غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

۱۶۔ سنگ برشیشہ زدن

اسمارہ یونیورسٹی میں پڑھانے لگی۔ اس کا اسلام آباد میں دل لگ گیا تھا۔ مرتضیٰ کو گھومنے پھرنے، ملنے ملانے کا شوق تھا۔ آئے دن وہ گھر میں کسی نہ کسی کو دعوت پر بلائے رکھتا۔ اسمارہ کو حویلی سنبھالنے کا تجربہ تھا۔ اتنا چھوٹا سا گھر سنبھالنا اور چھوٹی موٹی دعوتیں کرنا اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ لیکن مرتضیٰ اس سے بہت خوش ہوتا تھا۔ اسے اپنے بنے گھر میں لوگوں کو بلانے میں مزا آتا تھا۔ چھٹیوں میں اسمارہ لاہور گئی تو محی الدین کی کو لیکشن میں سے چند اینٹیک ڈیکوریشن پیسز اور پینٹنگز اٹھا لائی۔ اس کا ڈرائنگ روم سج گیا۔ مرتضیٰ نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہ کی۔ بس اس کا دل رکھنے کو چند لفظ تعریف کے کہے۔ اسمارہ کو بدر یاد آیا جو بچپن میں صادقین کی پینٹنگ دیکھ کر ڈر گیا تھا۔ یہ مرتضیٰ صاحب بھی بدر کا بچپن تھے۔ مرتضیٰ کے ساتھ رہتے اسے ہر دوسری بات پر بدر کی کوئی بات یاد آتی تھی۔ لیکن وہ یادیں اب تکلیف دہ نہیں ہی تھیں یہ خیال اسے چبھتے ضرور تھے مگر ان کی چبھن میں پترکی سی کاٹ نہیں رہی تھی۔ آج وہ اس قابل ہوگئی تھی کہ سر جھٹک کر ان یادوں سے پیچھا چھڑا لیتی۔
ایسی ہی ایک دعوت میں ایک انگریز اس کی پینٹنگز اور نوادرات پر فدا ہوگیا۔ اسمارہ آرٹ کا قدر دان پاکر اتنی خوش ہوئی کہ اسے ایک ایک چیز کی تاریخ بتاتی رہی۔ جاتے ہوئے اس انگریز نے دعوت کے لیے اسمارہ کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی آفر کی کہ وہ امریکہ کے ایک میوزیم کا کیوریٹر ہے اور اگر اسمارہ ان چیزوں کو بیچنا چاہے تو وہ ان کی بہت اچھی قیمت دلوا سکتا ہے۔ اسمارہ نے شائستگی سے اسے منع کردیا۔ بعد میں اس نے یہی بات مرتضیٰ کو بتائی تو وہ ہنس پڑا۔
”بیچ دے!” اس نے اشتہار کے سٹائل میں اسمارہ سے کہا۔
”کیا؟” اسمارہ کو یقین نہ آیا۔
فوراً مرتضی کو احساس ہوا کہ وہ انجانے میں کیا کہہ بیٹھا ہے۔
”نہیں نہیں میرا مطلب ہے بالکل نہ بیچو۔” اس نے گھبرا کر بات پلٹنے کی کوشش کی ۔”اس کی جرأت کیسے ہوئی ان انمول چیزوں کی قیمت لگانے کی؟”
لیکن اسمارہ کو اس کا مشہور زمانہ غصہ چڑھ چکا تھا۔ ”تم یہ کہہ بھی کیسے سکتے ہو کہ میں اپنے باپ کی ان چیزوں کو بیچ دوں؟ چند ٹکے کی خاطر ان کے دل کا سودا کرلوں؟” اس نے غصے سے کہا۔
”میں بالکل ایسا کچھ نہیں کہہ رہا۔” مرتضیٰ نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”تم نے کہا تھا۔ اب مُکرو مت!” وہ چلائی ۔”یہی تو تم چاہتے ہو۔ دل کی بات زبان پر آ ہی جاتی ہے۔” وہ بے حد غصے میں تھی۔
وہ بھی چڑ گیا۔ ”کیا ہوگیا ہے یار؟ اتنا غصہ کیوں کررہی ہو؟ مذاق کی بات تھی۔ اتنا سیریس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟”
”میرے لیے یہ مذاق نہیں ہے مرتضیٰ۔ یہ چیزیں نہیں ہیں میرے باپ دادا کی نشانیاں ہیں۔ میں مربھی رہی ہوں گی تو ان چیزوں کو نہیں بیچوں گی۔” اس نے غصے سے کہا۔
”مت بیچنا۔” مرتضیٰ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ”لوگ چلے جاتے ہیں، بے جان چیزیں رہ جاتی ہیں۔ تم انہیں سینے سے لگا کر رکھو۔ تمہیں کچھ ہوا تو میں خود کو بیچ دوں گا۔ ان چیزوں کو بیچنے کی نوبت نہیں آنے دوں گا۔”
اسمارہ کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ خاموش ہوکر وہ اپنے جوتوں کو گھورنے لگی۔ مرتضیٰ کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔
”اچھا اب ایسے مت بیٹھو۔ Cheer up” اس نے اسمارہ کا گھٹا چھوکر کہا۔
