غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

۱۔اسمارہ

بھاگ کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کا سانس پھول گیا لیکن بارات دیکھنے کا اشتیاق اتنا تھا کہ پھولے سانس کو قابو کرنے کی کوشش کرتی، اندھیرے کمرے میں کاٹھ کباڑ سے الجھتی وہ کھڑکی تک پہنچ ہی گئی۔ کھڑکی ذرا سی کھول کر اس نے نیچے گلی میں جھانکا۔ عین اس کی کھڑکی کے نیچے سے بارات گزر رہی تھی۔ آگے آگے باراتی تھے، ان کے ہاتھوں میں ہار پھول اور مٹھائی کے ٹوکرے تھے۔ ان سے پیچھے اس جلوس کے درمیانی حصّے میں دلہا دلہن قریبی رشتے داروں کے گھیرے میں چل رہے تھے۔ اسمارہ کو دلہن دیکھنے کا موقع مل گیا۔
”شکر ہے عین وقت پر پہنچی!” اس نے خوش ہوکر سوچا۔
دلہا نے سہرا باندھ رکھا تھا اور وقتاً فوقتاً اس کی لڑیاں ہٹا کر لوگوں کو درشن کروادیتا تھا۔ خوشی سے اس کے دانت نکلے پڑتے تھے۔ دلہن البتہ بڑی مغموم تھی۔ اس نے سر ایک طرف کو پھینک رکھا تھا، جیسے اپنی تقدیر کے آگے ہتھیار ڈال چکی ہو۔ بے اختیار اسمارہ کا دل چاہا کہ وہ ایک نظر اٹھا کر اوپر اسے دیکھے۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ سرخ زرتار گھونگھٹ کے نیچے اس کی آنکھوں میں کیا کیفیت تھی۔ اس کے چہرے پر خوشی کی دمک تھی یا اداسی کا سایہ؟ لیکن دلہن اس طرح سر نیہوڑے اس کی کھڑکی کے نیچے سے گزر گئی۔ بارات کا آخری حصہ جونفیری بجانے والوں اور وارے ہوئے پیسے لوٹنے والے بچوں پر مشتمل تھا۔ وہ بھی گزر گیا۔ موڑ مڑ کر پوری کی پوری بارات گلیوں کی بھول بھلیوں میں نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
اسمارہ وہیں کھڑکی کے پاس رکھے سٹول پر بیٹھ گئی اور ایک خوابناک کیفیت میں سرکھڑکی سے ٹکا دیا۔ اس کی نظروں کے سامنے سُرخ سنہری گھونگھٹ، موتیوں کی نتھ، چوڑیوں کی کھنک ایک کے بعد ایک جلوہ دکھانے لگے۔ اندھیرے کمرے میں کوئی چوہا بھاگا، کھٹاک کی آواز ہوئی اور وہ چونک گئی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کا سرعین اسی زاویے پر ڈھلکا ہوا تھا جس پر دلہن نے سرنیہوڑا رکھا تھا۔ اسمارہ نے اس کے انداز میں نظریں جھکا کر غمگین نظر آنے کی کوشش کی، اسے ہنسی آگئی۔
”اف توبہ! میں تو کبھی نابنوں 1940 کی ہیروئن۔” اس نے اطمینان سے عزم کیا۔
”میں تو بڑی ہنسی خوشی کرواؤں گی شادی۔ ہنستی گاتی جاؤں گی دلہا کے ساتھ۔”
وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے خود کو دلہن بنے، ایک سہرے والے دلہا کے ساتھ بارتیوں کے جلو میں چلتے دیکھا۔ چشمِ تصور نے اسے دکھایا کہ وہ سرخ زرتار جوڑا پہنے، ہلکا سا گھونگھٹ نکالے چلی جارہی ہے۔چلتے چلتے وہ نگاہ اٹھاتی ہے۔ اوپر ایک کھلی کھڑکی میں ایک لڑکی کھڑی اشتیاق سے نیچے جھانک رہی ہے۔ اسمارہ گھونگھٹ کی اوٹ میں سے اسے آنکھ مارتی ہے۔ لڑکی ہکا بکا رہ جاتی ہے۔ تصور میں اس لڑکی کے بھونچکا تاثرات دیکھ کر اسمارہ کو پھر سے ہنسی آگئی۔ اس نے کھڑے ہوکر فرضی گھونگھٹ نکالا، گھما کر اپنا تصوراتی گھیردار فرشی غرارہ سمیٹا اور کاٹھ کباڑ سے بچتی لہراتی ہوئی باہر نکل گئی۔
