(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۱۴۔ اقرار
دوسری بار بھی ہوتی تو تم ہی سے ہوتی
میں جو بالفرض محبت کو دوبارہ کرتا
کبھی اس نے سوچا تھا کہ بدر جیسا دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا مگر اب بدر پھر سے اس کی زندگی میں آکھڑا ہوا تھا۔ وہ بدر تھا، یا بدر جیسا تھا، اسمارہ یہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ جو بھی تھا، اس کا دل اس کی طرف کھنچنے لگا تھا۔
ڈنر سے اگلے دن ایک انجان نمبر سے کال آئی۔ اسمارہ انجان نمبر نہیں اٹھاتی تھی۔ دو تین کالز کے بعد اس نمبر سے میسج آیا ”Asmara Murtaza here۔ پلیز میرا فون اٹھا لو، مجھے کال کرنے کی وجہ سوجھ گئی ہے، وہی بتانی ہے تمہیں۔” وہ ہنس پڑی۔ پہلے اس کا نمبر Save کیا پھر اسے اوکے کا میسج بھیجا۔ فوراً ہی اس کی کال آگئی۔
”شکر ہے تم نے میرا فون اٹھایا!” اس نے کہا۔
”مجھے بڑی دلچسپی ہے فون کرنے کی وجہ سننے میں۔” اسمارہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اصل وجہ بتادوں یا وہ بہانہ بتاؤں جو سوچ رکھا ہے؟” اس نے شرارت سے پوچھا۔
”دونوں ہی بتا دو” اسمارہ ہنس پڑی۔
”اچھا پہلے بہانہ سن لو۔ یہ پسند آیا تو اصل وجہ بھی بتادوں گا۔” اس نے کہا۔
”چلو وہی بتا دو۔”
”میرے کچھ یونیورسٹی فرینڈز ہیں۔ انگریز ہیں، باہر سے آئے ہیں اور لاہور کے تاریخی مقامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ جگہیں تو میں دکھا چکا ہوں۔ اب وہ اندرون شہر کا رہائشی حصہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا اگر تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو اعتراض نہ ہو تو میں انہیں تمہاری حویلی لے آؤں؟” اس نے تفصیل سے وہ پلان اس کے گوش گزار کیا جسے وہ فون کرنے کا بہانہ قرار دے رہا تھا۔
”مجھے یہ کیوں لگ رہا ہے کہ یہ بہانہ در بہانہ ہے؟” اسمارہ نے ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔
”کیا مطلب؟”
”ایک تیر سے دو شکار کا محاور کیوں یاد آرہا ہے مجھے؟”
”اب یہ مجھے کیا معلوم؟”
”اچھا یہ تو معلوم ہوگا کہ یہ فون کرنے کا بہانہ ہے یا میرے گھر آنے کا؟”
وہ ہنسنے لگا۔ ”یار لڑکی جمیلہ ہو اور ذہین بھی ہو تو انسان کیا کرے؟ نہ بہانہ روکا جائے نہ چلایا جائے۔ اگر تم میرے سارے بہانے یونہی پکڑ لو گی تو معاملہ آگے کیسے بڑھے گا؟”
اسمارہ کو یکدم بدر یاد آیا۔ وہ بھی یونہی کہا کرتا تھا۔ ”لڑکی جمیلہ ہو اور لائق فائق ہو، اس سے بڑھ کر کیا چاہیے؟”
مرتضیٰ نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا۔ ”تمہیں برا لگا؟” اس نے محتاط ہوکر پوچھا۔
”نہیں۔ تم اپنے دوستوں کو لے آؤ۔” اس نے کہہ کر فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مرتضیٰ اپنے انگریز دوستوں کو حویلی لے کر آیا۔ حویلی کے زیادہ تر کمرے تو اب بند پڑے رہتے تھے مگر ان میں بھی ان کی دلچسپی کا وافر سامان موجود تھا۔ پرانا فرنیچر۔ بڑی بڑی مہرپاں، رنگین پاپوں والے پلنگ، نعمت خانے، پیتل کے پایوں والی میزیں، قدیم آرائش لیمپ، ساگوان کے سنگھار میز، سماوار اور حمام۔ یہ سب انہوں نے بہت دلچسپی سے دیکھا۔ سب سے زیادہ متاثر وہ گول کمرہ دیکھ کر ہوئے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک قدیم نوادرات سجے تھے۔ ملحقہ گیلریوں میں شاندار بٹینگز تھیں۔ اسمارہ انہیں نوادرات اورپینٹنگز سے جڑی تاریخ بتاتی رہی۔