اسمارہ نے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا اور اٹھ کر چلا گیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا تو ایک ہی سوال اس کی آنکھوں میں رقم پاتا۔ ”کون ہو تم؟”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شادی کی پہلی سالگرہ انہوں نے لاہور میں منائی۔ مرتضیٰ نے چھوٹی سی دعوت ارینج کی اور گھر والوں اور دوستوں کو بلایا۔ اسمارہ بہت دنوں بعد بی بی جان سے ملی تھی۔ انہیں دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ وہ بہت ضعیف ہوچکی تھیں۔ اسمارہ ان کا ہاتھ تھامے ان کے پاس بیٹھی رہی۔
”آپ کتنی کمزور ہوگئی ہیں بی بی جان۔ آپ اپنا خیال نہیں رکھتیں؟” اسمارہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
”بڑھاپا ہے بیٹا۔ زندگی ہے عناصر میں اعتدال کا نام۔ اب یہ اعتدال بگڑ گیا ہے۔ دیکھ کب بلاوا آتا ہے۔” وہ مسکرائیں۔
”ایسی باتیں نہ کریں۔” اسمارہ نے احتجاج کیا۔
”بس صرف ایک خواہش ہے کہ تمہاری گود میں بچہ دیکھ لوں۔ پھر چلی جاؤں اپنے محی الدین کے پاس۔”
اسمارہ ان کی طرف سے ہزارو سو سے لیے اسلام آباد واپس آئی۔ آنے کے دوسرے ہفتے اسے بی بی جان کے انتقال کی اطلاع ملی۔ زندگی کا ایک اور باب بند ہوگیا۔
٭…٭…٭
مرتضیٰ نے اپنی بہن کی شادی دھوم دھام سے کی۔ اس کے ابا ریٹائر ہوچکے تھے تمام انتظام دونوں بھائیوں نے کیا۔ اسمارہ کے سسرال سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ مگر دبی زبان سے تقریباً سب ہی نے اس سے بچے کی بابت سوال کیا۔ شادی کو تین سال ہونے والے تھے اور اس کی گود ابھی تک سونی تھی۔
مرتضیٰ نے اسلام آباد واپس آکر محسوس کیا کہ وہ بہت چپ چپ تھی۔ کچھ دن اس نے انتظار کیا کہ وہ خود ہی کچھ بتائے گی مگر اس کی خاموشی نہ ٹوٹی۔
ایک رات وہ اسے ڈنر پر لے گیا۔
”لاہور میں کوئی بات ہوئی تھی کیا ؟” اس نے کھانا کھاتے ہوئے پوچھا۔
اسمارہ خاموش رہی۔ جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ چند سال میں وہ اسے اندر باہر سے جاننے لگاتھا۔
”مرتضیٰ ہماری شادی کو تین سال ہونے والے ہیں اور ابھی تک ہمارا بچہ نہیں ہوا۔” اس نے کہنا شروع کیا۔
”تو؟” مرتضیٰ نے لاپروائی سے پوچھا۔
”تو یہ کہ سب لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں شاید ہم خود ہی بچہ نہیں چاہتے۔ وہ دلگرفتہ ہورہی تھی۔
”تم لوگوں کے لیے بچے پیدا کرنا چاہتی ہو؟” مرتضیٰ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
اسمارہ اس کی شکل دیکھنے لگی ”Offcourse not۔ میں اپنی فیملی بنانا چاہتی ہوں اپنے لیے، تمہارے لیے۔” اس نے کہا۔
”میری فیملی تم ہو۔ مجھے بچے ہونے پانہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
اسمارہ اسی طرف دلگرفتگی کے عالم میں بیٹھی رہی۔
”اگر یہ تمہارے لیے اتناimportant issueہے تو ہم دونوں اپنا چیک اپ کرا لیتے ہیں۔ اگر سب ٹھیک ہوا تو well and good۔ نہ ہوا تو زندگی ایسے بھی بڑی اچھی گزر رہی ہے۔” مرتضیٰ نے رسان سے کہا۔
اسمارہ مسکرائی۔ کس آسانی سے وہ اس کی پریشانی کو چٹکیوں میں ختم کردیتا تھا۔ مرتضیٰ جیسا ہمدرد اور مہربان کون ہوسکتا تھا۔ اسمارہ کا دل چاہتا تھا اس کا ایک بیٹا ہو جو بالکل مرتضیٰ جیسا ہو اور جسے وہ دنیا کے سامنے بڑے فخر سے پیش کرسکے کہ ایسا بے مثال انسان اس کی گود میں پلا ہے اور یہی بات اس نے مرتضیٰ سے بھی کہہ دی۔ وہ ہنس پڑا۔
”بیٹا ہو یا بیٹی ایک ہی بات ہے۔ ویسے اگر میرا بیٹا ہوا تو میں اس کا نام شیر دل رکھوں گا۔”
اسمارہ کے ہاتھ سے کانٹا چھوٹ کر فرش پر گر پڑا۔ وہ دم بخود مرتضیٰ کو دیکھنے لگی۔
”کیا نام رکھو گے؟” اس نے بے یقینی سے پوچھا۔
”شیر دل” اس نے نیپکن سے ہونٹوں کے کنارے چھوتے ہوئے اپنی دلہن میں کہا۔
”اور اسے پیار سے کیا کہا کرو گے؟” اسمارہ نے دھڑ دھڑاح دل کی آواز سنتے ہوئے کہا۔
”پیار سے؟” وہ ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔ ”شیرو۔ شیرو کہا کروں گا میں اس کو پیار سے۔” اسمارہ کے ہاتھ بے جان ہوکر اس کی گود میں گر گئے۔ وہ یک ٹک مرتضیٰ کو دیکھنے لگی۔
