غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

۳۔ انارکلی

وقت کی سیاہی میں
پِیت کا اجالا ہے
ہر گھڑی ہے یوں گویا
ٹوٹے دھاگے کی مالا ہے
سیانے کہتے ہیں وقت بہتا پانی ہے، گزر جاتا ہے۔ شاید ان سیانوں نے کوئی ایسا وقت نہیں دیکھا جو چٹان بن کر زندگی کا راستہ روک کر کھڑا ہوجائے، پھانس بن کر دل و دماغ میں گڑ جائے۔ شہیر کے لیے عالم آراء کی خود کشی کا لمحہ ایک ایسی پھانس تھی جو اس کے دل میں گڑی تھی۔ نہ پار ہوتی تھی کہ کام تمام ہو، نہ نکلتی تھی کہ چین کا سانس آئے۔ بس لمحہ لمحہ خون کی بوند ٹپکاتی تھی اور تماشہ دیکھتی تھی۔ دلاور حسین کے بارے میں بی بی جان کی پیشنگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی تھی۔ انہوں نے چہلم تک عالم آراء کا سوگ منایا اور پھر اپنی رنگ رلیوں میں ایسے محو ہوئے کہ بیٹا تک یاد نہ رہا۔ بی بی جان نے شہیر کو اپنا بیٹا بنانے کا اعلان کرکے رہی سہی محبت تمام کی اور دلاور حسین پہلے سے زیادہ بانکے چھبیلے بنے، دن کو عید، رات کو شبرات بنائے، کھل کھیلنے لگے۔ عالم آراء کے زیور اور جائیداد کے کاغذات کے لیے انہوں نے کنوؤں میں بانس ڈلوا دیئے مگر کچھ نہ ملا۔ عالم آراء کے بھائیوں سے کچھ پوچھنے کی جرأت نہ تھی، وہ پہلے ہی ان سے بھرے بیٹھے تھے۔ آخر دلاور حسین نے عالم آراء کے بینک بیلنس پر صبر کیا اور اس ہی کو دونوں ہاتھوں سے لٹانے لگے۔
شہیر نے شاید ماں کے ساتھ ساتھ باپ پر بھی فاتحہ پڑھ لی تھی۔ ہر ویک اینڈاور تمام چھٹیاں وہ حویلی ہی میں گزارتا تھا۔ اسے حویلی کی گہما گہمی ویسے بھی پسند تھی۔ وہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا۔ ہر جمعرات صحن میں دیگیں چڑھتیں اور ایک جم غفیر حویلی کے پھاٹک پر آن کھڑا ہوتا۔ شبرات کا حلوہ بڑی بڑی کڑاہیوں میں پکتا۔ محرم میں سبیلیں لگائی جاتیں۔ بی بی جان ہر مذہبی عقیدے، ہر تہوار، ہر رسم سے مکمل ہم آہنگ تھیں، پرانے بزرگوں کی ریت کے مطابق ہر کسی کو آغوشِ شفقت میں سمونے کو تیار۔ حویلی کے پاس امام باڑہ تھا۔ جہاں سے ہر سال ذوالجناح برآمد ہوتا تھا۔ حویلی کے لڑکے اس جلوس میں جا شامل ہوتے تھے اور عورتیں حویلی کی چھت سے یہ ماتمی جلوس دیکھا کرتی تھیں۔ اپنے سلیپنگ بیوٹی روم کے بعد یہ جلوس وہ نظارہ تھا جسے اسمارہ گھنٹوں بیٹھ کر دیکھ سکتی تھی۔ ہر سال اس جلوس میں ایک درویش آتا تھا۔ سیاہ پوش ماتم گزاروں کے درمیان سب سے نمایاں، صاف ستھرا سفید لباس، سفید ٹوپی، سفید داڑھی۔ وہ سب سے ہٹ کر حویلی کے پھاٹک کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا۔ اس کی سفید داڑھی اس کے آنسوؤں سے تربتر ہوجاتی۔ غم کی انتہا پر پہنچ کر وہ ہلکے ہلکے اپنا سر دائیں بائیں مارتا اور دل چیر دینے والے آواز میں بار بار ایک ہی مصرعہ دوہراتا ۔”آیا ہے کربلا میں غریب الوطن کوئی۔” اسمارہ کا بہت دل چاہتا تھا کہ وہ اس کے پاس جائے اور اس کے آنسوؤں کو غور سے دیکھے۔ بی بی جان کہتی تھیں، یہ آنسو نہیں ہیں، خونِ دل کے قطرے ہیں جو آنکھوں سے بہتے ہیں۔ اسمارہ کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی مگر شاید شہیر جانتا تھا کیوں کہ کبھی کبھی وہ چپ چاپ بیٹھے بیٹھے ہلکے سے سرمارتا اور ہولے سے کہتا۔ ”آیا ہے کربلا میں غریب الوطن کوئی۔” اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں ایک عجیب ساحزن، ایک عجیب سی سنجیدگی تھی۔ یہ آنکھیں اسمارہ کو دیکھ کر دیئے کی لوکی طرح جل اٹھتی تھیں۔ وہ اسے گھورتا نہیں تھا۔ سب کے درمیان بیٹھے اس کی طرف زیادہ دیکھتا بھی نہیں تھا۔ لیکن اکیلا ہوتا اور اسمارہ آتی جاتی نظر آجاتی تو اس کی نظریں دور تک اس کا پیچھا کرتیں۔ اسمارہ لاکھ ٹام بوائے تھی مگر وہ جو فطرت نے ہر عورت کے اندر ایک گھنٹی رکھی ہے، اس میں بھی تھی۔ یہ گھنٹی صرف شہیر کی موجودگی میں بجتی تھی۔ مگر اس کے لیے یہ میٹھی آواز والی گھنٹی نہیں تھی، وہ گھڑیال تھا جس کی آواز سر میں دھمک کی طرح لگتی ہے۔ وہ شہیر سے چڑ جاتی۔ اسے اپنی طرف دیکھتا پاتی تو رک کر سرد مہری سے پوچھتی ۔”کچھ چاہیے شہیر بھائی؟”
”نہیں۔” وہ گڑ بڑا کر کہتا۔
”تو پھر مجھے کیوں دیکھ رہے تھے؟” وہ تیز ہوکر پوچھی۔
”یونہی دیکھ رہا تھا۔” وہ صفائی دیتا۔
”مت دیکھا کریں، کسی دن مجھے غصہ آگیا نا تو…”
”تو کیا کرو گی؟” وہ بات کاٹ کر پوچھتا۔
”ایسا punchرسید کروں گی، دونوں آنکھیں باہر آجائیں گی!” وہ دھمکاتی۔
”اچھا اور وہ جو کل باقر بھائی تمہیں دیکھ رہے تھے؟” وہ بھی غصے میں آجاتا۔
”کیونکہ وہ مجھ سے بات کررہے تھے۔ آپ کی تو آنکھیں ہی اتنی منحوس ہیں، جسے دیکھیں اس کا کھایا پیا باہر آجائے۔” وہ بے نیازی سے کہتی۔
”یعنی یہ جو تم الٹیاں کرتی پھرتی ہو، یہ میری وجہ سے ہے؟” وہ تلملا کر پوچھتا۔
