غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

۱۵۔ بازگشت

اس نے ایک نگاہ آسمان پر ڈالی اور دوسری اپنے ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنی انگوٹھی پر۔ دونوں میں ستارے چمکتے تھے۔ اس وقت وہ اگر آئینے پر نظر ڈالتی تو دیکھتی کہ ان دونوں سے بڑھ کے ستارے اس کی آنکھوں میں چمک رہے تھے۔ وہ ہیروں سے سجی اپنی انگوٹھی کو دیکھے گئی۔ وہ انگوٹھی جو اس کے حلق میں پھنس گئی تھی اور جسے نکالنے کے لیے مرتضیٰ کو اسے ایک دھموکا جڑنا پڑا تھا۔ وہ بے اختیار ہنس پڑی۔ اگرچہ اس کا حلق اب بھی درد کررہا تھا مگر اسے یہ انوکھا پروپوزل یاد کرکے رہ رہ کے ہنسی آرہی تھی۔ وہ رات کو ڈنر سے واپس آنے کے بعد چھت پر رکھے جھولے پر بیٹھی تھی۔ وہ کچھ دیر اکیلے بیٹھ کر سوچنا چاہتی تھی کہ اپنی زندگی میں پے در پے ہونے والے واقعات کو سامنے رکھ کر جائزہ لے اور وہ کھڑ کیا دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردے جو دردناک یادوں کی اندھیری کھائیوں میں کھلتے تھے۔ زندگی نے اسے کہاں اٹھایا تھا، کہاں گرایا تھا، سب کے بارے میں سوچے، ماضی کو اپنے ذہن و دل سے نکال دے۔ مگر آج ماضی اس کی گرفت میں نہ آتا تھا۔ صرف مستقبل کے حسین منظر اس کے تصور میں جھلملاتے تھے اور وہ ہر عکس کی رنگین تتلی کو اپنی انگلیوں میں پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ نکلتی تھی۔
اس کے فون کو میسج ٹون بجی۔ مرتضیٰ کا میسج تھا۔
”گلے میں درد تو نہیں ہورہا؟” اس نے پوچھا۔
”ہورہا ہے” اس نے جواب میں لکھا۔
”I am sorry” شرمندہ ایموجی آئی۔
”I am not” اس نے شرارتی چہرہ بھیجا۔
”I love you” محبت کا پیغام آیا۔
وہ پھر سے ہنس پڑی۔
زرینہ اوپر آئیں تو اسے اکیلا بیٹھا دیکھ کر اس کے پاس آگئیں۔
”تم کمرے میں نہیں تھیں۔ میں سمجھ گئی کہ یہیں ملو گی۔” انہوں نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔ یہ اسمارہ کی عادت تھی۔ اکثر چھت پر بیٹھی تھی۔ یہیں اپنی پڑھائی کرتی، کام کرتی، اکثر یہیں سوبھی جاتی۔
”آپ کیوں ڈھونڈ رہی تھیں مجھے؟” اسمارہ نے پوچھا۔
”بیٹا مجھے تم سے ضروری بات کرتی تھی” زرینہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ”روحی آپا آئیں تھیں آج۔ واجد بھائی کے بھتیجے کے لیے کہہ رہی تھیں۔”
اسمارہ خاموش رہی۔ اس بھتیجے کا رشتہ کئی مہینوں سے دیا جارہا تھا۔ یہ صاحب سعودی عرب میں ہوتے تھے۔ کافی امیر کبیر تھے اور اسمارہ سے عمر میں کافی بڑے تھے۔ زرینہ کا خیال تھا کہ ایک مطلقہ لڑکی کے لیے ایسے رشتے آتے ہیں اور ان پر غور کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسمارہ اب تک ٹالتی آئی تھی کیونکہ اسے رشتوں، شادی میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔
”امی آپ ان کو انکار کردیجئے” اسمارہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔
”بیٹا اس طرح ایک دم انکار مت کرو۔ کچھ غور کرو۔ حقیقت پسندی سے سوچو۔ ساری عمر تو تم اکیلی نہیں رہ سکتیں۔” زرینہ نے نرمی سے اسے سمجھانا چاہا۔
اسمارہ یکدم ہنس پڑی۔ ”نہیں ساری عمر اکیلی نہیں رہوں گی۔ مجھے کسی نے پروپوز کیا ہے۔” زرینہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کون ہے؟ کیا خاندان ہے؟” انہوں نے پوچھا۔
”خاندان؟ خاندانی لوگوں سے بھر پائی میں۔” وہ بڑبڑائی۔
”خاندان تو دیکھنا پڑتا ہے نا بیٹا!” زرینہ نے کہا۔
