غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

۱۸۔ وراثت

رات…
یہ ختم ہونے والی اندھیری رات…
کسی بددعا جیسی جس کا طلسم ٹوٹتا تو صرف کسی اسمِ اعظم کی پوپھٹنے سے ٹوٹتا۔
لیکن وہ اسمِ اعظم کیا تھا اسمارہ نہیں جانتی تھی۔ اس نے گردن موڑ کر ساتھ لیٹے مرتضیٰ کو دیکھا۔ وہ دوسری طرف کروٹ بدلے لیٹا ہوا تھا۔ سورہا تھا یا جاگ رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔ آج کی رات کون سو سکتا تھا؟ اور رات تھی کہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔
وہ اور مرتضیٰ شاک کے عالم میں ڈاکٹر کے کلینک سے نکلے تھے۔ راستے میں مرتضیٰ نے اس سے صرف ایک بات کہی تھی۔ ”امی ابو کو مت بتانا اسمارہ۔” وہ خاموش رہی تھی۔ اس لیے نہیں کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا بلکہ اس لیے کہ اس وقت وہ اپنے پورے جی جان سے آنسو روکنے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ مرتضیٰ کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔ کتنی عجیب بات تھی۔ جب وہ رونا چاہتی تھی، تب آنسو نہیں نکلتے تھے اور اب جبکہ آنسوؤں کا سیلاب اس کے تن من میں امنڈتا تھا، وہ ان پر بند باندھ رہی تھی۔
اندھیری رات میں اندھیرے خیالوں کے اندھے کنویں میں قید وہ کسی امید کا جگنو تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اپنے ساتھ لیے مرتضیٰ کی سانسوں کی ہلکی آواز آس کی وہ ڈور تھی جسے وہ تا زندگی تھامے رکھنا چاہتی تھی۔
”مرتضیٰ۔” اس نے ہولے سے آواز دی۔ کوئی جواب نہ آیا۔ شاید وہ واقعی سو گیا تھا۔ وہ خاموشی سے بستر سے نکلی اور باتھ روم میں جاکر دروازہ بند کرلیا۔ آہستہ قدموں سے چلتی تھی کہ نظر اٹھائے گی تو اوپر لگے آئینے میں خود کو دیکھ لے گی اور جیسے دکھ کی گھڑی میں کسی اپنے کو دیکھ کر ضبط کی طنابیں چھٹنے لگتی ہیں، تڑپتے ہوئے آنسو بہہ نکلتے ہیں، وہ بھی خود کو دیکھ کر آنسو روک نہ پائے گی۔ اس پر آج تک جو بھی گزری تھی، اس کی گواہ صرف وہ خود تھی۔ اپنے غم میں اس نے کبھی کسی کو شریک نہ کیا تھا۔ وہ خودداری، وہ غیرت جو اس کی گھٹی میں پڑی تھی اس کی زندگی کا عنوان رہی تھی۔ اس نے ہمیشہ اس عزتِ نفس کا پاس کیا تھا، کبھی کسی پر کچھ ظاہر نہ کیا تھا۔ اس کے دل پر جو بتیتی تھی نہ کبھی آنسوؤں میں نکلی تھی نہ الفاظ میں۔ مگر اس کا دل تڑپتا تھا، اس کی سا نہیں جلتی تھیں وہ جانتی تھی۔ وہ اپنے دکھوں کی خود گواہ تھی۔ اس نے نظریں اٹھائیں۔ آئینے میں اس نے اپنا سفید پڑتا چہرہ دیکھا اور اس سفید چہرے پر اس اندھیری رات جیسی کالی آنکھیں دیکھیں اور ان آنکھوں میں وہ سب دیکھا جو وہ دیکھنا نہ چاہتی تھی۔ اس کے پیٹ میں جیسے کسی نے زور کا گھونسا مارا۔ وہ دوہری ہوگئی۔ سانس لینے کی کوشش میں اس نے سنک کو پکڑنے کی کوشش کی اور زمین پر پھسلتی چلی گئی۔ وہاں باتھ روم کے فرش پر گرے، پیٹ پکڑے دوہرے ہوتے ہوئے اس نے تو لیے کو منہ میں ٹھونسنا شروع کیا۔ وہ اب چیخوں کو روک نہیں سکتی تھی مگر یہ چیخیں مرتضیٰ کو سنائی نہ دیں، اس کا بندوبست ضرور کرسکتی تھی۔
