غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

۱۹۔ رقصِ بسمل

حویلی بک گئی، زمین بک گئی، نوادرات بک گئے۔ رقم پھر بھی پوری نہ ہوئی۔ اب ایک آخری چیز رہتی تھی جو اسمارہ کو بیچنی تھی۔ اسے ایک مرتبہ پھر لاہور جانا تھا۔
حویلی خالی کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت ملا تھا۔ لیکن ابھی سے اس کے بہت سے کمرے خالی ہوچکے تھے۔ گول کمرہ سونا پڑا تھا۔ کتنی ہی دیر اسمارہ اس کے دروازے سے لگی کھڑی اندر دیکھتی رہی۔ سفید چاروں سے ڈھکے پرانی طرز کے صوفے اور دیوان خالی دیواروں کے بیچ پڑے عجیب سوگوار سے لگ رہے تھے۔ وہ منقش تپائیوں کو دیکھتی رہی… یہاں اس تپائی پر وہ چاندی کا پاندان رکھا ہوتا تھا جس پر سونے کی پتریوں کی نقش کاری تھی۔ وہاں وہ فیروزے جڑی پلیٹ تھی جو محی الدین نے اسے اس کی سالگرہ پر دی تھی۔ اس دیوار پر دادا پڑ دادا کے زمانے کے خنجر تلواریں، بندوقیں سجے تھے اور اس دیوار پر یہاں صادقین کی وہ پینٹنگ تھی جسے بدرالدجا بچپن میں دیکھ کے ڈر گیا تھا۔ اس نے سرجھٹک کر نظریں پھیرلیں۔ وہ یہ خالی ننگا بچا کمرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ ان چیزوں کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتی تھی جو اب اس کی نہیں رہیں تھیں۔
بی بی جان کے کمرے میں آکر اس نے ان کی الماری کھولی اور اس دراز کو کھولا جس کی چابی وہ اسے سونپ گئی تھیں۔ دراز سے چھوٹے بڑے ڈھیروں ڈبے اور بنارسی کپڑے کی تھیلیاں نکال کر وہ ان کی مسہری پر آبیٹھی۔ ایک ایک کرکے اس نے وہ سب گلوبند، ست لڑے، بازو بند، جھومر، پائلیں اور کنگن نکالنے شروع گئے جو بی بی جان کا خاندانی ورثہ تھے۔ اس کے کانوں میں بی بی جان کی آواز گونجنے لگی۔ ”زیور تو بیٹیاں سنبھالتی ہیں۔ بہوؤں کا کیا پتا بیچ دیں یا تڑوا دیں۔” انہوں نے زیور اسے دیئے ہوئے کہا تھا۔ آج وہ یہ زیور بیچنے کے لیے تول رہی تھی۔ ان زیوروں کو پہن کر وہ پہن مرتبہ دلہن بنی تھی۔ بدر کے ساتھ منگنی کے وقت، شہیر کے ساتھ شادی کے وقت اورمرتضیٰ کے ساتھ نکاح کے وقت۔ ایک ایک زیور اسے ان خاندانی روائیوں کی کہانیاں سناتا تھا جو اس سے ساری زندگی بی بی جان سے سنی تھیں۔
تم آنکھوں کے ساتھ وہ تمام ڈبے اور تھیلیاں کھولتی گئی۔ آخری ڈبہ کھلا تو وہ چونک گئی۔ یہ زیور کچھ جانا پہچانا لگ رہا تھا مگر یہ بی بی جان کا زیور نہیں تھا۔ اس کے آنسو تھم گئے۔ زیور کو دیکھتے ہوئے وہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس نے یہ زیور کہاں دیکھا تھا اور پھر ایک فلیش کی طرح اس کی آنکھوں کے آگے ایک سین گھوم گیا۔ وہ کمرے میں بیٹھی کتا ب پڑھ رہی تھی اور دلاور حسین وہاں آگئے تھے۔ ”زیور بہت قیمتی تھا عالم آراء کا۔” انہوں نے اس کے ہاتھ میں پہنے کنگنوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
یہ عالم آراء کا زیور تھا۔ وہ کنگن، چوڑیاں، انگوٹھیاں اور لاکٹ سیٹ جو وہ شہیر کے گھر سے نکلتے وقت پہنے ہوئے تھی۔ گھر آکر اس نے یہ زیور بے خیالی میں اتار کر کہیں ڈال دیا تھا۔ شاید اس وقت زرینہ نے اٹھا کر کہیں سنبھال دیا ہوگا۔ بعد میں لاکر سے عالم آراء کا وہ سارا زیور نکال کر اسی نے شہیر کو واپس بھجوا دیا تھا جو بری میں اسے چڑھایا گیا تھا۔ ”غیر ت مند باپ کی غیرت منہ بیٹی۔” بی بی جان سے فخر سے کہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اسمارہ نے کنگن ہاتھ میں اٹھائے۔ سولڈ گولڈ کے بھاری کنگن۔ نہ جانے یہ زیور کس طرح یہاں رہ گیا تھا؟ اسے پہلا خیال یہ آیا کہ یہ زیور اسے شہیر کو بھجوا دینے چاہئیں۔ فوراً اسے خیال آیا کہ ڈونر کو پیسے دینے کے بعد اس کے پاس معمولی رقم بچے گی جس سے ہسپتال اور داؤں کا خرچہ پورا نہیں ہوگا۔