”اور کیا! آپ اپنے گھر چلے جاتے ہیں تو مجھے ہفتوں الٹیاں نہیں آتیں۔” وہ اطمینان سے کہتی۔ شہیر غصے میں اپنا سامان اٹھاتا اور اپنے گھر چلا جاتا۔ وہاں کیا دھرا تھا؟ ایک دلاور حسین جنہیں اپنی رنگ رلیوں سے فرصت نہ تھی۔ ہفتے بعد وہ پھر حویلی میں موجود ہوتا۔ اتنی دیر میں اسمارہ کو اس پر غصہ بھول گیا ہوتا۔ اس نے ماں اور دادی سے شہیر کے لیے ہمدردی کا سبق پڑھا تھا۔ وہ اس کادل دکھانا نہیں چاہتی تھی۔ مگر شہیر اس کے یہ نیک جذبات زیادہ دیر برقرار نہ رہنے دیتا۔
”کل چھت پر کیوں چڑھی تھیں تم؟” وہ باز پرس کرتا۔
”آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟” وہ چڑ کر کہتی۔
”لوگ دیکھتے ہیں۔” ووہ جزبز ہوکر سمجھاتا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”آپ کو اس سے کیا؟” وہ بے نیازی سے کہہ کر آگے بڑھ جاتی۔
وہ اسے جاتا دیکھتا رہتا۔ اب تک وہ واقعی اس کا کچھ نہیں لگتا تھا مگر یہ سٹیٹس برقرار رکھنے کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ وہ اکثر اس کی اور اپنی عمر کا حساب کرتا۔
”یہ پندرہ سال کی ہے، میں اٹھارہ کا۔ بس تین سال اور انتظار کرلوں پھر منگنی تو ہوہی سکتی ہے۔ بھلا مجھے کیوں انکار ہوگا؟” اس کا یہ اعتماد بے وجہ نہیں تھا۔ وہ پڑھائی میں جینئس تھا۔ اس کا رپورٹ کارڈ بی بی جان فخر سے سب کو دکھاتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ یہ محنت کچھ بننے کے لیے کرتا تھا۔ ان کا خیال ٹھیک تھا۔ وہ یہ محنت خود کو اس قابل بنانے کے لیے کرتا تھا کہ کل کو جب اسمارہ کا ہاتھ مانگے تو اسے انکار نہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے اسمارہ سے بڑھ کر کچھ نہ تھا۔ وہ اسے اپنے دل میں سمیٹ کر رکھنا چاہتا تھا اوراسمارہ تھی کہ بگولہ بنی پھرتی تھی۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ اسمارہ کی طرف اٹھنے والی آنکھیں پھوڑ دے۔ مشکل یہ تھی کہ اسمارہ بی بی اس معاملے میں اپنے لیے خود ہی کافی تھیں۔ ایک مرتبہ وہ کسی فنکشن میں اس کے تایا کے گھر موجود تھے، اسمارہ پورچ میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھی۔ ایک گاڑی وہاں آکر رکی اور اس میں بیٹھے لڑکے کی شاعت اعمال کہ وہ اسمارہ کو دیکھ کر نہ صرف مسکرایا بلکہ آنکھ بھی ماری۔ اسمارہ مسکرائی، بڑی تمیز سے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور رکھ کر ایک اپرکٹ اس غریب کی ٹھوڑی پر رسید کیا۔ دوسرا گھونسہ اس کی کنپٹی پر مارا۔ دو سیکنڈ میں یہ معاملہ نپٹا کر بڑی شرافت سے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور انتہائی معصومیت سے مسکرا کر اندر غائب ہوگئی۔ اس کے بھائیوں نے سنا تو خوب پیٹھ ٹھونکی۔ بے چارہ شہیر بچپن سے ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں رہتا تھا مگر وہ اتنی خود کفیل تھی کہ اسے کبھی ہیرو بننے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔
اس سارے معاملے کا ایک خوش کن پہلو بھی تھا۔ محبوب دلفریب ہو، حسین ہو، نازوادا کا مالک ہو تو رقیب پیدا ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہاں محبوب حسین تو تھا، دلفریب بھی لگتا تھا مگر نازوادا سے عاری تھا، دھو ل دھپے کا شوقین تھا اور کچھ کچھ جنّاتی صفات رکھتا تھا۔ اس لیے رقیب کا کوئی ڈر نہ تھا۔ صرف ایک مرتبہ کچھ سال پہلے اس نے ایک بلی پال لی تھی مگر اس کا بندوبست بھی ہوگیا تھا۔ نہ جانے کس کے مشورے سے اسمارہ کو ایک بلی کابچہ لا دیا گیا تھا۔ وہ اسمارہ جو پہلے سب کے ساتھ ہر کھیل میں شریک ہوتی تھی، اب بلی کی ہوکر رہ گئی۔ شہیر اسے بلی کے لاڈ اٹھاتے دیکھتا رہتا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسے پہلی مرتبہ پتا چلا کہ وہ اسمارہ کے ساتھ شرکت برداشت نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ ایک بلی کا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسمارہ کے سامنے اسے خوش کرنے کو وہ اس کی بلی سے پیار جتاتا، مگر کہیں اکیلا پاتا تو اس زور سے ٹھوکر رسید کرتا کہ وہ اڑ کر دیوار کو جاگتی۔ ایک مرتبہ اسمارہ نے اسے اپنی بلی کو نفرت سے دیکھتے دیکھ لیا۔ وہ غصے میں اس پر الٹ پڑی۔ خوب بے نقط سنائیں اور بلی کو اٹھا کر چلتی بنی۔ شہیر خاموش کھڑا رہا۔
اسے موقع اگلے دن ملا۔ اسمارہ نہانے گئی۔ شہیر نے چپکے سے کسی کی نظروں میں آئے بغیر بلی پکڑی اور چادر میں چھپا کر سڑک پر لے آیا۔ پندرہ منٹ کھڑے رہنے کے بعد اس کی مطلوبہ گاڑی آتی دکھائی دی۔ بڑے بڑے ٹائروں کے بیچ سے چھوٹے سے بلونگڑے کا بچ نکلنا آسان نہیں تھا۔ اس کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ اس نے تاک کر بلی کا بچہ ٹائروں کے نیچے دے مارا۔ گاڑی زن سے گزر گئی۔ شہیر نے بے حد طمانیت سے ننھی سی کچلی ہوئی لاش کا جائزہ لیا اور پھر اسے گتے کے ٹکڑے پر اٹھا کر اندر لے آیا۔ اگلے تین دن اسمارہ کو الٹیاں کرتے دیکھ کر اسے عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا رہا۔ ”یہ نہیں جانتی اس کے لیے کیا بہتر ہے کیا نہیں۔ تھوڑی تکلیف اٹھانی پڑی تو کوئی بات نہیں۔ آئندہ بلی نہیں پالے گی۔ اس کا دل میرے لیے خالص رہنا چاہیے۔” وہ سوچتا رہا۔