”خاندان سے کیا مراد ہے امی آپ کی؟ اونچا نام؟ دولت، جائیداد؟ شرافت، نجابت؟ خاندان تو شہیر کا بھی اونچا تھا، بدر کا بھی اور علیزے کا بھی۔ خاندان اونچا ہو اور لوگ نیچ ہوں تو پھر ایسے خاندان کا کیا کرنا امی؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

زرینہ ٹھنڈا سانس لے کر خاموش ہوگئیں۔ زندگی نے جتنے سبق ان کی بیٹی کو پڑھا دیئے تھے، شاید وہ ان سے زیادہ سمجھدار تھی۔
”مرتضیٰ نام ہے اس کا۔” انہیں خاموش دیکھ کر اسمارہ کہنے لگی۔ ”میں اس کی فیملی سے مل چکی ہوں۔ تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔”
”کیا کرتا ہے؟” زرینہ نے پوچھا۔
”موبائل کمپنی میں جاب کرتا ہے۔” اسمارہ نے بتایا۔
”تمہیں پسند ہے؟” زرینہ نے سو باتوں کی ایک بات پوچھی۔
”جی۔” اسمارہ نے سراٹھا کر انہیں دیکھا۔ ماں نے اس کی آنکھوں کی چمک دیکھی جو کہیں کھو گئی تھی، مسکراہٹ دیکھی جو انہیں مطمئن کرنے کے لیے زبردستی نہیں سجائی گئی تھی۔
”اس سے کہو اپنے ماں باپ کو بھیجے۔” انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
چاند کی چمک بڑھ گئی۔ ستارے پہلے سے بڑھ کر جھلملانے لگے۔
٭…٭…٭
مرتضیٰ نے ماں باپ سے کیا کہا، انہیں کس طرح قائل کیا۔ یہ اس نے اسمارہ کوکبھی نہیں بتایا۔ وہ اس کے گھر آئے تو گھر بار دیکھ کر کچھ خاموش سے ہوگئے۔ انہیں ایسے امیر کبیر خاندان میں رشتہ کرنے میں کچھ تامل تھا۔ ان کا خیال تھا کہ بڑے گھر کی لڑکی ان کے مڈل کلاس خاندان میں گزارا نہ کرسکے گی۔ حویلی کے گول کمرے میں رکھے ہوئے ایک ایک انٹیک کی قیمت ان کی چھے مہینے کی آمدن کے برابر تھی۔ مگر بی بی جان اور زرینہ نے ان کا بہت عزت سے استقبال کیا۔ کچھ دن کے رسمی انتظار کے بعد رشتہ قبول کر لیا گیا۔ اگر اسمارہ کی ایک منگنی اور ایک شادی ختم نہ ہوئی ہوتی تو شاید وہ اس رشتے پر غور نہ کرتیں مگر اب دولت، جائیداد اور خاندان کی اونچ نیچ کو درگزر کردیا گیا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اسمارہ خوش تھی اور لوگ بھی عزت دار، شریف اور تعلیم یافتہ تھے۔ شادی کی تاریخ مہینے بعد کی رکھی گئی۔ بی بی جان تو ایک دن کے نوٹس پر پوتی کی شادی کرسکتی تھیں۔ مگر مرتضیٰ کے گھر والوں کو تیاری کے لیے وقت درکار تھا۔
بی بی جان نے اسمارہ کو بلا کر تمام زیور اس کے حوالے کیے۔
”بی بی جان میں اتنا بھاری زیور کہاں پہنتی پھروں گی؟ ابھی آپ رکھیے اسے۔” اسمارہ نے متامل ہوکر کہا۔
بی بی جان ناراض ہوگئیں۔ ”پہنو گی کیوں نہیں؟ رکھنے کے لیے دیا ہے تمہیں یہ خاندانی زیور؟”
اسمارہ نے اس میں سے چند نسبتاً ہلکے سیٹ منتخب کیے ۔”بس فی الحال تو آپ مجھے یہ دے دیجئے ۔ شادی پر ایک بڑا سیٹ پہن لوں گی۔ یہ سیٹ بعد میں کبھی ضرورت ہوئی تو آپ سے لے لوں گی۔ پھر کچھ ان کی طرف کا زیور بھی تو ہوگا۔”
”ان کی طرف کا زیور ایسا تھوڑی ہوگا؟” بھی بی جان بڑ بڑائیں۔
مگر اسمارہ کا بہت ہیوی جوڑ اور جیولری پہننے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ وہ سادگی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ مرتضیٰ کے گھر والے۔ بہت دھوم دھام افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔ وہ کسی بھی صورت ان کا بھرم توڑنا نہیں چاہتی تھی۔