”یہ زیور تمہیں دیئے گئے تھے۔” اس کے دل نے فوراً تاویل پیش کی ”یہ تمہاری ملکیت تھے، ان پر تمہارا حق ہے۔”
وہ پھیکی سی ہنسی ہنس پڑی اور کنگن بی بی جان کے زیور کے ساتھ رکھ دیئے۔ ٹھیک ہے جہاں وہ باپ کا خاندانی ترکہ بیچ رہی تھی، وہاں باپ کی غیرت بھی بک جائے تو کیا۔
ایک مرتبہ پھر اس نے آرٹ کلیکٹرز اور میوزیمز سے رابطہ کیا۔ بہت کم زیور اپنی اصل قدر و قیمت کے حساب سے بکا۔ باقی سارا سونے کے بھاؤ بکا۔ لیکن وہ مجبور تھی۔ اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔
فلائٹ سے ایک دن پہلے اس نے سارا حساب کتاب کیا۔ ڈونر کی رقم الگ کرنے کے بعد اس کے پاس ایک مہینے کا خرچہ بچ رہا تھا۔ قاسم نے ہسپتال کا ارینجمنٹ کرتے ہوئے ایک مہینے کا کمرے کا کرایہ اور ڈاکٹروں کی فیس ایڈوانس میں جمع کروا دی تھی۔ یہ اس کی طرف سے اسمارہ کو تحفہ تھا۔ کچھ مزید رقم شجاع نے بھی بھیجی تھی۔ اسمارہ کو اطمینان تھا کہ دو مہینے میں مرتضیٰ کا ٹریٹمنٹ مکمل ہوجائے گا اور انہیں زیادہ دن وہاں نہیں رہنا پڑے گا۔ اگر وہ کھینچ تان کر گزارا کرتی تو اس کے پاس موجود رقم دو مہینے کے لیے کافی تھی۔
٭…٭…٭
اسمارہ اور مرتضیٰ جس دن نیویارک پہنچے سردی کی بارش زوروں سے برس رہی تھی۔ قاسم اسی دن جرمنی سے پہنچا تھا اور ائرپورٹ پر ہی رک کر ان کا انتظار کررہا تھا۔ ائرپورٹ سے وہ سیدھے اس ایک کمرے کے اپارٹمنٹ پہنچے جو قاسم نے ہسپتال کے پاس ان کے لیے بک کروایا تھا۔ اس کا ایک مہینے کا کرایہ وہ ادا کر چکا تھا۔
اگلے چند دنوں میں مرتضیٰ کو ہسپتال داخل کروا کر قاسم واپس چلا گیا۔ ڈونر کو دوہفتے بعد آنا تھا۔ اس سے پہلے blood transfusionاور کیموتھراپی کا ابتدائی کورس ہونا تھا۔ مرتضیٰ کو ابتدائی رپورٹس کے بعد ڈاکٹروں نے امید افزا جواب دیا تھا۔ اسمارہ پر امید تھی۔ مرتضیٰ کو بھی ٹھیک ہوجانے کی امید روشن نظر آنے لگی تھی۔
اسمارہ تمام دن مرتضیٰ کے پاس گزارتی تھی۔ اس کیمو لگتی، وہ باہر تسبیح لیے بیٹھی رہتی۔ وہ سوجاتا، وہ اس کے پاس بیٹھی پیاسی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہتی۔ وہ جاگ جاتا تو اس کا ہاتھ پکڑے اس سے دنیا جہان کی باتیں کرتی، امید دلاتی۔ آنسو اس نے تنہائی کے لیے بچا رکھے تھے۔ جب رات کو وہ اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں واپس آتی۔ کھانا پکاتے، لانڈری کرتے اس کے آنسو چپ چاپ بہتے جاتے۔ شاید ساری زندگی کی کسراب پوری کردینا چاہتے تھے۔
جس دن ڈونر کو آنا تھا وہ دوگھنٹے پہلے ہی ائرپورٹ پہنچ گئی۔ وہ اس کے لیے لائف لائن تھا، زندگی کی آس تھا۔ وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسے ملنا چاہتی تھی، اسے لے کر ہسپتال جانا چاہتی تھی۔ امید تھی کہ آج ہی تمام ضروری ٹیسٹ کرکے آپریشن کی تاریخ طے کر دی جائے گی۔
وہ اس کے نام کا بورڈ پکڑے ریسپشن ایریا میں کھڑی ہوگئی۔ وہ پہلے اس سے سکائپ پر بات کرچکی تھی، اسے پہچانتی تھی۔ اسے اس کا چہرہ ازبر ہوگیا تھا۔ وہاں کھڑے لوگوں کو، ہجوم کو دیکھتے ہوئے وہ اس چہرے کے نمودار ہونے کا انتظار کرتی رہی جو اس کی زندگی میں مسیحا کی طرح آنے والا تھا۔