یہ شادی کا شوق بھی ایک تو دریافت شدہ لگن تھی۔ یہ چوڑیوں کا شوق، یہ گوٹے کناری سجے گھونگھٹ کی آرزو، سنہری پائل کی تمنا اور شہنائی کی دھن، یہ سب شوق اسے اب ہونا شروع ہوئے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے تو تین بھائیوں کے ساتھ پلتے بڑھتے وہ ان کا چوتھا بھائی بن کررہ گئی تھی۔ بچپن میں کبھی اسے شبرات پر غرارہ پہنا دیا جاتا تو وہ روتے روتے آسمان سر پر اٹھالیتی۔ چوڑیاں توڑ کر پھینک دیتی، قمیض غرارے میں ٹھونس لیتی اور سنہری سینڈلیں اتار جاگرز چڑھا لیتی۔ زرینہ بیٹی کی ان حرکتوں پر خفا ہوتیں مگر بی بی جان ہنستیں ۔”سات نسلوں کا اثر ہے، جاتے جاتے ہی جائے گا”۔ وہ ہنس کر کچھ فخر سے کہتیں۔ محی الدین کے خاندان میں سات نسلوں تک کوئی لڑکی پیدا نہ ہوئی تھی۔ بی بی جان کو بیٹی کا اتنا شوق تھا کہ وہ دادا سے چھپ کر اپنے بیٹوں کو فراک اور پونیاں پہنا کر اپنا شوق پورا کیا کرتی تھیں۔ دادا خود آٹھ بھائی تھے۔ خود ان کے بھی آگے سے بیٹے ہی بیٹے تھے۔ ان بیٹوں کے گھر بھی لڑکوں سے بھرے تھے۔ یوں اسمارہ پورے خاندان کی اکلوتی لڑکی تھی جو سات نسلوں بعد پیدا ہوئی تھی اور یہ سات نسلوں کا مردانہ پن تھا جس سے زرینہ ڈرتی تھیں۔ بی بی جان کے رعب کی وجہ سے کسی کی ہمت نہ تھی کہ اسمارہ کو کچھ کہہ سکے مگر ان سے چھپ کے زرینہ اسے دھموکے ضرور جڑدیتیں ۔ انہیں اس کا لڑکوں کی طرح رہنا بے حد ناپسند تھا۔ بی بی جان کی وہ ایسی لاڈلی تھی کہ اس کی آنکھ کے اشارے پر وہ جان نچھاور کرنے پر تیار ہوجاتیں۔ جس خاتون سے سارا خاندان دبتا تھا، وہ خود اپنی پوتی کے پیروں تلے ہاتھ رکھتی تھیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پہلا فضیحتہ اس نے اس وقت کیا تھا جب اسے کانونٹ میں داخل کروایا گیا۔ وہ بھائیوں کی طرح پگڑی باندھے ایچی سن جانا چاہتی تھی اور یہ فصیحتہ پورے تین سال جاری رہا۔ ہر روز صبح سکول جاتے ہوئے ضدم ضدا ہوتی۔ زرینہ تھک جاتیں، محی الدین ناراض ہوتے مگر بی بی جان کے لحاظ کے مارے کوئی کچھ نہ کہہ سکتا۔ آخر بی بی جان نے اس کے لیے بھائیوں جیسی پگڑی منگوائی جو روز صبح اسے پہنا کر سکول بھیجا جاتا۔ سکول کے گیٹ پر منت کر کرکے پگڑی اتروائی جاتی اور روتی بسورتی اسمارہ بی بی کو بصد مشکل بغیر پگڑی کے سکول جانے پر رضا مند کیا جاتا۔ خدا خدا کرکے اسے عقل آئی اور اس نے پگڑی کا پیچھا چھوڑا۔ اب ایک نئی مصیبت آن پڑی۔ بھائی گھڑ سواری کرتے تھے، کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے تھے تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اسمارہ وہ سب نہ کرتی۔ بھائیوں کو پابند کیا گیا کہ روزانہ اس کے ساتھ کرکٹ اور فٹ بال کھیلیں۔ ہفتے میں ایک مرتبہ گھڑ سواری کے لیے لے جانے کی ڈیوٹی محی الدین کو سونپی گئی۔ اس نے ہر وہ کام کیا جو خاندان کے لڑکے کرتے تھے۔ گلی ڈنڈا کھیلا، پتنگیں لوٹیں، گرگرکے ہڈیاں تڑوائیں اور ہر وہ کھیل کھیلا جو اس کے بھائی اور کزنز کھیلتے تھے۔ نہ کھیلا تو گڑیوں سے نہ کھیلا۔ کبھی ہمسائیوں یا ملازموں کی بچیوں کے ساتھ گھر گھر کھیلا بھی تو خود ہمیشہ شوہر بنی اور کسی اور کو بیوی بنایا۔ بی بی جان ٹھیک کہتی تھیں، سات نسلوں کا مردانہ پن تھا، جاتے جاتے ہی جانا تھا۔
