غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

۲۰۔ غرور عشق کا بانکپن

شیشے کا دروازہ ایک راہداری میں کھلتا تھا جس کے دونوں اطراف درواز تھے۔ کچھ شیشے کے، کچھ لکڑی کے۔ امریکن لڑکی کے پیچھے چلتے چلتے اسمارہ نے دروازوں پر چند نام لکھے دیکھے۔ شاید وہ دفاتر تھے۔ بائیں جانب ایک بہت بڑا ہال تھا جو مکمل طور پر خالی تھا، ہر قسم کے فرنیچر سے عاری۔ شاید وہ ڈانس سٹوڈیو تھا۔ امریکن لڑکی راہداری کے اخیر میں ایک دروازے کے سامنے رک گئی۔ دستک دے کر اس نے اعتماد سے دروازہ کھولا اور اسمارہ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے اندر داخل ہوگئی۔ یہ ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا جس میں دس کے قریب نوجوان لڑکیاں قالین پر بیٹھی تھیں۔ ان میں چند ایشیائی تھیں اور چند امریکن۔ کمرے میں موجود اور میز پر ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی تھی۔ دروازہ کھلنے پر ان سب نے گردن گھما کر اسمارہ کو دیکھا۔
“I have a kathak dancer for you.” اسمارہ کو لے کر آنے والی لڑکی کے اعلان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ قالین پر بیٹھی لڑکیوں میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ان سب نے اسمارہ کو مسکرا کر دیکھا۔ کچھ لڑکیاں ایک دوسری کے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔ ادھیڑ عمر عورت میز سے اٹھ کر اسمارہ کے پاس آگئی۔ اسمارہ کو یوں لگا اس نے اسے کہیں دیکھ رکھا ہے۔ عورت کے چہرے پر نرمی تھی اور اسکی مہربان آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔
”کیا نام ہے تمہارا؟” عورت نے اردو میں پوچھا۔
”اسمارہ۔” اس نے عورت کی آنکھوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”اسمارہ میں کرن ہوں۔ ویلکم ٹو روشن ڈانس اکیڈمی” عورت نے نرم لہجے میں تعارف کروایا ”یہ سب لوگ ڈانس ٹروپے کے ممبرز ہیں۔”
اسمارہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ اس وقت اتنی متضاد کیفیات سے گزررہی تھی کہ اس کے لیے اپنے چہرے کے تاثرات نارمل رکھنا بھی مشکل تھا۔ لیکن اب تو اسے عادت ہوچکی تھی۔ دل کی کیفیت چھپا کر مسکرانے کی۔
”تو کتھک کرتی ہو تم؟” کرن نے پوچھا۔
”جی” اسمارہ نے یک لفظی جواب دیا۔
”کون سے گھرانے کو فالو کرتی ہو؟” کرن نے سوال کیا۔
”لکھنو۔” اس نے کہا۔
”Excellent!” کرن نے بے ساختہ کہا ۔”ہماری بھی یہی speciality ہے۔ اگرچہ بنارس ٹھاٹ کو بھی فالو کرتے ہیں ہم۔ لیکن زیادہ پر فارمنسز ہماری لکھنوی کتھک پر based ہوتی ہیں۔”
اسمارہ کو خیال آیا کہ انہوں نے اس کا شش و پنج بھانپ لیا ہے اور وہ اتنی باتیں اس کی nervousness کم کرنے کے لیے کررہی ہیں۔ وہ پھر سے کوشش کرکے مسکرائی۔ اس بار وہ اس کوشش میں کامیاب ہوگئی۔
”اینا نے تمہیں ہماری لیڈ پرفارمر کے بارے میں تو بتا ہی دیا ہوگا۔” کرن نے اسمارہ کے ساتھ آنے والی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”جی۔” اسمارہ نے پھر ایک لفظی جواب دیا۔
”تو پھر آؤ کچھ دکھاؤ ہمیں۔ دیکھیں تم ہمارے ٹروپے کے لیے کتنی سوٹ ایبل ہے۔” کرن نے کہا۔
اسمارہ نے گہرا سانس لیا۔ وہ اس وقت کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ نہ زندگی کے بارے میں، نہ اپنے خاندان کے بارے میں، نہ اپنے باپ کے بارے میں۔ اسے صرف مرتضیٰ کے بارے میں سوچنا تھا اور ان انجیکشنز کے بارے میں جن کی اسے ضرورت تھی۔
کرن اب بھی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔ اسمارہ کا اعتماد بڑھا۔ قالین پر بیٹھی لڑکیوں نے پیچھے کھسک کر درمیان اس کے لیے جگہ خالی کردی۔ اسمارہ نے اینا بیک پیک کندھوں سے اتار دیا اور جوتے اتار کر قالین کے وسط میں جاکھڑی ہوئی۔ زہر ہ راجہ کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
”ہر پرفارمنس سے پہلے کتھک نمسکار ضروری ہے۔” انہوں نے کہا تھا۔
”اپنی تو انائیاں اکٹھی کرو۔” ان کی آواز اس کے کانوں میں آج بھی تازہ تھی۔
”اپنی پوری ذات کو ایک نقطے پر فوکس کرو۔” اسمارہ نے آنکھیں بند کرکے گہرا سانس لیا۔ اس کی ذات کا محور و مرکز کیا تھا، اسے سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔
“Heals together, toes apart”۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ پیروں میں ایک مٹھی کا فاصلہ رکھ کر پوریشن میں رکھا۔ اسے کرن کی نظریں اپنے پیروں پرجمی نظر آئیں۔