وہ نہیں آیا۔ ایک گھنٹہ گزرا، دو گھنٹے گزر، تین گھنٹے گزرے، چار گھنٹے گزر گئے۔ کئی فلائٹس آئیں، ان کے مسافر نکلے، چلے گئے۔ کھڑے کھڑے اس کی ٹانگیں شل ہوگئیں۔ بورڈ اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ کانپتی ٹانگوں سے وہ ایک کاؤنٹر سے دوسرے کاؤنٹر پر بھاگتی پھری۔ کبھی ایک آفس، کبھی دوسرا آفس، کہیں سے کچھ پتا نہ چلا۔ آخر ایک کسٹم آفیسر کو اس پر ترس آیا۔ فلائٹ ریکارڈ چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پیڈروکٹر نام کے کسی مسافر نے اس ائرلائن سے سفر نہیں کیا۔ پہلے سے بک شدہ سیٹ دو دن پہلے کینسل کرادی گئی تھی اور اگلی کسی تاریخ کی سیٹ نہیں بک کرائی گئی۔ بے یقینی اور صدمے سے وہ بت بنی کھڑی یہ تفصیلات سنتی رہی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا ہورہا تھا۔ ایک چوتھائی رقم وہ اس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرا چکی تھی۔ کیا اس نے اسے دھوکہ دیا تھا؟ اس کے رزلٹ مرتضیٰ سے میچ نہیں کرتے تھے؟ لیکن اس نے اس کے رزلٹ خود دیکھے تھے، ڈاکٹرز سے کنفرم کیا تھا۔ تو پھر؟ کیا اس نے ارادہ بدل دیا تھا؟ اور چوتھائی رقم لے کر چمپت ہوگیا تھا؟ مگر وہ ایسا کیوں کرے گا؟ اتنی بڑی رقم سے ہاتھ کیوں دھوئے گا؟ یا شاید اسے کوئی حادثہ پیش آگیا تھا اور وہ سفر کے قابل نہیں رہا تھا؟ وہ اندھوں کی طرح قیاس کا سرا پکڑنے کی کوشش کرتی اور ہر اندازہ، ہر قیاس اسے مایوسی کی اندھیری کھائی میں اوندھے منہ گرا دیتا۔ ڈونر کے نہ آنے کا مطلب کیا تھا وہ جانتی تھی۔ وقت کی قیمت کوئی اس سے پوچھتا۔
٭…٭…٭
اگلا پورا ہفتہ ڈاکٹر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے رہے اور وہ پاگلوں کی طرح اس شخص سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ فون، سکائپ، وٹس ایپ، ای میل، وہ سینکڑوں مرتبہ اسے کا لیں کرتی مگر کوئی جواب نہ ملتا۔ فون کی گھنٹی بجتی تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آجاتا۔ شاید اس کی خبر ہو۔ شاید وہ آرہا ہو۔ شاید اس کا انکار آیا ہو۔ وہ امید و یاس کے بیچ ڈولتی جب پاگل ہونے کے قریب ہوگئی تو ایک دن رات کے ڈھائی بجے پیڈرووکٹر کی کال آگئی۔ نیند میں اس نے فون اٹھا کر دیکھا اور سکرین پر اس کا نام چمکتے دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے فون ریسو کیا۔
”ہیلو۔” اس نے بمشکل کیا۔
”ہیلو۔ مسز مرتضیٰ؟” کسی عورت نے محتاط آواز میں پوچھا۔
اسمارہ کے ہاتھوں نے سختی کے ساتھ فون کو بھینچ لیا ”یس۔ آئم مسز مرتضیٰ” اس نے کانپتی آواز میں کہا۔
”میں پیڈرووکٹر کی بیوی بول رہی ہوں ماریاوکٹر۔” عورت نے کہنا شروع کیا ”میرا خیال ہے آپ ہی کے ساتھ میرے شوہر کا کوئی معاہدہ ہوا تھا؟”
لمحے کے ہزاروں حصے میں ہزاروں خیال اسمارہ کے دل میں آئے۔ برے سے برا خیال، خوفناک سے خوفناک گمان۔ وہ سانس روکے ماریا کی بات پوری ہونے کا انتظار کرتی رہے۔ ”پچھلے ہفتے بیڈرو بے چارے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔” ماریا کہہ رہی تھی۔ ”اس کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی اور ڈاکٹرز نے سختی سے سفر سے منع کردیا۔ ایکسڈنٹ ہوگیا۔” ماریا کہہ رہی تھی۔’ ‘ ایکسیڈنٹ میں اس کا فون بھی ٹوٹ گیا۔ پریشانی میں ہم آپ سے کانٹیکٹ نہ کرسکے۔ میں نے آپ کو یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ چار پانچ دن تک پیڈروسفر کے قابل ہوجائے گا۔ مگر وہ اکیلے سفر نہیں کرسکتا۔ اگر آپ میرا ٹکٹ بھیج دیں تو ہم پانچ دن بعد آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔”
”آپ کا ٹکٹ ہوجائے گا!” اسمارہ نے کہہ کر فون بند کردیا۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے بستر سے اٹھی اور وہیں ننگے فرش پر سجدے میں گرگئی۔ وہ رو رہی تھی اور ہنس رہی تھی۔ اسے دن کی جان لیوا پریشانی کے بعد ملنے والی خوشخبری نے اسے پھر سے زندہ کردیا تھا۔
اگلے ہفتے پیڈرو اپنی بیوی کے ساتھ آن پہنچا۔ اسمارہ کار کا ہوا سانس تب بحال ہوا جب اس نے ان دونوں کو اپنے قریب آکر اپنا نام لیتے سنا۔ امید کی ڈور کا سرا ایک بار پھر اس کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ فوراً ہی پیڈرو کے بنیاد ی ٹیسٹ شروع ہوگئے تھے اور آپریشن کی تاریخ کے تعین کے لیے ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھ گیا تھا۔