شادی سے پہلے اسمارہ نے ہر ضروری کام نپٹا دیا۔ جائیداد کا حساب کتاب اسد کے حوالے کرنا چاہا مگر اس نے انکار کردیا۔ اس کا میڈیسن کا آخری سال تھا، اس کی پڑھائی بے حد ٹف تھی۔ سو اسمارہ نے تمام کاغذات ترتیب دے کر ان کی ایک کاپی اس کے لیے رکھی اور ایک اپنے سامان میں رکھ لی۔ محی الدین کے سارے نوادرات اور پینٹنگز نئے سرے سے صاف کرکے ارینج کیے تاکہ زرینہ کو ان کی دیکھ بھال میں ہلکان نہ ہونا پڑے۔ یہ سب چیزیں اسمارہ کی تھیں مگر ماں کی زندگی میں وہ انہیں یہاں سے ہٹانا چاہتی تھی۔ ساری حویلی کی صفائی کروائی اور مرمت کے کام کروائے۔ وہ بیٹا بن کرہر کام کر رہی تھی، بیٹے کی طرح ہی جانا چاہتی تھی۔ اپنا کاٹھ کباڑ والا کمرہ جسے وہ سلیپنگ بیوٹی روم کہا کرتی تھی، اس نے مکمل طور پر صاف کروا دیا۔ فالتو چیزیں پھنکوائیں۔ جالے صاف کروائے اور فرش پالش کروایا۔ اس کے بعد کتنی ہی دیر وہ اس کی کھڑکی میں بیٹھی اپنی فیورٹ گلی کو دیکھتی رہی۔ آج یہاں سے کوئی بارات نہیں گزر رہی تھی۔ مگر اسمارہ کووہاں بیٹھنا اچھا لگ رہا تھا۔ اس کی زندگی سلیپنگ بیوٹی کی طرح تھی۔ کئی سال پہلے وہ کسی بددعا کے حصار میں آگئی تھی اور اس کا نصیب صدیوں کے لیے سو گیا تھا اور پھر ایک شہزادہ آیا تھا جس نے اسے جگا دیا تھا۔ وہ اس کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرنے جارہی تھی۔
اس کی شادی کے کارڈ خاندان میں بٹے تو شہیر کا لمبا چوڑا خط اسے موصول ہوا جس میں اس نے گڑ گڑا کر معافی طلب کی تھی اور اسمارہ سے محبت کے اظہار کے ساتھ کسی بھی طرح اسے دوبارہ اپنے گھر لانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اسمارہ نے وہ خط پھاڑ کر پھینک دیا۔
مارچ کی ایک خوبصورت شام اسمارہ اور مرتضیٰ کی شادی ہوگئی۔ وہ اس گھر میں آگئی جس میں پہلی دفعہ آنے پر ہی اس نے اس کا حصہ بننے کی تمنا کی تھی۔ مرتضیٰ کے کمرے میں قدم رکھتے ہی وہ ٹھٹھک کر رک گئی۔ اس نے زندگی میں اتنے پھول کسی ایک جگہ اکٹھے نہیں دیکھے تھے۔ وہ دم بخود دیواروں پر لگے گلدستوں، گلاب اور موتیے کی لڑیوں سے سجی سیج اور فرش پر بکھری پھولوں کی پتیوں کو دیکھتی رہی۔ اس کی جیٹھانی حفصہ اور نند مریم اسے متاثر ہوتا دیکھ کر خوش ہوئیں۔
”مرتضیٰ کے دوستوں نے سجایا ہے کمرہ۔ صبح سے کمرے میں گھسے ہوئے تھے۔ تمہیں اچھا لگا؟” حفصہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھا لگا!” اسمارہ نے دل سے کہا۔ اس کے سسرال نے جس پیار سے اس کا استقبال کیا تھا، وہ اس پر خوش اور مطمئن تھی۔
مرتضیٰ کمرے میں آیا تو آتے ساتھ ہی پلنگ پر گر گیا۔ ”بہت تھک گیا یار!” اس نے دہائی دی۔ ”میرے باپ کی توبہ جو آئندہ کبھی شادی کی۔”
اسمارہ کو بے حد ہنسی آئی۔ اگر وہ کچھ نروس تھی بھی تو بے تکلفی کے اس مظاہرے نے وہ نروس دور کردی تھی۔
”دلہن تک نہیں دیکھ سکا میں اپنی۔” وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ”اف یار اتنی خوبصورت لگ رہی ہو تم کہ…” وہ سانس لینے کے لیے رکا۔
”کتنی خوبصورت؟” اسمارہ نے بے اختیار پوچھا۔ آج وہ وہی معصوم لڑکی تھی جو محبوب کے منہ سے اپنی خوبصورتی کی تعریف سننا چاہتی تھی۔ اپنی آنکھوں کی، ہونٹوں کی، دلہناپے کی۔
”اتنی خوبصورت کہ بس۔” مرتضیٰ نے جملہ مکمل کیا۔ اسمارہ نے ملامتی نظروں سے اسے گھورا۔
”شاعر ہیں آپ اور یہ کیا فرما رہے ہیں؟” اسمارہ نے یاد کرایا اور ساتھ ہی شرم بھی دلانے کی کوشش کی۔
”یار نظم لکھنے کی کوشش کی تھی میں نے تمہارے لیے۔ لیکن مجھے لگا کوئی لفظ تمہارے شایانِ شایان پیدا ہی نہیں ہوئے۔” اس نے جگمگاتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
اسمارہ شرما گئی۔ اتنی سی تعریف سے ہی اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ مرتضیٰ نے جھک کر اس کے ہاتھ تھامے اور چوم لیے۔