”کیا ہوا؟” مرتضیٰ کی نظر اس پر پڑی تو وہ ٹھٹک گیا۔
اسمارہ نے آہستگی سے نفی میں سرہلایا اور اپنا چمچہ اٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ کچھ نہ کھا سکی۔ کون تھا یہ شخص؟ مرتضیٰ یابدرالدجا؟ اور اسے پاگل کرنے کیوں آگیا تھا اس کی زندگی میں؟
٭…٭…٭
مرتضیٰ بہت کم بیمار پڑتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اسے فلو ہوجاتا اور اس فلو کو وہ بہت انجوائے کیا کرتا تھا۔ اس لیے کہ یہی وہ وقت ہوتا تھا کہ اسمارہ اس کے لاڈ اٹھاتی تھی۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتی، یونیورسٹی سے چھٹی کر لیتی۔ اس کے سوپ، گرم پانی کی بوتل، وٹامن سی کی گولیاں ہر چیز حاضر رکھتی۔ ہر طرح سے اس کی خدمت خاطر کرتی۔ وہ اس وقت کو بہت انجوائے کرتا تھا اور اپنے گھر والوں اور دوستوں میں اس بات کا بہت تذکرہ کیا کرتا تھا کہ اس کی لائق فائق بیوی اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا بنا کر کھلاتی ہے۔ عام طور پر وہ فلو سے جلد صحت یاب ہوجاتا تھا مگر اس مرتبہ ایسا فلو ہوا کہ زکام تو ٹھیک ہوگیا۔ مگر طبیعت بحال نہ ہوئی۔ اس دن بھی اس نے اسماہ کو آفس سے فون کیا۔
”گھر جارہا ہوں میں۔” اس نے بتایا۔
”خیریت؟” اسمارہ اس وقت یونیورسٹی میں تھی۔
”ہاں بس کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ بخار سا لگ رہا ہے۔” اس نے بتایا۔
”سردی میں تو بہت ہے۔” اسمارہ نے کہا۔ ”تم جاکر کمبل میں گھس جاؤ۔ میں کک کو فون کر دیتی ہوں تمہارے لیے سوپ بنا دے۔”
”تم کب تک آجاؤ گی؟” مرتضیٰ نے پوچھا۔
”مجھے شام ہوجائے گی۔ آج یونیورسٹی میں فنکشن ہے۔ لیکن میں کوشش کروں گی جلدی آجاؤں۔” اس نے وعدہ کیا۔
”اوکے پھر ملتے ہیں بریک کے بعد!” مرتضی نے ہنس کرکہا۔
اسمارہ نے فون بند کرکے خانساماں کو فون کیا اور اسے مرتضیٰ کے لیے سوپ بنانے کو کہا۔ ہزار کوشش کے باوجود وہ یونیورسٹی سے جلدی نہ نکل سکی۔ گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہوہی گیا۔ موسم کے تیور بھی خراب تھے۔ گہرے بادل تلے کھڑے تھے۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے بجلی کڑکی بارش شروع ہوگئی۔
وہ بیڈ روم میں داخل ہوئی تو مرتضیٰ اندھیرے کمرے میں آنکھوں پر بازو رکھے کمبل میں لیٹا تھا۔ اسمارہ کی آہٹ سن کر اس نے بازو ہٹایا۔ ”ہیلو” اس نے اسمارہ کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ہیلو!” اسمارہ نے لائٹ جلا دی۔ ”ایسے اندھیرے میں کیوں لیٹے ہو؟ بخار زیادہ ہے کیا؟”
”نہیں بخار تو اترگیا ہے۔” مرتضیٰ نے کہا۔ اسمارہ کو وہ کچھ الجھا ہوا محسوس ہوا مگر اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا۔ بخار میں ایسا ہی خاموش ہوجاتا تھا وہ۔
”چلو یہ تو اچھا ہوا کہ بخار اتر گیا۔” اسمارہ نے شال اتارتے ہوئے کہا۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی تھی۔ اپنے جوتے اتار کر اس قالین کے سر پر لڑھکا دیئے تھے۔
مرتضیٰ خاموشی سے اسے دیکھے گا۔
”کیا ہوا جیسی اتنے چپ چپ کیوں ہو؟” اسمارہ نے مثال تہہ کرتے ہوئے پیار سے پوچھا۔
”میں نے بڑا عجیب خواب دیکھا اسمارہ!” مرتضیٰ نے خاموش آواز میں کہا۔
اسمارہ کے شال نہ کرتے ہاتھ رک گئے۔ اس کے دل پر جیسے کسی نہ ہتھوڑا مارا۔
”کیا خواب؟” اس نے شدید خوف کے عالم میں سرگوشی کی۔
مرتضیٰ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر بولا تو اس کی آواز میں سنجیدگی تھی۔
”میں نے دیکھا کہ میرے سر میں گولی لگ گئی ہے۔”
کائنات کا سانس رک گیا۔ باہر بجلی کڑکی اور اس کی لمحے بھر کی روشن میں اسمارہ نے اپنے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر کمرے میں بکھرتے دیکھا۔ پھر یہ ٹکڑے اکٹھے ہوئے اور ایک آواز بن گئے، ایک یاد بن گئے اور ایک آواز ہوکر اس کے سر پر برسنے لگے۔ خواب کی آواز۔ چلنے کی آواز، وہ آخری نظر، وہ بہتا ہوا خون۔
