غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

۲۔ قول و فعل

عالم آراء نے گھوڑے سے اتر کر اس کی باگ سائیسں کو پکڑائی اور جیب سے نکال کر مصری کا ڈلاگھوڑے کو کھلانے لگیں۔ ہانپتے ہوئے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے سائیس کو حکم دیا ۔”اگلے سموں کی نال چیک کرو۔ آج اس کے بھاگنے میں کچھ فرق تھا۔”
”جی بیگم صاحب!” سائیس نے مستعدی سے کہا اور گھوڑے کو لے گیا۔
عالم آراء اپنا ہیلمٹ کھولتی ہوئی ماربل کی سیڑھیاں چڑھ کر دروازے تک پہنچیں اور دروازہ کھولنے کو ہاتھ بڑھایا۔ اسی وقت کسی نے اندر سے دروازہ کھول دیا۔ عالم آراء کے قدم وہیں تھم گئے۔ شیشم کے وسیع منقش دروازے کے درمیان پٹ واکئے دلاور حسین کھڑے تھے۔ عالم آراء کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
”آگئے تم؟” انہوں نے استہزا ئیہ انداز میں پوچھا۔
”ہاں!” دلاور حسین نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔ ان کے چہرے پر ایک محظوظ ہونے والی کیفیت تھی۔
”کیوں؟ نکال دیار کھیل نے؟” عالم آراء نے طنزیہ مسکراہٹ سے پوچھا۔
دلاور حسین کی آنکھوں میں شعلہ سا لپکا۔ ”تائی جان آئی بیٹھی ہیں۔” انہوں نے دانت بھینچ کر دبی آواز میں کہا۔
”تو؟ کیا چھپا ہے تمہاری تائی جان سے؟ تم لوگوں کے سب کرتوت جانتی ہیں وہ۔” عالم آراء نے سرجھٹک کر کہا، مگر ان کی آواز خود بخود نیچی ہوچکی تھی۔ وہ نخوت سے سر اٹھا کر دلاور حسین کے پاس سے گزر گئیں۔ وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں بی بی جان شہیر کے پاس بیٹھی تھیں۔
”کب آئیں تائی جان؟” عالم آراء نے ہیلمٹ اور چھڑی میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
”تھوڑی ہی دیر ہوئی بیٹا۔ کیسی چل رہی ہے تمہاری رائیڈنگ؟” بی بی جان نے پوچھا۔
”ہر چیز بہترین چل رہی ہے ان کی۔” دلاور حسین اندر آچکے تھے۔ طنز سے بولے :
”انہیں سب ٹھیک رکھنا آتا ہے، سوائے شوہر کے۔”
”دلاور حسین !بچے کے سامنے نہیں۔” بی بی جان نے تبنیہہ کی۔
”بچے سے کیا چھپا ہے؟” دلاور حسین نے بے پروائی سے کہا۔
”ہاں بچے سے کیا چھپا ہے؟ وہ سب جانتا ہے، باپ کی شراب کو بھی، رکھیل کو بھی۔” عالم آراء نے چبا چبا کر کہا۔
بی بی جان کے چہرے پر دبا دبا غصہ جھلکنے لگا۔ ان دونوں میاں بیوی کو زبان کو لگام دینا نہیں آتی تھی۔ شہیر منہ اٹھائے باری باری ماں باپ کو دیکھ رہا تھا۔ بی بی جان نے اسے پچکارا۔ ”چلو بیٹا اٹھاؤ اپنی کتابیں۔ جاؤ باہر جاکر کھیلو۔”
لیکن دس سالہ شہیر اپنی جگہ جم چکا تھا۔ خوف سے بھری اپنی بڑی بڑی آنکھیں ماں پر جمائے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے مضبوطی سے اپنی کتاب پکڑ رکھی تھی۔
”کچھ اس عورت کو بھی سکھا دیجئے تائی جان!” دلاور حسین نے تحیر آمیز انداز میں انگلی اٹھا کر عالم آراء کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ انگلی مجھ پر اٹھانے سے پہلے خود پر اٹھاؤ۔” عالم آراء نے غصے سے بل کھا کر کہا۔