”میں زبان سے تمہارے لیے کوئی لفظ کہوں نہ کہوں، میرا دل تمہارے لیے ہر وہ نظم گنگنا رہا ہے جو آج تک دنیا میں محبت کے اظہار کے لیے کہی گئی۔” مرتضیٰ نے آہستہ سے کہا۔ اس نے اسمارہ کے ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیے ۔”سنو میرا دل کیا کہہ رہاہے۔”
بے اختیار اسمارہ کو بدر یاد آیا۔ وہ وقت یاد آیا جب تایا کے برآمدے میں بیٹھے اس نے اسمارہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھ لیا تھا اوریہی بات کہی تھی۔ ”سنو میرا دل کیا کہہ رہا ہے۔”
اسمارہ مسکرائی اور اس نے مرتضیٰ کو بھی وہی جواب دیا جو اس نے بدر کو دیا تھا۔ ”مجھے تو دھک دھک کی آواز سنائی دے رہی ہے۔”
مرتضیٰ نے جھک کر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ”غور سے سنو۔ میرا دل کہہ رہاہے…”
”ماں کا فون آیا… ماں کا فون آیا… تیری ماں کا فون…” کمرے کے رومانس بھرے سکوت کو ایک چنگھاڑتی ہوئی آواز نے پاش پاش کردیا۔ مرتضیٰ کے ہاتھ سے اسمارہ کا ہاتھ چھوٹ گیا ‘
‘What the hell!” وہ گھبرا کر چلایا۔ وہ ہڑبڑا کر کھڑا ہوا اور اپنے سلیم شاہی جوتوں میں الجھ کر گر پڑا جو اس نے بستر کے پاس اتار دیئے تھے۔ ادھر چلاتی ہوئی آواز وارننگ دیئے جارہی تھی ”ماں کا فون آیا… تیری ماں کا فون آیا… ماں کا فون…”
”یہ کیا ہورہا ہے؟” مرتضیٰ نے گھبرا کر اسمارہ سے پوچھا۔ اسمارہ نے کندھے اچکائے۔ وہ خود حیران پریشان تھی۔ ”میرا خیال ہے کوئی فون بج رہا ہے۔ تمہارا تو نہیں؟” اسمارہ نے پوچھا۔
مرتضیٰ چند لمحے ہکا بکا کھڑا رہا پھر اس کے چہرے پر realization کا تاثر ابھرا۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور آواز کی سمت کا اندازہ لگا کر کونے میں رکھے صوفے کی طرف بڑھا۔ صوفے کے پیچھے جھک کر اس نے فرش پر رکھا فون اٹھا لیا جو چیخ چیخ کر ماں کا فون آیا کی گردان کیے جارہا تھا۔ یہ ایک سستا سا ٹوٹا پھوٹا فون تھا جس میں الارم کی آواز کے طور پر یہ گانا لگایا گیا تھا۔
”یہ میرے کمینے دوستوں کا کام ہے۔” وہ دانت پیس کر بڑ بڑایا۔
”صبح سے اس کمرے میں بند تھے مجھے خدشہ تھا کہ کچھ گڑ بڑ نہ کریں۔ مگر اس بدتمیزی کی توقع نہیں تھی۔” اس نے فون کو آف کرکے صوفے پر پھینک دیا۔
”I am sorry” اس نے اسمارہ کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا ۔”صبح ان سب کے دماغ درست کروں گا۔ تم گھبرا تو نہیں گئیں؟”
”نہیں’۔’ وہ مسکرائی۔ مرتضیٰ کی نسبت اس نے اس Prank کو انجوائے کیا تھا۔
”سارے موڈ کا ستیا ناس کردیابے غیرتوں نے۔” وہ ناراضی سے بڑبڑایا۔ ”کیا کہہ رہا تھا میں؟”
”تم مجھے بتا رہے تھے کہ تمہارا دل کیا کہہ رہا ہے” اسمارہ نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔ اسے ہنسی آئے چلی جارہی تھی۔
”ہاں۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ میرا دل اور میں بھی، جی جان سے تمہارے ہیں۔ ہم زندگی بھر کے ساتھی ہیں، کوئی ایک دو دن کی بات نہیں۔ زندگی کے سفر میں خوشیاں بھی آئیں گی اور تکلیفیں بھی۔ لیکن ایک بات کا تمہیں ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔” مرتضیٰ نے سنجیدگی سے کہا۔ اسمارہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا ۔”مجھے یقین ہے مرتضیٰ۔ تم پر اور تمہاری محبت پر۔”
”تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی… تم سے ہوویں گی ملاقاتاں کبھی…” ایک دوسری چلاتی ہوئی آواز آئی۔
”الو کے پٹھے!” بے اختیار مرتضیٰ کے منہ سے نکلا۔