”کون ہوتم؟” اس نے حلق کے بل چلا کر کہا۔
”اسمارہ!” مرتضیٰ نے حیران ہوکر اسے دیکھا۔ وہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس کا چہرہ اور ہونٹ سفید پڑ گئے تھے۔
”کون ہوتم؟” وہ پھر سے چلائی۔ ”کیوں آگئے ہو مجھے دوبارہ مار ڈالنے کے لیے؟ کیوں؟”
مرتضیٰ تیزی سے بستر سے نیچے اترا۔
”Relax Asmara it’s just a dream!” اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر گویا اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”نہیں… نہیں…” وہ ہسٹر پائی انداز میں نفی میں سر ہلاتے ہوئے چیخی۔” Its not a dream Its a curse۔”
”اسمارہ” مرتضیٰ اسے تھامنے کے لیے بڑھا۔
”کس بات کا بدلہ لے رہے ہو تم مجھ سے؟ ایک بار سے دل نہیں بھرا؟ اب پھر سے…؟ اب پھر سے…؟” وہ الٹے قدموں پیچھے ٹہنے لگی۔
”اسمارہ!” اب وہ سچ مچ پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسمارہ کو تھامنا چاہا، مگر وہ بجلی کی سی تیزی سے مڑی اور بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ مرتضیٰ ہکا بکا وہاں کھڑا اس اچانک روپے کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اس نے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔
”اسمارہ!” وہ چلایا۔ اوہ خدایا وہ اس طوفان میں کہا جارہی تھی؟ وہ تیزی سے اس کے پیچھے جانے کے لیے لپکا۔
جس وقت اسمارہ اندھوں کی طرح گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکلی، بارش موسلادھار برس رہی تھی۔ بجلی جانے کی وجہ سے گھپ اندھیرا تھا۔ اس نے بھاگ کر پورچ کر اس کیا اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔ سڑک پر اندھوں کی طرح بھاگتے ہوئے نہ اسے بارش کا خیال آیا نہ سردی کا، نہ اس بات کا کہ وہ ننگے پاؤں ہے۔ اس کے دل و دماغ میں آوازیں گونج رہی تھیں ”میں نے خواب دیکھا کہ مجھے گولی لگ گئی ہے۔ اٹھنا مت اسمارہ اٹھنا مت، میں بوجہ بدکاری اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں، بہت بہادر ہے میری بیٹی روتی نہیں۔”
اور بچپن کے بعد زندگی میں پہلی مرتبہ اسمارہ کے آنسو بہنے لگے۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ وہ اندھیری سڑک پر پاگلوں کی طرح بھاگ رہی تھی اور بارش اس کے آنسو بہائے لیے جارہی تھی۔ اس نے ساری زندگیunbreakable glass کی طرح گزاری تھی۔ بڑی سے بڑی چوٹ سہہ لی تھی۔ آج اس شیشے پر ایسی چوٹ لگی تھی کہ وہ چکنا چور ہوگیا تھا۔ آج اس کے دل میں گڑی ہر نیزے کی انی نکل گئی تھی اور زخم کھل گئے تھے۔ وہ سمجھتی تھی اس کے زخم مند مل ہوگئے ہیں۔ غلط سمجھتی تھی۔ زخم منہ مل نہیں ہوئے تھے۔ ان پر اس نے صبر کی، ہمت کی پٹی باندھ دی تھی۔ آج وہ پٹی اتر گئی تھی تو زخموں سے پھر سے خون بہنے لگا تھا۔ آج ہر صدمہ اس پر پوری قوت سے حملہ آور ہوا تھا۔ آج ہی بدر قتل ہوا تھا، آج ہی شہیر نے اس پربدکاری کا الزام لگا کر طلاق دی تھی، آج ہی محی الدین نے جان ہاری تھی، آج بدر اس کی زندگی میں دوبارہ آیا تھا اور آج ہی اس نے اسے اپنے قتل کا مژدہ دوبارہ سنایا تھا۔ آج ماتم کی گھڑی تھی، آج فریاد کا دن تھا، آج دل میں گڑا ہر کانچ نکل رہاتھا، آج کلوژر ہورہا تھا۔
٭…٭…٭
۱۷۔ ابنِ مریم ہوا کرے کوئی

مرتضیٰ نے اسمارہ کا سوئیوں اور پٹیوں میں جکڑا ہاتھ تھام لیا۔ اسے اسمارہ کے ہاتھ بہت پسند تھے اور وہ یہ بات جانتی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں کو سجائے رکھتی تھی۔ نیل پالش لگائے رکھتی، مہندی لگاتی، انگوٹھیاں پہنتی۔ آج یہ ہاتھ سفید تھے اور ناخن نیلے پڑچکے تھے۔ مرتضیٰ نے جھک کر اس کا ہاتھ چوم لیا۔ اس کے دل کو کچھ ہوا۔ اگر وہ جانتا کہ وہ اس کی بات کا اتنا اثر لے گی تو کبھی اپنا خواب نہ سناتا۔