”تم تو یہاں ایک میوزیم کی گائیڈ بھی بن جاؤ۔”
”مجھے رکھ لو گائیڈ۔” اس نے مشورہ دیا۔
”شکریہ۔ اب یہ کسی چیز کی بیش بندی ہے؟” اسمارہ نے ہنس کر پوچھا۔
”تم سے ہسٹری پڑھنے کی۔” وہ بھی ہنسا۔ ”ویسے یہ اتنا قیمتی خزانہ کس کا شوق ہے؟”
”میرے والد کا شوق تھا۔ ساری زندگی ایک ایک چیز کرکے انہوں نے یہ خزانہ اکٹھا کیا۔ اور اپنے بعد مجھے سونپ گئے۔ یہ مجھے جان سے پیارا ہے۔ میں تو غیروں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگتے دیتی۔”
”Thank you” مرتضیٰ نے مسکرا کر سرخم کیا۔
”کس بات کا؟” وہ حیران ہوئی۔
”مجھے غیر نہ سمجھنے کا۔” وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ وہ لاجواب سی کھڑی رہی گئی۔ ایک اور صفت بدر جیسی۔ لاجواب کرنے کی۔ اس نے سوچا۔
جب وہ اوپری منزل کی گیلری انگریز مہمانوں کو دکھا رہی تھی تو برآمدے میں کھڑے کھڑے اس کی نظر نیچے صحن میں پڑی۔ وہاں مرتضیٰ بی بی جان کے پاس بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا۔ اسمارہ کو بے اختیار وہ وقت یاد آیا جب اس نے اسی جگہ کھڑے بدر کو وہیں صحن میں بیٹھے دیکھا تھا۔ ایک Deja vu کی کیفیت میں گھری وہ مرتضیٰ کو دیکھے گئی۔ اور پھر بالکل پہلے کی طرح اس نے سر اٹھا کر اسمارہ کو دیکھا اور مسکرایا۔ اسمارہ کو یوں لگا گویا وہ کسی ایسی فلم کے ایک منظر میں کھڑی ہے جو وہ پہلے بھی دیکھ چکی ہے۔
”ابھی میرے فون کی میسج ٹون بجے گی۔” اس نے سوچا۔ میسج ٹون بجی۔
” مرتضیٰ کا میسج ہوگا!” اسے یقین ہوا۔ اسی کا میسج تھا۔
”اس نے لکھا ہوگا کیا دیکھ رہی ہو جمیلہ ہے۔” اس نے فون کھولا۔ لکھا تھا ۔
”کیا دیکھ رہی ہو جمیلہ؟” اسمارہ کا دل دھڑ دھڑانے لگا۔
”کون ہو تم؟” وہ چیخ کر پوچھنا چاہتی تھی۔ ”کیوں آگئے ہو دوبارہ میری زندگی میں؟” وہ فون ہاتھ میں لیے ساکت کھڑی رہی۔ اس کے جسم سے گویا کسی نے جان نکال لی تھی۔
٭…٭…٭
وہ آفس میں تھی کہ اس کا فون آیا۔ ”کیا کررہی ہو؟” اس نے پوچھا۔
”لنچ آور ہے، لنچ کررہی ہوں” اس نے اپنا سینڈوچ ریپر سے نکالتے ہوئے بتایا۔
”آفس میں ہی ہو؟” اس نے پوچھا۔ وہ جلدی میں لگتا تھا۔
”ہاں” اس نے کہا۔
”اچھا تو پھر اپنا لنچ روک دو۔ میں تمہارے لیے لنچ لارہا ہوں۔” اس نے تیزی سے کہہ کر فون رکھ دیا۔ وہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی۔
پندر منٹ بعد وہ اس کے آفس میں موجود تھا۔
”نئی بیکری کھلی ہے۔ اس کی پیسٹریز میری فیورٹ ہیں۔ سوچا تمہیں بھی کھلا دوں۔” اس نے پزا اور پیسٹریز اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو لیکن میں تو میٹھا نہیں کھاتی۔” اسمارہ نے کہا۔
”میٹھا نہیں کھاتی؟” اس نے اس صدمے سے کہا اسمارہ نے جلدی سے اسے تسلی دی ‘۔’مطلب بہت کم کھاتی ہوں۔”
”شکر ہے!” اس نے سکون کا سانس لیا ۔”کم از کم کھاتی تو ہو۔ جو میٹھا نہ کھائے اس سے پیار کس طرح کیا جاسکتا ہے؟”
”میٹھے کا پیار سے کیا تعلق؟” اسمارہ نے بے اختیار پوچھا۔