اس مرتبہ یہ آواز بیڈ کے کونے سے آرہی تھی۔ بیڈ شیٹ کو الٹ کر مرتضیٰ نے دوسرا فون برآمد کیا جو پہلے فون سے بھی زیادہ خستہ حالت میں تھا۔ غالباً چھپانے والوں کو اندیشہ تھا کہ کہیں مرتضیٰ غصے میں آکر انہیں توڑ نہ دے۔
اس فون کو پھینکنے کے بعد اسمارہ اور مرتضیٰ خاموشی سے بیٹھ کر اور کان لگا کر تیسرے فون کے بجنے کا انتظار کرنے لگے۔ ”ماں کا فون آیا” اور ”تھا یقیں کہ آئیں گی” کے بیچ مشکل سے 5 منٹ کا وقعہ تھا۔ اس کا مطلب تھا تیسرا فون بجنے ہی والا تھا۔
ان کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔ پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ کمرہ ایک بار پھر چیختی ہوئی آواز سے گونج اٹھا ۔”چار بوتل واڈ کا… کام میرا روز کا… نہ مجھ کو کوئی روکے… نہ کسی نے روکا…”
مرتضیٰ اچھل کر اٹھا اور ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ جہاں سے آواز آرہی تھی۔ وہاں پہنچ کر اسے محسوس ہوا کہ آواز بیڈ کی پائنتی سے آرہی تھی جو ڈریسنگ ٹیبل کے عین سامنے تھی۔ اسمارہ بھی اٹھ کر فون ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرنے لگی۔ چار بوتل واڈکا کی جان کی روتے فون نے انہیں چکرا کر رکھ دیا۔ مل کر ہی نہ دیتا تھا۔ بیڈ کی پائنتی کھڑے بستر کی چادر الٹ پلٹ کرتے اسمارہ کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں میں نظر آتے منظر پر پڑی اور وہ بے اختیار ہنس پڑی۔ وہ سولہ سنگھار کیے دلہن بنی کھڑی فون ڈھونڈ رہی تھی اور قالین پر مرتضیٰ دونوں گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل بیٹھا اپنے دوستوں کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے بیڈ کے نیچے جھانک رہا تھا۔ اسمارہ کی ہنسی کی آواز سن کر اس نے سر اٹھایا اور اسے ہنستا دیکھ کر چونک گیا۔
”اتنی ہنسی کیوں آرہی ہے؟” اس نے خفگی سے پوچھا اور ہاتھ جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
”میں یہ سوچ رہی ہوں کہ ابھی صرف تین فون بجے ہیں۔ پتا نہیں ابھی اور کتنے فون کہاں کہاں چھپے ہیں۔” اسمارہ نے معصومیت سے کہا۔
مرتضیٰ سوچ میں پڑگیا۔ ”یہاں رات نہیں گزاری جاسکتی” اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”کیا مطلب؟” اسمارہ نے چونک کرکہا۔
”مطلب یہ کہ چلو” مرتضیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”کہاں؟” اسمارہ نے حیران ہوکر پوچھا۔
”جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔” اس نے چٹکی بجا کر کہا۔
اسمارہ نے وہ بیگ اٹھایا جس میں اس کی ضرورت کا کچھ سامان اور نائٹ سوٹ وغیرہ تھا۔ مرتضیٰ اس کا ہاتھ پکڑے باہر نکل آیا۔ گھر میں سب لوگ سو رہے تھے۔ اسمارہ اس یرطرح دلہن بنی اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی گھر سے نکل گئی۔ آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں PC کے پارکنگ لاٹ میں کھڑے تھے۔ وہاں اب بھی رونق تھی۔ لوگ مڑ مڑ کر ان دلہا دلہن کو دیکھتے رہے جو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے لابی میں جارہے تھے۔ دلہن سر سے پاؤں تک زیوروں میں لدی تھی اور اس کا دلہا شیروانی اور کڑک شلوار کے نیچے پیروں میں باتھ روم سلیپر پہنے جارہا تھا۔
کمرہ بک کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوئی۔ کمرے کا دروازہ کھول کر جب مرتضیٰ اندر داخل ہوا تو اس کے پیچھے آتی اسمارہ یکدم رک گئی۔
”کیا ہوا؟” مرتضیٰ نے مڑ کر پوچھا۔
”میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کل جب گھر والے ہمیں جگانے آئیں گے تو ہمیں نہ پا کر کیا کہیں گے؟” اسمارہ نے کہا۔
مرتضیٰ کے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ ابھری۔ اس نے اسمارہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”کہیں گے کہ پاگل تھے۔” اس نے اس کا ہاتھ کھینچ کر نرمی سے اسے سینے سے لگا لیا ”ہم دنیا کا پہلا کپل ہیں جو شادی کے بعد گھر سے بھاگ گیا۔”
کمرے کا دروازہ بند ہوگیا۔ زندگی میں سکھ کے بے شمار دروازے کھل گئے۔
٭…٭…٭
ہنی مون کے لیے وہ بھور بن گئے۔ پہلے ہی دن انہیں ڈائننگ ہال میں وہ میاں بیوی مل گئے جو انہیں اس ریسٹورنٹ میں ملے تھے جہاں مرتضیٰ نے اسمارہ کو پرپوز کیا تھا۔
”آج تو نہیں دے رہے کچھ کوک میں ڈال کر؟” آدمی جس کا نام جہانگیر تھا، چھوٹتے ہی مرتضیٰ سے پوچھنے لگا۔ مرتضیٰ بہت جزبز ہوا۔ اگلے دو دن وہ انہیں ہر جگہ ٹکراتے رہے۔ رات کے کانسرٹ میں، ہائیکنگ کے ٹریکس پر، مری کی مال روڈ پر… جہاں پر جاتے انکل جہانگیر اپنی بیوی کے ساتھ موجود ہوتے۔ حتی کہ جب پیڑیانہ کی چیئرلفٹ میں بیٹھے وہ بلندی کی طرف رواں دواں تھے اور مرتضیٰ اسمارہ کا ہاتھ پکڑے اسے رومینٹک شاعری سنا رہا تھا، سامنے سے آنے والی چیئرلفٹ میں کسی نے زور زور سے ہاتھ ہلانے اور آوازیں میں دنیا شروع کیں۔ دیکھا تو انکل اور آنٹی خوشی خوشی wave کررہے تھے۔
انکل جہانگیر اسمارہ سے متاثر تھے۔ تیسرے دن انہوں نے اسے اکیلا پاکر کہا۔ ”اتنی تعلیم یافتہ لڑکی ہوتم۔ اس لڑکے سے کیوں شادی کرلی؟ خیر اگر یہ تمہیں تنگ کرے تو مجھے بتانا، میں اسے ٹھیک کردوں گا۔ جھجھکنامت، مجھے اپنا چچا سمجھو۔”
”چچا کیوں؟ باپ کیوں نہیں؟” اسمارہ نے حیران ہوکر پوچھا۔
”اتنا بوڑھا نہیں ہوا ابھی میں!” انہوں نے منہ بنا کر کہا ”خیر چلو تم باپ ہی سمجھ لو۔”
اس کے برعکس ان کی بیوی آنٹی سلمیٰ نے اسے علیحدگی میں بڑا پریکٹیکل مشورہ دیا۔ ”بڑا اچھا لڑکا ہے تمہارا میاں۔ عام مردوں جیسا نہیں ہے اپنی من مانی کرنے والا۔ ذرا tact سے ہینڈل کرو گی تو تمام عمر غلام بن کررہے گا۔ بھلے ہر بات میں اپنی مرضی کرو، اس کو ایسے سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھو کہ وہ سمجھے بادشاہ بس وہی ہے۔”
اسمارہ دونوں کی باتیں سنتی اور مسکراتی رہتی۔ مرتضیٰ البتہ بڑا چڑتا۔ ”جہاں دیکھو کباب میں ہڈی کی طرح موجود ہیں!” وہ بڑ بڑاتا رہا۔ چوتھے دن اس نے بوریا بستر اٹھایا اور نتھیا گلی کی راہ لی۔
وہاں وہ جس ہوٹل میں ٹھہرے وہ بڑا خوبصورت تھا اور اس کے پیچھے چیڑ کے درختوں کا جنگل تھا۔ جنگل میں ٹریکنگ کے بعد انہوں نے وہیں لکڑیاں جمع کرکے آگ جلائی اور پکنک منائی۔ مرتضیٰ خوش تھا۔ اسے اب من چاہی تنہائی میسر آئی تھی۔ وہ اسے گانے سناتا رہا۔ وہ اس کے کندھے پر سر رکھے اس سے باتیں کرتی رہی۔ اندھیرا ہوگیا اور آگ بجھ گئی تو دونوں واپس ہولیے۔
ہوٹل پہنچ کر اسمارہ کو یاد آیا کہ اس کا ہینڈ بیگ وہیں رہ گیا ہے۔ اس میں اسکا والٹ تھا، ضرورت کی کئی چیزیں تھیں۔
”صبح لے لیں؟” مرتضیٰ نے پوچھا۔
”نہیں۔ سوری مرتضیٰ لیکن اس میں میرے کریڈٹ کارڈ وغیرہ ہیں۔ ابھی لانا پڑے گا۔” اسمارہ نے پریشانی سے کہا۔
مرتضیٰ خاموشی سے اٹھا اور برآمد میں نکل آیا۔ وہ اس کے پیچھے آئی۔ وہ اسے دیکھ کر چونک گیا ”تم اندر جاؤ۔ سردی ہے” اس نے اسمارہ سے کہا۔
”نہیں میں تمہارے ساتھ آؤں گی۔ اکیلے کیسے بھیج دوں تمہیں؟” اسمارہ نے کہا۔
”کیوں؟ اکیلے کیوں نہیں؟” مرتضیٰ نے حیران ہوکرکہا۔
