(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۴۔ شاعر
”جنون وجود سے نہیں آتا، روح سے آتا ہے۔” زہرہ راجہ کہہ رہی تھیں۔
اسمارہ نے اتفاق میں سرہلایا۔ اسے کتھک سیکھتے دوسال ہونے کو آئے تھے۔ وہ رقص جو کھیل کھیل میں شروع ہوا، اب اس کا جنون بن چکا تھا۔ یہ صرف رقص نہیں تھا جس نے اس کا دل جیتا تھا۔ یہ وہ سبق، وہ باتیں تھیں جو زہر ہ راجہ اس سے کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے اسے دنیا کی ہر چیز، ہربات، ہر واقعہ سے سبق کشید کرنا سکھایا تھا۔
”وجود لمحوں کا کھیل ہے، روح جاوداں ہے۔” زہرہ کہہ رہی تھیں اور اسمارہ ایک ایک لفظ ذہن نشین کررہی تھی” روح کے لیے علم کا دروازہ کھولو تو روشن رہے گی ورنہ اندر باہر اندھیرا۔”
”اور علم کیا ہے؟” اسمارہ نے پوچھا۔
زہرہ نے اسے محبت سے دیکھا۔ وہ ہمیشہ اس کے سوالوں سے خوش ہوتی تھیں۔
”علم حقیقی… روحانی علم” انہوں نے مسکرا کر شفقت سے کہا ”ہر صفت کے یکجا ہونے کا علم۔”
”عورت ہونے کا علم؟” اسمارہ نے کہا۔
وہ ہنس پڑیں۔ ”عورت ہونا بڑے نصیب کی بات ہے۔ مگر ایک بات یاد رکھو، نسوانیت صرف نزاکت سے اٹھنے بیٹھنے کا نام نہیں ہے۔ یہ محبت ہے، ممتا ہے، رحم ہے۔ نسوانیت کا جوہر رحم ہے۔ ہر معنی میں… عورت جسم کے رحم میں بچے کی پرورش کرتی ہے۔ دل کے رحم سے اسے پالتی ہے، روح کے رحم سے اس کے لیے قربانیاں دیتی ہے۔ جس کی متاعِ کل مخلوق کے لیے اپنی آغوش کھول دیتی ہے، وہ علمِ حقیقی کو پالیتا ہے۔”
”خواہ مرد ہو یا عورت؟” اسمارہ نے کچھ بے یقینی کے عالم میں پوچھا۔
”ہاں۔ جب دل چہار عالم کی محبت کے لیے کھل جاتا ہے، جب من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز، پھول پودے، چرند پرند حتیٰ کہ پیروں کے نیچے آنے والے پتھروں کے لیے بھی محبت دل و روح میں اس طرح بھر جاتی ہے کہ اس کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو پھر نہ عورت صرف عورت رہتی ہے، نہ مرد صرف مرد۔ وہ صفات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ ”ہم” ہوجاتے ہیں، ‘میں’ نہیں رہتے۔
من تو شدم، تو من شدی من جاں شدم تو سُن شدی
ناکس نہ گویہ بعد ازیں من دیگرم، تو دیگری”
(میں تُو ہوگیا، تُو میں بن گیا، گویا میں جان اور توجسم۔ تاکہ بعد کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ تو کوئی اور ہے اور میں کوئی اور)
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ڈیر آپا!
کل یہ نظم کہی، پڑھ کر بتائیے کیسی لگی۔
موہے پیا ملن کی آس
دھڑکنوں کے دیس میں
بے تابیاں بے چینیاں
بس گئی ہیں جس طرح
الفتوں کے بھیس میں
انہیں کون دیئے بن باس
موہے پیا ملن کی آس
کبھی موم تھا کبھی آگ تھا
کبھی خار غنچۂ لال تھا
کہ یہ عش وائے حسرتا
کبھی نوحہ اور کبھی راگ تھا
کبھی دور دور، کبھی پاس
موہے پیا ملن کی آس
بدرالدجا
٭…٭…٭