کچھ عمر کے ساتھ، کچھ ماں کی روک ٹوک کا نتیجہ، وہ آہستہ آہستہ بدلنے لگی۔ گلی ڈنڈا چھوڑا، بھائیوں کے ساتھ کشتی لڑنا چھوڑا، چھت پر چڑھ کر پتنگیں لوٹتے ہوئے غل غپاڑہ کرنا چھوڑا۔ نہ چھوڑا تو لڑکوں کی طرح چلنا، کھڑے ہونا، اٹھنا بیٹھنا۔ نہ گیا تو طبیعت کا نڈرپن نہ گیا۔ وہ دلیری، وہ اپنی بات پر اڑ جانے والی فطرت جو مرد میں خوبی سمجھی جاتی ہے اور عورت میں خامی، وہ نہ گئی۔ لیکن اس کا قصور نہ تھا۔ جن کا خون تھی اور جن کی گود میں پلی تھی۔ وہ ایسے ہی تھے۔
”آخر کو میری پوتی ہے۔” بی بی جان فخر سے کہتیں۔
صلح جو اور بھلی مانس زرینہ اپنی دبنگ فطرت ساس کو دیکھتیں، پھر اپنی جنگجو بیٹی کو اور ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتیں۔ یہ ٹھنڈی آہیں وہ دن میں ہزار مرتبہ بھرتی تھیں۔ جب بیٹی کو دھپ دھپ کرتے چلتادیکھتیں، بھائیوں کے ساتھ دھول دھپا کرتے، آئے گئے پر رعب جھاڑتے دیکھتیں تو ٹھنڈی آہ بھرتیں۔
”لڑکی ذات۔” وہ افسردگی سے کہتیں۔محی الدین چونک جاتے۔ انہیں بھی اکثر بھول جاتا تھا کہ وہ لڑکی ہے۔
”کیسے ہوگا نباہ؟” زرینہ ٹھنڈی سانس بھر کر کہتیں۔
محی الدین لاپروائی سے سر جھٹک کر اپنی کتاب میں گم ہوجاتے۔ کیسے ہوگا نباہ؟ ویسے ہی جیسے ان کی ماں کا ہواتھا۔ دلیری اپنی جگہ، محبت اپنی جگہ کون کہتا ہے عورت میں یہ دو اوصاف اکٹھے نہیں ہوسکتے؟
٭…٭…٭
حضوری باغ کی گلیاں، نانک شاہی اینٹوں کی بھول بھلیاں، لکڑی کے چھجے، قدیم چوبارے اور ایک دوسرے سے جڑے کھڑے ان چھوٹے چھوٹے گھروں کی رعایا کے درمیان کسی شہنشاہ کی سی شان سے ایستادہ یہ تین سو سال پرانا گھر۔ پرکھوں کی شاندار حویلی جس کے صحن میں آباؤ اجداد کے وقتوں میں ایک ہزار لوگوں کو ایک وقت میں بٹھا کر کھانا کھلایا جاتا تھا۔ بھاری بھرکم دروازہ لمبی سے ڈیوڑھی میں کھلتا تھا۔ ڈیوڑھی جس میں کسی وقت میں بانگے گھڑ سوار آکر اترا کرتے تھے، اب وہاں چھوٹے بڑے درجنوں گملوں کے ساتھ ایک آٹھ سو سی سی کی ہیوی سپورٹس بائیک کھڑی ہے۔ ڈیوڑھی کے اردگرد مہمان خانے ہیں، گھر سے الگ تھلگ، زنانے اور مردانے کی حد بندی کے زمانے کی یادگار۔ ڈیوڑھی کا منقش دروازہ صحن میںکھلتا ہے جس کے بیچوں بیچ سنگِ مرمر کا فوارہ جس کے گرد موزیک کی ٹائلوں سے پھول بوٹے بنے ہیں۔ صحن کی دیواروں کے ساتھ سجے بے شمار پھولوں پودوں کی بہار سے بھرے گملے زرینہ کا شوق ہیں۔ مشرقی دیوار کے ساتھ رکھے جہازی سائز گملوں میں اگے درخت کے سامنے بی بی جان کا تحت بچھا ہے جس پر بیٹھ کر وہ اپنی راجدھانی کو فخر سے دیکھتی ہیں، پاس پڑوس کی عورتوں کے لیے نسخے بناتی ہیں اور اسمارہ کے ساتھ شطرنج کھیلتی ہیں۔
بی بی جان اس حویلی کے منجھلے بیٹے کے ساتھ علی گڑھ سے بیاہ کرآئی تھیں۔ تقسیم سے قبل کے زمانے میں علاقہ تو اس قدر گنجان نہیں تھا مگر گھر کے اندر آبادی کی ریل پیل تھی۔ ساس سسر، بے شمار رشتے دار، نوکروں کی فوج ظفر موج اور آٹھ دیور جیٹھ، ان کی بیویاں، بچے، ان گنت مہمانوں کا لگاتار بندھا تانتا۔ گھر میں پیسے کی اس قدر ریل پیل تھی کہ نوٹوں کی بوریاں بھر کر تہہ خانے میں رکھ دی جاتی تھیں جنہیں چوہے کتر جاتے تھے۔ جدی پشتی دولت مند خاندان جہاں تعلیم اور تہذیب کے ساتھ وہ سارے گن بھی تھے جو عموماً بے تحاشہ دولت اپنے ساتھ لاتی ہے۔ ساس سسر گزرے، دادا کے بھائیوں نے حویلی پر ناک بھوں چڑھائی اور اپنا اپنا حصہ وصولنے کو پرتولے۔ دادا نے رائیونڈ کی زمینوں میں سے حصہ چھوڑا اور حویلی بھائیوں سے خریدلی۔ ان میں سے بہت سی زمینیں طوائفوں پر واری گئیں، کچھ جوئے میں ہاری گئیں اور کچھ قرضے میں اتاری گئیں۔ شاید دادا کے آٹھ بھائیوں میں سے کسی کی بیوی بی بی جان جیسی نہ تھیں۔ داداکی نہ صرف حویلی اسی شان سے برقرار رہی بلکہ رائیونڈ کی کچھ زمین بھی واپس خریدلی گئی، فارم ہاؤس بھی بن گیا، زرعی جاگیر سے سالانہ بھی آتا رہا اور دادا کوچوں کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور جب دادا کو جرأت نہ ہوئی تو بیٹوں کی کیا مجال تھی۔ بی بی جان نے بیٹوں کی اپنے خاندان کے خطوط پر تربیت کی۔ خود علی گڑھ کی پڑھی تھیں، والد مجسٹریٹ تھے، والدہ شاعرہ، اپنے اوصاف بیٹوں میں منتقل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بی بی جان کے تینوں بیٹوں میں سے محی الدین نے حویلی کی وراثت سنبھالی۔ دادا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے کچھ دوسری جائیداد میں سے حصہ چھوڑا اور بھائیوں سے حویلی خریدلی۔ بڑے بھائی عماد الدین فوج میں چلے گئے، چھوٹے علیم الدین بیرسٹر بنے سو دونوں کا اندرون شہر میں نہ رہنا مجبوری ٹھہری بی بی جان حکمت میں بہت شغف رکھتی تھیں۔ محی الدین بچپن سے ان کے ساتھ جڑی بوٹیاں چھانتے، بیماریاں پڑھتے، لوگوں کی نبضیں دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر کے سوا کیا بن سکتے تھے۔ اب دن میں میڈیکل کالج میں پڑھاتے تھے، شام میں مفت مریض دیکھتے تھے اور دنیا جہان کے نوادر اکٹھے کرتے تھے۔ یوں تو سارے گھر میں ان کی اکٹھی کی ہوئی پنٹینگز اور دوسری چیزیں سجی تھیں لیکن ان کا اصل خزانہ اس کمرے میں تھا جو تھا تو چوکور مگر گول کہلاتا تھا۔ چیزیں قدیم اور قیمتی گلدانوں، پیالوں اور ظروف سے سجی ، فرش پر ہاتھ سے بنا ایرانی قالین تھا اور دیواروں پر تلواروں، خنجروں اور بندوقوں کا خزانہ آویزاں تھا پنٹینگز اس پر سوا تھیں۔ استاد اللہ بخش کی ”ہیرکا خیال” صادقین کی ”وہ آج جو آئی ہے ملنے کو” اینا مولکا احمد کی “The breezy summer” اور بے شمار ایسی تصاویر جو کسی میوزیم میں ہوتیں تو مرجع خلائق ہوتیں۔ محی الدین اپنے اس خزانے کے معاملے میں بے حد حساس تھے۔ بہت کم لوگوں کو گول کمرے تک رسائی کی اجازت تھی۔ سنتے تھے کہ سالوں پہلے کسی مہمان کا بچہ صادقین کی پینٹنگ دیکھ کر ڈرگیا تھا اور اپنے باپ سے پوچھا تھا کہ کیا یہ بھوتوں کی تصویریں ہیں؟ محی الدین نے بہت پیج و تاب کھائے تھے۔ کیسے کیسے لوگ تھے اس دنیا میں جنہوں نے اپنے بچوں کو ہیر نہیں پڑھائی تھی، صادقین نہیں دکھایا تھا، اقبال نہیں سکھایا تھا۔ تب سے وہ اپنے بچوں کو تہذیب وتمدن کی اس دنیا سے روشناس کرنے پر بہت توجہ دینے لگے تھے۔ لیکن انہیں لگتا تھا کہ چاروں بچوں میں سے ان کا یہ شوق اور جذبہ کسی میں منتقل ہوا تھا تو وہ اسمارہ تھی۔ وہ برملا کہتے تھے کہ اپنا یہ سرمایہ وہ صرف اسمارہ کو دیں گے۔ وہی سنبھالے گی ان کی وراثت کو۔ بس ایک ذرا وہ چین سے بیٹھنا سیکھ لے۔