”کندھے سیدھے، سر اونچا!” وہ تن کر کھڑی ہوگئی۔ ہاتھ اور بازو سیدھے کرلیے۔ کرن جانچتی ہوئی نظروں سے اس کی ایک ایک موومنٹ کا جائزہ لے رہی تھی۔ زہرہ راجہ کی آواز اسمارہ کے کانوں میں صاف اور واضح تھی۔ اس نے دائیں جانب ہاتھ پھیلالیے۔ ”میرے دائیں طرف علم کی روشنی ہے، بائیں طرف جسم کی قوت، اوپر سے کائنات کے اسرار برستے ہیں جن کی روشنی میں اپنی بنیادوں سے جڑی ہوں اور اس بنیاد کی طاقت نے میرے دل کو اچھائی اور میرے ذہن کو وسعت سے ہمکنار کیا ہے۔ ان سب کا مجموعہ میں اپنے رقص کے ذریعے دنیا کو پیش کرتی ہوں۔” وہ نہ کہیں اٹکی، نہ جھجکی۔ اپنی ٹیچر کی آواز کی انگلی پکڑ کر اس نے ایک پرفیکٹ کتھک نمسکار پیش کرن نے بے ساختہ تالی بجائی۔ کمرے میں بیٹھی لڑکیاں اب واضح طور پر خوش نظر پرہی تھیں۔
”Excellent۔ لیکن اسمارہ لیڈ پرفارمر کے لیے کتھک نمسکار سے کچھ بڑھ کر چائیے ہوگا۔” کرن نے اس کی طرف آتے ہوئے کہا۔ ”کیا تم کچھ اور دکھا سکتی ہو ہمیں؟”
”جو آپ کہیں” اسمارہ نے سر اٹھا کر کہا۔ وہ کچھ نہیں بھولی تھی۔ اسے سب یاد تھا۔ ایک ایک نرت، ایک ادا۔
”اس کے علاوہ میں یہ بھی دیکھنا چاہتی ہوں کہ تم original pieces میں کیا نیا پن پیش کرسکتی ہو۔” کرن کہہ رہی تھی۔
اس سوال کے جواب میں اسمارہ مسکرائی۔ وہ اس کا جواب بہت اچھی طرح جانتی تھی۔ زہرہ راجہ کہا کرتی تھیں۔ ”ایک مرتبہ تم نے تکنیک کو ماسٹر کو لیا تو پھر ہر چیز صرف پریکٹس اور محنت کی دوری پر ہے۔”
اگلے دو گھنٹے اسمارہ مختلف تالوں اور راگوں پر رقص کرتی رہی۔ اس طرح رقص کرتی رہی جیسے اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ یہ عام رقص نہیں تھا، رقصِ بسمل تھا۔ آرزؤں کا رقص، امید کا رقص، دل کے خون کا رقص۔
دو گھنٹے بعد جب وہ میوزک سٹوڈیو کی سیڑھیاں اتر رہی تھی تو اس کی جیب میں پچیس ڈالر کے ساتھ روشن ڈانس اکیڈمی کی لیڈ پرفارمر کے طور پر کانٹریکٹ موجود تھا اور اس کانٹریکٹ کی رو سے اسے اگلے ایک مہینے میں پندرہ پرفارمنسز پیش کرنی تھیں۔ ہر پرفارمنس کے اسے چار سو ڈالر ادا کیے جانے تھے۔ مرتضیٰ کے انجیکشنز کا بندوبست ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس دن وہ مرتضیٰ کے پاس ہا سٹل گئی تومر تضی کو کیمو کے لئے لے جا رہا تھا۔وہ اس کے خالی بیڈ پر بیٹھی رہی۔اسکے تکئے کو دیکھتی رہی ۔ جہاں اسکے سر سے پڑنے والا گڑھا اب بھی موجود تھا۔بستر پر اسکے وجود سے پڑنے والی شکن درست کرتے ہوئے اسے خیال آیا کہ ایک دن وہ بستر اسی طرح خالی ہونے والا تھا۔اسکا دل گویا کسی نے مٹھی میں پکڑ لیا۔وہ محبوب چہرہ اور کتنے دن تک اسکی نگاہوں کے سامنے رہنے والا تھا؟ وہ بے قراری سے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ دل میں اگر ششو پنج تھابھی تو اب نہیں رہا تھا ۔ اسے رقص کرنا تھا اور جی جان سے کرنا تھا ۔ اب اسکے اور موت کے درمیان مقابلہ تھا۔ موت اپنے گھنگرو باندھ چکی تھی،وہ ان گھنگروؤں کی چاپ سن رہی تھی۔ اب اسے اپنے گھنگرو باندھنے تھے۔
اس دن مرتضیٰ نے پھر اس کے ہاتھ الٹ پلٹ کر دیکھے ۔وہ کسی حد تک مطمئن ہوا۔ کولڈ کریم نے اسکی انگلیوں کی دراڑیں بھر دی تھیں۔ ناخنوں کی بد صورتی کو اسنے انہیں مکمل طور پر کاٹ کر چھپا لیا تھا ۔
” میری وجہ سے بہت کام کرنا پڑا ہے نا تمہیں؟” مرتضیٰ نے کچھ ندامت سے کہا۔
وہ چونک گئی ،گھبرا گئی ،” کیسا کام؟”
”وہی سب کام ، اپنے کام،پھر میرے ساتھ گھن چکر بننا۔ ایسی زندگی کی کہاں عادت ہے تمہیں۔”اس نے ہمدردی سے کہا۔ وہ ہنس پڑی۔
”مجھے تو کوئی کام نہیں کرنا پڑتا ۔یہاں تمہارے پاس بیٹھی رہتی ہوں۔ گھر جا کر بس کھانا کھاتی ہوں،ٹی وی دیکھتی ہوں اور سو جاتی ہوں”۔ وہ اسے کمبل اوڑھاتے ہوئے بولی۔آسان لگنے لگا اب جھوٹ بولنا۔بس نظریں ملائے بغیر بات کرنی پڑتی تھی جس کی اسے عادت نہ تھی۔
”کام تو ہے نا؟” مرتضیٰ نے اصرار کیا”یہاں میرا کتنا خیال رکھتی ہوتم۔ اپارٹمنٹ پر ککنگ، صفائی، لانڈری۔تمہیں بہت تکلیف میںڈال دیا ہے نا میں نے؟”
”تکلیف میں تم مجھے تب ڈالتے ہو جب ایسی باتیں کرتے ہو۔” اسمارہ نے اس سے نظریں ملائے بغیر آہستگی سے کہا۔
”I am sorry” مرتضیٰ نے خاموش آواز میں کہا۔
”کس لیے؟” اسمارہ نے آہستگی سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ اسمارہ نے نظریں چرالیں۔ اگر اس نے اس کی آنکھیں پڑھ لیں؟ اگر وہ جان گیا کہ وہ کس کس چیز سے گزر رہی ہے تو یہ سب سوئیاں نالیاں اپنے جسم سے نکال کر واپس چلنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا۔ وہ اسے یہ نہیں کرنے دے سکتی تھی۔
”ہر بات کے لیے” مرتضیٰ نے اس کے سوال کا جواب دیا۔
وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ”جب تم ٹھیک ہوجاؤ گے نا تو ہر تکلیف، ہر درد دور ہوجائے گا۔ پھر ہم اپنے گھر جائیں گے۔ وہاں تم کک رکھ کر دو گے اور دوسرے ملازم۔ میں بس ٹھاٹھ سے مہارانی بن کے رہوں گی۔ صوفے پر بیٹھ کر حکم چلایا کروں گی۔”
”موٹی ہوجاؤ گی بیٹھے بیٹھے!” وہ ہنسا۔
”سارا دن تھوڑا ہی بیٹھی رہوں گی۔ شام کو تمہارے ساتھ واک پر جایا کروں گی۔”