اسمارہ اور اسد اوپر کے کاٹھ کباڑ سے بھرے کمرے کی کھڑکی میں بیٹھے نیچے گلی سے گزارتا ہوا بچوں کا جلوس دیکھ رہے تھے۔ کئی ہفتوں سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ بچوں نے بارش کے لیے جلوس نکالا تھا۔ ایک بڑی سی ڈول پر چہرہ بنا کر اسے لال گھاگھرا پہنا دیا تھا اور اسے لہراتے ہوئے نعرے بلند کررہے تھے ۔”اللہ میاں پانی دے پانی دے پانی دے۔” اسمارہ دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ اسد جسے وہ زبردستی گھسیٹ لائی تھی، تنگ آگیا تھا۔
”چلو بجیا!” اس نے اسمارہ کا بازو کھینچ کر کہا ۔”بچپن سے دیکھ رہے ہیں ایسے جلسے جلوس۔ اس میں کیا نئی بات ہے؟”
اسمارہ نے کھڑکی بند کردی۔ ”مجھے اچھا لگتا ہے دیکھنا۔” اس نے کہا۔ ”اور ہے بھی کیا کرنے کو؟ بور ہوگئی ہوں ان چھٹیوں میں۔”
دونوں کمرے سے نکل کر برآمدے میں چلنے لگے۔
”کتھک کلاسز کیوں بند ہیں آج کل آپ کی؟” اسد نے پوچھا اسمارہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔ زہرہ راجہ بیمار تھیں۔ کئی دنوں سے اسمارہ بے چین روح کی طرح حویلی کے کمروں میں پھرتی رہی تھیں۔ روز فون پر ان کا حال پوچھ لیتی تھی اور بس۔ دل ان سے ملنے کو بے قرار تھا پر جہاں وہ رہتی تھیں، وہاں جا نہ سکتی تھی۔ اس نے ٹھنڈا سانس لے کر اسد سے حالِ دل کہہ سنایا۔ وہ سوچ میں پڑگیا۔
”آپ واقعی ان سے ملنا چاہتی ہیں؟” اس نے پرسوچ لہجے میں پوچھا۔
”میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ میں جاتو نہیں سکتی وہاں۔” اس نے منہ لٹکا کر کہا۔
”میرے ساتھ بھی نہیں؟” اسد نے آنکھیں گھما کر پوچھا۔ اسمارہ چونک گئی۔
”تم کیسے لے جاؤ گے؟” وہ کچھ حیران ہوئی۔
اسد نے ادھر ادھر دیکھ کر کسی کے وہاں موجود نہ ہونے کی تسلی کی، پھر سرگوشی میں بولا۔
”قاسم بھائی کی بائیک پر۔”
اسمارہ کا دل خوشی سے اچھل پڑا ۔”تم چلا لو گے؟” اس نے ایکسائٹڈ ہوکر پوچھا۔
”ہاں نا!” وہ فخر سے بولا۔ ”اور صرف یہیں تک نہیں جائیں گے، آگے تک ہوکر آئیں گے، گلبرگ تک۔” اسمارہ رہنے لگی۔ ایڈونچر تو اسے ہمیشہ سے پسند تھے۔
لیکن اسد اب کچھ اور سوچ رہا تھا۔ ”لیکن ایک مسئلہ ہے۔” اسد نے منہ لٹکا کر کہا۔
”کیا مسئلہ؟” وہ ٹھٹکی۔
”قاسم بھائی کو پتا چل گیا تو گردن مروڑ دیں گے میری۔” اسد نے دکھی ہوکر کہا۔
”کیسے پتا چلے گا؟ وہ تو خالہ امی کے گھر گئے ہوئے ہیں۔” اسمارہ تسلی دی۔
”کوئی بتادے گا!” اسد کو نیا خدشہ لاحق ہوا۔
”دووپہر کو جب سوجائیں گے، ہم آنکھ بچا کر نکل چلیں گے۔” اسمارہ نے چٹکی بجائی۔
”اور اگر راستے میں کسی نے دیکھ کر پہچان لیا اور رپورٹ کردی تو ہم دونوں مارے جائیں گے۔” وہ اب بھی گومگو کی کیفیت میں تھا۔
”سمپل سولوشن۔ تم ہیلمٹ پہن لو، میں نقاب لے لیتی ہوں۔” اسمارہ نے مسکرا کر حل پیش کیا۔
اسد خوشی سے اچھل پڑا ۔”گڈ آئیڈیا! آپ جلدی سے تیار ہوں، میں ہیلمٹ لے کر آتا ہوں۔”
٭…٭…٭
اسد بائیک چلانے کے شوق میں لے تو آیا تھا مگر اسے اتنی اچھی چلانی نہیں آتی تھیں۔ اسمارہ چڑ گئی۔