”بہت گہرا تعلق ہے۔ میٹھا کھاؤ، میٹھا بولو میٹھے بول سے ہی تو پیار ہوتا ہے۔ شکل سے تھوڑی ہوتا ہے۔” اس نے اپنی فلاسفی بتائی۔
”اگلی دفعہ میں تمہیں اماں انوری سے ملاؤں گی۔” اسمارہ نے سرہلا کر کہا۔
”یہ کون خاتون ہیں؟”
”بی بی جان کی ملازمہ ہیں۔ ساٹھ سال عمر، رنگ پکا، دانت ٹوٹے ہوئے مگر میٹھا بہت شوق سے کھاتی ہیں اور بول تو ایسا میٹھا ہے کہ کیا کہے۔ ذرا ان سے پیار کرکے دکھانا۔”
”جو بھی آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔” مرتضیٰ نے سرخم کر سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ اسمارہ ہنس پڑی۔ مرتضیٰ نے ایک پیسٹری اٹھا کر اس کی پلیٹ میں رکھی۔
”میں تو سوچ رہا ہوں تمہاری برتھ ڈے پر ایسا ہی کیک بنوا کر لاؤں گا۔ بائی داوے کب ہوتی ہے تمہارے برتھ ڈے؟” اس نے پوچھا۔
”اب یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟” اسمارہ نے اسے گھورا۔
”یارعین وقت پر تحفے نہیں لیے جاتے مجھ سے۔ ہر چیز کی پلاننگ پہلے سے ہی کرلینی چاہیے۔” اس نے مسکرا کر کہا۔
اسمارہ نے اپنی تاریخِ پیدائش بتائی۔
”ارے تم تو مجھ سے چھوٹی ہو۔ میں تو سمجھتا تھا بڑی ہوگی۔” اس نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
”میں تم سے تین سال چھوٹی ہوں” بے اختیار اسمارہ کے منہ سے نکلا۔
اس مرتبہ مرتضیٰ کی حیرت مصنوعی نہیں تھی۔ ”تمہیں کیسے معلوم؟”
اسمارہ کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر اس نے آہستگی سے کہا۔ ”اندازہ تھا میرا۔”
”بالکل ٹھیک اندازہ تھا” اس نے متاثر ہوکر کہا ۔”اچھا سنو کل غزل نائٹ ہے جم خانہ …میں چلو گی؟’
اسمارہ جانتی تھی کل غزل نائٹ میں کیا ہونے والا ہے اور وہ اسے ہوتے دیکھنا چاہتی تھی۔ یہ اسرار مکمل ہوتے دیکھنا چاہتی تھی۔
”ہاں چلوں گی۔” اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔
مرتضیٰ کا چہرہ کھل اٹھا ۔”بس ٹھیک ہے۔ میں کل تمہیں آفس سے ہی پک کرلوں گا۔”
٭…٭…٭
وہی رات تھی، وہی موسم تھا، وہی موسیقی تھی، وہی وہ تھی۔ بس بدر نہیں تھا، یا تھا۔ اپنے ساتھ بیٹھے مرتضیٰ پر جب بھی اس کی نظر پڑتی اس کے دل میں ایک ہی سوال ابھرتا”کون ہو تم؟” اس کا دل و دماغ اس الجھن کو سلجھانہ پارہا تھا۔ وہ مستقل مرتضیٰ کا بدرالدجا سے موازنہ کرنے میں مصروف تھی۔ وہ بہت سی چیزوں میں بدر جیسا تھا لیکن چند باتوں میں اس سے مختلف بھی تھا۔ مکمل متضاد۔
اس نے مرتضیٰ کو پہلو بدلتے دیکھا۔ اسے معلوم تھا اب اسے کیا کہنا ہے۔
”تم کچھ کہنا چاہتے ہو مرتضیٰ؟” اسمارہ نے گویا اپنے سامنے رکھا ایک یاد کا سکرپٹ پڑھنا شروع کیا۔
اس نے مرتضیٰ کو ایک گہرا سانس لیتے دیکھا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر کو آتے دیکھا۔ گویا بات شروع کرنے کا بہانہ ملنے پر متشکر ہو۔
”اسمارہ…I really like you… میں تمہیں…”
”مرتضیٰ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں!” اسمارہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ وہ منتظر نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
اسمارہ نے گہرا سانس لیا ۔”میری ایک شادی ہوچکی ہے۔”