”میرا آپریشن ہوجائے پھر ہم یہیں سنٹرل پارک میں واک پر جائیں گے۔” مرتضیٰ نے کچھ مسرت، کچھ اشتیاق سے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں ضرور جائیں گے۔” اسمارہ نے اسے یقین دلایا۔
”تم ہاتھوں میں مہندی لگانا” اس نے فرمائش کی۔
اسمارہ کو کتھک کے لیے لگائی جانے والی مہندی کا خیال آیا۔ ہتھیلی پر ایک بھرا ہوا دائرہ اور مہندی کے رنگ سے خون ہوئی انگلیاں۔
”ہاں وہ تو مجھے لگانی ہی ہوگی” اسمارہ نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”اور چوڑیاں بھی پہننا” اس نے جگمگاتی آنکھوں کے ساتھ کہا۔
”وہ بھی پہن لوں گی۔” وہ ہولے سے بولی۔
وہ خوش ہوگیا۔ امید بڑی پیاری چیز ہے۔ اس کی ڈور ہاتھ میں رہے تو انسان بڑے سے بڑا دکھ ہنس کر جھیل جاتا ہے۔
اگلا ہفتہ اسمارہ کی زندگی کے چند مشکل ترین دنوں میں سے تھا۔ وہ صبح مرتضیٰ کے پاس ہسپتال جاتی۔ سارا دن اس کی دیکھ بھال میں گزرتا۔ اسے اٹھانے بٹھانے، کھانا کھلانے، باتھ روم لے جانے، سفنج کرنے، کپڑے بدلوانے میں دن گزار کر شام کو ہاسپٹل سے نکل آتی۔ راتے میں خریدا ہوا برگر راستے ہی میں کھالیتی۔ چھے بجے کے قریب میوزک سٹوڈیو پہنچتے ہی ریہرسل شروع ہوجاتی۔ کرن پندرہ پرفارمنسز کے لیے چھے رقص تیار کروا رہی تھی۔ تین گھنٹے ریہرسل کے بعد اسے دو گھٹنے کی بریک ملتی۔ وہ بھاگم بھاگ ریسٹورینٹ جاتی اور نو بجے سے رات گیارہ بجے تک وہاں برتن دھوتی۔ دس ڈالر جیب میں ڈال کر دوڑتے ہوئے وہ واپس سٹوڈیو پہنچتی جہاں ساڑھے گیارہ سے رات دو بجے تک دوبارہ ریہرسل کا سیشن چلتا۔ وہ یہ دس ڈالر گنوانا افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی بنیادی ضروریات اور مرتضیٰ کے لیے پھل جوس وغیرہ ان ہی سے پورا ہوتا تھا۔ کئی بار اس نے کرن سے ایڈوانس پے منٹ مانگنے کا ارادہ کیا۔ ہر بارانا آڑے آئی۔ ہاتھ پھیلانے کی اجازت اگر اس کی خودداری اور غیرت دیتی تو وہ اپنے بھائیوں سے نہ مانگ لیتی؟ غیروں سے مانگنے میں تو بھیک مانگنے جیسی ذلت تھی۔ اس کے لیے یہی احسان بڑا تھا کہ اس کو سٹوڈیو آفس میں رات گزارنے کی اجازت مل گئی تھی۔ پہلا دن وہ قالین پر اپنے بیک پیک کے تکیے پر سر رکھ کر سوئی تو کارڈبورڈ پر سونے کے عادی جسم کو یوں لگا گویا مخمل کا بستر بچھا ہو۔ رات ریہرسل سے فارغ ہوکر وہ ڈھائی بجے کے قریب سونے کے لیے لیٹتی تو اس کا سر زمین سے لگنے سے پہلے نیند اسے دبوچ لیتی۔ صبح سات بجے اٹھ کر وہ نئے سرے سے دن شروع کرتی۔
اس رات کیفے میں دو ویٹرز چھٹی پر تھے۔ اسے برتن دھونے کے ساتھ میزیں بھی سرو کرنی تھیں۔ چند ایکسٹرا ڈالرز کے لالچ میں اس نے یہ آفر قبول کرلی تھی۔ میز نمبر سات کے لیے ریسٹورنٹ کی مہنگی ترین ڈشیں اس نے احتیاط سے اٹھائیں اور ڈائننگ ہال میں قدم رکھا۔ میز نمبر سات کے قریب پہنچ کر اس کے قدم زمین نے پکڑ لیے۔ وہاں پیڈرووکٹر اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ دونوں نے نئے اور قیمتی کپڑے پہن رکھے تھے۔ خوشی اور خوشحالی ان کے چہروں سے ٹپک رہی تھی۔ اسمارہ یکدم ہنس پڑی۔ کیسے عجیب کھیل کھیلتی تھی تقدیر۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں اس نے اپنی جائیداد، زیور، غیرت اور ہنر بیچ کر پیسہ دیا تھا۔ وہ بہترین ہوٹل میں رہ رہے تھے، وہ زمین پر سوتی تھی۔ وہ بادشاہوں کی طرح بیٹھے تھے، وہ چند ٹکوں پر مزدوری کررہی تھی۔
آگے بڑھ کر اس نے انہیں چیزیں سرو کرنی شروع کیں۔ وہ اسے دیکھ کر کچھ گڑ بڑا سے گئے۔ چور نظروں سے اسے دیکھتے رہے۔ اسمارہ نے یوں ظاہر کیا گویا اسے اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا ہوکہ وہ وہاں اس پیسے سے عیش کرنے آئے تھے جو اس کی جیب سے گیا تھا۔ وہ خالی جیب جسے بھرنے کے لیے وہ وہاں برتن دھوتی تھی۔ محبت نے اسے گھٹنوں کے بل گرایا تھا، سر کے بل نہیں۔ اس کا سر اس کے خوددار کندھوں پر اب بھی کھڑا تھا۔
اس کی پہلی پرفارمنس اتوار کی رات کو تھی اور پیر کو مرتضیٰ کا آپریشن تھا۔ رات کے وہ چار گھنٹے جس نیند کی آغوش میں دن بھر کی تھکن اتارا کرتی تھی، اب جاگتے ہوئے گزرنے لگے۔ دن کا دو دوقت کا کھانا وہ زبردستی معدے میں انڈیلنے لگی۔ بھوک پیاس، نیند، چین۔ ان سب کو خوف کھاگیا۔ مرتضیٰ بھی بالکل خاموش ہوگیا تھا۔ دونوں گھنٹوں ایک دوسرے کے پاس چپ چاپ بیٹھے رہتے۔ وہ اس سے امید بھری باتیں کرنا چاہتی تھی مگر جونہی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتی، اس کا حلق خشک خشک ہوجاتا۔ یہ آپریشن مرتضیٰ کی زندگی کا آخری چانس تھا۔ وہ دونوں زندگی دو آمنے سامنے استیادہ چوٹیوں پر کھڑے تھے۔ بیچ میں موت کی گہری کھائی تھی۔ یہ وہ چھلانگ تھی جو لگ جاتی تو دوسری چوٹی پر زندگی بہار کے ساتوں رنگوں میں کھلی تھی اور نہ لگتی تو… اس سے آگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