پتا نہیں کتنی دیر وہ وہاں ٹھنڈے فرش پر پڑی رہی۔ شاید چند گھنٹے، یا شاید چند صدیاں۔ جب چیخ چیخ کر اس کا گلا بیٹھ گیا اور اس میں مزید رونے کی سکت نہ رہی تو وہ اٹھ بیٹھی۔ سنک کا سہارا لے کر اٹھ کر کھڑی ہوئی۔ اس کی نظر ایک بار پھر آئینے میں نظر آتے اپنے چہرے پر پڑی۔ رونے سے اس کی آنکھیں سوج گئیں تھیں، چہرہ سرخ ہورہا تھا اور بال آنسوؤں سے گیلے ہوکر چہرے سے چیک گئے تھے۔ اس نے پانی کھول کر چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ بالوں کو ہاتھ سے سمیٹ کر catcher سے باندھا اور دوبارہ آئینے میں خود کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں منجمد برف کا سا تاثر پگھل کر بہہ گیا تھا اور ان میں وہی کیفیت نمودار ہورہی تھی جو اس کی فطرت اور تربیت کا خاصہ تھی۔ وہاں کھڑے کھڑے اس نے اس آئینے میں اپنا بچپن دیکھا۔ ”بڑی بہادر ہے میری بیٹی!” کسی نے بڑے فخر سے کہا تھا۔ کس نے، اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
”دادا کے بھائیوں میں سے کسی کی بیوی بی بی جان جیسی نہ تھیں۔ بی بی جان نے شوہر کی زندگی بنا دی۔” کسی نے تبصرہ کیا تھا۔
”اسمارہ بالکل بی بی جان جیسی ہے۔” وہ بچپن سے سنتی آئی تھی۔
آئینے میں بچپن کا ایک اور عکس ابھرا۔ وہ سوئمنگ پول میں ڈوبتے بدر کو کھینچ کر کنارے لارہی ہے۔
ایک بھولی بسری یاد جھلملائی۔ وہ گول پوسٹ کے سامنے کھڑی ہے۔ ”اسمارہ ہٹ جاؤ!” قاسم بھائی چیخ کر کہتے ہیں۔
”نہیں ہٹوں گی۔” وہ جواب میں چلائی ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

منظر بدلا۔ حویلی کی سڑک پر وہ ہجوم میں گھری، اپنی ذات میں تنہا کھڑی تھی۔ سامنے سے باقر بھائی شہید ذوالجناح کی سنہری پیال تھامے آنے تھے۔ ”اسمارہ ہٹ جاؤ!” وہ بازو گھما گھما کر چلاتے تھے۔ لیکن اسمارہ نہیں ہٹی تھی۔ اسے ناگہانی کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہونا آتا تھا۔ واحد موقع جب وہ ہٹی تھی، بدر قتل کردیا گیا تھا۔
جس وقت وہ باتھ روم سے نکلی، پوپھٹ رہی تھی۔ آہستہ قدموں سے چلتی وہ مرتضیٰ کے پاس آکھڑی ہوئی۔ وہ گہری نیند سورہا تھا۔ تادیر وہ اس کے پاس کھڑی اس کے سانس کا زیرویم دیکھتی رہی۔
”میں ہمیشہ سوچتی رہی کہ کون ہو تم؟ بدر یا مرتضیٰ؟” اس نے سرگوشی میں کہا۔ اس کی آواز مضبوط تھی اور ان میں آنسوؤں کا شائبہ تک نہ تھا۔
”لیکن اب مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ تم کون ہو۔ بدر ہویا مرتضیٰ۔ تم جو بھی ہو، میں اس بار تمہیں مرنے نہیں دوں گی۔ ایک بار تمہیں کھوچکی ہوں، دوبارہ نہیں کھوؤں گی۔”
باہر صبح صادق کا اجالا پھیل رہا تھا۔ اندھیری رات ختم ہونے کاعندیہ مل رہا تھا۔ اب اسے اس رات کے سحر کا نور ڈھونڈنا تھا۔
٭…٭…٭