اسمارہ کو ایک طرف سے تسلی ہوئی تو دوسری فکروں نے آگھیرا۔ دو ہفتے کا التوا، ماریا وکٹر کی ٹکٹ اور ہوٹل میں سنگل روم کے بجائے ڈبل روم کی بکنگ نے اس کے بجٹ پر کاری ضرب لگائی تھی۔ وہ نئے سرے سے حساب کتاب میں مصروف ہوگئی تھی۔ وہ گم صُم رہنے لگی۔ اس نے زندگی میں کبھی پیسے کی پریشانی نہیں دیکھی تھی۔ اس کے باپ نے اسے سونے کا نوالہ کھلایا تھا اور ریشم کے بستروں میں سلایا تھا۔ اسے پیسے بچانے نہیں آتے تھے۔ اب وہ ایک ایک پیسہ دانتوں سے پکڑنے لگی۔ جس دن اسے ڈاکٹروں نے آپریشن کو تاریخ طے ہونے کی جنردی، اس دن وہ اپنے اکاؤنٹ میں پڑا آخری سینٹ تک نکال چکی تھی۔ آپریشن تین ہفتے بعد تھا اور اس کے پاس موجود رقم صرف چار دن کے لیے کافی تھی۔ چار دن بعد اگلا مہینہ شروع ہوجاتا اور اسے اس مہینے کا کرایہ دینا پڑتا۔ اس کے پاس اپارٹمنٹ کا کرایہ نہیں تھا۔ اپنے کھانے پینے، مرتضیٰ کے لیے پھل، جوس اور اوپر کے اخراجات کے لئے اس کے پاس کچھ نہ بچا تھا۔ اس روز وہ آدھی رات تک اپنی بینک سٹیٹمنٹ ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔ ہر دو منٹ بعد وہ مٹھی میں دبا کاغذ کھولتی اور اسے نئے سرے سے پڑھنے لگتی۔ شاید اس نے کچھ مس کردیا ہو۔ کوئی نمبر، کوئی ڈیجیٹ۔ شاید ایک مرتبہ پھر پڑھنے پر اسے معلوم ہوکر رقم اتنی کم نہیں تھی جتنی اسے پہلی مرتبہ لگی تھی۔ لیکن وہ جتنی مرتبہ پڑھتی، رقم اتنی ہی رہتی۔ رقم میں تو کوئی اضافہ نہ ہوا لیکن اس کی پریشانی میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ اگلے دن جب وہ ہاسپٹل گئی تو مرتضیٰ اس کی شکل دیکھ کر چونک گیا۔
”تمہیں کیا ہوا؟” مرتضیٰ نے پریشان ہوکر پوچھا۔
”کیا ہوا مجھے؟” اسمارہ الٹا اس سے سوال کیا۔ مرتضیٰ کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اسے صرف اتنا معلوم تھا کہ حویلی بیچی گئی تھی اور اسمارہ اس میں سے ملنے والے حصے سے اس کا علاج کروا رہی تھی۔ اسے محی الدین کے نوادرات اور بی بی جان کے زیورات کے بکنے کا علم نہیں تھا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اسمارہ ڈونر کو کتنی بڑی رقم ادا کررہی تھی۔ وہ اسے بس ایک ڈونر سمجھتا تھا جو نیکی کے جذبے کے تحت اس کی جان بچانے میں مدد کررہا تھا۔ اسمارہ نے اُسے کچھ نہیں بتایا تھا۔ اسے اب بھی مرتضیٰ پر کچھ ظاہر نہیں کرنا تھا۔ وہ جس ظالم بیماری سے لڑ رہا تھا، اس کے مقابلے میں اسمارہ کی جنگ کچھ نہیں تھی۔ وہ اس جنگ میں اسے شامل نہیں کرسکتی تھی۔ یہ مسئلہ اسے اکیلے حل کرنا تھا۔
”بیمار لگ رہی ہو۔” وہ مرتضیٰ کی تشویش میں ڈوبی آواز سے چونکی۔
”اس ہاسپٹل کی لائٹس اتنی خراب ہیں۔ اچھا بھلا انسان بیمار لگنے لگتا ہے” اسمارہ نے لاپروائی ظاہر کرتے ہوئے تجزیہ کیا ۔”میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔ دیکھو ہٹی کٹی ہوں۔” مرتضیٰ خاموشی سے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
”عثمان بھائی سے بات ہوئی میری آج صبح۔ امی تمہارا بہت پوچھ رہی تھیں اور مریم کو تو…” اس نے مرتضیٰ کا دھیان خود سے ہٹانے کے لیے خوشگوار لہجے میں بولنا شروع کیا۔
”ڈاکٹرزنے جواب دے دیا ہے؟” مرتضیٰ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کیا؟” ایک لمحے کے لیے اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
”میں ٹھیک نہیں ہوسکتا؟ ڈونر کے رزلٹ میچ نہیں ہوئے؟ کتنا وقت دیا ہے مجھے ڈاکٹرز نے؟” مرتضیٰ نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔ اس کی گہری پریشانی مرتضیٰ پر یہ اثر کرے گی، اس نے سوچا تک نہ تھا۔ مرتضیٰ کے سامنے ایک لمبی فائٹ تھی۔ وہ ابھی سے اسے دیکھ کر ہمت ہار گیا تو؟ نہیں، وہ اسے ہار نے نہیں دے گی۔ نہ اسے ہارنے دے گی نہ خود ہارے گی۔ جان لڑا دے گی مگر ہے گی نہیں۔