٭…٭…٭
اسمارہ کو لگتا تھا کہ اس کی زندگی میں جمعرات کا دن بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ وہ جمعرات کو پیدا ہوئی تھی، جمعرات کو اس نے ایک بچے کو ڈوبنے سے بچایا تھا، اس کی بلی جمعرات کو آئی تھی اور جمعرات ہی کے روز اس کو سکول ڈرامے میں بطور انار کلی کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس دن وہ بسورتی ہوئی گھر آئی تھی۔
”شہزادہ سلیم بننا چاہتی تھی میں، پکڑ کر انار کلی بنا دیا۔” اس نے غصے سے سب کو اطلاع دی۔
”دماغ تو خراب نہیں ان کا؟” قاسم نے حیرت سے پوچھا۔ ”تمہیں تو انہیں کسی چڑیل کا رول دینا چاہیے تھا۔”
”اس کہانی میں کوئی چڑیل نہیں ہے۔ ہوتی تو میں وہ بھی خوشی خوشی بن جاتی مگر یہ روتی بسورتی انارکلی تو مجھے بالکل پسند نہیں۔” اسمارہ نے جلے دل سے تبصرہ کیا۔
بی بی جان نے اسے تسلی دی۔ ”صرف ڈرامہ ہی تو ہے۔ کون سا تم سچ مچ انارکلی بن جاؤ گی؟” لیکن وہ سچ مچ انارکلی بن گئی۔ ریہرسلز شروع ہوئیں تو وہ اس رول کو انجوائے کرنے لگی۔ بڑے بھائی تو ہاتھ نہ آتے تھے، وہ اسد کو پکڑ کر کبھی اسے شہنشاہ اکبر بناتی کبھی شیخو اور اپنے ڈائیلاگز کی ریہرسل کرتی۔ ڈرامے کی کہانی سن سن کر گھر والوں کے کان پک گئے۔
اور تو سب ٹھیک تھا، صرف ایک مسئلہ تھا جو مسئلے سے بڑ کر زندگی موت کا معاملہ بن گیا۔ اسمارہ کو رقص نہیں آتا تھا۔ کلاس کی سب سے خوب صورت لڑکی کو انار کلی تو بنادیا تھا، مگر اس میں نزاکت کوئی کیسے لاتا۔ لڑکیوں کی طرح پاؤں جوڑ کر کھڑے ہونا اور خود کو سمیٹ کر بیٹھنا تو سسٹر روتھ نے اس کے ٹخنوں پر چھڑی مار مار کر سکھا دیا، رقص نہ سکھا سکیں۔ وہ دوسری مرتبہ بسورتی ہوئی گھر آئی۔
”کتھک نہیں آتا مجھے!” اس نے ناراضی سے اعلان کیا ۔”سسٹر نے کہا ہے سیکھو۔”
زرینہ نے آنکھیں نکال کر ڈپٹا ۔”پاگل ہوگئی ہو؟ اب ڈانس تمہیں کون سکھائے؟ دوچار پرانی فلمیں دیکھو اور ان کے سٹیپ کاپی کرلو۔ خبردار جو ڈانس سیکھنے کا نام لیا۔”
لیکن یہ اسمارہ تھی۔ جنگجو، ہٹ کی پکی، کسی سے نہ ڈرنے والی اور سب سے بڑھ کر بی بی جان کی لاڈلی۔ انہوں نے اس کی ضد سنی تو ہنس پڑیں۔ ”اچھا سیکھ لو رقص۔ لیکن کس سے سیکھو گی؟” انہوں نے پوچھا۔
اسمارہ سوچ میں پڑ گئی۔ کس سے سیکھے گی، یہ تو معلوم نہیں تھا اسے۔ اس نے سیدھے ماں سے جا پوچھا۔” امی میں ڈانس کس سے سیکھوں؟”
زرینہ تلملا گئیں۔ جی چاہا ایک تھپڑ کھینچ کے ماریں۔ ”چپ کر جا بے وقوف! باپ کو پتا چلا تو گردن اتار دے گا۔” انہوں نے دانت پیس کر کہا۔
وہ ہر دفعہ یہ کیوں بھول جاتی تھیں کہ یہ اسمارہ تھی، سات نسلوں بعد پیدا ہونے والی اکلوتی لڑکی۔ سات نسلوں کی مردانگی بھری تھی اس کے اندر۔ سیدھی اٹھی اور محی الدین کی سٹڈی میں جاپہنچی۔
”ابو اگر میں کچھ سیکھنا چاہوں تو آپ میری گردن اتاردیں گے؟” اس نے باپ سے پوچھا۔
”لاحول و لاقوة! میں ایسا کیوں کرنے لگا؟” انہوں نے برامان کرکہا۔
”امی کہہ رہی ہیں۔” وہ معصومیت سے بولی۔
اب محی الدین کھٹکے ‘۔’کیا سیکھنا چاہتی ہو تم؟” انہوں نے پوچھا۔
”کتھک ڈانس۔” اس نے اس اعتماد سے کہا گویا باپ سے ڈانس نہیں، ککنگ سیکھنے کی فرمائش کررہی ہو۔ زرینہ نے محی الدین کے غصے سے گرجنے کی آواز اپنے کمرے میں سنی اور سر پکڑ لیا ۔”کیا کروں میں اس لڑکی کا؟ اچھا ہوا باپ نے اپنی زبان میں سمجھا دیا۔ اس کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں سمجھتی یہ۔”
وہ بھول گئیں کہ اسمارہ اپنے باپ ہی کی بیٹی تھی۔ اس کا ارادہ اگر ذرا سی ڈانٹ توڑ سکتی تو وہ اسمارہ نہ کہلاتی۔ اگلے دن محی الدین کی پیشی بی بی جان کے سامنے ہوئی۔ وہ ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سمجھ گئے کہ آج عدالت لگی ہے۔ وہ اپنی مسہری پر شاہانہ وقار کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ اسمارہ پاس بیٹھی تھی۔ بی بی جان نے سرد مہری سے محی الدین کے سلام کا جواب دیا اور سر کے اشارے سے بیٹھنے کا کہا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئے۔
”اسمارہ رقص سیکھنا چاہتی ہے۔” بی بی جان نے بغیر کسی تمہید کے مطلب پر آتے ہوئے کہا۔
”میں نے اسے اجازت دے دی ہے۔”
محی الدین جلال میں آگئے۔ ”لیکن میں اجازت نہیں دے سکتا” انہوں نے غصے سے کہا ۔”یہ نہیں جانتی کیا کہ کس خاندان سے ہے؟ میراثیوں کا خاندان ہے یا بھانڈوں کی اولاد ہے یہ؟”