صبح ناشتہ دونوں میں سے کسی نے کیا۔ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم چپ چاپ بیٹھے رہے۔ آدھا کپ چائے پی کر مرتضیٰ اٹھ کھڑا ہوا۔
”ذرا میرے ساتھ سٹڈی میں آؤ۔” اس نے اسمارہ سے کہا۔
سٹڈی میں جاکر اس نے اپنے ڈیسک کی دراز میں سے ایک فائل نکالی۔
”بیٹھو!” اس نے کاؤچ کی طرف اشارہ کیا۔ اسمارہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر فائل میں سے کاغذات نکالنے لگا۔
”یہ میرا بینک اکاؤنٹ ہے۔ اس کی benificiary تم اور امی ہیں۔” اس نے بتانا شروع کیا۔ ”یہ اس رقم کے لین دین کی تفصیل ہے جو میرا مختلف لوگوں کے ساتھ ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ جو قرض مجھ پر ہے وہ فوراً اتاردوں۔ تمہارے لیے کچھ چھوڑ کر نہ جاؤں۔”
اسمارہ نے اس کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا ۔”کتنے پیسے ہیں تمہارے اکاؤنٹ میں؟” اس نے سکون سے پوچھا۔
مرتضیٰ کی آنکھوں میں پہلے حیرت ابھری اور پھر رنج۔ اسے اسمارہ کے اس اطمینان سے اس کے اکاؤنٹ کے بارے میں پوچھنے پر تکلیف ہوئی تھی۔
”مریم کی شادی پر کچھ خرچ ہوا تھا۔ اب لگ بھگ دو لاکھ کے قریب رقم ہوگی۔” اس نے سنجیدگی سے بتایا۔
اسمارہ نے سر ہلایا۔ ”میرے پاس تقریباً پانچ لاکھ ہیں سیونگز میں۔ اس کا مطلب کیموتھراپی اور ابتدائی میڈیسن شروع کی جاسکتی ہیں۔”
مرتضیٰ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ کہتی رہی۔ ”ڈاکٹر ارشد نے جس اونکالوجسٹ کو ریفر کیا تھا، اس سے ٹائم بھی انہوں نے ہی لے لیا ہے۔ آج میں ان کو فون کرکے ابتدائی اخراجات کا تخمینہ لے لوں گی۔”
مرتضیٰ نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روکا ”اسمارہ۔ لیوکیمیا سے کبھی کوئی adult سروائیو نہیں کر پایا۔” اس نے اسے حقیقت کی دنیا میں داپس لانے کی کوشش کی۔ ”وہ پیسہ جو تم میرے علاج پر ضائع کرنا چاہتی ہو، تمہارے کام آسکتا ہے، میری ماں کے کام آسکتا ہے۔”
”اور تمہارے بغیر میں اور امی اس پیسے کو کیا کریں گے؟” اسمارہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ پیسہ دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ کم از کم یہ گِلٹ لے کر تو میں قبر میں نہیں اتروں گا کہ میں نے اپنی بیوی کو financialy insecure ہے یا یہ کہ میں اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔”
”تمہاری بیوی خود کماتی ہے، اسے تمہارے پیسے کی ضروت نہیں۔ اور تمہاری ماں کاایک اور بیٹا بھی ہے جو ان کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ اگر تمہیں ہماری اتنی ہی پروا ہے تو تم ہمیں اپنا آپ دے دو۔”
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر پھیکی سی ہنسی ہنس پڑا۔
”یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔” اس نے مایوسی سے کہا۔