٭…٭…٭
”کیا عجیب گاڑی ہے یار!” اس نے اشارے کی سرخ بتی کو دیکھتے ہوئے سوچا، ابھی تک سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اس گاڑی کی تعریف کرے یا اسے کوسے۔ ٹُوسیٹر BMW،1300 سی سی انجن، پاور سٹیرنگ، مگر اتنی نیچی کہ اُسے یوں لگ رہا تھا وہ بس سڑک پر ہی بیٹھا چلا جارہا ہے اور پھر پاکستان کی سڑکوں کے سپیڈ بریکر۔ نیچی گاڑیاں اس نے امریکہ میں بھی چلائی تھیں مگر یہ گاڑی ذرا زیادہ ہی نیچی تھی یا شاید یہاں کے سپیڈ بریکر زیادہ اونچے تھے۔ ہر مرتبہ وہ ان پر گاڑی گھما کر چڑھانا بھول جاتا۔ گاڑی ٹھک سے نیچے لگتی اور سر دھک کرکے چھت سے جالگتا۔ اس سے تو بہتر تھا بائیک ہی لے آتا۔ وہ دل مسوس کر سوچتا رہا۔ دوست کے گھر گیا تھا، وہاں ایک ہیوی سپورٹس بائیک اور یہ گاڑی کھڑی تھی۔ گاڑیوں کا شوقین وہ اسے چلانے کے چکر میں اٹھا لایا۔ اس عجیب و غریب (نہیں عجیب و امیر… غریب گاڑی تو نہیں) گاڑی سے بہتر تو بائیک تھی۔
اور عین اس وقت جب وہ اس ہیوی سپورٹس بائیک کی یاد میں گم تھا، اس کی گاڑی کے پاس ایک بائیک آکر رکی۔ اس کے اگلے پہیے پر نظر پڑتے ہی وہ اچھل پڑا۔
”ارے واہ پاکستان میں بھی کیسے کیسے گوہر شناس لوگ موجود ہیں جو ایسی چیزوں کا شوق رکھتے ہیں۔” اس نے متاثر ہوکر سوچا۔ بائیک کے ہینڈل اور ٹینک سے اٹھ کر اس کی نظر اس پر بیٹھے لوگوں پر پڑی اور پھر ہٹنا بھول گئی۔ پندرہ سولہ سال کے لڑکے کے پیچھے ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ اس نے چہرے پر کالی چادر کا نقاب لے رکھا تھا۔ کالے نقاب کے اوپر دو کالی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ لڑکی نے ہاتھ اٹھا کر اپنی چادر درست کی۔ وہ دم بخود اسے دیکھتا رہا۔ ایک عجیب سی دلفریبی تھی اس کی ایک ایک جنبش میں۔ جیسے بے حد مضبوط ہاتھوں اور بازوؤں میں نزاکت کی غیر متوقع جھلک۔ جیسے کسی نے سنگ مرمر میں پارہ بھر کر اس سے مجسمہ تراش دیا ہو، جیسے کسی نے دھوپ کی سختی میں چاندنی کی نرمی گوندھ کر سکہ ڈھال دیا ہو، جیسے کسی نے ریشم کو پانی میں بُن کر سراپا بنادیا ہو۔
وہ اسے دیکھتا رہا۔ اس کی گاڑی نیچی تھی ساتھ کھڑی بائیک اونچی۔ وہ سراٹھائے اسے دیکھتا رہا۔ وہاں وہ ایسی تھی کہ اسے سر اٹھا کر دیکھے جانا ہی زیب تھا۔ لڑکی کی نظر اس کی کار پر پڑی۔ اس کی آنکھیں مسکرائیں یوں جیسے وہ سڑک کے ساتھ لگی اس پستہ قامت گاڑی کو دیکھ کر محظوظ ہوئی ہو وہ دم بخود اسے دیکھتا رہا۔ لڑکی کی نظر کار سے ہوکر اس پر پڑی۔ نظریں ملتے ہی اس کی مسکراتی آنکھیں پہلے سنجیدہ ہوئیں، پھر ان میں خفگی کا تاثر ابھرا۔ اس نے ابرو اچکائے جیسے پوچھتی ہو کیا دیکھتے ہو؟”
اس نے گڑ بڑا کر نظریں جھکائیں اور تب ہی اس نے دیکھا کہ لڑکی کی چادر کا کنارہ بائیک کے پہیے کے اوپر لہرارہا ہے۔ اس نے انگلی سے چادر کی طرف اشارہ کیا۔ لڑکی نے جھک کر چادر کی طرف دیکھا اور اسے پہیے کے اتنا قریب دیکھ کر نہایت متانت، مضبوطی اور نزاکت بھرے انداز میں اسے اٹھا کر گود میں رکھ لیا۔ اس کی آنکھیں ہلکا سا مسکرائیں اور اس نے سرذرا سا خم کرکے شکریہ ادا کیا۔ اس وقت اشارہ سبز ہوا اور بائیک آگے بڑھ گئی۔ وہ دم بخود وہیں کھڑا رہ گیا۔
٭…٭…٭