وہ ہنسنے لگی۔ مرتضیٰ چپ چاپ سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ ہنستے ہنستے اس کی آنکوں میں آنسو آگئے۔
”ایسا کچھ نہیں ہوا۔” اس نے ہنستے ہنستے آنکھیں پونچھ کر کہا ۔”اف کتنے pessimistic ہوگئے ہو تم جیسی۔ یہ دیکھو میرے پاس فائلز ہیں سب رپورٹس اور رزلٹس کی۔ لاؤ تمہیں دکھاؤں۔”
اس دن اس نے مرتضیٰ کو مطمئن کردیا۔ مگر وہ جانتی تھی کہ اگر اس کی پریشانی اسی طرح اس کے چہرے پر رقم رہی تو وہ ہر روز اسے مطمئن نہیں کرسکے گی۔ اسے کچھ کرنا ہی تھا مگر گیا؟ اپنے بھائیوں سے مزید پیسے مانگتے اسے ڈوب مرنے کا سا احساس ہوتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے لیے اتنا کچھ کرچکے تھے کہ وہ ان کے احسان کے بار تلے دبی تھی۔ وہ غیرت مند باپ کی خود دار بیٹی تھی۔ اسے ہاتھ پھیلاتے شرم آتی تھی، خواہ یہ ہاتھ سگے بھائیوں کے سامنے ہی کیوں نہ پھیلانا پڑتا۔ اسے خود ہی کچھ کرنا تھا۔
تین دن بعد اس نے اپارٹمنٹ چھوڑ دیا۔ لینڈ لیڈی کو اپارٹمنٹ کی چابی تھماتے وقت اس کا ذہن بالکل خالی تھا۔ اب وہ کہاں جائے گی؟ کیا کرے گی؟ دن تو مرتضیٰ کے پاس گزر جائے گا، رات کہاں گزارے گی؟ ان سوالوں کے اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھے۔ وہ رات اس نے نیویارک کی سڑکوں پر گھومتے گزاری۔ صبح ہسپتال جانے سے پہلے وہ ایک کیفے میں گئی اور کافی کا آرڈر دیا۔ اس بہانے اس نے واش روم استعمال کرلیا۔ منہ ہاتھ دھو کر بال برش کرکے وہ بہت بہتر محسوس کرنے لگی تھی۔ رہی سہی کسرسٹرانگ کافی نے پوری کی اور وہ ہشاش بشاش چہرہ لے کر مرتضیٰ کے پاس گئی۔ اس کے لیے اسے کتنی کوشش کرنی پڑی، یہ وہ جانتی تھی مگر مرتضیٰ پر اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ وہ اسے مسکراتا دیکھ کر خوش ہوگیا اور پہلے کی طرح اس سے امید بھری باتیں کرتا رہا۔
اس رات ہاسپٹل سے نکلنے کے بعد اسمارہ اس کیفے میں گئی جہاں وہ صبح کافی پینے گئی تھی۔ وہاں اس نے نوکری کی درخواست کی۔ انہیں ضرورت نہیں تھی۔ وہ باہر نکل کر سڑک پر چلنے لگی۔ اس سڑک پر بہت سے کیفے اور ریسٹورنٹس تھے۔ اسمارہ نے بار باری ان سب میں جاکر کام مانگا۔ آخر اسے ایک کیفے میں پانچ ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے برتن دھونے کا کام مل گیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ minimum ویج سے کم ہے مگر اس کے پاس ورک پرمٹ نہیں تھا۔ اس کے لیے یہ بھی غنیمت تھا۔ رات کے ڈیڑھ بجے جب وہ سردی سے سن ہوتے ہاتھ لیے باہر نکلی تو اس کی جیب میں پانچ گھنٹوں کی محنت کا معاوضہ پچیس ڈالر موجود تھے۔ ان سے کم از کم اس کے لیے صبح کا ناشتہ اور مرتضیٰ کے لیے جوس آسکتا تھا۔ ریسٹورنٹ سے نکل کر وہ فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ وہ پچھلی رات کی جاگی ہوئی تھی۔ اس کا سر چکرا رہا تھا۔ صبح کی کافی کے بعد اس نے شام کو بھوک مٹانے کے لیے ایک چاکلیٹ بار کھایا تھا کیونکہ فی الحال وہ کھانا خریدنا افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔ بے مقصد سڑک پر چلتے ہوئے اس کی نظر گھاس کے ایک قطعے پر پڑی جہاں کارڈ بورڈ پر چادریں بچھا کر چند لوگ سورہے تھے۔ نیویارک کے چمکتے ماتھے کا دھبہ Homeless people (بے گھر افراد) وہ ان کے پاس چلی گئی۔ سوئے ہوئے لوگوں کی قطار کے پرلے سرے پر ایک عورت اپنی نو عمر بچی کے ساتھ سو رہی تھی۔ اسمارہ کی ٹانگیں، ہاتھ، دماغ سب سُن ہورہا تھا۔ وہ اس عورت کے قریب گئی اور بے اختیار اس کے قریب گھٹنوں کے بل گر گئی۔ اس افریکن عورت نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر کھسک کر اس کے لیے جگہ بنا دی۔ اسمارہ اس کے پاس لیٹ گئی۔ اپنا بیک پیک اس نے سر کے نیچے رکھ لیا۔ چند سیکنڈز کے اندر وہ سو چکی تھی۔