”تم کیسے جاؤ گے؟ تمہیں اندھیرے سے ڈر لگتا ہے” اسمارہ نے اصرار کیا۔
”یہ تم سے کس نے کہا؟” مرتضیٰ نے الجھن سے اس کا چہرہ دیکھا۔
اسمارہ ٹکر ٹکر اسے دیکھے گئی۔ اس سے کس نے کہا تھا کہ مرتضیٰ کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے؟ کسی نے نہیں۔ مگر بدر کو اندھیرے سے ڈر لگتا تھا اور مرتضیٰ بالکل بدر جیسا تھا تو پھر مرتضیٰ کو بھی تو۔
”میں اندھیرے سے نہیں ڈرتا۔” مرتضیٰ نے اس کا بازو تھپتھپا کر کہا ۔”جاؤ اندر جاؤ۔ میں دس منٹ میں آیا ہوں۔”
مرتضیٰ چلا گیا۔ وہ وہیں کھڑی رہ گئی۔ گہری خاموشی میں اس کا رواں دواں ایک ہی سوال کرہا تھا ۔”کون ہو تم… کون ہو تم…”
٭…٭…٭
اگلے دن وہ صبح اٹھ کر کمرے سے باہر نکلے تو لان میں سنہری دھوپ میں بچھی کرسیوں پر انکل جہانگیر اور آنٹی سلمیٰ براجمان تھے۔
”ابے یار’!’ مرتضیٰ بے زاری سے بڑ بڑایا۔
اس رات انکل اور آنٹی نے ان دونوں کو کھانے پر بلایا۔ انکل اسمارہ کے خود ساختہ چچا بن کر مرتضیٰ کو نصیحتیں کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بے وقوف ہے اور کوک کے گلاس میں انگوٹھیاں ڈالنے کی احمقانہ حرتکیں کرتا رہتا ہے۔ وہ اسے اسمارہ کی قدر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ مرتضیٰ اکتا کر بہانہ کرکے جلدی اٹھ گیا اور کمرے میں چلا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد جب اسمارہ اپنے کمرے کی طرف چلی تو پورا برآمدہ سنسان پڑا تھا اور اس میں کھلنے والے سب کمروں کے دروازے بند تھے۔ کمرے میں پہنچ کر اسمارہ نے مرتضیٰ کو سنسان برآمد کے بارے میں بتایا۔
”کسی نے تمہیں چھپڑا تو نہیں؟” مرتضیٰ نے چونک کر پوچھا۔
اسمارہ بے اختیار مسکرائی۔ کتنا شوق ہوتا ہے مردوں کو یہ یقین کرنے اور دلانے کا کہ وہ اپنی عورتوں کے محافظ ہیں۔
”اگر کوئی مجھے اغوا کر لیتا تو؟” اسمارہ نے اسے چھیڑا۔
”تو میں سارے کمروں کے دروازے توڑ دیتا اور تمہیں بچا لاتا” مرتضیٰ نے سنجیدگی سے کہا۔
اسمارہ کو بڑی ہنسی آئی مگر آنٹی سلمیٰ سے تازہ تازہ سے لیکچر کا اثر تھا کہ اس نے مرتضیٰ کے ماچومین ہونے پر کوئی سوال نہ اٹھایا۔ دل میں سوچا ”ارے ہے کوئی مائی کا لعل جو مجھے گھسیٹ لے جائے؟ ہڈیاں نہ توڑ دوں اس کی۔” لیکن زبان سے کچھ نہ بولی۔ پیار سے مرتضیٰ کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ وہ خوش ہوگیا۔
٭…٭…٭
مرتضیٰ اسمارہ کو کیا بچاتا، الٹا اسمارہ نے اسے بچالیا۔ ہوٹل کے پیچھے سیڑھیاں ایک چھوٹے سے ہموار میدان تک اترتی تھیں جس کے آگے گہری کھائی ھتی۔ میدان کا کنارہ لکڑی کی tence سے محفوظ کیا گیا تھا۔ مرتضیٰ اور اسمارہ اس میدان میں دن بھر بیٹھے رہے۔ سیڑھیوں پر اب تک برف تھی جو دھوپ سے پگھلی اور پھسلواں ہوگئی۔ مرتضیٰ ایک ہاتھ سے ریلنگ پکڑے دوسرا ہاتھ بڑھائے مسلسل اصرار کرتا رہا کہ اسمارہ اس کا ہاتھ تھام لے۔ وہ ہنستی رہی اور انکار کرتی رہی۔
”پلیز تم اوپر جاؤ مرتضیٰ۔ راستہ چھوڑو میں خود آجاؤں گی آرام سے۔” وہ اسے کہتی رہی۔