اس رات وہ اسمارہ کے پیچھے لپکا تھا۔ اسے پورچ میں نہ پا کر وہ تیزی سے واپس آیا اوربجلی کی سی تیزی سے الٹے سیدھے جوتے پہنے، جیکٹ ہاتھ میں پکڑی اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر بھاگا۔ لیکن اسی میں دیر ہوگئی۔ جب تک وہ گیٹ کھول کر گاڑی سڑک پر لایا، وہ کہیں گم ہوچکی تھی۔ ساری رات وہ سڑکوں پر اسے ڈھونڈتا پھرا۔ ساری رات بارش ہوتی رہی۔ وہ برستے پانی میں جگہ جگہ گاڑی روکتا، اسے آوازیں دینا۔ مگر وہ کہیں نہ ملی۔ اس نے دوستوں کے گھر فون کی۔ اس کو لیگز سے پوچھا۔ شاید وہ کہیں ان کے گھر چلی گئی ہو مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ وہ پاگلوں کی طرح گاڑی دوڑاتا اسلام آباد کی لڑکیں ناپتا رہا۔ صبح جس وقت سورج کی پہلی کرنیں نمودار ہورہی تھیں اور بارش ہلکی سی جھڑی کی صورت گررہی تھی، وہ اسے نظر آگئی۔ وہ سڑک سے ہٹ کر درختوں کے جھنڈ میں زمین پر پڑی تھی۔ اس سڑک سے وہ رات کو کئی بار گزرا تھا مگر درختوں میں وہ اسے دیکھ نہ سکا تھا۔ اس نے تیزی سے بریک لگائے اور گاڑی سے اتر کر بھاگتا ہوا اس تک پہنچا۔ وہ گیلی زمین پر اوندھے منہ پڑی تھی اور بارش کا پانی اس کے گرد ایک چھوٹے سے تالاب کی صورت جمع ہوچکا تھا۔ مرتضیٰ اسے سیدھا کیا تو ایک لمحے کو اسے یوں لگا کہ اس میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی اس کا چہر سفید تھا اور ہونٹ نیلے۔ مرتضیٰ نے اس کا سانس چیک کیا۔ موہوم ساسانس آرہا تھا۔ اس نے تیزی سے اسے بازوؤں میں اٹھایا اور گاڑی میں ڈالا۔ ہر سپیڈ لمٹ توڑتے ہوئے جب وہ اسے ہسپتال لارہاتھا تو اسے یقین نہیں تھا کہ وہ بچ جائے گی۔ لیکن فوری ٹریٹمنٹ نے اسے بچالیا۔ اگر اسے تھوڑی سی بھی تاخیر ہوجاتی تو…
اسمارہ کو پورے چوبیس گھنٹے بعد ہوش آیا۔ ایک ہفتہ وہ ICU میں رہی۔ ڈبل نمونیہ نے اسے نچوڑ کر رکھ دیا۔ ایک ہفتہ مزید ہسپتال میں رہنے کے بعد وہ گھر آئی تو زرینہ نے اسے اپنے ساتھ لاہور چلنے کو کہا۔ وہ اس کی بیماری کی اطلاع سن کر اسی دن اسلام آباد آگئیں تھیں جس دن وہ ہسپتال داخل ہوئی تھی۔ زرینہ کی بات سن کر اس کا چہرہ مزید سفید پڑگیا۔ اس نے نظر اٹھا کر پاس بیٹھ مرتضیٰ کو دیکھا۔
”نہیں امی، میں مرتضیٰ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔” اس نے سرگوشی میں کہا۔ زرینہ اور مرتضیٰ دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ زرینہ کے چہرے پر حیرت تھی اور مرتضیٰ کے چہرے پر پچھتاوا۔ اس کو اس حالت تک پہنچانے کا ذمہ دار وہ تھا، نہ وہ اسے اپنا خواب سناتا، نہ وہ ان حالوں کو پہنچتی۔ مرتضیٰ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”مرتضیٰ کیسے تمہارا خیال رکھ پائے گا بیٹا؟ اس کی جاب ہے، کا ہے۔ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔” زرینہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”لیکن میں اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ ہر وقت۔” اسمارہ نے مرتضیٰ کا ہاتھ اپنے کمزور ہاتھ میں بھینچ لیا۔
”آنٹی آپ فکر نہ کریں۔ میں ایک ہفتے کی چھٹی لے لیتا ہوں۔ چند دنوں تک امی بھی آجائیں گی۔ ہم اسمارہ کا خیال رکھیں گے، آپ فکر نہ کریں۔” مرتضیٰ نے تسلی دی۔ اسمارہ کے چہرے پر مرتضیٰ کے چھٹی لینے کی بات سن کر سکون کا واضح تاثر نمودار ہوا۔
”تم میرے پاس رہنا مرتضیٰ۔ کہیں مت جانا۔” اس کے لہجے میں درد تھا، التجا تھی، وہ اس کا ہاتھ تھپکتا رہا۔