اگلی صبح وہ بال برش کیے، لپ اسٹک لگائے مسکراتے چہرے کے ساتھ مرتضیٰ کے پاس موجود تھی۔ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوگیا۔
”آج بڑی فریش لگ رہی ہو جمیلہ!” اس نے مسکرا کر کہا۔
وہ ہنس دی۔ رات سردی میں ٹھنڈی گھاس پر پتلے سے کارڈ بورڈ پر سونے سے اس کی کمر تختہ ہورہی تھی۔ صبح اس نے چوبیس گھنٹے کے فاقے کے بعد کھانا کھایا تھا۔ لیکن وہ خوش تھی۔ اس کے پاس چند ڈالر تھے، رات برتن دھونے کی نوکری تھی، اس کا شوہر بہترین ہسپتال میں بہترین علاج سے مستفید ہورہا تھا۔ کس قدر شکر کا مقام تھا۔ وہ بے مقصد و بے ارادہ پھر سے ہنس پڑی۔
چند دن اسی طرح برتن دھوتے، کارڈ بورڈ پر سوتے گزرے۔ اب اس نے thrift store سے اپنے لیے کمبل بھی خرید لیا تھا۔ اسے سخت زمین پر اپنے بیگ کا تکیہ بنا کر سونے کی عادت ہونے لگی تھی۔ اس کا جسم دن میں دو مرتبہ کھانا کھانے کا عادی ہوچلا تھا۔ پریشانی اسے اس وقت ہوئی جب ایک دن اس سے باتیں کرتے کرتے مرتضیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے ناخن دیکھ کر چونک اٹھا۔ پانچ پانچ گھنٹے تک برتن دھونے سے اس کے ناخن ٹوٹ کر بے ڈھنگے ہوچکے تھے۔ مرتضیٰ نے بے یقینی سے اس کے ناخنوں کو دیکھا۔
”یہ تمہارے ناخنوں کو کیا ہوا؟” اس نے ہاتھ چھڑانے چاہے مگر مرتضیٰ نے مضبوطی سے پکڑ لیے۔ وہ اس کے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔
”مائی گاڈ اسمارہ یہ کیا کیا ہے تم نے اپنے ہاتھوں کو؟” اس نے بے یقینی سے پوچھا۔ مرتضیٰ کو اس کے ہاتھ بہت پسند تھے، وہ جانتی تھی۔ وہ باتیں کرتے کرتے اس کے ہاتھ پکڑ کر ان سے کھیلنے لگتا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں کی بہت کیئر کرنے کی عادی تھی اور اب؟ یہ کیا ہوگیا تھا ہاتھوں کو؟ ناخن گل گئے تھے، انگلیوں کو پوروں پر دراڑیں پڑچکی تھیں۔
”یہ؟ یہ پتا نہیں…” اسمارہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ اسے کوئی بہانہ نہیں سوجھ رہا تھا۔
”ہاں! یہ سردی میں ایسے ہوجاتے، میں ہاتھ۔” بہانہ سوجھ گیا۔
”پہلے تو کبھی نہیں ہوئے۔” مرتضیٰ نے تشویش سے کہا۔
”ایسی سردی بھی تو نہیں پڑتی پاکستان میں۔” اس نے ہاتھ چھڑا لیے۔ مگر مرتضیٰ کے ذہن سے اس کے ہاتھوں کی حالت نہ نکلی۔ گھنٹے بعد جب نرس اس کے کمرے میں آئی تو مرتضیٰ نے اس سے نیویارک کی سردی کی شکایت کی جس نے اس کی بیوی کے حسین ہاتھوں کا بیڑا غرق کردیا تھا۔ ساتھ ہی اس نے نرس سے اسے کوئی آئٹمنٹ لگانے کا کہا۔ نرس نے اسمارہ کے ہاتھ پکڑ کر معائنہ کیا۔
”کئی گھنٹے پانی میں رکھنے سے یہ حال ہوا ہے ہاتھوں کا۔” نرس نے اعلان کیا۔ مرتضیٰ کی حیران سوالیہ نظریں اسمارہ پر جم گئیں۔
”پانی میں کیوں رکھے رہے تم نے ہاتھ؟” اس نے نرس کے جاتے ہی پوچھا۔
”وہ اصل میں مرتضیٰ کل میں ذرا تھک گئی تھی تو لانڈری جانے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ سو میں نے کپڑے گھر میں ہی دھولیے۔ پورے ہفتے کے کپڑے اکٹھے تھے نا تو ذرا زیادہ دیر پانی میں ہاتھ رکھنے پڑے۔” اس نے سوچ سوچ کر ایک بے سروپا کہانی گھڑ ہی لی۔
مرتضیٰ نے حیران نظر سے اس کی میلی جینز اور جیکٹ پر ڈالی۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر پھر خاموش ہوگیا۔ مرتضیٰ کو تو وہ پتا نہیں مطمئن کر سکی یا نہیں مگر اس شام ہاسپٹل سے نکلنے کے بعد اس نے ہیوی کولڈ کریم اور سستے سے اونی دستانوں کا ایک جوڑا خرید لیا۔ پانچ گھنٹے برتن دھونے کے بعد اس نے ہاتھوں پر کولڈ کریم کا موٹا لیپ کیا اور دستانے چڑھا لیے۔