بی بی جان کے چہرے پر غصہ جھلکنے لگا۔ ”تمہارے خاندان کو میں تم سے بہتر جانتی ہوں، اس لیے خاندان کا رعب مجھے مت دو۔ اونچا نام، نیچے کر توت۔”
”صرف چند مردوں کے کرتوت… پیسے والے خاندانوں میں کچھ مرد برے نکل آتے ہیں، انہونی نہیں ہے۔” محی الدین نے غصے سے کہا۔ ”لیکن ہماری عورتوں نے کبھی خاندان کے نام کو بٹّہ نہیں لگنے دیا۔”
بی بی جان بیٹے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتی رہیں۔
”جب میرے باپ نے مجھے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل کروایا تھا تو خاندان والوں نے ایسی ہی باتیں ان سے کہی تھیں۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
”پڑھنے اور ناچنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔” وہ غرائے۔
”فرق تربیت میں ہوتا ہے محی الدین!” بی بی جان نے گرج کر کہا۔ ”تمہارے باپ کے خاندان کے مرد کیا کیا نہیں کرتے تھے؟ دلاور حسین ہی کو دیکھ لو۔ لیکن تم لوگوں کی تربیت میں نے اپنے لحاظ سے کی۔ کبھی طعنہ نہیں سنا۔ اسمارہ کی تربیت بھی میں نے کی ہے اور میری تربیت کچی نہیں نکلی۔ ان شا اللہ اس کے حوالے سے بھی تم کبھی طعنہ نہیں سنو گے۔”
محی الدین لاجواب ہوگئے۔ اس بات کو وہ کبھی جھٹلا نہیں سکتے تھے۔
”میرا دل نہیں مانتا۔” انہوں نے جزبز ہوکر کہا۔
”ابو ہمیں آرٹ کی قدر کرنا آپ ہی نے سکھایا۔” اسمارہ نے نرم لیکن مضبوط آواز میں کہا۔ ”ہیر آپ نے پڑھائی، صادقین کا آپ نے تجزیہ کرنا سکھایا، کلاسیکل شاعری، کلاسیکل فلمیں، سب سے متعارف آپ ہی نے کروایا۔ ان چیزوں نے مجھے بگاڑا نہیں، میرے اندر ایک higher self کا احساس پیدا کیا۔ آپ کا خیال ہے میں رقص سیکھ کر بگڑ جاؤں گی؟”
بی بی جان نے محی الدین کو دیکھا گویا کہتی ہوں۔ ”اب کیا کہتے ہو؟”
”بات بگڑنے کی نہیں ہے۔” محی الدین کا جلال جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔ ایک طرف ماں تھی جن کے حکم سے روگردانی کی جرأت ان میں نہیں تھی، دوسری طرف لاڈلی بیٹی ، جس کے منہ سے نکلنے والی ہر فرمائش انہوں نے پہلے پوری کی تھی۔
”آپ کو یہ فکر ہے کہ لوگ کیاکہیں گے؟” اسمارہ نے پوچھا۔ انہوں نے حیرت سے اپنی سولہ سالہ بیٹی کو دیکھا۔ ان کا دل پگھل گیا۔ اس کے ساتھ دل کا ہر رشتہ تھا ان کا۔ ماں جیسا، بہن جیسا، دوست جیسا۔ وہ انہیں اتنی اچھی طرح جانتی تھی کہ شاید وکہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ ”یہی فکر ہے اسے۔” بی بی جان نے زیرِ لب مسکرا کرکہا۔
”لوگ تب کچھ کہیں گے اگر انہیں پتا چلے گا۔ میں تو صرف ڈرامے کے لیے سیکھوں گی۔ ڈرامہ ہوجائے تو چھوڑ دوں گی۔ کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔” اسمارہ نے بہترین حل پیش کردیا تھا۔ بی بی جان فخر سے مسکرائیں۔ جنگ جیتنے میں انہیں ہمیشہ بڑا لطف آتا تھا۔
محی الدین نے گہرا سانس لیا ۔”ٹھیک ہے۔ تم کتھک سیکھ لو۔ لیکن میری تین شرطیں ہیں جنہیں ہمیشہ پورا کرنے کا وعدہ تمہیں کرنا ہوگا۔”
اسمارہ نے خوشی چھپانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئی۔ ”جی ابو!” اس نے تابعداری سے کہا محی الدین نے شرطیں گنوانی شروع کیں۔
”نمبر ایک تم کبھی محفل میں رقص نہیں کرو گی۔ خاص طور پر وہاں جہاں کوئی مرد ہوں گے۔”
”جی!” اسمارہ نے خوشی خوشی سرہلایا (ڈرامے کی آڈئینس بھی صرف سکول کی لڑکیوں اور ان کی ماؤں پر مشتمل ہوگی۔ اس نے خوشی خوشی سوچا)
”نمبر2۔ تم گھنگرو نہیں پہنوگی۔” دوسری شرط رکھی گئی۔
”جی اچھا” (ڈرامے میں بھی گھنگرو نہیں بہن رہی اور کون سا میں نے کبھی بعد ڈانس کرنا ہے جو مجھے گھنگرونہ پہننے سے مسئلہ ہو) وہ سوچنے لگی۔
”نمبر 3۔” محی الدین کہہ رہے تھے ۔” تم کبھی بھی، کسی بھی حالت میں اپنے رقص کا معاوضہ وصول نہیں کروگی۔” محی الدین بی بی جان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہے تھے۔ ”آپ مجھے گارنٹی دیتی ہیں بی بی جان؟”
”ہاں!” بی بی جان نے مضبوط لہجے میں ایک لفظی جواب دیا۔ اس ایک لفظ میں عزم، اعتماد، یقین سب کچھ تھا۔
”ٹھیک ہے۔ پھر تم اپنا شوق پورا کرلو۔” محی الدین نے کہا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے کی طرف بڑھے۔ دروازے پر پہنچ کر انہیں خیال آیا، وہ مڑے ۔”اور ہاں ایک آخری بات، تم رقص سیکھنے کہیں نہیں جاؤ گی۔ کسی فی میل ٹیچر کا بندوبست کرو جو گھر آکر سکھا دیا کرے۔ اس کے ساتھ کوئی مرد نہیں ہونا چاہیے۔”
وہ کمرے سے نکل گئے۔ بی بی جان سوچتی نظروں سے دروازے کو دیکھتی رہیں۔
٭…٭…٭
اندرون شہر رہائش کا فائدہ یہ ہوا کہ بادشاہی مسجد کی ہمسائیگی میں بستے فنکاروں میں سے کئی دستیاب ہوگئی۔ پہلی خاتون جو کتھک کی ماہر ہونے کی دعویدار تھیں،وہ دو سا زندے ساتھ اٹھالائیں۔ انہیں قائل کیا گیا کہ ان کی ضرورت نہیں۔ بمشکل وہ راضی ہوئیں۔ اسمارہ نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ طبلہ کی ریکارڈنگ کہیں سے منگوالے گی، فی الحال وہ اسے بنیادی چیزیں طبلے کے بغیر ہی سکھادیں۔