زرینہ لاہور چلی گئیں۔ اگلاپورا ہفتہ مرتضیٰ نے اسمارہ کی پٹی سے لگ کر گزارا۔ اس ایک ہفتے میں وہ خوش رہی، اطمینان کی نیند سوتی تھی اور آنکھ کھلتے ہی جب وہ اسے نظر آتا تھا تو پرسکون ہوجاتی تھی۔ اس ایک ہفتے میں اس نے تیزی سے ریکور کیا۔ کھانے پینے لگی، چلنا پھرنا بھی شروع کردیا، وزن بھی بہتر ہوگیا، چہرے پر رنگ بھی آگیا۔ لیکن یہ ساری چیزیں تب تیزی سے ریورس ہونے لگیں جب مرتضیٰ آفس جانا شروع کردیا۔ اس کی ساس اس کے پاس رہنے آگئیں تھیں۔ ہفتے بعد وہ واپس گئیں تو زرینہ اس کے پاس آگئیں۔ مگر اسمارہ تمام دن خاموش پڑی رہتی۔ فون ہاتھ میں لیے اسے گھورتی رہتی۔ وہ اسمارہ جو کبھی نہیں روتی تھی، اب بیٹھے بیٹھے اس کے آنسو بہنے لگتے۔ مرتضیٰ اسے یوں گھل گھل کر ختم ہوئے دیکھ رہا تھا اور بے بس تھا۔
ایک رات اس نے اسمارہ سے بات کی۔ ”کیا حال کر لیا ہے تم نے اپنا۔ آج سارا دن روتی رہی ہو؟” اس کی سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچا۔
اسمارہ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔
”تم تو کہتی تھیں تم روتی نہیں۔ میں تو بڑا خوش تھا اس بات سے۔ اب اتنے سارے آنسو کیسے پونچھوں؟” مرتضیٰ نے اسے ہنسانے کی کوشش کی۔
وہ اب بھی خاموش رہی۔ وہ کچھ دیر اس کا چہر دیکھتا رہا۔ پھر اس کا تھام لیا۔
”میں جانتا ہوں تم اس خواب سے ڈر گئی ہو۔ لیکن میری جمیلہ میں دنیا کو چھوڑ کے گھر نہیں بیٹھ سکتا۔ مجھے آفس بھی جانا ہے، بل بھی جمع کرانے ہیں، بازار بھی جانا ہے، سوشل لائف بھی سنبھالنی ہے…”
”میں کرلوں گی یہ سب کام! ”اسمارہ نے بے تابی سے اس کی بات کاٹی ۔”میں یہ سب کام کرسکتی ہوں۔” مرتضیٰ نے گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے تم یہ سب کام کرلوگی اور میں کیا کروں گا؟ گھر میں بند ہوکر بیٹھا رہوں گا؟” اس نے نرمی سے پوچھا۔
اسمارہ خاموش ہوگئی۔ نظریں جھکا کر گود میں رکھے تکیے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ مرتضیٰ نے اس تکیے پر اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرتے دیکھے۔ وہ اپنی سسکیوں کو گلے میں گھونٹنے کی کوشش کررہی تھی۔ مرتضیٰ نے نرمی سے اسے بازوؤں میں لے لیا۔ وہ اسے بہلانے لگا۔ ”میں تم سے وعدہ کرتا ہوں اپنا خیال رکھوں گا۔ ضروری کام کے علاوہ کہیں نہیں جاؤں گا۔ اور دیکھو میرا تو کوئی دشمن بھی نہیں۔ فکر نہ کرو میں کہیں جانے والا نہیں۔ ابھی تو میں نے بہت کام کرنے ہیں۔ تمہیں ایک اچھا سا گھر بنا کر دینا ہے۔ ارے ابھی تو شیر دل کو بھی آنا ہے دنیا میں۔ میں اپنے شیرو کو کندھوں پر بٹھا کر سکول لے جایا کروں گا۔ پھر تم بے شک کر لینا باہر کے سارے کام۔ اپنے شیرو کو تو میں پالوں گا۔” اسمارہ روتے روتے ہنس پڑی ۔”تم بگاڑ دو گے اسے۔”
”ارے خوامخواہ۔ بس میں نے کہہ دیا۔ میں بہت پیار سے پالوںگا شیر دل کو۔ تم بیچ میں مت آنا۔”
اس کی باتوں سے اسمارہ بہل گئی۔ اس کے وعدوں سے سنبھل گئی۔ وقت ویسے بھی بڑا طاقتور ہے، جتنا بے رحم، اتنا ہی رحم دل۔ گزر جاتا ہے اور اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کرے جاتا ہے۔ خوش بھی پریشانی بھی۔ اسمارہ وقت کے ساتھ ساتھ سنبھلنے لگی۔ اس کی صحت بہتر ہوگئی۔ لمبی چھٹی کے بعد اس نے یونیورسٹی جانا شروع کردیا۔ مرتضیٰ کے لیے اب بھی اس کی فکر کم نہیں ہوئی تھی۔ دن میں کئی مرتبہ وہ اسے فون کرتی۔ اسے گھر آنے میں دیر ہوجاتی تو گیٹ پر اس کے کام چھوڑ کر اس کے جاتی اور ساتھ جاتی تو بس اس کے آس پاس رہتی۔ آہستہ آہستہ اسے سکون آنے لگا۔ ان دونوں کی زندگی میں اپنے پرانے رنگ میں گزرنے لگی تو اسمارہ کو پرانی خواہشیں اور وعدے بھی یاد آگئے۔
”تم نے کہا تھا ہم چیک اپ کے لیے جائیں گے۔” ایک دن اس نے مرتضیٰ کو یاد کرایا۔
”کس لیے؟” وہ لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔
”بے بی کے لیے۔” اسمارہ نے کہا۔
”ارے میرے شیرو کے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔” وہ ہنس کر بولا مگر ہنوز لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے کام کرتا رہا۔
”اچھا تو پھر کب جائیں گے؟” اسمارہ نے اصرار کیا۔
”یار ایسی جلدی بھی کیا ہے؟ چلے جائیں گے پہلے تمہاری طبیعت اچھی طرح سنبھل لے” اس نے لاپروائی سے کہا۔