”دیکھ رہی ہیں تائی جان؟” دلاور حسین گرجے ۔”جس مرد کی بیوی ایسی ہو، وہ باہر نہ جائے تو کیا کرے؟”
”کیسی بیوی؟” عالم آراء چلائیں۔ ”کیسی بیوی؟ اونچے خاندان کی عورت راس نہیں آئی، کیچڑ میں منہ مارتے پھرتے ہو۔”
”عالم آرائ!” بی بی جان نے اونچی آواز میں تنبیہ کی۔
”ہونہہ اونچا خاندان” دلاور حسین نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ ”تو پھر ایسا کیا کررہا ہوں میں جو تمہارے اونچے خاندان میں کبھی کسی نے نہیں کیا؟ تمہارے باپ کا حرم کتنا تھا معلوم ہے تمہیں۔اور اس حرم میں رکھی گئی رکھیلوں کے کتنے آشنا تھے؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ تم ان میں سے کس کی اولاد ہو۔”
”دلاور حسین بس کرو۔” بی بی جان نے چیخ کرکہا، مگر دلاور حسین اور عالم آراء ان کی آواز نہیں سن رہے تھے۔ عالم آراء طیش سے تھرتھر کانپنے لگی تھیں۔
”آئندہ… آئندہ تم نے مجھ سے یہ بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔” غصے کے مارے ان کی آواز حلق میں پھنس رہی تھی۔
”اچھا؟” دلاور حسین تمسخر سے ہنسے ۔
”تو کیا کرلو گی تم؟ اتنی غیرت مند ہوتو…”
”میں خود کو شوٹ کرلوں گی” عالم آراء نے شعلہ بار نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا ”اور میرا خون تمہاری گردن پر ہوگا۔”
”ہونہہ!” دلاور حسین طنز سے ہنسے۔ ”قول و فعل دو مختلف چیزیں ہیں۔”
”اچھا؟” عالم آراء کی نگاہوں کے شعلے ان کی آواز تک آپہنچے تھے۔ ”تو پھر لو دیکھو۔”
عالم آراء نے بجلی کی سی تیزی سے پاس پڑی میز کا دراز کھول کر پسٹل نکال لی۔
”عالم آرائ!” بی بی جان چلائیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

عالم آراء نے پسٹل اپنی کنپٹی پر رکھ لی۔ دلاور حسین کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”لو دیکھو میرا قول و فعل۔” عالم آراء نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
ڈرائنگ روم فائر کی آواز سے گونج اٹھا۔ شہیر کی گود میں کھلی کتاب اس کی ماں کے خون سے رنگین ہوگئی۔
٭…٭…٭
زرینہ نے سپارہ ختم کرکے بند کیا اور گٹھلیو ں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اسی وقت ان کی نظریں بی بی جان پر پڑیں۔ وہ یک ٹک کسی کو دیکھ رہی تھیں۔چہرے پر دبا دبا سا غصہ تھا۔ زرینہ نے ان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ دلاور حسین شہیر کو چمٹائے بیٹھے تھے۔ بڑھی ہوئی شیو، سوجی ہوئی آنکھیں۔ رہ رہ کر روپڑتے تھے۔ بی بی جان نے ان سے نظریں ہٹا کر زرینہ کو دیکھا۔
”کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔” انہوں نے زیر لب کہا۔
”اور یہ توبہ کتنے عرصے تک جاری رہے گی؟” زرینہ نے پر سوچ لہجے میں پوچھا۔
”چہلم ہی نکال جائے تو بڑی بات ہے۔” بی بی جان نے دبے دبے غصے سے کہا۔
پھر اچانک وہ اٹھیں اور دلاور حسین کی طرف بڑھیں۔ وہ ہلکے ہلکے سینے پر ہاتھ مار رہے تھے اور روتے ہوئے عالم آراء کا نام پکاررہے تھے۔ بی بی جان نے شہیر کا بازو پکڑ کر اسے اٹھایا اور اسے لے کر واپس اپنی جگہ پر آبیٹھیں۔ وہ ان کے سینے سے چمٹ کر سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ اسے دیکھ کر زرینہ بھی روپڑیں۔ لیکن بی بی جان نہ روئیں۔ انہوں نے شہیر کا چہرہ اٹھا کر اس کے آنسو پونچھے اور مضبوط لہجے میں کہا ۔