حویلی کے ان گنت کمروں میں سے ایک رقص ٹیوشن کے لیے تیار کیا گیا۔ محی الدین کی شرط کے مطابق بی بی جان یا زرینہ میں سے کسی ایک کا اس دوران اسمارہ کے ساتھ ہونا ضروری تھا۔ سو بی بی جان کونے میں کرسی رکھ کر بیٹھ گئیں اور جانچتی نظروں سے ہر چیز کا جائزہ لینے لگیں۔ رقاصہ صاحبہ جو پہلے ہی سازندوں کے نہ آنے پر کسی قدر خفا تھیں، بی بی جان کی موجودگی سے مزید جزبز ہوئیں۔ لہٰذا انہوں نے اسمارہ کو کچھ سکھانے سے پہلے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرکے ان پر رعب ڈالنے کی ٹھانی۔ یہ کوشش غضب ہوئی۔ بی بی جان نے صرف دو منٹ انہیں ادھر سے ادھر تھرکتے، بال جھٹک جھٹک کر جھومتے اور پیر دھمک دھمک کر چکر کھاتے دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ پورے تین منٹ بعد اسمارہ کی پہلی ڈانس ٹیچر حویلی سے باہر کھڑی تھیں۔
شاہی محلے سے جتنی خواتین بلوائی گئیں، سب کا یہی حشر ہوا۔ بی بی جان ہر ایک کا انٹرویو لیتیں۔ علی گڑھ کی گریجویٹ تھیں، کتابوں کی رسیا تھیں۔ ان کے علم کی گہرائی کا اندازہ کم ہی لوگوں کو ہوپاتا تھا۔
”کتھک کیا ہے؟” پہلا سوال۔
”رقص” (یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟)
”کس دور میں باقاعدہ رقص کے طور پر کیا گیا؟” فوراً دوسرا سوال آتا۔
”معلوم نہیں۔” (ہماری بلا جانے۔ اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ پیسے دو، رقص سیکھو، دور کو مارو گولی)
”کتھک کو کتھک کیوں کہتے ہیں؟” تیسرا سوال۔
”کیونکہ اس میں کتھا یعنی کہانی بیان کی جاتی ہے۔” (یہ تو سب ہی کو معلوم ہے)
”کس کی کہانی؟” بی بی جان پوچھتیں۔
”کسی کی بھی۔” (کیا فضول سوال پوچھ رہی ہے بڑھیا)
”کرکے دکھائیے۔” فائنل آرڈر آتا۔
اور یہ وہ پوائنٹ تھا جس سے آگے کوئی نہ بڑھ سکا۔ اسمارہ نے پھر سے بسورنا شروع کیا۔ انارکلی کا رقص کھٹائی میں پڑتا دیکھ کر اسے ضد ہونے لگی۔ یہاں اس کی مدد کو سکول کی سسٹر روتھ آئیں۔ انہوں نے ایک خاتون کا پتا دیا اور یہ خوشخبری بھی سنائی کہ یہ خاتون اندرون شہر ہی کے ایک مکان میں رہتی ہیں۔ اگر انہیں لانے لے جانے کا انتظام کردیا جائے تو وہ گھر آکر رقص سکھانے کو تیار ہیں۔ اسمارہ خوشی خوشی گھر آئی۔ بی بی جان نے فوراً مطلوبہ پتے پر گاڑی بھیجی اور بیس منٹ بعد خاتون حویلی میں موجود تھیں۔
ان کا نام زہرہ راجہ تھا۔ سفید جھک بال، نازک نازک ہاتھ پاؤں۔ ان کی عمر دیکھ کر بی بی جان سوچ میں پڑگئیں۔ اسمارہ کی انرجی میچ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور یہ خاتون بہت نازک اندام تھیں۔ لیکن جب ان سے بات چیت شروع ہوئی تو ان کے رعب داب، رکھ رکھاؤ اور تہذیب و نفاست نے بی بی جان کو بہت متاثر کیا۔ وہ جوانی میں کلاسیکل ڈانس کے ایک مشہور گروپ سے وابستہ تھیں جو نہ صرف برصغیر بلکہ یورپ کے دورے بھی کیا کرتا تھا۔ کتھک کے ایک نامور استاد کی شاگرد تھیں۔ ان کی بہن اس ڈانس گروپ کی لیڈر قاصہ تھیں اور لندن شفٹ ہونے کے بعد وہاں اپنی ڈانس اکیڈمی کامیابی سے چلا رہی تھیں۔ زہرہ راجہ کا کیریر بھی تابناک ہوتا اگر وہ شادی نہ کرلیتیں۔ شوہر نے شادی کے بعد ڈانس گروپ چھڑوا دیا۔ مالددار آدمی تھا، وہ بیگم بن کر عیش کرنے لگیں۔ وہ اسی پر خوش تھیں کہ رقص کی ریاضت پر پابندی نہ لگائی گئی تھی۔ قسمت نے پلٹا کھایا۔ شوہر بیمار ہوگیا، کاروبار ختم ہوگیا، پیسہ گیا، جائیداد گئی مگر محبت نے دم نہ توڑا۔ انہوں نے بیمار شوہر کے ساتھ ساری زندگی اندرون شہر کے ایک چھوٹے سے محلے میں گزار دی۔ بہت عرصہ لڑکیوں کے ایک سکول میں رقص کی تعلیم دیتی رہیں۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ آرٹ کو بھولنے لگے۔ زہرہ راجہ اپنا رقص لیے گھر بیٹھ گئیں۔ اولاد کوئی تھی نہیں۔ اب شوہر کے انتقال کے بعد اسی رقص کو ذریعہ آمدن بنانا چاہتی تھیں۔ مگر کوئی قدر دان ملتا تھا نہ سیکھنے کا رسیا۔ بی بی جان سے مل کر انہیں خوشی ہوئی۔ کتنی ہی دیر دونوں خواتین آپس میں باتیں کرتی رہیں اور اسمارہ پاس بیٹھی انہیں سنتی رہی۔
رقص کلاس شروع ہوئی تو زہرہ راجہ کو نہ بی بی جان کے وہاں بیٹھنے پر اعتراض ہوا نہ طبلے کی غیر موجودگی پر۔ سکھاتے ہوئے وہ اکثر طبلہ اور پڑھنت خود کرتی تھیں۔ ان کے پاس اپنا طبلہ تھا جو وہ لانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ گھنگرونہ پہننے والی بات پر وہ کچھ خاموش ہوگئیں۔
”گھنگرو تو ضروری ہیں۔” انہوں نے پر سوچ لہجے میں کہا۔
”پائل پہننے پر تو پابندی نہیں؟” انہوں نے مڑ کر بی بی جان سے پوچھا۔ بی بی جان مسکرائیں۔ انہیں اپنی جوانی میں پہنی جانے والے پائل یادآئیں۔ چاندی کی بھاری بھرکم پائل اب بھی ان کے پاس تھیں۔ اسمارہ کے لیے ہی رکھی تھیں۔