وہ کمرہ پوری حویلی میں اس کا پسندیدہ تھا۔ اوپری منزل پر بنا بڑا ساکمرہ جہاں کاٹھ کباڑ بھرا رہتا تھا۔ اس کی کھڑکی پچھلی گلی میں کھلتی تھی جہاں کی دنیا بالکل الگ تھی۔ پتلی سی گلی میں کچھ گھر تھے، کچھ دکانیں۔ اس کمرے کو اس نے سلیپنگ بیوٹی روم کا نام دے رکھا تھا۔ بادشاہ کی اکلوتی شہزادی کو ظالم پری نے کانٹا چبھنے کی بددعا دی تھی اور وہ محل کی سب سے اوپری منزل کے کاٹھ کباڑ سے بھرے کمرے میں جانکلی تھی جہاں اسے ایک ٹوٹے چرخے کی سوئی چبھ گئی تھی اور وہ سوسال کے لیے سوگئی تھی (بچپن میں اس کی دلچسپی صرف چرخے کی نوک چبھنے اور سوسال کے لیے سونے کے ایڈونچر تک محدود تھی۔ بڑی ہوئی تو کہانی کا دوسرا حصّہ پسند آنے لگا۔ سوسال سے سوئی ہوئی شہزادی کو ایک خوبرو شہزادے کے جگانے والا حصہ)
بچپن میں اس کی بھائیوں سے لڑائی ہوتی تو یا وہ بی بی جان کی گود میں جاچھپتی یا پھر اس کمرے میں پناہ لیتی جہاں اس کے سوا کوئی نہ آتا تھا۔ بڑے بھائی اس کے گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے سے بہت تنگ تھے۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر رو رو کر آسمان سر پراٹھا لیتی اور بھائیوں کی شامت آجاتی۔” ضرور تم ہی نے رلایا ہوگا۔” ہر کوئی ان سے کہتا۔ اس کا توڑ انہوں نے یہ نکالا کہ جونہی وہ رونے کی تیاری کرتی، وہ دبوچ کراس کا منہ بند کردیتے۔ ”خبردار جو روئی، جھانپڑ کھائے گی ایک اور۔” بڑے بھائی قاسم دھمکاتے۔
”بے بی ہے نا ابھی تک بے چاری، ماما کی بے بی۔ اس لیے تو یہ بڑی نہیں ہوتی۔ روتی جو رہتی ہے۔” منجھلے بھائی شجاع تمسخر سے کہتے۔
اس ٹریننگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے رونے کو بڑے ہونے کی راہ میں رکاوٹ سمجھنا شروع کردیا۔ روتی تو بے بی کہلاتی، جھانپڑ کھاتی۔ نہ روتی تو شاباش کی مستحق ٹھہرتی اور انعام کے طور پر فٹ بال میچ میں سنٹر فاردرڈ کی پوزیشن پر کھلائی جاتی۔ روتے تو کمزور اور بے وقوف لوگ تھے، بہادر تھوڑا ہی روتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس نے رونا چھوڑ دیا۔ کبھی دل دکھی ہوتا تو اس کمرے میں آچھپتی اور کھڑکی میں بیٹھ کر غم کھاتی اور غصہ پیتی۔ یہ واحد چیزیں تھیں جن کے کھانے پینے میں اس کا بھائیوں سے مقابلہ نہیں تھا۔ وہ ان کے ساتھ مقابلے میں دودھ کے بڑے بڑے گلاس چڑھا جاتی۔ سالن سے بوٹیاں نکال کر کھاجاتی۔ ہارتی یا جیتتی، اس کا بھائیوں سے مقابلہ کرنا لازمی تھا۔ ایک مرتبہ وہ ریسلنگ میں شجاع بھائی سے جیت گئی۔ وہ بہت خفا ہوئے۔ چھوٹی بہن سے ہار جانے سے بڑی بھلا کوئی ذلت ہوسکتی ہے۔ اور اس بہن کو ان کے اماں ابا ہر وقت ان کے سر پر سوار کیے رکھتے تھے۔ فٹ بال کھیل رہے ہیں تو”بہن کا خیال رکھنا ۔”رائیڈنگ کررہے ہوں تو ”بہن پر نظر رکھنا۔” ہر وقت کی چوکیداری کرکے چڑ گئے تھے بھائی تایا کے گھر سوئمنگ پول تھا جس میں سب بچے سوئمنگ کرتے تھے۔ اسمارہ ابھی چھوٹی تھی اور اسے سوئمنگ اچھی طرح نہ آتی تھی۔ لیکن یہ ہوکیسے سکتا تھا کہ بھائی سوئمنگ کریں اور اسمارہ نہ کرے۔ لہٰذا اسمارہ بی بی شجاع کے ساتھ نتھی کردی گئیں اور حکم ہوا کہ بہن کا دھیان رکھنا۔ کہیں ڈوب نہ جائے۔ شجاع کو کچھ ریسلنگ ہارنے کا غصہ تھا، کچھ وہ اس کی ہروقت کی چوکیداری سے تنگ تھا، اس نے اسمارہ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ پول کی شیلو سائیڈ پر سوئمنگ پول کرتے کرتے اس نے اسمارہ کو سانس بند کر ڈائیو لگانا سکھایا۔ جب دس پندرہ دفعہ دائیو کرنے سے اسمارہ کو پریکٹس ہوگئی تو شجاع نے اپنے گاگلز سوئمنگ پول کے فرش پر پھینک دیئے اور اسمارہ کو ڈائیو لگا کر نکال لانے کا حکم دیا۔ ادھر اسمارہ نے ڈبکی لگائی، ادھر شجاع اس کی طرف لپکا۔ جونہی وہ پول کے فرش کے قریب پہنچی، شجاع اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ اب اسمارہ پول کے فرش پر مچل رہی ہے اور شجاع اس پر پاؤں رکھے کھڑا ہے۔ اچھا ہے ذرا رہے بی مینڈکی پانی کے اندر۔ ایک مرتبہ ذرا اچھا سا غوطہ کھالے، آئندہ ضد نہیں کرے گی سوئمنگ کی۔ تیس چالیس سیکنڈ اسے پانی میں دبائے رکھنے کے بعد شجاع نے بیرہٹا کر اسے اوپر کھینچا تو اس کا خیال تھا کہ وہ بے حال ہوچکی ہوگی۔ روئے گی، چلائے گی اور آئندہ سوئمنگ پر نہ آنے کا اعلان کرے گی۔ وہ واقعی بے حال تھی، مگر خوشی کے مارے۔
”دیکھا میں نے کتنی اچھی سانس روکی؟” اس نے خوشی اور ایکسائنمنٹ سے چلا کر کہا ”پھر سے کھیلیں یہی گیم؟”
آدھے گھنٹے بعد وہ سانس رد کے ،ڈیپ سائیڈ پر شجاع سے ریس لگا رہی تھی۔
وہ ہر کھیل، ہر مقابلے، ہر جھگڑے میں ان کی ساتھی تھی مگر یہ کباڑ والا کمرہ اس کا اپنا تھا۔ یہ کھڑکی اس کی سہیلی تھی۔ کھڑکی سے نظر آتی گلی اس کی دنیا کا وہ حصہ تھی جو صرف اس کا تھا۔
اس گلی میں اس کی کھڑکی کے عین سامنے دو دکانیں تھیں۔ ایک خرادیئے کی اور دوسری چاندی کے ورق بنانے والوں کی۔ وہ کتنی ہی دیر کھڑکی میں بیٹھی انہیں چاندی کوٹ کوٹ کر پتلے پتلے ورق بناتے دیکھا کرتی تھی۔ ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک۔ اس گلی میں بڑے مزے کی رونق رہتی تھی۔ گرمیوں میں گولے گنڈے اور قلفی بیچنے والے آتے تھے۔ سردیوں میں پستہ بادام بیچنے والا بابا دتّو گزرتا تھا۔ ”چینا بادام گرم” وہ آواز لگاتا۔ محی الدین پیار سے اسمارہ کو چینا بادام گرم کہتے تھے۔ اس کے بھائی چڑ جاتے۔ ایک دن اس سے جھگڑے کے بعد شجاع نے کہا۔ ”یہ چینا بادام گرم تھوڑی ہے؟ یہ تو جینا حرام کرن ہے۔” بس تب سے اس کا نام جینا حرام کرن پڑگیا۔
زرینہ اس کی جینا حرام کرن عادتوں سے بڑی تنگ تھیں۔ شروع شروع میں ان کا خیال تھا کہ لڑکوں والے گھر میں ایک لڑکی آگئی ہے تو ماحول میں ایک نرمی، ایک نفاست آئے گی۔ ان کا خیال غلط نکلا۔ وہ بھائیوں میں نرمی کیا پیدا کرتی، الٹا خودان کے جیسی ماردھاڑ کی شوقین اور سخت مزاج ہوگئی۔ نہ گڑیاں، نہ رنگ، نہ کپڑے، نہ سجاوٹ۔ دلچسپی تھی تو ریسلنگ میں، فٹ بال میں، گھڑ سواری میں۔ ارے وہ تو روتی تک نہیں تھی۔ کتنی ہی چوٹ لگ جاتی، وہ منہ سختی سے بھینچے کھڑی رہتی۔ ایک مرتبہ سیڑھیوں سے گری۔ سر پھٹ گیا، پورا چہرہ خونم خون ہوگیا۔ زرینہ اسے دیکھ کر رونے لگی، مگر وہ نہ روئی۔ عجیب بات تھی، روتی نہیں تھی، الٹیاں کرنے لگتی تھی۔
زرینہ کی دوست نزہت لندن سے آئیں تو زرینہ نے انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ وہ وہاں سائیکولوجسٹ تھیں۔ زرینہ کو امید تھی کہ وہ ان کی بیٹی میں لڑکیوں والی صفات پیدا کرنے میں ان کی مدد کرسکیں گی۔