اتوار کی صبح وہ مرتضیٰ کے پاس گئی تو اس نے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ وہ حیران رہ گئی۔
”کیا ہوا مرتضیٰ؟” اس نے فکر مندی سے پوچھا۔
وہ خاموش رہا۔ چہرہ پھیرے دیوار کو دیکھتا رہا۔
”طبیعت خراب ہے؟” اسمارہ نے تشویش سے اس کا ماتھ چھوا ”کہیں درد ہے؟”
”ہاں!” اس نے خشک لہجے میں کہا۔
”کہاں؟” اسمارہ نے پریشان ہوکر پوچھا۔
”دل میں۔” مرتضیٰ نے سلگتی نظروں سے اسے دیکھ کر کہا۔
”ہائے دل میں درد ہے؟” اسمارہ بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر روہانسی ہوکر بولی۔ اس کا چہرہ سفید پڑگیا تھا ”ڈاکٹر کو بتایا؟ کیا کہا اس نے؟ ECG کی اس نے؟”
مرتضیٰ کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ وہ اس سے ناراض تھا۔ خفگی ظاہر کرنا چاہتا تھا مگر وہ دردِ دل کو ہارٹ اٹیک سمجھ کر مرنے والی ہوگئی تھی۔
”بیٹھ جاؤ اسمارہ۔” اس نے جزبز ہوکر کہا۔
وہ وہیں کھڑی سفید چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ مرتضیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”درد نہیں ہے میرے دل میں۔” مرتضیٰ نے خود کوبے وقوف محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”مگر ابھی تم نے کہا…”
”مطلب وہ والا درد نہیں ہے۔” situationاب واقعی مضحکہ خیز ہوگئی تھی۔ مرتضیٰ نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
”پھر کون سا درد ہے؟” وہ مزیہ پریشان ہوگئی۔ ہائے وہ تو لیو کیمیا کو رو رہی تھی، یہ دردِ دل کہاں سے نازل ہوا۔ یہ کون سا درد ہے جس کا نام مرتضیٰ کو معلوم نہیں؟
”یعنی میرا مطلب ہے کہ… مجھے… یعنی افسوس ہے۔” مرتضیٰ نے کبھی خود کو اتنا احمق محسوس نہیں کیا تھا۔ اسمارہ کچھ سمجھے بغیر یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔
”تم ریسٹورنٹ میں برتن دھوتی ہو۔” یہ سوال نہیں تھا، بیان تھا۔
اسمارہ کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ جان گیا تھا۔ اسے کس طرح پتا چلا؟ کس نے؟
”مجھے پیڈرو نے بتایا۔” مرتضیٰ نے اس کے چہرے پر لکھا سوال پڑھ لیا۔
بے اختیار اسمارہ نے یپڈرو کو ایک ناقابلِ اشاعت قسم کی گالی سے نوازا۔ مرتضیٰ شاکڈ رہ گیا۔
”اب تمہیں گالیاں بھی آگئی ہیں؟” اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہمیشہ سے آتی تھیں” اسمارہ نے ناراضی سے کہا۔ اس کا بس نہ چلتا تھا یپڈرو سامنے آئے تو اس کا گلا ہی دبا دے (لیکن آپریشن کے بعد)
”کیسے؟” مرتضیٰ کی حیرت بدستور تھی۔ ایسی ٹھیٹھ مردانہ گالی اس نے کسی عورت کے منہ سے پہلی مرتبہ سنی تھی۔ لیکن اسمارہ کوئی عام عورت تھوڑی تھی۔ دنیا بھر کے اوصاف اس میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ بھائیوں کے ساتھ پلی بڑھی تھی۔ کچھ عجب نہیں انہوں نے ہی سکھائی ہوں۔ اسے ہنسی آنے لگی۔
”پہلے تو میں نے کبھی نہیں سنا تمہیں گالی دیتے۔” مرتضیٰ نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
”گالیوں کی vocabulary ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان گالیاں دینے بھی لگے” اسمارہ نے تیوری چڑھا کر کہا۔” بہت سے skills ہم بس بوقتِ ضرورت استعمال کرتے ہیں، ہر وقت نہیں۔” جیسے کتھک۔ لیکن جملے کا یہ حصہ اس نے دل میں کہا۔
”پیڈرو نے صرف مجھے وہ بتایا جو تم اتنے دنوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔” مرتضیٰ کی خفگی لوٹ آئی تھی۔
”مجھے پتا ہے تا تمہیں over react کرنے کی عادت ہے اس لیے نہیں بتایا” اسمارہ نے مزے سے کہا۔
”تمہارے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں؟ اتنا مہنگا ٹریٹمنٹ…”
اسمارہ نے اس کی بات کاٹ دی ”کس نے کہا پیسے ختم ہوگئے ہیں؟ یہاں سے جانے کے بعد بالکل فارغ ہوتی ہوں میں۔ سوچا کچھ دیر کام کرکے ذرا شاپنگ کے پیسے اکٹھے کروں۔ اب نیویارک آئی ہوں تو شاپنگ کیے بغیر چلی جاؤں؟”
وہ کچھ گومگو کے عالم میں اسے دیکھنے لگا۔ وہ عام طورپر ایسی باتیں نہیں کرتی تھی۔ مگر عورتوں کا کیا اعتبار؟ کس وقت دماغ شاپنگ کی طرف الٹ جائے کسی کو کیا معلوم۔
”پرلز کا ایک سیٹ دیکھا ہے میں نے۔ کلچر ڈووالے نہیں، رئیل پرلز۔ نیکلس اورٹاپس، اور بیچ میں روبی۔ gems کی پہچان ابو نے سکھائی تھی مجھے۔ میں دیکھتے ہی پہچان کئی کہ بڑی اچھی کوالٹی کے روبی ہیں۔ تو وہ خریدوں گی میں۔” وہ اپنی لن ترانیوں سے اس کا دھیان بٹا چکی تھی۔ ”واپس جانے کے بعد تمہاری صحت یابی کی خوشی میں جو پارٹی کریں گے ناہم، اس میں پہنوں گی اور سب کو بتاؤں گی کہ امریکہ سے لیا تھا۔ خبردار جو تم نے کسی کو بتایا کہ یہ میری برتن دھونے کی کمائی ہے۔”
وہ ہنس پڑا۔ اسمارہ اسے ہنستا دیکھتی رہی۔ اس ہنسی پر وہ سات زندگیاں قربان کرسکتی تھی، یہ چند دن کی مشقت کیا چیز تھی۔
٭…٭…٭