اگلی صبح کیفے میں ناشتے کے بعد وہ ایک روڈ سائیڈ لانڈری میں چلی گئی۔ چند ڈالر میں اس نے اپنے سارے کپڑے دھولیے۔ اگلا مرحلہ خود نہانے دھونے کا تھا۔ کیفے کے واش روم میں وہ منہ ہاتھ دھو سکتی تھی، خود نہیں نہا سکتی تھی۔ اس کے لیے اس نے مرتضیٰ کے ہسپتال کے کمرے باتھ روم کا استعمال کیا وہ پہلے تو مرتضیٰ کے پاس بیٹھی رہی۔ جب وہ سو گیا تو وہواش روم میں گھس گئی اور ہر ممکن احتیاط سے شاور لیا۔ سارا وقت اسے دھڑکا لگا رہا کہ کہیں اس کی آنکھ نہ کھل جائے، اسے یہ پتا نہ چل جائے کہ وہ بے گھر افراد میں شامل ہوچکی ہے۔
اسمارہ کا خیال تھا کہ آپریشن تک اس کا کام اسی طرح چلتا رہے گا۔ وہ ہسپتال کی فیس، آپریشن کے اخراجات، دوائیوں کے خرچے کے پیسے پہلے ہی جمع کراچکی تھی۔ ڈونر کے انتظار میں بیتنے والے دو ہفتوں کی پے منٹ بھی ہوچکی تھی۔ اس طرف سے اسے اطمینان تھا۔ لیکن یہ اطمینان عارضی ثابت ہوا۔ آپریشن سے دو ہفتے پہلے ڈاکٹر نے اسے آفس میں بلایا اور اسے ان انجیکشنز کے بارے میں بتایا جو مرتضیٰ کو لگنے ضروری تھے۔ یہ انجیکشنز نئی ریسرچ کے بعد پہلے سے بہتر انجیکشنز کے لگنے سے مرتضیٰ کی مکمل ریکوری کا چانس سوگنا بڑھ جانا تھا۔ اسمارہ کے لیے بے حد خوش کن خبر تھی۔ لیکن اس خبر کے دوسرے حصے نے اس کے نیچے سے زمین نکال دی۔ ایک انجیکشن کی قیمت پانچ سو ڈالر تھی یعنی تقریباً پچپن ہزار روپے اور مرتضیٰ کو ایسے پانچ انجیکشنز لگنے تھے۔ اسمارہ کی جیب میں اس وقت ٹوٹل رقم دس ڈالر تھی۔ وہ سکتے کے عالم میں بت بنی بیٹھی ڈکٹر کو دیکھتی رہی۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔
اس شام ہاسپٹل سے نکل کر وہ پارک میں آکر بیٹھ گئی۔ اردگرد استیادہ اونچے اونچے درختوں کے درمیان رکھے بنچ پر بیٹھے وہ خالی خالی نظروں سے روشوں پر چلتے لوگوں اور ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے اور کھیلتے بچوں کو دیکھتی رہی۔ آہستہ آہستہ پارک خالی ہوگیا۔ اسے لگا ساری کائنات خالی ہوگئی ہے، کوئی ذی روح نہیں بچا اور اس سناٹے میں وہ اکیلی بیٹھی اپنے دل کی دھڑکن سن رہی ہے۔ ہر دھڑکن اس سے ایک ہی سوال کررہی تھی۔ اب وہ کیا کرے؟ بھائیوں کو فون کرے؟ ان سے مانگے؟ رقم اتنی تھی کہ شاید وہ اتنی جلدی ارینج نہ کرسکتے۔ اسمارہ کی طرف سے تسلی ہونے کے بعد اپنے اپنے حصے کی رقم وہ انویسٹ کرچکے تھے اور اگر بندوبست نہ ہوسکا تو کیا ہوگا؟ کیا مرتضیٰ کی ریکوری وہ چانس پر چھوڑ دے؟’ یہاں تک پہنچ کے ہمت ہار دے؟ اس نے سارے جسم کی سوئیاں پلکوں سے نکالی تھیں، اب جب صرف آنکھوں کی سوئیاں رہ گئیں تھیں تو اس کی اپنی آنکھوں میں سوئیاں چبھنے لگی تھیں۔
اس رات کیفے میں برتن دھوتے ہوئے اس سے پانچ پلٹیں ٹوٹیں۔ رات کو افریکن عورت کے ساتھ کارڈ بورڈ کے بستر پر لیٹے اسے نجانے کیوں حضوری باغ کی حویلی میں اپنا بستر یاد آنے لگا بڑی سی مسہری جس کی چادر ہر دوسرے دن بدلی جاتی تھی کیونکہ اس کی نفاست پسند طبیعت کو کوچار شکین بھی گوارانہ تھیں۔ گھاس کے قطعے پرکھلے آسمان کے نیچے لیٹے آسمان پر نظر آتے اکاد کا تاروں کو دیکھتے اسے اپنا گھر یاد آیا، اپنا وطن یاد آیا اور بدر کی یاد کے ساتھ اس کے دل نے کروٹ لی اور آئینہ بن گیا اور اس آئینے میں نظر آتا بدر کا چہرہ مرتضیٰ کے چہرے میں ڈھل گیا۔ وہ ایک بار اسے کھوچکی تھی، دوسری بار بھی وہ اس کے ہاتھوں سے پھسل رہا تھا۔ وہ ہار گئی تھی۔ وہ تب بھی ہار گئی تھی۔ اس محبت کو موت آئے، اس نے اسے مار ڈالا تھا۔ فنا کردیا تھا۔ تو پھر وہ زندہ کیوں تھی؟ اس ریزہ ریزہ وجود اور پتی پتی دل کے ساتھ وہ کیوں جیئے چلی جارہی تھی؟ وہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی، مرتو سکتی تھی۔ اس نے جیب میں موجود پچیس ڈالر تھپتھپائے، ان سے زہر تو خرید ہی سکتی تھی۔ مگر پھر مرتضیٰ کا کیا ہوتا؟ اس محبت کاکیا ہوتا؟ اس غارت گر عشق کا کیا ہوتا جو اسے نہ جینے دیتا تھا نہ مرنے دیتا تھا۔