نزہت ساری باتیں سن کر سوچ میں پڑگئیں۔
”مزاج تو خیر کچھ inherited ہے اور کچھ بھائیوں کے ساتھ رہنے سے ایسا بنا ہے مگر یہ نہ رونے والی بات کچھ ٹھیک نہیں۔” انہوں نے کسی قدر تشویش سے کہا۔
”عمر کیا ہے اس کی؟” انہوں نے پوچھا۔
”بارہ سال کی ہوئی ہے پچھلے مہینے۔” زرینہ نے جواب دیا۔
”کوئی تو چیز ایسی ہوگی جس سے اس کی نسوانی فطرت کا اندازہ ہوتا ہوگا؟” انہوں نے پوچھا ۔
”گڑیاں؟” زرینہ نے نفی میں سر ہلایا ”نہ گڑیاں نہ ڈول ہاؤس۔ ہاں البتہ بچوں اور جانوروں سے بہت پیار کرتی ہے۔”
نزہت مسکرائیں ”تو بس پھر اسے بلی کا بچہ لادو۔ ہر لڑکی میں ممتا کا جذبہ فطری ہوتا ہے۔ اس سے پیار کرے گی تو مزاج میں بھی نرمی آئے گی۔”
”اور اُلٹیوں کا کیا کروں؟” زرینہ نے پوچھا۔
”اسے بتاؤ کہ رونا نارمل بات ہے۔ جب اس کا سٹریس کسی بھی طرح نکلنے کی راہ نہیں پاتا تو جسم اس طرح ری ایکٹ کرتا ہے۔” نزہت نے کہا۔
زرینہ اس کے لیے بلی کا بچہ لے آئیں۔ نزہت کی کہی بات درست ثابت ہوئی۔ اسمارہ دل و جان سے اس کا خیال رکھنے لگی۔ اس کی ماں بن گئی۔ زرینہ اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی تھیں۔ ایک دن وہ بلی کا بچہ کسی طرح سڑک پر نکل گیا۔ سڑک سے اس کی کچلی ہوئی لاش اندر آئی تو اسمارہ نے ایک آنسو نہ بہایا۔ متانت سے اسے اٹھایا، کپڑے میں لپیٹا، صحن کی پچھلی کیاری میں اپنے ہاتھوں سے گڑھا کھودا اور اس میں اسے الٹا کر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالی۔ اس کے بعد وہ تین دن تک الٹیاں کرتی رہی۔اس کا ذہن سو ناپن کی مچان سے نیچے نہ اترنے پر بضد تھا اور اس کا دل نسوانی سرشت کے ہاتھوں مجبور۔ وہ ان دونوں کے بیچ گھن چکر بن گئی تھی۔
٭…٭…٭
ڈئیرایمن آپا!
آپ کو وہ بیدکا درخت یاد ہے جو ہمارے سکاٹ لینڈ والے گھر کے باغ میں لگا تھا؟ اس کے نیچے بیٹھ کر آپ نے مجھے لفظ delicate کا مطلب سمجھایا تھا اور اس کے لیے اس درخت کی مثال دی تھی۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ اکثر جب ہم کھڑکی میں بیٹھے کارڈز سکریبل کھیل رہے ہوتے تھے تو کتنی مرتبہ کھیل روک کر اس درخت کو ہوا میں جھومتے دیکھا کرتے تھے۔ آپ کہتی تھیں کہ اس درخت میں لچک، مضبوطی اور نزاکت کا ایک مثالی امتزاج ہے۔ یاد ہے اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر میں نے اپنی زندگی کی پہلی نظم لکھی تھی۔ “The grace of the willow tree” آج میں نے اس نظم کو مجسم دیکھا۔ اس لڑکی نے چہرہ نقاب سے چھپا رکھا تھا مگر اس کی موومنٹ میں ہی شاہانہ وقار، مضبوطی اور نزاکت تھی جو ہمارے willow tree میں ہوتی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے وہ لسٹ یاد آئی جو ہم دونوں سجایا کرتے تھے۔ دنیا کی ان خوبصورت ترین چیزوں کی لسٹ جن پر شاعری کی جاسکتی ہے۔ جھرنے، پھول، تاروں بھرا آسمان اور مورناچ۔ تشکر، جابجا بکھرے حسن کے لیے اور تشکر حسن کو دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والے دل کے لیے۔
آپ کا بھائی
بدر الدجا
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!