بادل نخواستہ وہ اوپر چڑھ گیا اور سیڑھیوں کے کنارے کھڑا ہوکر اسے ریلنگ کا سہارا لیے اوپر آتے دیکھتا رہا۔ اسے اسمارہ کی فکر تھی اور خدشہ تھا کہ کہیں وہ پھسل نہ جائے۔ جھک کر اسے دیکھتے مرتضیٰ کا پاؤں پھسلا اور وہ بری طرح گرا۔ Reflex action کی طرح اسمارہ نے بازو پھیلایا اور چشم زن میں گرتے ہوئے مرتضیٰ کا بازو پکڑ لیا۔ مرتضیٰ کا جسم سیڑھیوں پر جھول گیا۔ اس نے بے اختیار خود کو سنبھالنے کے لیے اسمارہ کو تھام لیا۔ اسمارہ نے اسے سہارا دے کر سیڑھیوں پر کھڑا کردیا۔ سیڑھیوں کے اوپری کنارے پر فلیش چمکی اور کلک کی آواز آئی۔ دونوں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ خود ساختہ چچا کیمرہ اٹھائے کھڑے تھے اور انہوں نے اسمارہ کے ہیروئک ایکٹ کو ہمیشہ کے لیے کیمرے میں محفوظ کر لیا تھا۔ اس ہنی مون کی یادگاروں میں انکل جہانگیر اور آنٹی سلمیٰ کی کباب میں ہڈی یادوں کے ساتھ اس شرمندگی بھری یاد کا اضافہ ہوگیا جو اس تصویر میں مقید تھی۔ لیکن بے چارے مرتضیٰ کی شرمندگی سے قطع نظر یہ اسمارہ کی زندگی کے یادگار ترین دن تھے۔ وہ زندگی میں کبھی اتنی خوش نہیں رہی تھی۔
٭…٭…٭
ہنی مون سے واپسی کے بعد چھے سات مہینے وہ مرتضیٰ کے ماں باپ کے ساتھ رہے۔ اسمارہ کا وقت وہاں بہت اچھا گزرا۔ کچھ اس وجہ سے بھی کہ اس کے سسرال والے شریف النفس اور مہربان لوگ تھے اور کچھ اس لیے بھی کہ اسمارہ نے جاب نہیں چھوڑی تھی۔ آدھا دن وہ باہر گزار کر آتی تھی۔ گھروالوں کے وہ ابھی نئی دلہن تھی لہٰذا اس پر کسی کام کا بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا۔
کچھ عرصے بعد مرتضیٰ کی پوسٹنگ اسلام آباد ہوگئی۔ اسمارہ نے ہنسی خوشی جاب چھوڑی اور اس کے ساتھ اسلام آباد چلی آئی۔ دونوں نے بہت خوبصورت چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا۔ دونوں نے مل کر اس گھر کے لیے شاپنگ کی، اسے سجایا، بنایا۔ اسمارہ کو اینٹیک چیزوں کا شوق تھا اور مرتضیٰ کو ماڈرن چیزوں کا۔ دونوں بحث کرتے، جھگڑتے، کبھی اسمارہ غصہ ہوتی، کبھی مرتضیٰ ناراض ہوتا اور آخر میں دونوں اپنی اپنی پسند چھوڑ کر کسی تیسری چیزی پر متفق ہوکر اسے خرید لیتے اور میں کبھی کافی پیتے، کبھی آئس کریم کھاتے ان بحثوں اور جھگڑوں پر ہنستے۔
”لڑکیوں کی طرح روٹھتے ہو تم۔” اسمارہ اسے چھیڑتی۔
”لڑکوں کی طرح غصہ کرتی ہو تم۔” مرتضیٰ بے یقینی سے کہتا اور دونوں ہنسنے لگتے۔
مرتضیٰ کے ساتھ زندگی اسمارہ کو کسی بازگشت کی طرح لگتی تھی۔ اس کی اتنی عادتیں اور باتیں بدرالدجا سے ملتی تھیں کہ کبھی کبھی اسمارہ کو اس سے خوف آنے لگتا تھا۔ وہ خود کو وہ باتیں یاد کراتی جن میں مرتضیٰ بدر سے مختلف تھا۔ لیکن ان چیزوں کو وہ انگلیوں پر گن سکتی تھی۔
وہ جب بھی بدر جیسی کوئی بات کرتا اسمارہ یکدم خاموش ہوجاتی اور ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگتی۔ کبھی کبھی سرگوشی میں اس کے منہ سے نکلتا ۔”کون ہو تم؟” اگر کبھی مرتضیٰ یہ سرگوشی سن لیتا تو حیران ہوکر اس کی طرف دیکھتا۔ وہ نظریں چرا کر اٹھ جاتی۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا وہ مرتضیٰ کے ساتھ نہیں بدر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ وہ شاعری کرتا تھا، نرم خو تھا، بے حد خوش مزاج تھا، ویسا ہی میوزک سنتا تھا اور ویسی ہی باتیں کرتا تھا۔ وہ بدر ہی کی طرح اسے جمیلہ کہتا، اسی کی طرح اس کا گھٹنا چھو کر اس سے باتیں کرتا اور اس کی طرح اسے لاجواب کردیتا اور اسمارہ ہمیشہ کی طرح اپنے خوف اور اپنی apprehension کا سامنا کرنے کے بجائے اسے دبا دیتی۔ جیسے کمرے میں پڑی گرد کو جھاڑو سے قالین کے نیچے چھپا دیا جائے۔ وہ بدر نہیں تھا، مرتضیٰ تھا۔ بدر چلا گیا تھا، مرتضیٰ ہمیشہ اس کی زندگی میں رہنے والا تھا۔
کم از کم اس وقت اس کایہی خیال تھا۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Read Next

تہذیب کے دائرے — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!