”آج سے میں ہوں تمہاری ماں۔ قاسم، شجاع، اسد تمہارے بھائی ہیں۔ خود کو اکیلا مت سمجھنا۔”
شہیر کی سسکیاں تھمنے لگیں۔ وہ بی بی جان کے سینے سے چمٹا رہا۔ اسے ان سے عجیب سی انسیت محسوس ہورہی تھی۔ وہی تو تھیں اس وقت اس کے پاس جب اس کی ماں نے… اسے لگتا تھا وہ دونوں ایک دردِ مشترک میں بندھے تھے جسے دوسرا کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔
٭…٭…٭
”شہیر کو یہیں رکھ لیجیے بی بی جان۔ واپس مت بھیجئے ۔” زرینہ نے کہا۔ وہ صحن میں شہیر کو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتا دیکھ رہی تھیں۔ ان کادل دکھ سے بھر رہا تھا۔
”نہیں!” بی بی جان نے اٹل انداز میں کہا۔ وہ تخت پر بیٹھی سوکھی ہوئی جڑی بوٹیوں کے پتے علیحدہ کررہی تھیں۔
” اسے اپنے ہی گھر رہنا چاہیے۔ اس کے باپ کو احساس رہنا چاہیے کہ بیٹا اس کی ذمہ داری ہے۔”
”ہاں شاید اس حادثے کے بعد کچھ بدل جائیں۔” زرینہ نے تائید کی۔
بی بی جان نے نفی میں سر ہلایا۔ ”چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ کرتوت تو اس کے وہی رہیں گے۔ میں نہیں جانتی کیا اس خاندان کے مردوں کو؟” وہ استہزائیہ بولیں۔
”آپ کے بیٹے بھی تو اس خاندان کے مرد ہیں۔” زرینہ نے ہنس کر کہا۔
”ارے وہ میرے بیٹے ہیں!” بی بی جان نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ”اپنے بیٹوں کو میں نے نہ کھلی چُھٹی دی نہ کھلا پیسہ۔ ابھی تک ڈرتے ہیں مجھ سے۔ آنکھ میں شرم ہے ماں کے سامنے۔”
زرینہ نے دل ہی دل میں تائید کی۔
”اور میں شہیر کی تربیت بھی ایسے ہی کروں گی ان شاء اللہ۔” بی بی جان کہہ رہی تھیں۔
”تمہیں پتا ہے میں نے عالم آراء کے مرتے ہی پہلا کام کیا کیا؟ میں نے اس کے لاکر سے اس کا سارا زیور اور جائیداد کے کاغذات نکال لیے۔”
زرینہ کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ پندرہ سال سے رہ رہی تھیں وہ بی بی جان کے ساتھ۔ جانتی تھیں انہوں نے یہی کیا ہوگا۔ کیوں کیا ہوگا، اس کا بھی کچھ کچھ اندازہ تھاا نہیں۔
”دلاور حسین کی یہ تبدیلی چار دن کی چاندنی ہے۔ اپنا پیسہ جائیداد تو اجاڑ چکے، اب عالم آراء کی نہیں اجاڑنے دوں گی۔ شہیر کی امانت ہے سب۔ شہیر کے نام پر اکاؤنٹ کھولا ہے اور لاکر لیا ہے۔ زیور اور کاغذات لاکر میں ہیں، جائیداد سے آنے والا پیسہ اکاؤنٹ میں۔ شہیر کے علاوہ اس پر کسی کا حق نہیں۔ اس کے باپ کا بھی نہیں۔”زرینہ شہیر کو کھیلتے دیکھتی رہیں۔
” نہ ہوتا یہ ،ماں ہوتی۔ وہ نہ ہوا ہوتا جو ہوا۔” انہوں نے دکھ سے سوچا۔
بی بی جان کہہ رہی تھیں
”وصیت میں لکھ دیا ہے میں نے۔ زندگی رہی تو بالغ ہونے پر اس کی امانت اس کے حوالے کردوں گی۔ نہ رہی تو اس کی جائیداد خودبخود اس کے حوالے ہوجائے گی۔ تب تک یہ اپنے باپ کی ذمہ داری ہے۔”
٭…٭…٭
ڈیئرایمن آپا!