”کوشش کرنا میرے اختیار میں ہے مرتضیٰ اور وہ میں ضرور کروں گی۔ اتنی آسانی سے ہار نہیں مانوں گی میں۔ ایک اور پچھتاوا اپنے ضمیر پر نہیں لادوں گی۔” اسمارہ کے مضبوط لہجے کے عزم نے مرتضیٰ کو کچھ اور کہنے کا موقع نہ دیا۔ اسمارہ نے فائلیں سمیٹیں اور اٹھ کھڑی ہوئی ”اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے گھر والوں کو بتادو۔ مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوگی۔”
اس نے فائلیں سینے سے لگائیں اور مضبوط قدموں سے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر سٹڈی سے نکل گئی۔ مڑ کر دیکھ لیتی تو مرتضیٰ کے تاثرات دیکھ کر پتھر کی ہوجاتی۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر احسان نامور اونکالوجسٹ تھے۔ اسمارہ پورے یقین اور امید کے ساتھ ان کے پاس گئی تھی۔ سارے ٹیسٹ اور رپورٹیں دیکھنے کے بعد انہوں نے اسمارہ اور مرتضیٰ سے صاف صاف بات کی۔
”یہ حقیقت ہے کہ لیوکیمیا کے مرض میں سروائیول ریٹ بہت کم ہے اور جو ہے وہ صرف بچوں کا ہے۔ یعنی پندرہ سال سے زیادہ عمر کے مریض کا بچنا ناممکنات میں سے ہے۔ آپ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ مرض جو عموماً لاسٹ سٹیج میں تشخیص ہوتا ہے، آپ کاابتدائی سٹیج میں پکڑا گیا ہے۔ کیمو تھراپی اور انجیکشنز آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ میں وعدہ تو نہیں کرتا مگر امید ضرور کرتا ہوں کہ شاید ہم اس علاج سے مرض پر قابو پالیں گے۔”
اسمارہ نے مرتضیٰ کی سب رپورٹس اور ڈاکٹر کا مشورہ شجاع کو آسٹریلیا اور قاسم کو جرمنی میل کیا۔ ان کے بہت گھبرائے ہوئے فون اسمارہ کو آئے۔ مگر وہ بہت حوصلے اور سکون کے ساتھ ان سے مرتضیٰ کا کیس ڈسکس کرتی رہی۔ آسٹریلیا کے ڈاکٹروں نے ڈاکٹر احسان سے اتفاق کرتے ہوئے ابتدائی ادویات شروع کرانے کا کہا۔ قاسم نے امریکہ اپنے ایک دوست کو بھی رپورٹس بھیجیں۔ اس کا مشورہ بھی یہی رہا۔ مرتضیٰ کے ماں باپ اور بھائی لاہور سے آگئے۔ ماں باپ تو صدمے سے گنگ تھے مگر بھائی جان اسمارہ کو حوصلے میں دیکھ کر خود بھی ہمت پکڑنے لگے۔ مرتضیٰ نے جاب سے تین مہینے کی چھٹی لی اور اس کا ٹریٹمنٹ شروع ہوگیا۔
اسمارہ دن کو مرتضیٰ کے ساتھ ہسپتالوں کے چکر کاٹتی، رات کو آدھی آدھی رات تک لیپ ٹاپ کھولے انٹر نیٹ پر اس مرض کے بارے میں پڑھتی رہتی۔ کیمو تھراپی کے تین سپیل مکمل ہوئے۔ انجیکشنز کا کورس بھی پورا ہوا۔ کوئی وظیفہ نہ تھا جو اسمارہ نے چھوڑا، کوئی دعا نہ تھی جو اس نے نہیں مانگی، کوئی منت نہ تھی جو اس نے نہیں مانی۔ جس دن مرتضیٰ کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونا تھا، اس دن وہ بہت اچھے کپڑے پہن کر اور میک اپ کرکے اس کے پاس ہسپتال گئی۔ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوگیا۔
”واہ بڑی جمیلہ لگ رہی ہو آج تو تم!” اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تمہارے گھر آنے کی خوشی میں تب ہی۔” وہ ہنس کر بولی۔
مرتضیٰ کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی۔