”اترو نیچے، میں چلاتی ہوں’۔’ وہ بار بار اسے کہتی رہی۔ رہی سہی کسر اس نقاب نے پوری کردی تھی جو بار بار ڈھلکتا تھا اور وہ بار بار اسے ٹھیک کرتی تھی۔ ایک سرخ اشارے پر اسد نے بائیک روکی اسمارہ کی نظر ساتھ کھڑی گاڑی پر پڑی۔ ننھی سی پستہ قد BMW اسمارہ گاڑیوں کی پہچان رکھتی تھی۔ ”واہ کیا گاڑی ہے!” اس نے مسکرا کر سوچا اور ہاتھ اٹھا کر ڈھلکتا ہوا نقاب درست کیا۔ اسی وقت اس کی نظر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے لڑکے پر پڑی۔ وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس کی نظروں میں صرف ایک غیر محسوس سا تجسس اور ستائش تھی۔ جیسے کوئی کسی پینٹنگ کو آرٹ کے قدردان کی حیثیت سے دیکھ رہا ہو۔ اسمارہ کو دیکھے جانے کی عادت تھی۔ وہ جہاں جاتی تھی لوگوں کی نظریں خود پر پاتی تھی۔ لیکن آج تو اس نے نقاب نے رکھا تھا۔ یہ اسے کیوں دیکھ رہا تھا؟ اس نے تیوری چڑھا کر ابروا چکائے جیسے پوچھتی ہو۔ ”کیا دیکھتے ہو؟” لڑکا گڑبڑا گیا۔ پھر اس نے سنبھل کر بائیک کے پہیے کی طرف اشارہ کیا۔ اسمارہ نے جھک کر دیکھا۔ اس کی چادر کا پلو ٹائر کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ اس نے پلو اٹھا کر گود میں رکھ لیا۔ سر کو ہلکا سا خم دے کر اس نے بیمرمیں بیٹھے لڑکے کا شکریہ ادا کیا۔ اس وقت اشارہ سبز ہوا اور بائیک آگے بڑ گئی۔
زندگی کا شہر۔ اونچی نیچی حالات کی سڑکیں۔ ان پر چلتی واقعات کی گاڑیاں اتفاقات کے سرخ اشاروں پر ایک دوسرے کے قریب رکتی ہیں۔ ان میں بیٹھے ہینڈسم ہیرو، نازک ہیروئن، مکارولن ایک دوسرے کو د یکھتے ہیں۔ پھر اشارہ سبز ہوتا ہے اور گاڑیاں حالات کی بھول بھُلیوں گلیوں میں پھر سے رواں دواں ہونے کے لیے آگے بڑھ جاتی ہیں۔ لوگ مل جاتے ہیں، بچھڑ جاتے ہیں، یہاں خوشیوں کی صبح طلوع ہوتی ہے اور غموں کی شام اترتی ہے۔ زندگی کے اس شہر پر بیک وقت ملن کا سورج چمکتا ہے اور جدائی کی رات سایہ کرتی ہے۔ یہ شہرِ محبت ہے۔
٭…٭…٭
ڈئیر آپا!
ماما کی برتھ ڈے کی تصویریں بھیج رہا ہوں۔ سر پرائز پارٹی دی میں نے انہیں۔ ان کی سب فرینڈز کو فون کیے۔ خالہ کے ساتھ ماما کو بازار بھیج دیا اور ان سے کہا کہ تب تک ان کو بزی رکھیں جب تک میں کال نہ کروں۔ برتھ ڈے کے لیے میں نے پانچ پاؤنڈ کا کیک آرڈر کیا۔ کیا سرپرائز تھا ان کے لیے یہ بھی! اب بھی ان کا ایکسپریشن یاد کرکے میں ہنس رہا ہوں۔ اور بوجھیں میں نے ان کو گفٹ کیا دیا؟ وہ ٹوپاز کی رِنگ جو انہیں دبئی ڈیوٹی فری پر پسند آئی تھی۔ میں نے ایک دوست کے ذریعے منگوائی۔ اگرچہ میرا والٹ بالکل خالی ہوگیا مگر ماما کی خوشی کے آگے خالی والٹ کچھ بھی نہیں۔ والٹ تو بھر ہی جائے گا۔ پاپا زندہ باد!
کل خالہ کے گھر قوالی نائٹ ہے۔ آج میں شلوار کرتا خریدنے جارہا ہوں۔ اب قوالی نائٹ پر جینز تو پہن کر نہیں جاسکتا۔ کیا خیال ہے سفید ٹھیک رہے گا نا؟ اوپر ویسٹ کوٹ پاپا کی پہن لوں گا۔
آپ کی یونیورسٹی کیسی جارہی ہے؟ کریگ کو میری طرف سے بیلو کہیے گا۔
بدرالدجا
٭…٭…٭
”کیا پہن کر جاؤں میں قوالی میں؟” اسمارہ نے تیسری دفعہ پوچھا۔
”اویار کیا لڑکیوں کی طرح کپڑوں کی باتیں کیے جارہی ہو؟” شجاع نے ڈپٹا ۔
”کچھ بھی پہن لو۔” زرینہ نے آگے ہو کر ایک تھپڑ شجاع کے بازو پر رسید کیا۔
”بس ایسی ہی باتیں کرکرکے تم لوگوں نے اسے آدھا لڑکابنا کررکھ دیا ہے” انہوں نے غصے سے دانت کچکچا کر ڈانٹا۔