کہنا تو نہیں چاہتا مگر بات یہ ہے کہ میں یہاں سخت بور ہوگیا ہوں۔ سوچا تھا خالہ کے گھر جاکر رہوں گا، ارسلان اور حسیب کے ساتھ اچھا وقت گزرے گا۔ مگر وہ انگلینڈ چلے گئے۔ ممی اور پاپا کی اپنی مصروفیت ہے۔ پتا نہیں کب گزریں گی یہ چھٹیاں اور میں امریکہ واپس جاؤں گا۔ آپ اچھی رہیں کہ آپ کی یونیورسٹی چلتی رہی۔ میں پھنس گیا۔ نہ چلانے کو کوئی بائیک ہے، نہ جانے کو کوئی لائبریری۔ سارا دن مکھیاں مارتا ہوں ۔اور تو اور ہفتہ ہوگیا کوئی نظم تک نہیں لکھی۔ حد ہوگئی۔
بدرالدجا
٭…٭…٭
پیارے بھائی!
تمہاری میل ملی۔یقین نہیں آیا کہ تم نے لکھی ہے۔ بھول گئے وہ عہد جس پر کاربند رہنے کا وعدہ ہم نے ایک دوسرے سے کیا تھا؟ ہمیشہ پوزیٹو رہنے کا، ہمیشہ شکر گزار رہنے کا، ہر چیز میں حسن ڈھونڈ کر اس کی قدر کرنے کا۔ ارے حسن سے یاد آیا، وہ لڑکی دوبارہ نظر آئی؟ تمہاری willow damsel؟ نظر آئے تو اس مرتبہ اس کا چہرہ ضرور دیکھنا۔ بڑی اچھی نظم ہوجائے گی خود بخود۔
تمہاری آپا
ایمن
٭…٭…٭
ڈیرایمن آپا!
خدا مجھے اس وقت سے بچائے کہ میں ایک نظم کی خاطر کسی لڑکی کا نقاب کھینچ لوں۔ ہاں اگر وہ برضا و رغبت دیدار کرادے تو سو بسم اللہ۔
بدرالدجا
٭…٭…٭
ڈیر بدر!
شاباش!
ایمن
٭…٭…٭
”تم کیا بنو گی بڑی ہوکر؟” شہیر نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اسمارہ کے چہرے پر جما کر پوچھا۔ وہ سات سال کی تھی، اس سے تین برس چھوٹی، مگر لگتی اس کے جتنی تھی۔
”ریسلر!” اسمارہ نے جوش سے جواب دیا۔ وہ بھٹہ کھارہی تھی۔ سامنے کے دانت ٹوٹے ہونے کی وجہ سے بھٹے کے دانے اس کی گود میں گر گر پڑتے تھے۔
”چچا نہیں بننے دیں گے۔” شہیر نے ڈرایا۔
”کوئی بات نہیں!” اسمارہ نے بے پرواہی سے کہا۔ ”تو میں فارمولا ون ریس ڈرائیور بن جاؤں گی۔”
شہیر گھبرا گیا ۔”پلیز ریس ڈرائیور مت بننا!”