”کیا ہوا؟” اسمارہ نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
وہ مایوسی سے مسکرایا ”تھوڑے ہی عرصے کے لیے آرہا ہوں میں گھر۔ پھر واپس یہاں…” اسمارہ اسے دیکھے گئی۔ ”کیا وجہ ہے کہ میری زندگی میں آنے والے تینوں مرد ایک جیسے تھے… محبت کرنے والے اور کم ہمت؟” اس نے خود سے سوال کیا۔ ”ان کے حصے کی ہمت بھی ہمیشہ مجھے ہی کرنی پڑی۔”
”کیونکہ مرد اپنی جبلت میں شکاری ہے۔” اس کے دل نے جواب دیا۔ ”وہ یا شیرنی کا شکار کرنا چاہتا ہے یا کبوتری کا۔ وہ دو طرح کی عورتوں کو پسند کرتا ہے… یا تو وہ عورت جو اس کی حفاظت کے بغیر مر جائے یا وہ عورت جو اس کے اور قصا کے درمیان پسند سیر ہوجائے۔ اپنے برابر کی عورت پسند نہیں آتی اس کو۔ ہرنی کا شکار نہیں کرنا چاہتا یہ شکاری۔ کرے گا تو بھون کر کھا جائے گا۔ یا تو اسے کبوتری پسند ہے جسے قید کرکے رکھ سکے یا شیرنی جو اس کے لیے ہر کسی کو پھاڑ کھائے۔ تم دوسری قسم کی عورت ہو… The Alpha Female۔ اس لیے یہ مرد اپنے حصے کی ہمت تمہیں سونپ دیتے ہیں۔”
”کیا سوچنے لگی؟” مرتضیٰ نے پوچھا۔
وہ ہنس پڑی۔ ”سوچ رہی ہوں اپنے مولا جٹ کے لیے نئے کپڑے سلوانے ہوں گے۔” اس نے پیار سے اس کے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔ تین مہینوں میں اس کا وزن بہت گر گیا تھا۔ کیمو تھراپی سے بال جھڑنے لگے تھے اور رنگ جھلس گیا تھا۔
”اور ایک وگ بھی۔ ”مرتضیٰ نے غمگین ہوکر اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اسے اپنے گھنے بالوں سے بڑا پیار تھا۔ بالوں کا نقصان اس کے دل کو لگ گیا تھا۔
”فکر نہ کرو جیسی!” اسمارہ نے تسلی دی۔ ”تمہیں سب سوٹ کرتا ہے۔ تم اب بھی اتنے ہینڈسم ہو۔ دیکھنا جب دونوں باہر نکلیں گے تو لوگ کہیں گے واہ کیا چاند سورج کی جوڑی ہے۔ میں سورج، تم چاند۔”
دونوں ہنسنے لگے۔
٭…٭…٭
اسمارہ نے جاب سے ریزائن کردیا۔ کچھ عرصہ مرتضیٰ کی امی آکر رہیں مگر مرتضیٰ کی ایک ایک چیز اسمارہ نے اپنے ذمے لے لی تھی۔ وہ اس کے لیے کھانا خود پکاتی، اس کے کیلوری کاؤنٹ کا حساب رکھتی۔ ہر روز بلڈ پریشر چیک، ویٹ چیک اور اس کے کمرے کی صفائی احتیاط سے خود کرتی۔ دوا پابندی سے اپنے ہاتھ سے دیتی۔ اس سب کے باوجود تین مہینے بعد ٹیسٹوں کے لیے دوبارہ جاتے ہوئے اس کا دل خدشات سے دھڑک رہا تھا۔
اس کے خدشے سچ ثابت ہوئے۔ مرتضیٰ کو کینسر فری قرار نہیں دیا گیا۔ وہ اس کی فائل دونوں ہاتھوں میں دبوچے سفید چہرے کے ساتھ ڈاکٹر کے سامنے بیٹھی رہی۔ ”گڈ نیوز یہ ہے کہ ابتدائی سٹیج پر تشخیص ہونے کی وجہ سے اب بھی مکمل ریکوری کا چانس ہے۔” ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔ ”اگر آپ بون مپروٹرانسپلانٹ کروا لیتے ہیں تو آپ مکمل صحت یاب ہوسکتے ہیں۔ آپ کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کا بون میرو میچ کر جائے تو بہت اچھا ہے ورنہ آپ کسی دونر کے لیے کوشش کیجیے۔”