”بھئی لڑکی ہے تو ظاہر ہے لڑکیوں جیسی باتیں ہی کرے گی نا” بی بی جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پہلے تو نہیں کرتی تھی۔ یہ اب ہی کوئی دماغ کی چول ڈھیلی ہوئی ہے” شجاع بازو سہلاتے ہوئے بڑبڑایا۔
زرینہ منہ سے تو کچھ نہ بولیں مگر دل ہی دل میں انہوں نے زہرہ راجہ اور ان کے کتھک کا شکریہ ادا کیا جس نے ان کی بیٹی کو واپس لڑکیوں کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔
وہ سب صحن میں بیٹھے تھے۔ موضوعِ گفتگو کل تایا عمادالدین کے گھر ہونے والی قوالی تھی۔
”تم کیا پہنو گے؟” زرینہ نے شجاع سے پوچھا۔
”سفید کرتا شلوار اور کیا۔ ہمارے لیے تو یہی ایک لباس ہے۔ قوالی پر بھی یہی، سالگرہ پر بھی یہی، شادی پر بھی یہی، جنازے پر بھی یہی۔” اس نے کندھے اچکا کر کہا۔
زرینہ نے دوسرا تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر اس دفعہ وہ پہلے سے تیار تھا، جھکائی دے گیا۔
”قوالی پر تو سفید ہی پہننا چاہیے” اسمارہ نے پر سوچ انداز میں کہا۔
”سفید مت پہنو بیٹا۔مجھے وہم آتا ہے سفید لباس سے۔” زرینہ نے کہا۔
”ارے چھوڑ وبے کار کے وہم ہیں۔ تقدیر رنگوں کے تابع نہیں۔” بی بی جان نے تسلی دی۔
”سفید ٹراؤزر شرٹ ہے تو سہی میرے پاس۔” اسمارہ نے پرسوچ انداز میں کہا۔ ”مگر میں وہ دو مرتبہ تائی جان کے گھر پہن چکی ہوں۔”
شجاع نے بے یقینی سے اسے دیکھا ۔”تُو تو واقعی بالکل لڑکی بن گئی ہے اسمارہ! کیا ہوگیا ہے یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہی ہے؟”
لیکن اسمارہ کہاں سن رہی تھی، اس کی سوئی تو سفید لباس پر اٹکی تھی۔
”اچھا میرے پاس ایک حل ہے۔” بی بی جان مسکرائیں ۔”میرا ایک پرانا سفید غرارہ رکھا ہے، تم وہ پہن لو۔”
”آپ کا غرارہ؟ کتنا پرانا ہے؟” اسمارہ سوچ میں پڑ گئی۔
”بہت خوبصورت غرارہ ہے۔” زرینہ نے تعریف کی۔
”بی بی جان کی جوانی کے زمانے کا ہے۔ اس کے پائنچوں پر سچے گوٹے کی بیل ہے۔ سفید دوپٹے پر سچی کرن ہے۔”
”سچی کرن؟ کبھی کوئی جھوٹا گوٹا اور جھوٹی کرن بھی ہوتی ہے؟” شجاع نے حیرت سے پوچھا۔
”سچا مطلب اصلی سونے کی تاروں سے بنا ہوا۔” بی بی جان نے سمجھایا۔
شجاع کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ”بندہ بیچ کے بائیک ہی لے لے۔” وہ بڑ بڑایا۔
”تو یہ جو تین لاکھ کی گھوڑی کھڑی ہے ڈیوڑھی میں یہ کس کی ہے؟” زرینہ خفا ہوکر بولیں۔
”آپ میری سپورٹس بائیک کو گھوڑی کہہ رہی ہیں؟” شجاع بے یقینی اور دکھ سے چلا اٹھا۔
”اور تین لاکھ کی کیا بات کی آپ نے؟ مجھے جو پسند ہے وہ تو تیرہ لاکھ کی ہے۔”
”کون سی؟ Hia Busa؟” اسمارہ نے ایکسائٹڈ ہوکر پوچھا۔
”ہاں 1300CC۔” شجاع نے بہن کے واپس اور یجنل موڈ میں آجانے پر خوشی سے کہا۔
”ہائے مجھے اتنا شوق ہے چلانے کا!” اسمارہ نے تالی بجا کر کہا۔
”میرے ایک دوست کے پاس ہے۔ پرسوں چلو میرے ساتھ، میں چلواتا ہوں” شجاح نے جوش سے کہا۔ زرینہ نے آگے جھک کر ایک تیسری کوشش تھپڑ مارنے کی مد میں کی مگر اس مرتبہ بھی وار خالی گیا۔ کیونکہ شجاع جوش کے مارے اچھل کر کھڑا ہوگیا تھا اور اپنے دوست کا نمبر ملانے میں مصروف تھا۔