اسمارہ نے گہرا سانس لے کر آئینے میں اپنے عکس کو دیکھا۔ وہ آڈیٹوریم کے ڈریسنگ روم میں بیٹھی تھی۔ اب سے چند گھنٹے بعد اس کی پرفارمنس تھی۔ دن راح کی ریہرسل نے اس کی رقص کی کاملیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اس کا ہر نرت، ہر بھاؤ پرفیکٹ تھا مگر نہ جانے کیوں اس کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ نروس ہونے والوں میں سے نہ تھی۔ کیا چیز اس کے دل کو پکڑے ہوئے تھی، اس پر سوچنا نہ چاہتی تھی۔
کرن نے آکر اس کے خیالوں کے سلسلے کو توڑا۔ اسے اسمارہ کا میک اپ کرنا تھا۔ اسمارہ کپڑے بدل چکی تھی۔ ہاتھوں میں مہندی بھی لگا چکی تھی اور اس وقت سرخ رنگ کی پشواز پہنے آئینے کے سامنے میک اپ کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ کرن نے آکر اس کا جوڑا بنایا۔ بالوں میں پھول لگا کر زیور پہنایا۔ اسمارہ کو یوں لگا وہ ایک مرتبہ پھر سے دلہن بن رہی ہے۔ اس نے جھرجھری لے کر یہ خیال دماغ سے جھٹک دیا۔ ”بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔” کرن نے میک اپ مکمل کرکے پیچھے ہوکر اسکا جائزہ لیا ‘۔’مہاراج کہا کرتے تھے دنیا کی ہر حسین چیز خدا نے عورت کے لیے بتاتی ہے۔ تمام رنگ، تمام سنگھار، تمام محبت۔” کرن نے اپنے رقص گرو کا نام لیا۔
”میری ٹیچر بھی یہی کہا کرتی تھیں” اسمارہ مسکرائی۔
”ارے میں نے آج تک تم سے نہیں پوچھا کہ تم نے کتھک کس سے سیکھا۔ کون تھیں تمہاری ٹیچر؟” کرن نے پوچھا۔
”زہر راجہ۔” اسمارہ نے نا سٹیلجیا کے احساس میں گھر کرکہا۔
کرن کے چہرے کا تاثر دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی۔ وہ بے یقینی سے اسمارہ کو دیکھ رہی تھی۔
”تم نے کتھک زہر راجہ سے سیکھا؟” کرن کے چہرے پر روشن سی در آئی تھی۔
”ہاں!” اسمارہ نے کچھ حیران ہوکر کہا ”آپ جانتی ہیں انہیں؟”
کرن مسکرائی ‘۔’وہ میری خالہ ہیں۔ میری رقص کی سب سے پہلی ٹیچر بھی وہی ہیں۔”
اب حیران ہونے کی باری اسمارہ کی تھی۔ اسے یاد آیا کہ کرن کو پہلی مرتبہ دیکھنے پر وہ اسے بہت جانی پہچانی لگی تھی۔ اس نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں بالکل زہر راجہ جیسی تھیں۔ اپنی ٹیچر کے ساتھ یہ وابستگی نکل آنے سے اسمارہ کو ایک عجیب سی ڈھارس ہوئی۔ وہ کرن کو دیکھے گئی۔ اسے لگا اس کی شکل میں زہر راجہ وہاں موجود ہیں۔ اس کی ہمت بندھا رہی ہیں۔
وہ اپنے خیالوں، اپنی یادوں میں گم بیٹھی تھی۔ اس کے ٹروپے کی ایک لڑکی نے ایک پیکٹ لاکر اس کی گود میں ڈال دیا۔
”اسمارہ تمہارے گھنگھرو!” اس نے جلدی میں کہا اور آگے بڑھ گئی۔ اسمارہ کا دل زور سے دھڑکا۔ تو وہ وقت آگیا تھا جب اسے گھنگھرو باندھنے تھے۔ اس نے گہرا سانس لے کر اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کی اور پیکٹ کھول لیا۔ یہ گھنگھرو رویتی شکل میں تھے۔ چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں کپڑے کی باریک پٹیوں پر لگی تھیں۔ یہ پٹیاں اسے پنڈلیوں پر لپیٹ کر سروں پر موجود ڈوری کسی کر باندھ لینی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھ کر فرش پر بیٹھ گئی۔ ڈوری کا سرا پاؤں کے انگوٹھے کے گرد لپیٹ کر اس نے گھنگھرؤں کی پٹی کی پنڈلی پر لپیٹنا شروع کیا۔
اس کے کانوں میں اس کے باپ کی آواز گونجی۔ ”ٹھیک ہے تم رقص سیکھ لو مگر میری کچھ شرائط ہیں۔”
اسمارہ نے سر جھٹک کر اس آواز کی جھٹکنے کی کوشش کی۔ وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوئی۔
”تم کبھی گھنگھرو نہیں پہنو گی۔” محی الدین نے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے میں نے کون سا کبھی کہیں رقص کرنا ہے جو مجھے گھنگھرو باندھنے کی ضرورت ہوگی۔” اسمارہ نے لاپروائی سے سوچا تھا۔
وہ گھنگھروؤں کی پٹیاں لپیٹتی رہی۔ اس نے اپنی آنکھوں میں نمی امنڈتی محسوس کی۔ کیسے وقت پر کیا کیا یادیں آرہی تھیں۔
”پڑھنے اور ناچنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔” محی الدین نے کہا تھا۔
”فرق تربیت میں ہوتا ہے محی الدین!” بی بی جان گرجی تھیں۔ ”اور میری تربیت میں کوئی کمی نہیں۔” جن آوازوں سے، جن یادوں سے وہ اتنے دن سے بچتی آرہی تھی، اب مل کر اس پر حملہ آور ہوئی تھیں۔ اس نے تیزی سے ڈوری کے سرے باندھے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ چھن چھن چھن۔ ایک قدم، دوسرا قدم، تیسرا قدم۔ گھنگھرؤں کی آواز اس کے سر پر کسی ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔ خود اذیتی سے اس نے زور سے پیر فرش پر مارا۔ سارے گھنگھرو جھنجھنا اٹھے۔” یہ لو… یہ بج رہی ہے تمہارے باپ کی غیرت، تمہاری دادی کامان… یہ لو… ”اس نے دوسرا پیرمارا۔ جھن نن نن کی آواز نے اس کا وجود ہلا ڈالا۔ یہ لو ایک اور… ایک اور… ایک اور… وہ سٹیج کے دروازے تک پہنچ گئی تھی۔ دروازہ کھلا تھا۔ سٹیج پر کرن چند لوگوں کے ساتھ موجود بیک ڈراپ سیٹ کروا رہی تھی۔ اسمارہ کو دیکھ کر مسکرائی۔ اسمارہ سٹیج پر چلی گئی۔ پردہ گرا ہوا تھا اور آڈیٹوریم سے اسے لوگوں کی آوازوں کی بھنبھناہٹ سنائی دے رہی تھی۔