سب سے پہلے زہر راجہ نے اسمارہ کو کھڑے ہونے کا طریقہ سمجھایا۔ ” Heels together, toes apart،دونوں پیروں کے بیچ ایک مٹھی کا فاصلہ۔” انہوں نے آگے بڑھ کر اسے سیدھا کیا ۔”کمر سیدھی، کندھے پیچھے، سر اونچا۔”
بار بار وہ اسے یہ مشق کرواتی رہیں۔ پھر تتکار کی باری آئی۔ ”One, two, three, heel” یہ مرحلہ بھی آسان ثابت ہوا۔ تالی کی آواز پر اس کی مشق مشکل نہیں تھی۔
”تاتھئی تھئی تت… تا تھئی تھئی تت…” وہ دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست کیے، بازو ایک سیدھ میں کیے پریکٹس کرتی رہی۔
”کتھک کے ہر ریاض کی، ہر پرفارمنس کی ابتدا کتھک نمسکار سے ہوتی ہے۔” زہرہ راجہ نے اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔”لیکن اس سے پہلے تمہیں یہ جان لینا ضروری ہے کہ کتھک ہے کیا۔”
بی بی جان اپنی کرسی میں آگے ہوکر غور سے سننے لگیں۔ وہ اسمارہ کے معاملے میں بہت محتاط تھیں۔ وہ کیا پڑھ رہی ہے کیا سیکھ رہی ہے۔ ان کی نظر ہر چیز پر تھی۔
”کتھک شاعری، موسیقی، mathematics اور روحانیت کا بڑا نازک امتزاج ہے۔” زہرہ کہہ رہی تھیں۔
”اور کتھک نمسکار اس علم، روشنی اور قوت کا ابتدائیہ ہے جو تم اپنے رقص میں پیش کرنا چاہتی ہو۔ کتھک نمسکار کو معنی پہنا دو۔ تمہارے لیے اسے سیکھنا، سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا آسان ہوجائے گا۔”
اسمارہ غور سے انہیں دیکھ اور سن رہی تھی۔ زہرہ راجہ نے کھڑے ہوکر بازو دائیں سمت میں پھیلالیے۔ ”میرے دائیں طرف علم کی روشنی ہے” انہوں نے اپنے دہلوی لہجے میں کہنا شروع کیا۔
”بائیں طرف جسم کی قوت” انہوں نے بازو اور چہرہ باتیں طرف موڑے۔
دونوں بازو گھوم کر سر سے اوپر جا ٹھہرے ”اوپر سے کائنات کے اسرار برستے ہیں۔”
وہ گھٹنا موڑ کر فرش پر ٹکا کر بیٹھ گئیں ۔”ان کی روشنی میں اپنی بنیاد سے جڑی ہوں۔”
دونوں ہاتھوں سے زمین کو چھو کر انہوں نے ایک ہاتھ دل پر اور دوسرا ماتھے پر رکھ دیا ”اور اس بنیاد ی طاقت نے میرے دل کو اچھائی اور میرے دماغ کو وسعت سے ہمکنار کیا ہے۔” وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ بازو سر سے اوپر پھیلائے اور نزاکت سے نیچے لاکر بڑی تکریم سے دعا کے انداز میں رکھ لیے۔ ”ان سب کا مجموعہ میں اپنے رقص کے ذریعے دنیا کو پیش کرتی ہوں۔” اسمارہ نے رکا ہوا سانس آنکھیں بند کر اپنے اندر اتارا۔ حسن کے اس اظہار نے اسے مبہوت کردیا تھا۔ تالی بجنے کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔ بی بی جان بے اختیار تالی بجا رہی تھیں۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں ستائش۔ زہر ہ راجہ نے ان کا دل جیت لیا تھا۔
یہ ایک نئے جہان کا دروازہ تھا جسے کھول کر اسمارہ اس دنیا میں داخل ہوئی تھی۔ لیکن یہ دنیا اتنی آسان نہیں تھی جتنا وہ سمجھ بیٹھی تھی۔ اس کا خیال تھا تھوڑابہت سیکھے گی اور ایک شاندار سی انارکلی بن جائے گی۔ اس کا ٹریک ریکارڈ یہی تھا۔ پڑھائی ہو یا سپورٹس، وہ ہر کام ایک جنون کے ساتھ کیا کرتی تھی۔ ناکا م ہونا اس کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ لیکن رقص بالکل الگ طرح کا امتحان ثابت ہوا۔ زہرہ راجہ اس کی چال ڈھال اور طور طریقے بھانپ گئی تھیں۔ انہوں نے بی بی جان کو ٹاسک دیا کہ صبح اٹھتے ہی اسمارہ کے سر پر کتاب رکھ دیا کریں۔ وہ چلے، اٹھے یا بیٹھے، کتاب نہ گرنے پائے۔ دوسرا کام یہ ہوا کہ اسے یو گا کی چند بنیادی مشقیں شروع کرائی گئیں۔ وہ لڑکی جسے دو منٹ بیٹھنا محال تھا، اب اسے دو دو گھنٹے یوگا آسن جما کر بٹھا دیا جاتا۔ تین دن میں ہی اسمارہ اکتا گئی۔ یہ تو اچھی بھلی مصیبت تھی جو اس نے گلے ڈال لی تھی۔ گھر میں سر پر رکھی کتاب کی مصیبت (اور بھائیوں کا مذاق اڑانا اور آتے جاتے اس کی کتاب گرانے کی کوشش کرنا) اور رقص کی کلاس میں یوگا۔ کئی بار اس کا دل چاہا یہ سب کتھک، یوگا چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جائے مگر ایک تو یہ اس کی انا کامعاملہ تھا کہ لوگ سمجھتے وہ فیل ہوگئی۔ دوسرے باپ اور دادی کو یا منہ دکھاتی۔ جس چیز کے لیے اتنا سٹینڈ لیا، وہی مکمل نہ کرسکی۔ اس سارے قصے میں اگر کوئی خوش تھا تو وہ زرینہ تھیں۔ دنوں کے اندر اندر انہوں نے بیٹی میں وہ نسوانیت آج دیکھی تھی جسے سکھانے کی کوشش میں انہوں نے ناکوں چنے چبا ڈالے تھے۔ سر پر کتاب رکھے رکھے شروع میں وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتی پھری تھی مگر اب اس کی چال ڈھال نسوانی ڈھنگ میں آنے میں لگی تھی۔ سر اونچا، کمر سیدھی، نپے تلے قدم۔ وہ بیٹی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتیں۔ اس میں ایک عجیب طرح کا ٹھہراؤ بھی آنے لگا تھا۔ انہیں افسوس ہوتا، کاش وہ بہت پہلے ہی اسے زہرہ راجہ کے پاس بھیجنے لگتیں۔
٭…٭…٭
ڈیر آپا!