”بی بی جان آپ مجھے بتائیے کہاں سے نکلوانا ہے غرارہ۔ میں دھوپ لگوا کر استری کروا دوں۔” زرینہ نے اسمارہ کا دھیان Hia Busa سے ہٹانے کی خاطر کہا۔
”چلو میں بتاتی ہوں۔”بی بی جان اٹھ کھڑی ہوئیں۔
٭…٭…٭
عشق میں ہم تمہیں کیا بتائیں
کس قدر چوٹ کھائے ہوئے ہیں
موت نے ہم کو مارا ہے اور ہم
زندگی کے ستائے ہوئے ہیں
بہت بڑی گیدرنگ تھی۔ شہر کی high gentryجمع تھی۔ انتظام پرفیکٹ تھا، قوال بہترین تھے اور قوالی اس سے بھی بہترین۔ ڈرائنگ روم کے درمیان دروازے کھول کر لاؤنج کے ساتھ اسے ایک بڑے ہال میں بدل دیا گیا تھا۔ قالینوں پر سفید چادر یں بچھی تھیں اور ان کے آگے فلور کشنز اور گاؤ تکیوں کے سہارے لوگ بیٹھے تھے۔ روشنی مدھم تھی۔ لیمپ جل رہے تھے۔ بدرالدجا کزنز اور ان کے دوستوں کے ساتھ قوالوں کے سامنے بیٹھا تھا۔
”یہی چیزیں تو میں مس کرتا تھا پاکستان کی۔” اس نے قوالی پر سردھنتے ہوئے سوچا۔ خوش قسمتی سے اسے کزنز اور دوست ہم خیال اور ہم ذوق ملے تھے۔ خالہ کے بڑے بیٹے ارسلان کے ساتھ تو اس کی دانت کاٹے کی دوستی تھی۔ پاپا کی پوسٹنگ امریکہ ہونے سے پہلے وہ ایچی سن میں اس کا کلاس فیلو تھا۔ وہیں سر جہانزیب سے اردو پڑھتے پڑھتے دونوں میں شاعری کا ذوق پیدا ہوا۔ ذوق بڑھ کر شوق میں بدل گیا اور شوق بڑھ کر محبت میں۔ دونوں نے انگریزی اور اردو دونوںہی میں طبع آزمائی شروع کردی۔ امریکہ جاکر پڑھائی میں مصروف رہنے کے بعد بھی اس نے یہ شوق نہ چھوڑا۔ وہ وہاں بھی پوئٹری مقابلوں میں حصہ لیتا رہتا تھا۔ مگر انگریزی شاعری اس طرح اس کے دل کو نہیں چھوتی تھی جس طرح اردو شاعری۔ اب بھی وہ قوالی پر سردھن رہا تھا۔
اس نے شادی کا جوڑا پہن کر صرف چوما تھا میرے کفن کو
بس اسی دن سے جنت کی حوریں مجھ کو دلہا بنائے ہوئے ہیں
طبلہ دل کی دھڑکن کی طرح بج رہا تھا اور قوال گارہا تھا
”بس اسی دن سے جنت کی حوریں… بس اسی دن سے… بس اسی دن سے جنت کی حوریں…”
اور پھر بدرالدجا نے جنت کی حور کو اپنے سامنے مجسم کھڑا پایا۔
”بہت پیاری لگ رہ ہو اسمارہ As usual!” تائی جان نے اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ وہ مسکراتی گئی۔ بڑا مزہ آنے لگا تھا اسے لڑکیوں کی طرح سجنے سنورنے میں۔
”بی بی جان کا غرارہ ہے نا یہ تو؟” تائی جان نے اس کے دوپٹے کو ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”جی۔ یہ زیور بھی ان ہی کا ہے” اسمارہ نے فخر سے بتایا۔
”دکھاؤ” تائی جان نے اس کے گلے میں پہنی نازک سے کنھٹی کو غور سے دیکھا ”ارے ہاں واقعی۔ اس کے ساتھ تو ایک بندی بھی تھی۔ وہ کیوں نہیں پہنی؟” انہوں نے پوچھا۔
”انہوں نے منع کردیا۔ کہنے لگیں کنواری لڑکیاں نہیں پہنتیں بندیا۔” اسمارہ نے منہ لٹکا کر بتایا۔ تائی جان ہنس پڑیں۔
”تو شادی کروادیں تمہاری؟ جی بھر کے بندیا پہننا۔”
”ہائے شکر ہے کسی کو تو خیال آیا!” اسمارہ نے مصنوعی آہ بھری۔
”ویسے جتنی تم پیاری لگ رہی ہو، تین چار رشتے تو آج ہی آجائیں گے” تائی جان نے ہنس کر کہا۔
”رشتے کے بغیر نہیں ہوسکتی شادی؟” اسمارہ نے پوچھا۔
”کیا مطلب ہے؟” تائی جان حیران ہوئیں۔