“Very good turn over” کرن نے خوشی سے کہا ۔”بڑی تیزی سے بھر رہا ہے ہال۔ دیکھو تو۔” وہ اسمارہ کا بازو پکڑ کر سٹیج کے کونے میں لے گئی اور ذرا سا پردہ ہٹا کر ہال کی طرف اشارہ کیا۔ تین چوتھائی سے زیادہ ہال بھر چکا تھا۔ اسمارہ کے پاؤں جیسے زمین نے جکڑ لیے۔ کرن اسے وہاں چھوڑ کر اپنے کام کی طرف واپس چلی گئی۔ اسمارہ پردے کو ایک ہاتھ سے پکڑے ہال میں بیٹھے، کھڑے اور آتے ہوئے لوگوں کو دیکھتی رہی۔” تم کبھی کسی محفل میں رقص نہیں کرو گی” محی الدین کی آواز اس کے کانوں میں گونجی ”تم مردوں کے سامنے رقص نہیں کرو گی۔” انہوں نے اپنی دوسری شرط اس کے سامنے رکھی تھی۔
سامنے ہال میں بیٹھے مردوں کو دیکھتے اسمارہ کو کئی بار کے سنے خاندان کی ان کالی بھیڑوں کے قصے یاد آئے جنہوں نے باپ دادا کا نام بدنام عورتوں کے پاس گروی رکھ دیا تھا۔ اسے ان زمینوں کی کہانیاں یاد آئیں جو ناچنے والیوں پر وار دی گئی تھیں۔ اسے دلاور حسین یاد آئے جن کی زندگی شراب اور گھنگھرؤں کی جھنکار میں ڈوب کر گزراتی تھی۔ اسمارہ نے پردہ چھوڑ دیا اور بھاگتی ہوئی ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔ یوں گویاں وہاں سے بھاگ جائے گی تو یادیں، یادوں کی آوازیں پیچھے رہ جائیں گی۔ لیکن وہ آوازیں اس کے دل میں بسی تھیں اور دل کہاں تھا؟ دل مرتضیٰ میں اٹکا تھا۔ مرتضیٰ کا خیال آتے ہی اس کا ڈوبتا دل ابھرا۔ وہ یہ سب مرتضیٰ کے لیے کررہی تھی۔ اس کی زندگی کے لیے، اس کے انجیکشنز کے لیے، اس کے آپریشن کے لیے۔
”سوری ابو۔ میں مجبور ہوں۔ آج آپ سے کیے سب وعدے توڑ رہی ہوں۔ مجھے معاف کردیجئے گا۔” اس دل میں موجود یا دسے، کانوں میں گونجتی آواز میں سے معافی مانگی۔ شاید اسے معافی مل جائے۔ شاید اس کے دل کو قرار آجائے۔
اور پھر رقص کا وقت آن پہنچا۔ اس کی پہلی پرفارمنس سولو تھی۔ وہ سن ہوتے دل کے ساتھ سٹیج کے دروازے میں کھڑی اپنا نام اناؤنس ہوتے سنتی رہی۔
پردہ اٹھا۔ وہ سٹیج کے وسط میں بیٹھی تھی۔ محبوب کے خیالوں میں گم، اس سے ملنے کی آس پور پور میں گونہ ہے۔ اس نے ہاتھ اٹھائے، جسے وہ آئینہ ہوں اور ان میں اسے محبوب کا چہرہ نظر آنے کی امید ہو۔ وہ محبوب کو سندیسہ بھیجنا چاہتی ہے۔ کیا کرے۔ خیال اس کے ساتھ لکن چھپی کھیلتے ہیں۔ وہ تتلیوں کی طرح انہیں پکڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر ایک خیال روشنی کی طرح اس کے دل پر اترتا ہے۔ کیوں نہ چٹھی لکھوں۔ وہ خط لکھ کر کبوتر کے پنجے میں داب کر کبوتر کو اڑا دیتی ہے۔ مگر ساتھ ہی اس کا دل بھی اڑنے لگتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کبوتر تھک کر گر پڑے، کوئی باز اسے دبوچ لے۔ ہائے اس کی چٹھی کسی غیر کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ وہ ڈر جاتی ہے۔ سوچتی ہے اب کیا کر۔ خیال اسے ایک اور راستہ دکھاتا ہے۔ وہ تصویر بناتی ہے۔ اپنے دل کا تمام حال رنگوں میں سمو کر مصور کردیتی ہے۔ محبوب سے ملے گی تو یہ تصویر اسے دکھائے گی۔ لیکن محبوب اس کا چہرہ دیکھے گا یا تصویر۔ ناراضی کے عالم میں تصویر پھاڑ دیتی ہے۔ اسے تو خود سنورنا ہے۔ محبوب کو لبھانا ہے۔ وہ ندیا کنارے جانے کا قصہ کرتی ہے جہاں مورنا چتے ہیں اور پھولوں کی بیلیں پانی کا منہ چومتی ہیں۔ ندی کے پانی میں پھول گرے پڑے ہیں۔ وہ پھولوں کو ہٹا کر منہ دھوتی ہے، کاجل لگاتی ہے، جھمکے پہنتی ہے، کنگن چڑھاتی ہے۔ ندی پر جھکی بیلوں سے پھول توڑ کر چوٹی میں گوندھتی ہے اور پھر ندی کے چمکتے پانی میں اپنامکھڑہ دیکھ کر خود ہی شرما جاتی ہے۔ یہ خیال کہ محبوب اسے دیکھ کر دیوانہ ہوجائے گا، اس کے دل میں خوشی اور پیروں میں پارہ بھر دیتا ہے۔ وہ بے خود ہوکر ناچنے لگتی ہے۔ ہال میں بیٹھے لوگ مسمرائزڈ تھے۔ اس کا ایک ایک قدم سانسیں روک دیتا تھا۔ ہر نرت، ہر بھاؤ نزاکت اور قوت کا ایک عجیب امتزاج تھا۔ لطافت اور نفاست اس کے انگ انگ سے پھوٹتی تھی۔ پیچھے صرف ستار اور طبلہ بج رہا تھا اور پوری کہانی، کہانی کی شاعری، شاعری کا جوہر اس نے اپنے رقص میں بیان کردیا تھا۔ اسمارہ کے لیے پوری دنیا اس سٹیج پر سمٹ آئی تھی۔ وہ سٹیج کی روشنیوں میں کھڑی تھی اور تاریکی کی دوسری طرف مرتضیٰ اپنے بستر پر سوئیوں اور نالیوں میں جکڑا لیٹا تھا۔ اس کا ہر اٹھتا گرتا قدم، گھنگھرؤں کی ہر چھن، ہاتھوں کی ہر حرکت مرتضیٰ کی زندگی بچانے کی تگ و دو کررہے تھے۔ وہ ریشم و اطلس میں لپٹی، گہنوں میں لدی، سنگھار سے سجی اپنے محبوب کی زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی جو جان لیوا بیمار ی سے لڑ رہا تھا، ہڈیوں کی مالا بن چکا تھا، جس کے بال گر چکے تھے، چہرے سے صحت کی لالی بیماری کی پیلاہٹ نے چھین لی تھی۔ اس وقت وہ اپنے باپ کی بیٹی تھی نہ خاندان کا فخر۔ وہ کچھ بھی نہیں تھی، صرف اور صرف اپنے محبوب کی داسی تھی جو اس کے عشق میں فنا کی منزل کو پہنچ چکی تھی۔ اس کی تمام نزاکت، مہارن اور حسن اس عشق کا مرہونِ منت تھا جس کا بانکپن اسے اس فنا نے بخشا تھا۔