”جانتا ہوں۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
اسمارہ نے حیران ہوکر اس کا چہرہ دیکھا ۔”تم کیسے جانتے ہو؟”
”کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں چھپائی جائے۔” اس نے جواباً حیران ہوکر کہا۔
”اس سے پہلے میری ایک منگنی بھی ہوئی تھی۔” اسمارہ نے سرجھکا کر کہنا شروع کیا۔ ”اس کا نام بدرالدجا تھا۔ میں اس سے محبت کرتی تھی۔”
مرتضیٰ خاموش رہا۔ اسمارہ نے سراٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کا چہرے بے تاثر تھا۔
”اسے کسی نے سر میں گولی مار کر قتل کردیا تھا۔” اسمارہ نے آہستہ سے اپنی بات مکمل کی۔
اس نے لمحوں میں مرتضیٰ کے بے تاثر چہرے کو رنگ بدلتے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نرمی، ہمدردی اور افسوس کے رنگ ابھرتے دیکھے۔ وہ اسے دیکھے گئی۔
”مجھے افسوس ہے۔” مرتضیٰ نے نرمی سے کہا۔
اسمارہ نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا ”جو گزر گیا وہ ماضی کا حصہ ہے۔ میں تمہیں یہ سب اس لیے بتا ر ہی ہوں کہ تم مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت ان باتوں کو مدنظر رکھو۔”
”تمہاری یہ منطق میرے سر پر سے گزر گئی۔ ذرا آسان اردو میں مجھے سمجھاؤ کہ اس بات کا کیا مطلب ہے۔” مرتضیٰ نے مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
اسمارہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔ ”آسان الفاظ میں یہ کہ تمہیں کوئی غیر مطلقہ اچھی لڑکی مل سکتی ہے۔”
”Ohhh come on!” مرتضی بے اختیار بلبلایا ۔”یہ کس زمانے کی باتیں کررہی ہو تم؟”
اسمارہ خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔
”دیکھو میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔” اس نے اسمارہ کا گھٹنا چھو کر کہا۔ اسمارہ کے دل نے ایک دھڑکن مس کی۔ وہی بدر کی گھٹنا چھو کر بات کرنے کی عادت۔
مرتضیٰ کہتا رہا۔ ”یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو عورت کو ذاتی استعمال کی کوئی چیز سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئی نکور ہو۔ جیسے زیرومیٹر گاڑی، جیسے نیا چمکدار جوتا، جیسے برانڈ نیو فون۔ لیکن تم، تم ہو… جیتی جاگتی انسان۔ تمہیں آج میں جس صورت میں پسند کرتا ہوں، اسے تمہاری زندگی کے تجربات نے ڈھالا ہے۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ تجربات کیا تھا۔ مجھے صرف اس سے غرض ہے کہ انہوں نے تمہیں کیا بنایا۔”
اسمارہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”ایک اور بات بھی بتانا چاہتی ہوں” بالآخر اس نے کہا۔
”اب کیا؟” اس نے تحمل سے پوچھا۔
”میں روتی نہیں؟” اسمارہ نے بتایا۔
”ہیں؟” مرتضیٰ نے حیران ہوکر اس کا چہرہ دیکھا۔
”میں روتی نہیں” اسمارہ نے دوہرایا۔
”بالکل نہیں روتی؟” اسمارہ نے دوہرایا۔
”بالکل نہیں روتی؟” مرتضیٰ نے حیرت سے پوچھا۔ اسمارہ نے نفی میں سرہلایا۔
”غصے میں؟ تکلیف میں؟ ڈرامہ دیکھتے ہوئے؟” وہ سوال پوچھ گیا، وہ ہر سوال پر نفی میں سر ہلاتی رہی۔ مرتضیٰ کی باچھیں کھل گئیں۔
”یار یہ تو بڑی گڈ نیوز ہے۔ لڑکیوں کے آنسو ہینڈل نہیں کرسکتامیں۔” اس نے خوش ہوکر کہا۔