”مطلب میں بس دلہن بنوں۔ غرارہ پہنوں، زیور پہنوں اور پھر کپڑے بدل کر اپنی پڑھائی کرنے لگوں۔ اب اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کا جنجال تو نہیں پال سکتی میں۔ Im too young۔” اسمارہ نے اپنا شادی کا آئیڈیا پیش کیا۔
”تم صرف سجنے سنورنے کے لیے شادی کرنا چاہتی ہو؟” تائی جان ہنسنے لگیں۔
”میری جان دولہے کے بغیر شادی نہیں ہوسکتی اور اب تم شادی اور پڑھائی دونوں کو چھوڑو اور یہ سونف مصری لے جاکر لوگوں کو سرو کرو۔”
اسمارہ نے مسکراتے ہوئے ٹرے اٹھایا اور ڈرائنگ روم سے نکل گئی۔ تائی جان کو خیال آیا کہ اسے پیچھے سے آواز دے کر کہیں کہ دھیان رکھنا، کہیں غرارے میں الجھ نہ جانا۔ انہوں نے مڑکراسے دیکھا اور ارادہ ترک کردیا۔ اسکی چال میں اس قدر توازن تھا کہ لمحے بھرکو انہیں یوں لگا گویا وہ ہوا میں چل رہی ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے اسے جاتا دیکھتی رہیں۔
اسمارہ قوالوں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو سونف اور مصری مرد کرنے لگی۔ کچھ لوگوں نے منع کردیا۔ کچھ نے شرافت سے چند دانے اٹھالیے مگر یہ جو شجاع بھائی وغیر کا ٹولا بیٹھا تھا۔ ان سے اسے کچھ نیک امید نہ تھی۔ اس نے ان کو اگنور کرکے نکل جانا چاہا مگر قاسم نے آواز دے کر بلا لیا۔ اس نے نظر انداز کرنا چاہا، مگر قاسم نے وہیں سے ہاتھ بڑھا کر سونف سے مٹھی بھرلی۔ باری باری سارے کزنز کی مٹھیاں بھر کر وہ اس لڑکے سامنے آکھڑی ہوئی جو آنکھیں موندے قوالی میں گم تھا۔ وہ ہلکا سا کھنکھاری۔ لڑکے نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسمارہ نے مدھم روشنی میں اس کی آنکھوں کو رنگ بدلتے دیکھا حیرت، ستائش اور پھر مرعوبیت، اور پھر اس نے نظریں جھکا لیں۔ جیسے اپنی بے اختیاری پر شرمندہ ہوگیا ہو۔ چپکے سے ہاتھ بڑھا کر اس نے چند سونف کے اٹھائے اور سرجھکا کر آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن اسمارہ وہیں کھڑی رہی۔ کہاں دیکھا تھا اسے۔ وہ سوچتی رہی۔ کہیں دیکھا ضرور تھا۔ پر کہاں۔ وہ جھنجھلا کر آگے بڑھ گئی۔ یہ بڑی مصیبت تھی اس کے ساتھ۔ کوئی ایسا چہرہ نظر آجاتا جو کہیں دیکھا ہوتا مگر یاد نہ آتا کہ کہاں دیکھا تھا تو وہ اس کے ذہن پر سوار ہوجاتا۔ ویسے بھی اس کے بارے میں گھر والوں کو مشترکہ خیال تھا کہ اسمارہ کی سوئی اگر اٹک جائے پھر دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے، وہ نہیں ہلتی۔ زمیں جنبدنہ جنبد گل محمد۔ اب اسمارہ کی سوئی اس پر اٹک چکی تھی۔ چلتے چلتے اس نے مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ آنکھیں کھول چکا تھا اور سر اٹھائے اسی کو دیکھ رہا تھا۔ دم بخود، گویا سانس بھی نہ لے رہا ہو۔ اسمارہ کو اپنی طرف دیکھتا پاکر اس نے تیزی سے نظریں جھکالیں۔
انکی تعریف کیا پوچھتے ہو
عمر ساری گناہوں میں گزری
پار سا بن رہے ہیں وہ ایسے
جیسے گنگا نہائے ہوئے ہیں
قوال گارہا تھا۔ اسمارہ کو ہنسی آگئی۔
بدر نے آنکھیں کھول کر کن اکھیوں سے دیکھا۔ وہ جاچکی تھی۔ اس نے گہر ا سانس لیا۔ چند لمحوں کے لیے اس کے دل کی دھڑکن رک گئی تھی اور سانس بند ہوگیا تھا۔ وہ سرجھکائے حیرت سے سوچتا رہا۔