صبح اس کی آنکھ پوپھٹنے سے پہلے کھل گئی۔ نیویارک نیم تاریکی اور نیند کے غلاف میں لپٹا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ اب سو نہیں پائے گی۔ چپکے سے اپنا بیک پیک اٹھا کر اس نے کندھوں پر لادا اور چل پڑی۔ بے مقصد، بے ارادہ۔ اس کا ذہن خالی تھا اور دل بھر آتا تھا۔
آہستہ آہستہ سورج نکلنے لگا، بتیاں بجھنے لگیں، زندگی جاگنے لگی۔ وہ بے مقصد سڑک پر چلتے ہوئے وہاں موجود دکانوں اور دفاتر کے سائن بورڈز پڑھتی رہی۔ وہ نیو فیشن بوتیک کے سامنے سے گری جس کے ڈسپلے میں لگے مینی فِن کا بازو ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے Pattissary بیکری میں نگاہ ڈالی جس کے شوکیس میں سفید کریم اور گلابی پھولوں سے ڈھکا قدر آور کیک رکھا تھا۔ ایک آفس بلڈنگ آئی۔ ایک لافرم گزری جس کے آگے ڈائیورس سپیشلسٹ کا بورڈ لگا تھا اور پھر ایک شیشے کے دروازے کے سامنے اس کے قدم ٹھٹک کر رک گئے۔ یہ ایک قدیم طرز کی عمارت تھی، جس کا دروازہ چند سیڑھیاں چڑھ کر تھا اور ایلومینیم کے فریم میں جڑے دروازے کے شیشوں پر ہاتھ سے لکھا ایک نوٹس چسپاں تھا۔
Katthak Dancer Required
Roshan Dance Co
اسمارہ کچھ دیر کھڑی گردن اٹھائے اس کاغذ کو دیکھتی رہی۔ اچانک شیشے کا دروازہ کھلا اور ایک نوجوان لڑکی ہاتھ میں برُوم تھامے باہر نکلی۔ اسمارہ کو دیکھ کر وہ مسکرائی۔ برُوم سے سیڑھیاں صاف کرتے کرتے وہ نیچے اسمارہ کے پاس آن ٹھہری۔ اسمارہ نے دیکھا وہ امریکن تھی۔ اسمارہ نے اس سے کچھ کہنا چاہا مگر کہہ نہ سکی۔ لڑکی صفائی کرتے ہوئے امڈی اور اسمارہ کو ہنور وہاں کھڑے دیکھ کر چونک گئی۔
“Can I help you?” اس نے مہذب لہجے میں پوچھا۔
“Is there….. do you need….. Can I have a….”
اسمارہ نے بے ترتیب تین جملے بولنے کی کوشش اور تینوں ہی مکمل نہ کرسکی۔ اس کی نظروں کے تعاقب میں دروازے پر لگے نوٹس کی طرف دیکھا اور اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ ”اس نوٹس کی بات کررہی ہو؟” اس نے پوچھا۔ اسمارہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ہاں بڑا مسئلہ پڑا ہوا ہے ہمیں۔” لڑکی نے منہ بنا کر کہا۔ ”ہماری لیڈڈانسر کے پاؤں میں فریکچر ہوگیا ہے اور ہماری اگلے تین ہفتے کی پرفارمسز بُک ہیں۔ we desperately need a kathak dancer۔ مگر پرابلم یہ ہے کہ نیویارک میں کتھک ڈانسر ملے کہاں سے؟”
”کیا pay کرتے ہو تم لوگ؟” اسمارہ کے منہ سے نکلا۔ اسے جس کلچر میں پروان چڑھایا گیا تھا وہاں پیسوں کی بات اس طرح منہ پھاڑ کر کرنا معیوب سمجھا تھا۔ مگر اس کے پاس فارمیلٹیز میں ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں تھا۔
”یہ تو کِرن ہی بتا سکتی ہیں۔ مگر اتنا جانتی ہوں کہ اگر اچھی پرفارمر مل گئی تو وہ اسے بہت اچھا pay کرنے کو تیار ہوں گی۔ ہماری ساکھ کا سوال ہے۔” لڑکی نے بروم سے دروازے کے اندر اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
اسمارہ نے گہرا سانس لیا ”مجھے ان کے پاس لے چلو۔ میں کتھک ڈانسر ہوں۔”
لڑکی کے چہرے پر پہلے بے یقینی اور پھر خوش بھری مسکراہٹ ابھری۔ اس نے اسمارہ کا ہاتھ تھام لیا۔
”چلو۔” اس نے کہا اور اسمارہ کا ہاتھ تھامے سیڑھیاں چڑھ گئی۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Read Next

تہذیب کے دائرے — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!