”میری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ چھے مہینے گزر گئے ہیں۔ اب تو میں بالکل ٹھیک ہوں” اسمارہ نے اصرار سے کہا۔
”لیکن میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے” مرتضیٰ نے کہا۔
”بہانے مت بناؤ مرتضیٰ۔ مجھے پتا ہے تم میری وجہ سے کہہ رہے ہو لیکن ابھی ہم کون سا بچہ پیدا کررہے ہیں؟ ابھی تو صرف چیک اپ ہوگا۔” وہ اٹھ کر اس کے پاس آگئی۔
”یار ایک تو تمہاری سوئی جس بات پر اٹک جائے نا، پھر اس کو ہلانا مشکل ہوجاتا ہے۔” مرتضیٰ نے ہار مان کر کہا۔
وہ ہنس پڑی ”یہ ابو کہا کرتے تھے میرے بارے میں۔ اچھا تو پھر ہم چل رہے ہیں نا؟”
”ہاں لیکن اگلے مہینے۔ پہلے تم کھاؤں پپو، مجھے جان بنا کر دکھاؤ۔ پھر میں تمہیں اس طرف آنے دوں گا۔”
ایک مہینہ اسمارہ نے دن گن گن کر گزارا۔ وہ شاپنگ پر جاتی تو سب سے زیادہ وقت بچوں کی چیزوں کو دیکھتے گزارتی۔ جہاں کوئی ننھے کپڑے جوتے دیکھتی اسے ایک ہی خیال آتا ”کتنا اچھا لگے گا یہ شیر دل پر۔” پھر وہ اپنے اس خیال پر ہنس پڑی۔ ہر مرتبہ وہ کچھ نہ کچھ خرید لیتی۔ یہ اس کا فیورٹ پاس ٹائم بن چکا تھا۔ مرتضیٰ گھر آتا تو انتہائی شوق سے اسے اپنی خریداری دکھاتی۔ وہ دیکھ کر ہنستا۔ کبھی کبھی سنجیدہ ہوجاتا۔
”اور اگرہم ماں باپ نہ بن سکے؟ ہمارے گھر شیر دل نہ آیا تو؟” ایک دن اس نے اسمارہ سے پوچھا۔ ”مجھے اللہ سے اچھی امید ہے۔” اسمارہ نے یقین سے کہا۔
مرتضیٰ اس کے ساتھ کپڑوں، کھلونوں کو الماری میں رکھتا اس کی پلاننگ سنتا رہتا۔ کچھ عرصے سے اس نے شام کو باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا۔ آفس سے آکر گھر ہی رہتا۔ کچھ عرصہ تو اسمارہ سمجھتی رہی کہ وہ اس کی تسلی کے لیے اس کے پاس رہتا ہے مگر اس خوف سے تو وہ باہر نکل آئی تھی۔ پھر اس نے نوٹ کیا کہ وہ تھکا تھکا سا لگنے لگا تھا۔ ایک دن اس نے اس سے پوچھ ہی لیا۔
”ہاں کچھ انرجی لو محسوس ہورہی ہے مجھے۔ بوڑھا ہورہا ہوں شاید۔” اس نے کندھے اچکا کرکہا۔
”تم ابھی صرف بتیس سال کے ہو۔” اسمارہ نے یاد دلایا۔
”ہاں پر آج میں نے اپنے سر میں ایک سفید بال دیکھا” اس نے بڑے دکھی دل سے کہا۔
”میرے سر میں دو ہیں۔” اسمارہ نے لاپروائی سے بتایا۔
”خوش ہوئی یہ سُن کر۔ یعنی تم مجھ سے پہلے بوڑھی ہورہی ہو۔” وہ ہنس کر بولا۔
وہ جو بھی کہتا، اسمارہ کو خیال آتا تھا کہ وہ اس سے اپنے نخرے اٹھواتی رہی ہے اور اس کی طرف سے غافل ہوگئی ہے۔ اس نے مرتضیٰ کے لیے کھانا اپنے ہاتھ سے بنانا شروع کردیا۔ اس کو آفس کے لیے لنچ بھی گھر سے دینے لگی۔ رات کو اصرار کرکے اس کے لیے کافی کی جگہ دودھ لانے لگی۔ ہر کھانے کے ساتھ پھل خود کاٹ کر اس کے آگے رکھتی اور اصرار سے کھلائی۔ شاید لاشعوری طور پر وہ اس پریشانی کا مدادا کرنا چاہتی تھی جو اس کی وجہ سے مرتضیٰ کو اٹھانی پڑی تھی۔
٭…٭…٭
ہاسپٹل کی انتظار گاہ میں بیٹھے اسمارہ کا سارا دھیان ان لوگوں کی طرف تھا جو گود میں نومولود بچے اٹھائے نرسری میں آجارہے تھے۔ اسمارہ نے تصور کی آنکھ سے خود کو ایک گل گوتھنا سا بچہ گود میں اٹھائے نرسری سے باہر نکلتا دیکھا۔ اسے یاد آیا کہ کس طرح وہ کبھی کاٹھ کباڑ سے بھرے کمرے کی کھڑکی میں بیٹھ کر گلی سے گزرتی بارات دیکھا کرتی تھی اور خود کو تصور میں دلہن بنے رخصت ہوتے دیکھتی تھی۔ اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں پکڑ لیا۔ اُس خواب کی تعبیر پانے سے پہلے اسے بھیانک تجربے سے گزرنا پڑا تھا۔ اس کے دل نے بے اختیار دعا کی کہ اِس خواب کی تعبیر کس آزمائش سے مشروط نہ ہو۔
اپنا دھیان بٹانے کے لیے اس نے نرسری سے نگاہ ہٹائی اور دوسری طرف قطار میں بنے کروں کے باہر لگی نیم پلیٹیں پڑھنے لگی۔ تیسری نیم پلیٹ پڑھتے ہوئے وہ ٹھٹھک گئی۔ ڈاکٹر ارشد ملک جنرل فزیشن اینڈ ذیا بیطس سپیشلسٹ۔ ڈاکٹر کی ڈگریاں پڑھتے ہوئے اس نے ساتھ بیٹھے مرتضیٰ کا کندھا ہلایا۔