”باقی لوگ بھی تو ہیں۔ صرف مجھ ہی پر اسے دیکھ کر یہ کیفیت کیوں طاری ہوئی؟شاید قوالی سنتے سنتے میرا اندر کا شاعر مجھ پر اس قدر حاوی ہوگیا کہ لیمپ چاند لگنے لگے، دیئے ستارے اور لڑکیاں حوریں۔” اس نے اردگرد بیٹھی لڑکیوں پر نظر ڈالی۔
”لڑکیاں نہیں، صرف ایک لڑکی۔” اس کے دماغ نے تصحیح کی۔ اس کا دل مچل رہا تھا کہ مڑ کر ہال پر نظر ڈالے۔ وہ یقینا پیچھے کہیں بیٹھی آجائے گی۔ مگر اتنے لوگ بیٹھے تھے۔ کتنا نامناسب لگتا ایک لڑکی کو گھورنا۔ اس کا دل اب قوالی میں نہیںلگ رہا تھا، اسی لڑکی میں اٹکا تھا۔ جانی پہچانی کیوں لگ رہی تھی وہ؟ کہاں دیکھا تھا اسے؟ وہ سوچتا رہا۔ چہرہ تو غور سے دیکھ ہی نہیں پاتا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولی تھیں تو کالی چمکدار آنکھیں خود پر گڑی پائی تھیں، اور اس کا سراپا۔سفید لباس پہن رکھا تھا اس نے۔
اے لحد اپنی مٹی سے کہہ دے
داغ لگنے نہ پائے کفن کو
آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے
آج ہی ہم نہائے ہوئے ہیں
قوال گارہا تھا۔ بدرالدجا نے دل کڑا کرکے گردن موڑ کر ہال پر نظر ڈالی۔ وہ ہاتھ میں ٹرے اٹھائے دیوار کے ساتھ بیٹھی ایک خاتون سے مسکرا کر باتیں کررہی تھی۔ بات کرتے کرتے وہ ہلاتی تو کانوں میں پہنے جھمکے ہلکورے لینے لگتے۔ بڑی مشکل سے بدر نے نظریں ہٹائیں اور چہرہ واپس موڑا۔ دوسری مرتبہ مڑ کر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھی۔ ہال میں کہیں نہیں تھی۔ اس کے دماغ نے فوراً حساب کتاب شروع کیا۔ اگر وہ محفل میں چیزیں سرو کررہی تھی تو یقینا فیملی کی فرد تھی۔ یعنی خالہ اسے اچھی طرح جانتی ہوں گی۔ مطلب اب جس کی مجھے تلاش ہے، وہ خالہ ہیں۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ کون ہے اور میں نے اسے پہلے کہاں دیکھا ہے۔ قوالی ختم ہوئی تو وہ اٹھا اور پانی پینے کے بہانے کچن میں آگیا۔ کچن میں خانساماں اور چند ملازمائیں کام کررہی تھیں مگر نہ وہ تھی نہ خالہ۔ وہ پانی کا ہاتھ میں لیے ڈائننگ روم میں آگیا۔ ڈائننگ روم کی کھڑی ماہر ایک چھوٹے سے برامدے میں کھلتی تھی۔ وہ وہاں کھڑا ہوکر باہر دیکھنے لگا۔ شاید وہ باہر کہیں ہو اور پھر اس نے کھڑکی کے شیشے میں اس کا عکس دیکھا۔ وہ تیزی سے مڑا۔ وہ اسے دیکھ کر کچھ ٹھٹکی۔
”ہیلو۔” بدر نے اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر کہا۔
”ہیلو۔” اس نے جواب دیا۔ دونوں کچھ دیر کھڑے کھوجتی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے جسے پہچاننے کی کوشش کررہے ہوں۔
وہ پوچھنا چاہتا تھا ”کیا ہم پہلے مل چکے ہیں؟” لیکن لائن مارنے کا یہ بہت گھسا پٹا ڈائیلاگ تھا اور اسے گوارا نہیں تھا کہ وہ اسے ایسا چھچھورا شخص سمجھے۔
”کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں؟” اسمارہ نے کچھ الجھن سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ بھئی آدھی رات تک جاگ کر دماغ کھپانے سے بہتر ہے ابھی پوچھ لیا جائے۔
وہ گڑ بڑا گیا۔ بے ساختہ منہ سے نکلا۔ ”شاید!”