”لڑکی جمیلہ ہو، ذہین ہو اور روتی نہ ہو، اس سے بڑھ کر کیا چاہیے ایک آدمی کو؟”
”اور اگر الٹیاں کرتی ہو تو؟” اسمارہ نے معصومیت سے پوچھا۔
”کیا مطلب؟” وہ چونکا۔
”مطلب یہ کہ جب مجھے سٹریس ہوتا ہے تو میں روتی نہیں، الٹیاں کرنے لگتی ہوں۔” ہر مرتبہ یہ بات کسی کو سمجھانے میں کتنی شرمندگی ہوتی تھی۔
اس کا خیال تھا وہ ہنسے گا۔ جیسے بدر کو جب اس نے یہ بات بتائی تھی تو وہ ہنسنے لگا تھا۔ مگر مرتضیٰ نے بے حد شفقت اور ہمدردی سے کہا۔
“Poor you”
وہ ہنس پڑی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھے گیا۔
”مجھے لگتا ہے مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے اسمارہ۔” اس نے جگمگاتی آنکھوں سے کہا۔
وہ پھر سے ہنس پڑی۔ مرتضیٰ نے اس کے گالوں کو سرخ ہوتے دیکھا۔ اس نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔ دونوں خاموشی سے غزل سننے لگے۔ مگر ان کے دل خاموش نہیں تھے۔ وہ محبت کی موسیقی کی انوکھی تال پر دھڑک رہے تھے۔
٭…٭…٭
اسمارہ کی زندگی میں دنوں کا پھیر بڑھتے بڑھتے پھر چودھویں کے چاند تک آن پہنچا تھا۔ وہ خوش رہنے لگی تھی، مسکرانے لگی تھی، دل سے ہنسنے لگی تھی۔ وہ مسکراہٹ جو پہلے صرف اس کے ہونٹوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی، اب آنکھوں تک آنے لگی تھی۔
مرتضیٰ اسے اپنے گھر لے کر گیا تھا۔ اس کے امی ابا اس سے بہت محبت سے ملے۔ اس کا بڑا بھائی شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے تھے۔ چھوٹی بہن مریم اسمارہ کے آگے پیچھے پھرتی رہی۔ اس چھوٹے سے گھر میں اس قدر سکون اور محبت تھی کہ وہاں بیٹھے اسمارہ کا دل بے اختیار اس گھر کا حصہ بن جانے کو چاہا۔ اس گھر کے سب لوگوں کی آنکھوں میں وہی شفقت اور مہربانی تھی جو مرتضیٰ کی آنکھوں میں تھی۔
اگلے دن وہ آفس میں تھی کہ مرتضیٰ کی کال آئی۔
”آج ڈنر پر مل سکتی ہو؟” اس نے پوچھا۔
”ہاں ضرور۔ کہاں؟” اسمارہ نے پوچھا۔
مرتضیٰ نے اسے ریسٹورنٹ کا نام اور پتا بنا کر فون بند کردیا۔ اسے ذرا حیرت ہوئی کیونکہ وہ ہمیشہ اسے پک کرنے کی آفر کیا کرتا تھا۔ لیکن اس نے اس بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔
وہ مقررہ وقت ریسٹورنٹ پہنچی تو وہ وہاں پہلے سے موجود تھا۔ میز پر کینڈلزجل رہی تھیں۔ لیکن اس وقت اسے الجھن ضرور ہوئی جب اس نے اپنے گلاس کو کوک سے بھرا ہوا دیکھا۔ وہ کوک نہیں پیتی تھی۔ مگر اس نے اس بات پر اس لیے زیادہ دھیان نہ دیا کہ مرتضیٰ پہلے سے وہاں موجود تھا اور کوک پی رہا تھا۔
دونوں نے کھانا کھایا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اسے لگا مرتضیٰ کچھ نروس سا ہے۔ اسمارہ نے اس سے ایک دو مرتبہ پوچھا بھی مگر وہ ٹال گیا۔ کھانا ختم کرکے بھی وہ کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے۔ وہ مرتضیٰ کو بے چینی سے پہلو بدلتا دیکھتی رہی۔
”مرتضیٰ تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟” اسمارہ نے پوچھا۔
”نہیں” بے ساختہ جواب آیا۔
”تو چلیں پھر؟” اسمارہ نے ہینڈ بیگ اٹھا لیا۔
”تم اپنی ڈرنک تو ختم کرو۔” مرتضیٰ نے تیزی سے کہا۔ وہ حیران ہوئی۔
”میں کوک نہیں پیتی مرتضیٰ۔” اسمارہ نے کہا۔