کل سے خالہ کے گھر ہوں۔ گرمی ہے، اس لیے تقریباً آدھا دن پول میں گزرا۔ یاد ہے ان کے گھر کا وہ پول جس میں میں ڈوبتے ڈوبتے بچا تھا؟ مجھے ان کی کسی مہمان بچی نے بچایا تھا۔ پتا نہیں اب وہ کہاں ہوگی؟ کیا کررہی ہوگی؟ یقینا کوئی سوئمنگ چیمپئن بن چکی ہوگی۔
موسم اچھا ہوا تو کل ارسلان اور حسیب کے ساتھ Dirt biking پر جاؤں گا۔ ورنہ سوئمنگ زندہ باد۔
آپ کے امتحان کے لیے بیسٹ و شز۔
بدرالدجا
٭…٭…٭
شہیر امتحان گزار کر واپس آیا تو اسمارہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”یہ کیا کررہی ہو تم؟” اس نے ایک دن اسے رو کر پوچھا۔
”اتنی موٹی موٹی آنکھیں سر پر لگی ہیں، دیکھتے نہیں چلنے کی پریکٹس کررہی ہوں۔” اسمارہ نے سر پر رکھی کتاب سیدھی کرتے ہوئے کہا۔
”پہلے بھی تو چلتی ہی تھی۔ یہ کتاب کیوں لادلی ہے سر پر؟” اس کی حیرت برقرار تھی۔
”ارے آپ کو نہیں معلوم؟ کتھک سیکھ رہی ہوں نا۔ چال ٹھیک کررہی ہوں اپنی۔” وہ کہہ کر سر پر کتاب سنبھالے بڑے وقار سے چلتی ہوئی اس کے پاس سے گزر گئی۔
شہیر بے یقینی سے وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ اس کے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ وہ رقص سیکھ رہی تھی۔ کسی نے مجھ سے پوچھنا گوارا کیوں نہیں کیا۔ ٹھیک ہے ابھی کوئی رشتہ نہیں میرا اس کا لیکن اس پر سب سے زیادہ حق تو میرا ہی ہے۔ کم از کم اسے تو پوچھنا چاہیے تھا مجھ سے۔ اس کے دل میں غصے کا ابال تھا۔ تیزی سے وہ اس کے پیچھے گیا اور ہاتھ مار کر اس کے سر سے کتاب گرادی۔ اسمارہ ہکا بکا رہ گئی۔
”جو دل میں آئے منہ اٹھا کر کرنے لگتی ہو۔ کیوں کررہی ہو یہ سب؟” شہیر نے ڈانٹ کر کہا۔
”آپ پوچھنے والے کون؟” اسمارہ نے سرد مہری سے کہا۔
”جلد پتا چل جائے گا میں پوچھنے والا کون ہوں۔” وہ غصے میں بل کھا رہا تھا۔ ”آئندہ نہ میں دیکھوں تمہیں یہ ڈانس وانس کرتے!” اس نے انگلی اس کے چہرے کے سامنے لہرا کر کہا۔
اسمارہ نے جھپٹ کر وہی انگلی پکڑ لی ”کروں گی! کیا کرلیں گے آپ؟” اس نے اس کی انگلی مروڑ کر دانت پیس کر کہا۔
”یہ تمہیں وقت آنے پر بتاؤں گا۔” اس نے انگلی چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے دھمکی دی۔
”ابھی وقت ہے۔ ابھی بتائیے۔” اسمارہ نے سرد لہجے میں کہا۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے رہے۔ وہ انگلی چھڑانے کی کوشش کررہا تھا مگر اسمارہ نے اسکی انگلی اپنی انگلیوں میں پھنسا لی تھی۔ وہ بھائیوں کے ساتھ پنجے لڑانے کی عادی تھی، اس کی گرفت سے ہاتھ چھڑانا آسان نہیں تھا۔ اس نے آخری بار اس کی انگلی مروڑی اور زور کا جھٹکادے کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ بے اختیار شہیر نے اپنا سرخ ہوتا ہاتھ دوسرے ہاتھ میں دبا لیا۔
”ہونہہ، مجھے بتائیں گے” اسمارہ نے طنز سے سر جھٹک کرکہا۔ پھر اس نے آرام سے جھک کر نیچے گری ہوئی کتاب اٹھائی اور سر پر رکھ کر چل پڑی۔ شہیر اپنی دکھتی انگلی ہاتھ میں دبائے، سرخ چہرے کے ساتھ اسے جاتا دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
”دنیا کا ہر آرٹ نسوانیت سے عبارت ہے۔” زہرہ راجہ کہہ رہی تھیں۔ ”جب تک feminine کوالٹی نہ ہو، آرٹ مکمل نہیں ہوتا اور feminine کوالٹی کیا ہے؟’
اسمارہ سوچ میں پڑگئی۔ یہ تو اسے معلوم نہیں تھا۔ اس نے تو بچپن سے سنا تھا کہ مردانہ پن فخر کی بات ہے۔ کسی عورت کی تعریف کرتے ہوئے بھئی اس قسم کے جملے بولے جاتے تھے۔ ”وہ تو باپ کے لیے بیٹی نہیں، بیٹا ہے!” یا پھرکہا جاتا۔”اس عورت نے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔” اسمارہ کے نزدیک نسوانیت کمزوری اور حالات کے آگے سپرڈالنے کا نام تھا۔
”Feminine کوالٹی محبت ہے” زہرہ راجہ نے اسے خاموش دیکھ کر کہا ”اس لیے ہم اسے divine کوالٹی بھی کہہ سکتے ہیں۔ مردانہ انرجی تیرکی مانند ہوتی ہے۔ اسے جو چاہیے، وہ سب رکاوٹیں توڑتا، دائیں بائیں کی کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتا اس تک پہنچ جانا ہے۔ نسوانیت spiral انرجی ہے۔ اردگرد ہر چیز، ہر رشتے کا خیال رکھ کر آگے بڑھتی ہے۔”
”کتھک کی انرجی کیا ہے؟” اسمارہ نے پوچھا۔
زہرہ اس سوال سے خوش ہوئیں۔
”کتھک کا بھی سیشن ہے۔ نسوانیت دل ہے، مردانگی دماغ اور کتھک ان دونوں کاتال میل۔ زندگی کی طرح۔ لیکن غالب رنگ لاسی رنگ ہے یعنی نسوانی۔ یہ جو ہم تا تھئی تھئی تت کے بولوں پر تتکار کرتے ہیں، اس میں ‘تا’ مردانگی ہے، تھئی نسوانیت اور ”تت” ان کامجموعہ اور دیکھو ان بولوں میں تھئی، دو مرتبہ ہے اور ‘تا’ صرف ایک مرتبہ۔ کتھک کی طرح زندگی میں بھی نسوانی انرجی زیادہ ہوتو حسن اور سنوار اس سے پیدا ہوتا ہے۔ All embracing محبت، شفقت اور رحم یہی زندگی کا حسن ہے اور یہی علمِ حقیقی۔”