اسمارہ جانتی تھی کہ یہ کام آسان ثابت نہ ہوگا۔ مرتضیٰ کا بلڈ گروپ AB نیگٹو تھا۔ نادرونایاب۔
”ایک اور قدر مشترک۔” اسمارہ نے سوچا۔ بدر کا بلڈگروپ اونیگٹو تھا۔ محی الدین کہا کرتے تھے اسمارہ کے پاس نادر و نایاب چیزوں کو پرکھنے والی آنکھ ہے۔ اسمارہ کو لگتا تھا یہ آنکھ اس کی تقدیر کے پاس ہے۔ وہ نادر و نایاب چیزیں اس کی جھولی میں ڈالتی تھی اور پھر خود ہی حسد سے جل بھن جاتی تھی۔ اپنی نایاب چیزیں واپس چھین لینے پر تل جاتی تھی۔
مرتضیٰ کے پورے خاندان میں کسی کا بلڈ گروپ AB نیگٹو نہ تھا۔ اسمارہ، اس کے بھائیوں، مرتضیٰ کی فیملی۔ سب نے اپنے طور پر اس بلڈ گروپ کے ڈونرز کی تلاش شروع کردی۔ ایک مہینے میں صرف تین لوگ ایسے ملے جن کا بلڈ گروپ میچ کرتا تھا۔ اسمارہ نے ان کو جہاز کے ٹکٹ بھجوائے، ہوٹلوں میں ان کے ٹھہرنے کا انتظام کیا۔ وہ آئے۔ ان کے ٹیسٹ ہوئے، تینوں کا بون میرو مرتضیٰ سے میچ نہیں ہوا۔
اسمارہ کے خوف کا گراف دن بدن بڑھتا جارہا تھا۔ وقت اس کے ہاتھوں سے پھسل رہا تھا۔ مرتضیٰ کے خواب کی بھیانک تعبیر اسے سامنے کھڑی دکھائی دینے لگی تھی۔ اس کی کیفیت اس شخص کی سی تھی جو اندھیرے میں راستہ تلاش کرنے کے لیے ٹھوکریں کھاتا پھررہا ہو۔ اس نے پوری دنیا کی میڈیکل سائٹس پر مرتضیٰ کی رپورٹس اپ لوڈ کرکے ڈونر کی ریکوئسٹ ڈال دی تھی۔ مرتضیٰ کی کیمو تھراپی دوبارہ شروع ہوچکی تھی اور blood transfusion بھی ہونے لگا تھا۔ اسمارہ کے پاس پیسے بالکل ختم ہوچکے تھے۔ اب زرینہ، قاسم اور شجاع پیسے بھیج رہے تھے۔
تین مہینے کی ان گنت اپیلوں اور بے شمار التجاؤں کے بعد ایک رات اسمارہ کو اپنی ریکوئسٹ کا جواب آگیا۔ برازیل کے ایک شخص کی رپورٹس مرتضیٰ کے ساتھ میچ کرتی تھیں۔ وہ امریکہ آکر بون میرو دینے کے لیے بھی تیار تھا۔ صرف اس کی ایک شرط تھی۔ وہ یہ کام راہِ خدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی ضرورتیں تھیں اور ان کے لیے اسے رقم درکار تھی۔ امید، آس اور خوشی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اسمارہ نے اس کی ڈیمانڈ پوچھی اور اس کا جو جواب آیا، اس نے اس کے ہوش اڑا دیئے۔ وہ بون میرو ٹرانسپلاٹ کے لیے پچاس کروڑ روپے مانگ رہا تھا۔
لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی وہ اس کی سکرین کو شاک کے عالم میں دیکھتی رہی۔ پچاس کروڑ روپے۔ اس نے ایک نظر پاس سوئے ہوئے مرتضیٰ پر ڈالی اور پھر فون اٹھا کر شجاع کا نمبر ملایا۔ وہ اس کی بات سن کر فکر مند ہوگیا۔
”میں بات کرتاہوں اس سے۔” شجاع نے تسلی دی ۔”کم کردے گا، تم فکر مت کرو۔” اگلے چند دن اسمارہ مسلسل کمپیوٹر اورفون پر مصروف رہی۔ اس کے ساتھ شجاع اور قاسم بھی اس برازیلین ڈونر سے بات چیت کرتے رہے۔ اسمارہ کو یوں لگتا تھا کہ وہ اپنے شوہر کی زندگی خریدنے کے لیے بازار میں کھڑی ہے اور بھاؤ تاؤ کررہی ہے۔ ایک ہفتے کی بحث کے بعد وہ شخص پانچ کروڑ کم کرنے پر راضی ہوگیا۔ مگر اس سے نیچے وہ ایک انچ بھی آنے پر تیار نہ تھا۔