”مارے گئے” وہ زیر لب بڑبڑایا۔
”کیا” اسمارہ کو سنائی نہیں دیا۔
”کچھ نہیں۔ تم اسے ختم کرو اچھے بچوں کی طرح۔ بری بات ہوتی ہے کھانے کو ضائع کرتا” اس نے گلاس اٹھا کر اسمارہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
اسمارہ اس سے باتیں کرتے ہوئے گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔ جب گلاس میں تھوڑی سی کوک بچی رہ گئی تو اس نے اسے جلدی ختم کرنے کے چکر میں ایک بڑا سا گھونٹ بھرا اور کوئی چیز اس کے حلق میں پھنس گئی۔ اسمارہ کا سانس بند ہوگیا۔ ہڑبڑا کر مرتضیٰ اپنی کرسی سے اٹھا اور اس کی کمر سہلانے لگا۔ اردگرد کی میزوں سے لوگ انہیں دیکھنے لگے۔ اسمارہ کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا اور وہ سانس لینے کی جدوجہد کررہی تھی۔ کچھ لوگ اٹھ کر ان کی میز کے گرد جمع ہونے لگے تھے۔
”ہاسپٹل لے جائیں” ایک عورت نے گھبرا کر کہا۔
مرتضیٰ کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے۔ وہ برا بر اس کی کمر سہلائے جارہا تھا۔
”زور سے مارو کمر پر۔” ایک آدمی نے مشورہ دیا۔
”نہیں مارسکتا’!’ مرتضی نے بے بسی سے کہا۔”ارے مار تھوڑی رہے ہو؟ مار کے طور پر نہ مارو، فرسٹ ایڈ کے طور پر مارو!” آدمی نے کہا۔
مرتضیٰ نے رکھ کے ایک دھموکا اس کی کمر پر جڑا اور اسمارہ کے حلق سے کوئی چیز نکل کر میز پر گرپڑی۔ چند لمحے سب لوگ ہکا بکا کھڑے اس چیز کو دیکھتے رہے۔ وہ ایک انگوٹھی تھی جس پر لگے ہیرے کینڈلز کی روشنی میں چمک رہے تھے۔
”پروپوز کرنے کا ارادہ تھا یا جان لینے کا؟” مارنے کا مشورہ دینے والے آدمی نے حیران ہوکر کہا۔
”ارادہ تو پروپوز کرنے کا ہی تھا۔” مرتضیٰ نے سر کھجایا۔
”تو سیدھے سیدھے انگوٹھی پیش کرتے، گلاس میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟” آدمی کی حیرت برقرار تھی۔
”چپ کیجیے آپ۔” اس کی بیوی نے ڈپٹا ۔”آپ کو کیا معلوم رومانس کس چڑیا کا نام ہے؟ کبھی کیا ہو تو پتا ہو۔”
”تو انجام بھی دیکھ لو اس رومانس کا” آدمی نے اسمارہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی رنگت اور سانس بحال ہوچکی تھی۔ کسی نے اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھما دیا تھا اور وہ گلاس ہاتھ میں لیے یک ٹک انگوٹھی کو تکے جارہی تھی۔
عورت نے ہاتھ ہلا کر اپنے شوہر کی بات کو گویا ہوا میں اڑایا اور مرتضیٰ سے مخاطب ہوئی۔ ”اب تم انگوٹھی پہناؤ گے یا دیکھتے ہی رہو گے؟”
”نہ پہننا!” آدمی نے اسمارہ کو خبردار کیا ۔”لوگ محبت سے پروپوز کرتے ہیں، یہ تمہیں دھموکے مار کر پروپوز کررہا ہے۔”
”ان کی مت سنو!” عورت نے کہا ۔”یہ ہوتے تو مجھے دھموکا بھی نہ مارتے۔ وہیں چھوڑ کر چلتے بنتے۔” یہ کہہ کر عورت نے انگوٹھی میز سے اٹھائی اور مرتضیٰ کے ہاتھ میں تھما دی۔
”پہناؤ” اس نے حکم دیا۔
مرتضیٰ نے اسمارہ کا ہاتھ پکڑا اور اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھا۔ ارگرد کھڑے لوگ دم سادھے انتظار کرتے رہے۔ اسمارہ کو بے اختیار ہنسی آئی۔
”ہنسی تو پھنسی!” آدمی تاسف سے بڑبڑایا۔
اوریوں ارگرد کھڑے لوگوں کی تالیوں میں اسمارہ نے مرتضیٰ کے نام کی انگوٹھی پہن لی۔
٭…٭…٭