رقص ختم ہوا۔ ہال میں دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ وہ خاموشی سے بیک سٹیج کی طرف چلی جارہی تھی۔ راستے میں کرن نے اسے گلے لگا کر بہترین پرفارمنس پر مبارک دی۔ ٹروپے کی کئی لڑکیوں نے روک کر تعریف کی۔ لیکن اسے اس وقت جانا تھا۔ اسے اپنے مرتضیٰ کے پاس جانا تھا۔ جس وقت وہ اپنا میک اپ صاف کرکے، کپڑے بدل کر جانے کے لیے تیار کھڑی تھی، کرن اس کے پاس آئی۔”Excellent reviews ملیں گے ہمیں کل کے اخباروں میں۔ تم دیکھنا” اس نے جوش و خروش سے کہا ”باقی سارے شوز ہاؤس فل جائیں گے۔”
وہ خاموشی سے کھڑی رہی۔ اسے نہ reviews کی پروا تھی نہ ہاؤس فل ہونے کی۔ وہ جس انتظار میں کھڑی تھی، کرن اسے بھانپ گئی۔
”اوہ ہاں!” اس نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ”تمہاری پے منٹ، تمہیں کل ضرورت ہوگی۔” وہ مرتضیٰ کے آپریشن کے بارے میں جانتی تھی۔
کرن نے چار سو ڈالر گن کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیئے۔
ایک جھماکے کی طرح اسمارہ کے کانوں میں محی الدین کی آواز گونجی۔ ”تم کبھی بھی، کسی بھی صورت میں رقص کا معاوضہ وصول نہیں کرو گی۔”
اسمارہ نے ہاتھ میں پکڑنے نوٹوں کو دیکھا۔ محی الدین کی آواز نے دوسرا وار کیا۔ ”گارنٹی دیتی ہیں بی بی جان؟” محی لدین نے پوچھا تھا۔
”ہاں۔ میں گارنٹی دیتی ہوں!” بی بی جان نے پورے یقین سے کہا تھا۔
حجت تمام ہوگئی تھی۔ اس نے اپنے باپ سے کیا تیسرا وعدہ بھی توڑ دیا تھا۔ اس نے گھنگھروباندھے تھے، محفل میں رقص کیا تھا اور اس رقص کا معاوضہ وصول کیا تھا۔
کبھی غم کی آگ میں جل اٹھے
کبھی داغِ دل نے جلا دیا
اے جنونِ عشق بتا ذرا
ہمیں کیوں تماشا بنا دیا
٭…٭…٭
مرتضیٰ سوتا رہا۔ وہ اس کے پاس بیٹھی اسے تکتی رہی۔ وہ رات گئے آئی تھی۔ مرتضیٰ سو چکا تھا۔ وہ کوئی آواز کیے بغیر خاموشی سے اس کے پاس بیٹھ گئی۔ اس احتیاط کے باوجود وہ جاگ گیا تھا۔ اس نے آنکھیں کھول کر کمرے کی مدھم لائٹ میں اسے دیکھا اور مسکرایا۔ وہ چپ چاپ بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔
”کیسی ہو؟” مرتضیٰ نے نرمی سے پوچھا۔
”ٹھیک ہوں۔” اس نے جھوٹ بولا۔
وہ ایک بار پھر مسکرایا۔
”سوری میں نے تمہیں جگا دیا۔” اسمارہ نے آہستہ آواز میں کہا۔
”اچھا ہوا۔ تمہیں جی بھر کے دیکھ لوں۔ پتا نہیں پھر…” وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔
اسمارہ کو سانس لینے میں مشکل ہونے لگی۔ وہ بھی تو اسی لیے… اس سے آگے وہ نہ سوچ سکی۔ مرتضیٰ مسکن دوا کے زیر اثر تھا۔ دوبارہ سوگیا۔ وہ وہاں بیٹھی اسے تکتی رہی۔ صبح اس کی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا۔ یہ محبوب چہرہ اس کی زندگی میں رہنے والا تھا یا نہیں، یہ اگلے بارہ گھنٹے میں اسے معلوم ہونے والا تھا۔ بے قراری سے اٹھ کر وہ کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ اس نے پردہ ہٹایا۔ اس کا خیال تھا باہررات تاریک ہوگی۔ اس کے خیالوں اور فکروں کی طرح گھنی اور سیاہ۔ لیکن باہر پورا چاند چمک رہا تھا۔ اسے بدرالدجا یاد آیا۔
”کیا مطلب ہے تمہارے نام کا؟” اسمارہ نے اس سے پوچھا تھا۔
”چمکتا ہوا چاند” اس نے کہا تھا۔
تب اسمارہ نے سوچا تھا وہ واقعی چمکتا چاند تھا۔ کبھی اس نے سوچا تھا بدر جیسا کوئی نہیں ہوسکتا اور پھر تقدیر نے بدر کو اس سے چھین کر ایک اور چمکتا چاند اس کی زندگی کی تاریک آسمان پر طلوع کیا تھا۔ اس نے مڑ کر سوئے ہوئے مرتضیٰ کو دیکھا۔ وہ اس کا بدرالدجا تھا۔ اس کی زندگی کے آسمان کا چمکتا ہوا چاند۔ وہ خاموشی سے اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ وہ پچھلی رات سے جاگ رہی تھی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے مرتضیٰ کے سرہانے ٹیبل پر رکھی تسبیح اٹھالی۔ اس کے بس میں جو کچھ تھا اس نے کہا۔ اس سے آگے وہ بے بس تھی۔ اب عمل کا وقت گزر چکا تھا۔ اب صرف دعا کا وقت تھا۔ آج رات اسے دعا کے سوا کچھ نہیں کرنا تھا۔
٭…٭…٭
آپریشن صبح دس بجے شروع ہوا۔ وہ پتھر بنی آپریشن تھپڑ کے باہر بیٹھی رہی۔ اسے بہت سے فون آئے۔ اپنے بھائیوں کے، زرینہ کے، مرتضیٰ کے ماں باپ کے، مرتضی کے بہن بھائی کے۔ وہ سب کی باتیں، دعائیں، تسلیاں سنتی رہی۔ کس نے اس سے کیا بات کی، اسے بالکل یاد نہ رہا۔ یاد تھا تو صرف وہ وقت جب مرتضیٰ کو آپریشن کے لیے لے جارہا تھا۔ اس نے ساتھ چلتی اسمارہ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ کچھ کہے بغیر وہ ایک دوسرے کے دل کا حال سمجھ سکتے تھے۔ اس نے یہ خیال دماغ سے جھٹک دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی مرتضیٰ اس کی آنکھوں میں نا امید کی ہلکی سی جھلک بھی دیکھے۔