زندگی میں پہلی مرتبہ اسمارہ کو اپنے عورت ہونے پر فخر ہوا۔
٭…٭…٭
انار کلی رقص کررہی تھی۔ آڈئینس جو صرف لڑکیوں اور عورتوں پر مشتمل تھی، مبہوت ہو کر دیکھ رہی تھی۔ یہ نزاکت، یہ خوبصورتی، یہ سادگی، انارکلی واقعی انارکلی تھی۔ رقص ختم ہوا۔ بھرپور تالیوں نے داد دی۔
”آج سے ہم تمہیں انار کلی کا خطاب دیتے ہیں!” شہنشاہ اکبر بنی عائشہ نے رعب دار آواز میں کہا۔ انارکلی نے جھک کر آداب پیش کیا۔ شہنشاہ نے گلے سے ست لڑا اتارنا چاہا کہ انارکلی کو انعام دیں، وہ ان کی داڑھی میں پھنس گیا۔ انہوں نے گھبرا کر جھٹکا دیا تو ہار کے ساتھ داڑھی بھی چلی آئی۔ وہ مزید گھبرا گئے اور جلدی سے ہار انار کلی کے گلے میں ڈال دیا۔ انارکلی گلے میں شہنشاہ معظم کی داڑھی لٹکائے جھک جھک کر آداب کرتی رہی۔
منظر بدلا۔ انارکلی اور شہزادہ سلیم باغ میں ٹہلی رہے ہیں۔ بڑا خوب صورت سیٹ لگا ہے۔ سیٹ کے بیچوں بیچ ایک بڑے سے درخت کا تنا فرش پر ترچھا پڑا ہے جس پر پھول لپیٹے گئے ہیں۔ ٹہلتے ٹہلتے دونوں اس پر جابیٹھتے ہیں۔ پیچھے ‘چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو’ کی دھن بج رہی ہے۔ دونوں کے مائیک بند ہیں کیونکہ یہ میوٹ سین ہے۔ آڈئینس دیکھ رہے ہیں کہ شہزادہ سلیم انارکلی کو چپکے چپکے کچھ کہہ رہا ہے اور وہ شرما رہی ہے۔ اوپر سٹیج پر شہزادہ (جس کا نام ماہ نور ہے) نقلی مونچھیں لگائے، مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔ ”پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں میرے۔”
”چپ کر کمبخت!” انارکلی شرماتے ہوئے کہتی ہے ۔”کہا تھا ناکم سموسے کھایا کر۔”
”قسم سے بڑا سخت مروڑ ہے!” سلیم رومیٹنگ نظر آنے کی کوشش میں دہائی دیتا ہے ۔”اوریہ درخت کس کمینے نے رکھا یہاں؟ کانٹے ہیں اس پر۔چبھ رہے ہیں مجھے۔”
لوگ تالیاں بجا رہے ہیں۔ اوپر سٹیج پر سلیم انار کلی کے کان میں کچھ کہہ رہا ہے۔ وہ شرما کر منہ پھیر لیتی ہے۔
”تمہاری پلکیں ٹھیک نہیں لگیں۔ دائیں آنکھ کی اتر رہی ہے۔” سلیم نے انار کلی کے کان میں کہا۔
”بیڑا غرق” انارکلی شرما کر بولی۔
عین اسی وقت درخت کے تنے سے ایک موٹی تازی مکڑی نکل کر شہزادہ سلیم کی طرف بڑھی۔ وہ پہلے ہی پیٹ کے مروڑوں اور درخت کے چبھنے سے پریشان تھے۔ مکڑی کو اپنی طرف بڑھتا پایا تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ قریب تھا کہ وہ انار کلی کو وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلتے کہ انارکلی نے جلدی سے مکڑی کو پکڑ لیا اور مٹھی بند کرلی۔ پردہ اس حال میں گرا کہ شیخو میاں سر کئے ہوئے انار کلی سے دور ہورہے ہیں اور انارکلی شرما نے کی کوشش میں بے حال ہوئی جارہی ہے۔
٭…٭…٭
اس شام گھر آکر بی بی جان نے اسمارہ کو اپنے کمرے میں بلایا۔ وہ گئی تو وہاں زرینہ بھی موجود تھیں۔ بی بی جان اپنی مسہری پر زیوروں کے ڈبے کھولے بیٹھی تھیں۔ اسمارہ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ بی بی جان نے ایک بے خوبصورت، نازک سا سیٹ اس کی طرف بڑھایا۔
”میری انارکلی کے لیے تحفہ۔” انہوں نے پیار سے کہا۔ اسمارہ نے سیٹ اٹھا لیا۔ کتنی ہی دیر وہ اس کی نفاست اور خوب صورتی کو مبہوت ہوکر دیکھتی رہی۔
”یہ سب زیور تمہارا ہے۔” بی بی جان نے اپنے ارگرد پھیلے زیورات کی طرف اشارہ کیا۔ اسمارہ ایک ایک زیور کو دیکھتی تھی اوراش اش کرتی تھی۔ آرٹ کی قدردان تھی۔ دیکھ سکتی تھی کہ یہ زیور نہیں تھے، ایک سے بڑھ کر ایک آرٹ پیس تھے۔
بی بی جان کہہ رہی تھیں۔ ”یہ سب میرے خاندانی زیور ہیں۔ میری نانی دادی اور ساس کے زیور۔ ان میں سے کئی تو دو سو سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ ایسی چیزیں اب نہیں بنتیں۔”
”آپ نے اپنی بہوؤں کو نہیں دیئے یہ زیور؟” اسمارہ نے ایک رانی ہار کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ بی بی جان مسکرا دیں ۔”نہیں۔ بہوؤں کو میں نے نیاز یور ڈالا۔ سوچا تھا جتنی پوتیاں ہوں گی، اپنا خاندانی زیوران سب میں بانٹ دوں گی۔ لیکن پوتی صرف ایک ہی ہوئی۔ سو اب یہ سب صرف تمہاری امانت ہے۔”
انہوں نے محبت سے اسمارہ کا ہاتھ پکڑا اور کنگنوں کی ایک جوڑی اٹھا کر اسے پہنانے لگیں۔
”بیٹیاں ماں دادی کے زیور کی قدر کرتی ہیں۔” انہوں نے کنگن اس کی کلائی میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ”مجھ سے وعدہ کرو کہ ان زیوروں کو کبھی نہیں تڑواؤگی۔ یہ تمہاری نسلوں کی نشانیاں ہیں۔”
”جی بی بی جان۔” اسمارہ نے خوشی سے اپنے ہاتھ میں کنگن کھنکھناتے ہوئے کہا۔
کتنی آسانی سے وعدہ کرلیتی تھی وہ۔ نہیں جانتی تھی کہ وعدے ایک دن کندھوں کا بوجھ اور دل کا آزار بن جاتے ہیں۔ جانتی تو اتنا بھاری بار نہ اٹھاتی۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!