”مرتضیٰ تمہارے ابا کو شوگر ہے نا؟” اس نے پوچھا۔
وہ اپنے فون پر مسجز دیکھنے میں مصروف تھا۔ نظر اٹھائے بغیر بولا۔ ”ہاں۔”
”کس عمر سے؟” اسمارہ کی آواز میں بے تابی تھی۔
”میرا خیال ہے تیس بتیس سال کی عمر سے۔” اس نے فون سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔”کیوں؟”
”تمہیں نہیں لگتا کہ ہمیں تمہارا چیک اپ بھی کروا لینا چاہیے؟ ”اسمارہ نے سنجیدگی سے کہا ۔”یہ جو تم تھکن اور لو انرجی فیل کررہے ہو کہیں خدانخواستہ اس وجہ سے نہ ہو۔”
”نہیں یار، ایسے ہی پریشان نہ ہوا کرو۔ ذرا سی تھکن ہے، کام کی وجہ سے ہوجاتی ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں۔” اس نے نظریں دوبارہ اپنے فون پر جماتے ہوئے کہا۔
لیکن اسمارہ کی سوئی جس بات پر اٹک جاتی تھی سو اٹک جاتی تھی۔ اس نے اسی وقت اٹھ کر ریسیپشن سے ڈاکٹر ارشد کا ٹائم لیا۔ خوش قسمتی سے ایک گھنٹے بعد کا ٹائم مل گیا۔ اس نے فیس ادا کی اور آکر مرتضیٰ کے پاس بیٹھ گئی۔
”اچھی طرح ٹھونک بجا لینا چاہتی ہو تم آج مجھے کہ ریس کا گھوڑا اور کتنی دیر بھاگ سکتا ہے۔” مرتضیٰ نے ہنس کر تبصرہ کیا۔
”میں صرف اپنی تسلی کرنا چاہتی ہوں۔” اسمارہ نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ مسکرا کر فون کی طرف متوجہ ہوگیا۔
فرٹیلٹی کلینک میں ڈاکٹر نے چند ٹیسٹ لکھ کر دیئے۔ اس کے بعد وہ ڈاکٹر ارشد کے پاس گئے۔ انہوں نے بھی جنرل چیک اپ کے ساتھ کچھ ٹیسٹ تجویز کیے۔ وہیں ہسپتال کی لیب سے انہوں نے وہ ٹیسٹ کرالیے۔ ایک دو sittingsفرٹیلٹی ڈاکٹر کے ساتھ مزید ہونی تھیں جس کے بعد صورتحال واضح ہوجاتی۔
ہفتے بعد وہ سارے ٹیسٹوں کی رپورٹس لیکر وہ پہلے فرٹیلٹی کلینک گئے۔ ڈاکٹر نے ان کے رزلٹس چیک کیے اور مسکر کر انہیں خوش خبری سنائی کہ دونوں کی رپورٹس ٹھیک آئی ہیں اور انہیں کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ کبھی کبھی دیر ہوجاتی ہے مگر اس کا سبب کوئی خرابی نہیں مشیتِ الٰہی ہے۔ اسمارہ بے حد خوش گوار کلینک سے نکلی۔ اس کی نگاہوں میں وہ تمام خوبصورت بچے گھوم رہے تھے۔ جو وہ تصویروں میں دیکھا کرتی تھی۔ ”اب خوش ہو تم جمیلہ؟” مرتضیٰ نے چھیڑا۔
”ہاں شیرو کے ابا!” اس نے جواباً چھیڑا۔
دس منٹ بعد وہ ڈاکٹر ارشد کے سامنے بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر نے مرتضیٰ کی ٹیسٹ رپورٹس اپنے سامنے میز پر پھیلائیں اور سنجیدگی سے انہیں دیکھتا رہا۔ اسمارہ اور مرتضیٰ آج خوش تھے۔ ڈاکٹر کو رپورٹس پڑھنا چھوڑ کر دبی آواز میں باتیں کرنے لگے۔ رہ رہ کر ان کی ہنسی کی آواز سے فضا اٹھتی تھی۔
”مرتضیٰ صاحب۔” ڈاکٹر کی آواز سے دونوں چونکے۔
”I’m afraid میرے پاس کچھ اچھی خبر نہیں ہے۔” ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا۔ اسمارہ کا دل یکدم پھیلا اور سکڑا۔ تو کیا مرتضیٰ کو شوگر ہوگئی تھی؟ اس کی زندگی میں اچھی خبریں کسی بری خبر کے بغیر کیوں نہیں آتی تھیں؟ اس نے دلگرفتگی سے سوچا۔ پھر اس نے خود ہی دل کو تسلی دی۔ ”کوئی بڑی بات نہیں۔ میڈیکل سائنس بہت ایڈوانس ہوچکی ہے۔ آخر ابا بھی تو اتنے عرصے سے نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ میں مرتضیٰ کی ڈائیٹ اور میڈیسن کا خیال رکھوں گی تو یہ بھی نارمل زندگی گزارے گا انشا اللہ۔” اسمارہ اپنی سوچوں میں گم تھی۔ ڈاکٹر نے ٹیسٹ رپورٹس اٹھائیں اور کچھ ہچکچایا۔
”کیا ہوا ہے مجھے ڈاکٹر صاحب؟” مرتضیٰ نے خاموش آواز میں پوچھا۔
”آپ کو بلڈ کینسر ہے۔ سیکنڈ سٹیج۔” ڈاکٹر نے افسوس سے کہا۔
کلینک کی چھت اسمارہ کے سرپر آگری۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Read Next

تہذیب کے دائرے — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!