”تم نے مہندی لگالی؟” مرتضیٰ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے اس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے عجیب سرخوشی کے عالم میں کہا۔
”ہاں۔ تمہیں پسند ہے نا۔” اسمارہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
وہ اسے بتا نہ سکی کہ یہ مہندی اس کے لیے نہیں رقص کے لیے لگائی گئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوجاؤں گا۔” مرتضیٰ نے یقین سے کہا۔ اسمارہ کے ہاتھ پر لگی مہندی نے اسے وہ امید دی تھی جو اس کے سینکڑوں لفظ نہ دے سکے تھے۔ اسمارہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی ایک ساتھ ابھری تھی۔
”ان شاء اللہ!” اسمارہ نے بھی اسی یقین سے کہا تھا۔ مرتضیٰ مسکرایا اور پھر اسمارہ کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھٹ گیا۔ وہ آپریشن تھپڑ میں لے جایا جاچکا تھا۔ اسمارہ بت بنی وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔
٭…٭…٭
ہاتھ میں تسبیح لیے وہ آپریشن تھپڑ کے باہر بیٹھی رہی۔ اسے لگا وہ عالم برزخ میں ہے اور اس کی تقدیر کا فیصلہ صدیوں بعد ہونا ہے۔ وہ وصل کی بہشت میں رہے گی یا فراق کے دوزخ میں جلے گی، یہ فیصلہ قیامت تک دور ہے یااگلے سانس سے نزدیک ہے، اسے کچھ پتا نہ تھا۔
آپریشن ہوگیا۔ مرتضیٰ کو ICU میں منتقل کردیا گیا۔ وہ ICU کے دروازے کے باہر کھڑی بے بسی کے عالم میں چھوٹی سی کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتی رہی۔ شام کو چند لمحوں کے لیے اسے اندر جاکر اسے دیکھنے کی اجازت ملی۔ اسے ابھی ہوش نہ آیا تھا۔ وہ وہاں کھڑی مانیٹر پر اس کے دل کی دھڑکن دیکھتی رہی۔ اس کا دل اس کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔ یہ دھڑکن کب تک جاری رہنے والی تھی، وہ نہیں جانتی تھی۔
ساری رات وہ ICU کے باہر بیٹھی رہی۔ امید اور خوف کے بیچ معلق، آس و نراس کے مابین لرزاں۔ صبخ پوپھٹنے والی تھی جب اس نے مرتضیٰ کے ڈاکٹر کو اپنے قریب کھڑا پایا۔ وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”ہم مرتضیٰ کا ٹیسٹ کرنے جارہے ہیں۔” ڈاکٹر نے نرم لہجے میں کہا۔
اسمارہ کا اوپر کا سانس نیچے کا نیچے رہ گیا۔ تو فیصلے کی گھڑی آپہنچی۔ اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ اس نے بولا نہیں کیا۔ اس نے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی۔
”کتنی… کتنی دیر میں معلوم ہوجائے گا؟”
”بس ابھی ہم ان کا ٹیسٹ کریں گے۔ پھر انہیں کمرے میں شفٹ کردیں گے۔ آدھے گھنٹے میں صورتحال واضح ہوجائے گی۔” ڈاکٹر نے اس کا کندھا تھپکا اور اندر چلا گیا۔ اسمارہ وہیں کھڑی رہی۔ پھر اس نے انہیں مرتضیٰ کو باہر لاتے دیکھا۔ اس نے غنودگی کے عالم میں آنکھیں کھولیں اور اسمارہ کو دیکھ کر مسکرایا۔ ابھی وہ اسے اچھی طرح دیکھ بھی نہ سکی تھی کہ وہ اسے لے کر آگے بڑھ گئے۔
وہ آدھا گھنٹہ اسمارہ نے آدھی زندگی کی مانند گزارا۔ وقت کبھی اتنی آہستہ نہیں گزرا تھا۔ تب بھی نہیں جب وہ شامِ غم منا رہی تھی، تب بھی نہیں جب وہ خوشیوں کے لیے اپنی زندگی کے دروازے کھول رہی تھی۔ لیکن وقت وہ بارات ہے جوگزر جاتی ہے۔ گلیوں کے موڑ مڑ کر نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔
اس نے ڈاکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس کا چہرہ کسی رپورٹ پرجھکا ہوا تھا جسے پڑھتے ہوئے وہ اس کی طرف آرہا تھا۔ اسمارہ سانس نہیں لے سکی۔ وہ وہاں سے اٹھ کر بھاگ جانا چاہتی تھی، اٹھ کر ڈاکٹر جھنجوڑ دینا چاہتی تھی۔ مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ ڈاکٹر نے اس کے قریب آکر چہرہ اٹھایا۔ چند لمحے وہ اسمارہ کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے چہرے پر ایک شفیق مسکراہٹ ابھری۔ کچھ کہے بغیر اس نے ہاتھ میں پکڑی رپورٹ اسمارہ کے آگے گردی۔
”کینسر فری!” کاغذ کی پیشانی پر لکھے لفظ جگمگا رہے تھے۔ اسمارہ دم بخودان لفظوں کو گھورتی رہی۔ آہستہ آہستہ پر لفظ اس کے شل ذہن میں اترنا شروع ہوئے۔
”کینسر فری!” ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔
”کینسر فری!” اس نے کانپتی آواز میں دوہرایا اور وہ وہیں ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر گر گئی۔ وہ دھاڑیں مار کر رو رہی تھی۔ اس نے زندگی میں غم کے آنسو بھی دیکھے تھے، خون کے آنسو بھی۔ وہ زندگی میں پہلی دفعہ خوشی کے آنسو دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Read Next

تہذیب کے دائرے — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!