”کیوں؟” اسمارہ نے حیران ہوکر پوچھا۔
شہیر کچھ ہچکچایا۔ پھر سر جھکا کر اداسی سے بولا ۔”اس میں لوگ مرجاتے ہیں نا۔”
اسمارہ کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ چھوٹی تھی مگر جانتی تھی کہ شہیر کی امی اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں۔ بی بی جان نے سب بچوں کو بٹھا کر شہیر کی دل جوئی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنے کی تلقین کی تھی۔ وہ اس کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ اس نے تسلی دینے کی کوشش کی ۔
”یہ تو ویسے ہی میرا خیال تھا۔ اصل میں تو فٹ بالر بننا چاہتی ہوں۔”
شہیر خوش ہوگیا۔ ”ہاں فٹ بال تو safe گیم ہے۔”
اس safe گیم نے آدھے گھنٹے بعد ہی اپنی اصلیت اس پر ظاہر کردی۔ وہ سب فارم ہاؤس میں پکنک پر آئے ہوئے تھے۔ سب کزنز کا فٹ بال میچ چل رہا تھا۔ سات آٹھ بڑے لڑکے اور بیچ میں ایک اکیلی اسمارہ جو فی الحال سب سے چھوٹی تھی۔ چوں کہ میچ بڑا سیریس قسم کا تھا، اس لیے اسمارہ کو اس کی پسندیدہ سنٹر فارورڈ پوزیشن پر نہیں کھلایا جارہا تھا۔ اس ناانصافی نے اسے غصے سے بھر دیا تھا اور وہ جھپٹ جھپٹ کر بال چھیننے کی کوشش کررہی تھی۔ اور اس میں کامیاب بھی ہورہی تھی۔ مڈفیلڈر کے طور پر وہ بال کے پیچھے پیچھے جوش میں بھری ڈی تک جاپہنچی۔ قاسم نے گول کرنے کے لیے پوزیشن لی۔ اسمارہ نے بازو پھیلا کر گول روکنے کے لیے گول پوسٹ کے سامنے مورچہ سنبھالا۔
”اسمارہ سامنے سے ہٹ جاؤ، بال لگ جائے گی!” قاسم نے خبر دار کیا۔
”نہیں ہٹوں گی!” وہ غرائی۔
”اسمارہ ہٹ جاؤ میں بڑی زور سے کک ماروں گا!” قاسم چیخا۔
”مارو!” وہ چلائی۔
قاسم نے کک لگائی، اسمارہ نے ڈائیو۔ توپ کے گولے کی طرح فٹ بال اس کے پیٹ میں آکر لگی اور وہ کسی ڈوری ٹوٹے پیٹ کی طرح بال دبوچے زمین پر گر پڑی۔
”لو ہوگیا کام تمام۔” قاسم غصے سے بڑبڑایا۔
سب لڑکے اس کی طرف بھاگے۔ وہ نیم بے ہوش تھی مگر بال کو اس زور سے بھینچے ہوئے تھی کہ اسے اس کے بازوؤں سے نکالنا ناممکن تھا۔
”اٹھ جینا حرام کرن۔” شجاع نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
لیکن اس سے اٹھانہ گیا۔ آخر انہوں نے اسے ڈنڈا ڈولی اٹھایا اور اندر لے چلے۔ فٹ بال فیلڈ خالی ہوگئی۔ کسی نے نہ دیکھا کہ خالی گول پوسٹ کے سامنے شہیر اکیلاکھڑا ہے اور تواتر سے بہتے آنسو اس کے گال بھگورہے ہیں۔
٭…٭…٭