اور یہ کہتے ساتھ ہی اس کا دل کیا ایک زور کی ٹھوکر خود کو رسید کرے۔ لڑکی وہ سوال پوچھ رہی تھی جو وہ پوچھنے کے لیے مرا جارہا تھا اور وہ جواب میں کیا کہہ رہا تھا۔ شاید! تف اس چند پر، تف اس شرافت پر، تف اس ”شاید” پر۔
وہ ہلکا سا مسکرائی، میز پر رکھی ہوئی ٹرے اٹھائی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ ابھی وہ اضطراب کے عالم میں کچھ کہنے کے لیے کوئی بات سوچ ہی رہا تھا کہ وہ یکدم مڑی اور ٹرے اٹھائے اس کے قریب آگئی۔ وہ دم سادھے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے قریب آکر کچھ غور سے اسے دیکھا اور یکدم خوشی سے بولی۔ ”آپ بسمیر چلاتے ہیں؟”
اور وہ اس کے رعبِ حسن سے مرعوب ایک بار پھر بولا ۔”نہیں تو۔”
”اچھا۔” وہ کچھ مایوسی سے بولی۔
اور اچانک بدر کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔ ”ارے !یہ کہیں وہ تو نہیں؟”
”آپ کے پاس R-K بائیک ہے؟” اس نے تیزی سے پوچھا۔
”ہاں!” وہ خوش ہوکر بولی۔ ”میں نے آپ کو بسمیر میں دیکھا تھا۔”
بدرالدجا بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا۔ تبھی وہ چہرہ دیکھے بغیر بھی اتنی دیکھی دیکھی لگ رہی تھی۔ اسے وہ آنکھیں یاد تھیں۔ اسے اس کی موومنٹ کی grace یاد تھی۔ The willow damsel۔ ”وہ میرے دوست کی گاڑی تھی” اس نے بتایا۔
”وہ میرے دوست کی گاڑی تھی۔” اس نے بتایا۔
”اچھا؟ کیسی ہے چلانے میں؟” اسمارہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
”اچھی ہے۔ تھوڑی نیچی ہے اس لیے سپیڈ بریکرز پر لگتی ہے۔” بدر نے بتایا۔
اسمارہ نے اتفاق میں سرہلایا۔ ”ہاں پرابلم تو آتا ہے اس میں۔ جیگوار سپورٹس کے ساتھ بھی یہی پرابلم ہے۔”
”آپ کو گاڑیوں کا شوق ہے؟” بدر نے متاثر ہوتے ہوئے پوچھا۔
”گاڑیوں کا بھی اور بائیکس کا بھی۔ ہر قسم کا vehicle چلا چکی ہوں میں سوائے ٹینک کے۔ اور ہر قسم کی بائیکس بھی سوائے Hia Busa کے۔ وہ بھی میں کل چلانے والی ہوں۔” اسمارہ نے فخر سے بتایا۔
بدرالدجا کو شادی مرگ ہوگیا۔ ایک لڑکی جو دیکھنے میں حور لگتی تھی، اسے گاڑیوں کا شوق تھا اور وہ ہیوی بائیکس چلاتی تھی اور وہ لڑکی اس وقت کھڑی اس سے باتیں کررہی تھی۔ بدر بیٹے اگر اس وقت تو نے اس کی نظر میں اپنی عزت نہ بنائی تو ساری زندگی خود سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس نے دل ہی دل میں خود سے کہا۔ اب سوچ، کوئی ایسی بات کہہ کہ یہ تجھ سے متاثر ہوجائے۔
”میں بھی تقریباً ہر قسم کی گاڑی چلا چکا ہوں۔” اس نے جلدی سے کہا۔ ”میں نے تو جہاز بھی اڑایا ہے۔”
”ہاں جہاز تو میں بھی اڑا چکی ہوں۔” وہ لاپروائی سے بولی۔ ”لیکن مجھے ٹینک چلانے کا شوق ہے۔” اس وقت بدرالدجا کا دل چاہا دنیا بھر کے ٹینک لاکر اس کے سامنے ڈھیر کردے اور کہے ”ٹینک حاضر ہیں۔ دل بھر کر چلاؤ۔”
لیکن اس سے پہلے کہ وہ ٹینکوں کے بارے میں کچھ کہتا، اسی وقت رابعہ اندر داخل ہوئیں۔ ان دونوں کو کھڑکی میں کھڑا باتیں کرتا دیکھ کر مسکرائیں۔
”تعارف ہوا تم دونوں کا؟” انہوں نے پوچھا۔
”نہیں خالہ!”
”نہیں تائی جان۔” دونوں بیک وقت بولے۔
”ارے بھلا تم اسے کیوں نہیں پہچان سکے بدر؟ یاد ہے جب بچپن میں تم ہمارے پول میں ڈوبنے لگے تھے؟ اسمارہ نے ہی تو بچایا تھا تمہیں۔” انہوں نے یاد دلایا۔
اسمارہ اور بدر نے بے ساختہ ایک دوسرے کو دیکھا۔
”I owe you my life” بدرالدجا نے بے ساختہ کہا۔
وہ کچھ بھی کہتا، کتنی ہی سپورٹس کاروں، ہیوی بائیکس اور ٹینکوں کے متعلق باتیں کرتا، کوئی بات اسمارہ کو اس طرح متاثر نہ کرسکتی جتنا اس چھوٹے سے جملے کی سادگی اور خلوص نے کیا۔ وہ مسکرا دی۔
تائی جان نے تعارف کروایا ”اسمارہ یہ بدرالدجا ہے، میرا بھانجا اور بدر یہ اسمارہ ہے، ارسلان کے چچا کی بیٹی۔”
”نائس ٹومیٹ یو بدرالدجا۔” اسمارہ نے مسکرا کرکہا۔
”نائس ٹومیٹ یو اسمارہ۔” بدرالدجا نے اپنے دل کو اس کے قدموں میں جھکتا دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
اور یوں وہ داستانِ محبت شروع ہوئی جس نے پورے خاندان کو اڑا کر رکھ دیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});