کہا۔
”اسمارہ وہ مووی یاد ہے Evil Dead؟” شجاع نے معصومیت سے پوچھا۔
”یاد ہے” اس کے اطمینان میں ذرہ برابر فرق نہ آیا تھا۔
”یاد ہے کس طرح جنگل سے ایک ہاتھ نکل کر آتا تھا لوگوں کا خون پینے؟” شجاع نے مزید ڈرانے کی کوشش کی۔
اسمارہ نے اس دفعہ کوئی جواب دینے کی زحمت نہ کی۔ اس نے آرام سے اپنا فون اٹھایا اور چل پڑی۔ بدر نے بے ساختہ اس کے دوپٹے کا کوناتھام لیا ۔”مت جاؤ” اس نے خاموش آواز میں کہا۔
”وہاں بہت اندھیرا ہے۔”
”کوئی بات نہیں!” اسمارہ نے دوپٹہ چھڑا کر کہا۔ ”یہ فون لے جارہی ہوں نا۔ ٹارچ ہے اس میں۔”
وہ دور تک اسے جاتا دیکھتا رہا۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ اسے روک لے یا خود ساتھ چلا جائے۔ اسے گئے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ اس کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”یار یہ بڑی زیادتی ہے کہ تم لوگوں نے اکیلی لڑکی کو بھیج دیا!” اس نے کچھ غصے اور افسوس کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔
اس بات کا جواب سب نے قہقہوں کی صورت میں دیا۔ ”اکیلی لڑکی؟ تم اسمارہ کو نہیں جانتے۔ دس لڑکوں پر بھاری ہے وہ۔” ارسلان نے ہنستے ہوئے اسے بتایا۔
لیکن وہ نہیں رہ سکتا تھا۔ تیزی سے وہ پچھلے گراؤنڈ کی طرف چلا جس طرف اسمارہ گئی تھی۔ اس کے جانے کے پورے تین منٹ بعد اسمارہ آتی دکھائی دی۔ اس کے ہاتھ میں فون تھا، دوسرے میں کپ۔ سب نے تالیاں بجا کر داد دی۔ شجاع نے خوش ہوکر 2 سوروپے انعام دیا۔ سب باتوں میں مگن ہوگئے۔ کوئی دس منٹ بعد ارسلان کو خیال آیا کہ بدرالدجا ابھی تک نہیں لوٹا۔ وہ فکر مند ہوا۔ قاسم اور اسد اس کے ساتھ بدر کو ڈھونڈنے گئے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے بدر کو اس حال میں درختوں میں بھٹکتا پایا کہ فون کی ٹارچ آن کیے وہ پھولے سانس کے ساتھ اسمارہ کو آوازیں دیتا پھررہا تھا۔ اسے واپس لایا گیا۔ اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا۔ کسی نے تسلی دی، کسی نے مذاق اڑایا، کسی نے اس کا اسمارہ سے موازنہ کیا جو بغیر ڈرے صحیح سلامت واپس آگئی تھی۔ سب ہنستے بولتے رہے، صرف اسمارہ خاموشی اور سنجیدگی سے اسے دیکھتی رہی۔ اتنے سارے لوگوں میں صرف وہ تھا جو اس کی فکر میں اسے ڈھونڈنے گیا تھا۔ اس بات نے اسمارہ کے دل پر عجیب سا اثر کیا تھا۔ اس نے اب تک چیلنج کرنے والے دیکھے تھے، فکر کرنے والا وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
ڈئیر آپا!
خوبصورت ہے… چیک
لائق فائق ہے… چیک
ویل گرومڈ ہے… چیک
بائیکس کی شوقین ہے… چیک
کافی اچھی بناتی ہے… چیک
شاعری کا ذوق ہے… جیک
نڈر ہے… چیک
اور کچھ؟
بدرالدجا
٭…٭…٭
ڈیر بدر!
تمہیں پسند کرتی ہے؟ ذرا بھی یہ بھی چیک کرو۔
ایمن
٭…٭…٭
ڈیر آپا!
ابھی تک جیسا امپریشن میں اس پر ڈال چکا ہوں، میرا خیال ہے نہیں کرتی،پر امید پر دنیا قائم ہے۔
بدرالدجا
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!