تایا کے گھر وہ بہت شوق سے جاتی تھی۔ ایک تو ان کا کینٹ میں گھر بڑا شاندار تھا، جس میں کھیل کود کے بہت مواقع تھے۔ دوسرا تائی اسے بہت پیار کرتی تھیں۔ تایا آرمی میں جنرل تھے۔ ان کا یونیفارم دیکھ کر اسے آرمی میں جانے کا شوق ہوجاتا۔ ان کی ٹوپی سر پر جما، چھڑی پکڑ، ان کے لمبے لمبے بوٹ اپنے پیروں میں پہن کر وہ سارے گھر میں رپٹتی پھرتی۔ یہاں بھی وہ اندھوں میں کانا راجہ تھی۔ اپنے تین بھائی، تایا کے دو بیٹے، وہ اکیلی لڑکی۔ ان کی جھڑکیاں سنتی، دھول دھپے کھاتی مگر ان کے ہر کھیل میں شامل ہوتی۔ انہیں بھی اس کے لڑکی ہونے کی کچھ خاص پروا نہیں تھی۔ کیونکہ ایک تو وہ کھیلتی اچھا تھا، دوسرے روتی نہیں تھی، تیسرے بڑوں کی شکایت نہیں لگاتی تھی۔ کسی نے دھکا دے دیا، گرگئی، نیل پڑگیا۔ امی یا تائی پوچھیں گی تو جھوٹ بول دے گی کہ چلتے چلتے میز سے ٹکرا گئی تھی یا ٹھوکر لگنے سے گر گئی تھی۔ ایسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ گھڑتی تھی کہ وہ اش اش کر اٹھتے تھے۔ اس کی ان غیر زنانہ صفات کی وجہ سے وہ اسے اپنے ساتھ کھیل میں شامل کرنے سے نہیں ہچکچاتے تھے ۔اور اگرچہ ظاہر نہیں کرتے تھے مگر اس کی بہادری کی دل میں عزت بہت کرتے تھے۔ اس کا ایک کارنامہ تو ایسا تھا جس نے اسے خاندان بھر میں ہیروبنا دیا تھا۔
تائی کی بہن اپنے بچوں کے ساتھ ان کے گھر آئی ہوئی تھیں۔ تائی کے گھر کی بیسمنٹ میں سوئمنگ پول تھا۔ تائی کی سوشل لائف بڑی مزے دار تھی۔ کلب کے فنکشنز، گھر میں پارٹیز، پکنک۔ اسمارہ ان کے گھر جاتی تو کئی نئے دوست بناتی۔ اس دن بھی وہ چند بچوں کے ساتھ لان میں کھیل رہی تھی۔ چند بچے سوئمنگ کرنے نیچے چلے گئے۔ اسمارہ کا چھوٹا بھائی اسد، کسی مہمان کے دو چھوٹے بچے اور تائی کا بھانجا پول میں اتر گئے۔ تائی کی بہن جنہیں سب مہناز خالہ کہتے تھے، کنارے بیٹھ کر بچوں کو تیر تا دیکھنے لگیں۔ بچے سوئمنگ کرتے رہے، وہ recliner پر نیم دراز میگزین دیکھنے لگیں اور میگزین دیکھتے دیکھتے کس وقت ان کی آنکھ لگی، انہیں پتا ہی نہیں چلا۔ ان کی آنکھ شور کی آوازوں سے کھلی۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھیں۔ پول کا منظر دیکھ کر ان کی چیخ نکل گئی۔ ان کا دس سالہ بیٹا ڈوب رہا تھا۔ وہ ڈوبتا، ابھرتا، پاگلوں کی طرح پانی پر ہاتھ مارتا اور پھر پانی کے نیچے چلا جاتا۔ باقی بچے چیخ چیخ کر رو رہے تھے۔ سب چھوٹے تھے، ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ مہناز خالہ بے اختیار پول کی طرف بھاگیں اور اسی وقت ان کو خیال آیا کہ انہیں سوئمنگ نہیں آتی تھی۔ وہ پاگلوں کی طرح پول کے کناروں پر بھاگنے لگیں اور چیخنے لگیں۔ اسمارہ اس وقت بیسمنٹ کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آرہی تھی۔ اس کی نظر پول پر پڑی تو اس نے لمحوں میں صورتِ حال کا اندازہ لگایا اور بجلی کی سی تیزی سے بھاگی۔ تیزی سے سیڑھیاں اترتے اس کا پاؤں پھسلا اور آخری سات آٹھ سیڑھیاں اس نے پھسلتے ہوئے طے کیں۔ اس کی کہنیاں چھل گئیں، کمر پر چوٹ آئی لیکن اس نے پروا نہ کی۔ پول کی طرف بھاگتے ہوئے اس نے بغیر رکے جوتے اتارے اورلمبی ڈائیو کرکے پول میں چھلانگ دی۔ لمحوں میں وہ ڈوبتے ہوئے بچے کے پاس پہنچ چکی تھی۔ تب تک وہ بے ہوش ہونے کے قریب تھا۔ اسمارہ نے اسے سر کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ وہ صرف سات سال کی تھی اور لڑکا دس سال کا، مگر بھائیوں کے ساتھ ریسلنگ اور سوئمنگ ریس کرکرکے اسمارہ میں اتنا زورِ بازو تھا کہ اس جیسے دو کو بھی اٹھا لاتی۔ نیم بے ہوش لڑکے کا سر پانی سے اوپر کیے وہ اسے کنارے تک لے آئی۔ باقی بچے بھی پول سے نکل آئے۔ مہناز خالہ نے بچوں کے ساتھ مل کر اسے پانی سے نکالا، الٹا لٹا کر پیٹ دبایا۔ بچے کے منہ سے پانی نکلا اور اسے ہوش آگیا۔
گھنٹے بعد وہ بچہ ہاتھ میں گرم دودھ کاگلاس تھامے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا اور اسمارہ بی بی سب کے بیچ ہیرو بنی کھڑی تھیں۔ باری باری سب نے بلا کر پیار کیا۔ بھائیوں نے اس کے کندھے ٹھونک کر شاباش دی۔ بی بی جان نے فخر سے اس کی چھلی ہوئی کہنیاں سب کو دکھائیں اور محی الدین نے پانچ سو روپے انعام دیا۔ مہناز خالہ نے آنسو بھری آنکھوں سے بار بار اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ اسے اپنے بیٹے کے پاس لے گئیں۔
”بیٹا شکریہ ادا کرو۔” انہوں نے اسے بیٹے کے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔
“Thank you.” بچے نے ہلکی سی آواز میں کہا۔ وہ ابھی تک شاک سے نہیں نکلا تھا کچھ شرمندگی بھی تھی۔
“You are welcome.” اسمارہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”تم کون سی کلاس میں ہو؟” اسمارہ نے خاموشی توڑی۔
”5th میں، اور تم؟”
”میں تھری میں ہوں۔”
”اچھا! میں سمجھا تم بڑی ہو۔” اس نے حیران ہوکر کہا۔
”میں بڑی ہوں!” وہ کچھ برامان کر ‘ہوں’ پر زور دے کر بولی۔
”ہاں ہاں” اس نے جلدی سے کہا۔ وہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کتنی بری بات ہوگی اگر وہ اس لڑکی کے ساتھ کوئی نامناسب بات کرتا جس نے اس کی جان بچائی تھی۔
”تم بہت سٹرونگ ہو۔” اس نے اسے خوش کرنے کے لیے تعریف کی۔ وہ خوش ہوگئی۔
”تمہارا نام کیا ہے؟” ڈوبنے والے نے پوچھا۔
”اسمارہ” بچانے والی نے کہا
”اور تمہارا؟”
”بدر۔ بدرالدجا”
”نائس ٹو میٹ یو بدرالدجا۔”
”نائس ٹو میٹ یو اسمارہ۔”
دونوں نے ہاتھ ملائے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ اوپر آسمان میں ان کے ستارے بھی مل رہے تھے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!