اس سارے معاملے کو مرتضیٰ سے چھپانا بھی ایک کارِ دارد تھا۔ اسے وہ یہی سبز باغ دکھائی تھی کہ اس کی رپورٹس بے حد حوصلہ افزا ہیں اور وہ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گا۔
اسمارہ نے مرتضیٰ کے بھائی کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ بھی فکر مند سے سوچ میںڈوب گئے۔
”میں آفس سے لون لینے کی کوشش کرتا ہوں۔” انہوں نے تسلی دینے کی کوشش کی۔ ”کتنا لون مل جائے گا؟” اسمارہ نے امید سے پوچھا۔
وہ خاموش ہوگئے۔ ان کا سر جھک گیا ۔”تین لاکھ۔” انہوں نے آہستہ سے کہا۔
اسمارہ نے گہرا سانس لیا۔ اس کا کام لاکھوں سے بننے والا نہیں تھا۔ اسے کروڑوں درکار تھے اور ان کروڑوں کے لیے جو خیال اس کے ذہن میں ایک ننھے سے بیج کی صورت میں پیدا ہوا تھا، پریشانی کے پانی نے اسے تناور درخت بنا دیا تھا۔
اس نے شجاع اور قاسم کو کال کرکے پاکستان آنے کا کہا۔ قاسم چھٹی نہیں لے سکتا تھا مگر شجاع فوراً آگیا۔ مرتضیٰ کے پاس اس کی امی ٹھہریں اور وہ لاہور آگئی۔
اسمارہ نے جو تجویز سامنے رکھی، اسے سن کر زرینہ دم بخود رہ گئی۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حویلی کیونکر بک سکتی ہے؟” انہوں نے اضطراری انداز میں کہا۔ پھر کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔ ان کے چہرے پر شرمندگی کی پرچھائیں ابھری۔ ان کی بیٹی یہ بات کرنے پر کیوں مجبور ہوئی تھی وہ جانتی تھیں۔ انہوں سرجھکا لیا مگر ان کی آنکھوں میں چمکتی نمی کسی سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
شجاع نے پیار سے بازو ان کے کندھے پر پھیلا لیا ”کبھی نہ کبھی تو یہ حویلی بیچنی ہی پڑتی امی۔ تو پھر ابھی سہی جب اسمارہ کی ضرورت ہے۔”
اسمارہ میں تاب نہ تھی کی نظریں اٹھا کر اپنی ماں کا چہرہ دیکھتی۔ وہ اپنی ماں کے جیتے جی اس حویلی کو بیچنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مگر اس کے سامنے مرتضیٰ کی زندگی کا سوال تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں اور چھوٹے بھائی کو محل سے نکل کر کسی سے چھوٹے سے گھر میں جانا پڑے گا۔ انہیں اپنی باقی زندگی اپنے شوہر کے گھر کی یاد میں گزرانی ہوگی مگر اسمارہ اس وقت Spiral انرجی بننا افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا goal مرتضیٰ کی زندگی تھا اور اسے اس کی طرف تیر کی طرح جانا تھا۔ وہ سب کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتی تھی۔
ایک ہفتے کے اندر اندر کاغذات تیار ہوگئے اور پرکھوں کی وہ نشانی جو تین سو سال سے ان کے خاندان میں چلی آرہی تھی، بک گئی۔ جس حویلی میں بھرا پرا خاندان رہتا تھا، اب خالی ہونے لگی، پرائی ہونے لگی۔ اسمارہ زرینہ کو چپ چاپ سامان اٹھاتے رکھتے دیکھتی تھی تو اس کا دل دکھتا تھا۔ وہ اپنی ماں کو آخری عمر میں اس گھر سے بے دخل کرنے کا سبب بن رہی تھی جہاں وہ بیاہ کر آئیں تھیں۔ مگر وہ مجبور تھی۔ اسے اپنے شوہر اور آبائی جائیداد میں سے کسی ایک چیز کو چننا تھا۔ اس نے شوہر کو چن لیا تھا۔
جس راہ حویلی گئی، اسی راہ فارم ہاؤس اور زرعی زمین بھی گئے۔ کون انہیں سنبھالتا اور ان کی آمدنی کا حساب رکھتا؟ قاسم اور شجاع باہر سٹیل تھے۔ اسد کا میڈیکل میں آخری سال تھا۔ قاسم اس کا جرمنی میں ایڈمشن کروانے کی کوشش کررہا تھا۔ اگر اسد چلا جاتا تو لامحالہ زرینہ بھی بیٹوں کے پاس چلی جاتیں۔ اسمارہ مرتضیٰ کو لے کر امریکہ جارہی تھی۔ اسمارہ کو مرتضیٰ کی بات یاد آئی۔ ”لوگ چلے جاتے ہیں، چیزیں رہ جاتی ہیں۔”
اسلام آباد آکر اس نے اس انگریزی کیوریٹر کو فون کیا جس نے اس کی اینٹیک کلیکشن میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ اس سے ملاقات میں اس نے اسے محی الدین کی کلیکشن کی تصویریں دکھائیں۔ یہی تصویریں اس نے مختلف میوزیم اور آرٹ گیلریز کو بھی بھیجیں۔ اسلام آباد میں موجود ہر ملک کے سفارت خانے میں اس نے یہ تصویریں اور ان کے ساتھ منسلک تاریخ بھیجی۔ محی الدین کا وہ خزانہ جو انہوں نے ساری زندگی ذرہ ذرہ کرکے اکٹھا کیا تھا، ایک ہی ہلے میں بک گیا۔ ایک ایک پیٹنگ، ایک ایک گلدان، ایک ایک نوادر۔ واقعی اس کی تصویر اس کے آنکھ مچولی کا عجیب کھیل کھیلتی تھی۔ دے کر چھین لینے کا کھیل۔
٭…٭…٭
جانے سے پہلے شجاع اس کے پاس اسلام آباد آیا۔ اس سے پہلے اس نے مرتضیٰ کو ایک سال پہلے دیکھا تھا۔ اب اسے دیکھ کر اسے تکلیف پہنچی۔ رات کو مرتضیٰ سوگیا تو دونوں بہن بھائی لاؤنج میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ قاسم نے مرتضیٰ کے امریکہ میں علاج کے تمام انتظامات کردیئے تھے۔ ڈونر کو اس کی ٹکٹ بھیجی جاچکی تھی۔ ہسپتال میں کمرہ بک ہوچکا تھا۔ آپریشن کی تاریخ وہاں جاکر ابتدائی علاج کے بعد فکس ہونی تھی۔ یہ ساری تفصیلات اسمارہ کیساتھ ڈسکس کرنے کے بعد شجاع نے ایک لفافہ نکال کر اسے دیا۔
”یہ کیا ہے؟” اسمارہ نے لفافہ پکڑتے ہوئے پوچھا۔
”حویلی سامان کے ساتھ بیچی ہے، باقی جائیداد بھی بکی ہے۔ بہت سی رقم ابو کے اینٹیک بیچ کر بھی اکٹھی ہوئی ہے مگر پھر بھی چالیس کروڑ نہیں بن پائے۔ یہ ہم تینوں بھائیوں کی طرف سے اپنے حصے میں سے تمہارے لیے رقم ہے۔ اسے تحفہ سمجھویا فرض، احسان کبھی مت سمجھنا۔”
لفافہ ہاتھ میں لیے اسمارہ کی آنکھوں میں آنسو امنڈنے لگے۔ شجاع نے ہلکا سا دھموکا اس کے کندھے پر جڑا۔ ”خبردار جو روئی!” اس نے ہنستے ہوئے دھمکایا۔ روتے روتے اسمارہ ہنس پڑی۔ اپنے بھائی کے سینے سے لگتے ہوئے اس نے ایک سیلاب کا سا تشکر اپنے باپ کے لیے دل میں امنڈتا محسوس کیا جو وراثت میں اس کے لیے بہت سے سائبان چھوڑ گیا تھا۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Read Next

تہذیب کے دائرے — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!