غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

۱۲۔ سائبان

شجاع اور اسمارہ جس وقت حویلی میں داخل ہوئے، مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ بی بی جان اور زرینہ صحن میں بیٹھی تھیں۔ دن کے اختتام کا آغاز تھا۔ شجاع پر پہلی نظر پڑتے ہی دونوں ٹھٹھک گئیں اور پھر شجاع کے پیچھے انہیں اسمارہ نظر آئی۔ زرینہ کی چیخ نکل گئی۔ لپک کر انہوں نے اسمارہ کو تھام لیا۔ اسے سہارا دیئے وہ تخت تک لے کر آئیں۔
”کیا ہوا؟ کیا ہوا شجاع؟ تم اسے اس طرح کیوں لائے ہو؟” بی بی جان نے کانپتی آواز میں پوچھا۔ شجاع نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر کہا نہ گیا۔ زرینہ نے اسمارہ کو جھنجھوڑ ڈالا۔ ”بولتی کیوں نہیں؟ کیا ہوا ہے؟ کس نے کیا ہے تمہارا یہ حال؟”
اسمارہ نے کچھ بھی کہے بغیر بند مٹھی زرینہ کے آگے کردی۔ زرینہ نے اس کی مٹھی کھول کر کاغذ نکال لیا۔ کئی منٹ تک وہ کاغذ کو گھورتی ہیں جیسے اس کے اصلی ہونے کا یقین نہ آرہا ہو۔ بی بی جان نے ہاتھ بڑھا کر مڑا تڑا کاغذ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ بے اختیار انہوں نے سینے پر دوہتڑ مارا اور ان کے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا ۔”ہائے۔” اس ہائے میں صدیوں کی تڑپ تھی، برسوں کے نوحے تھے۔ اسمارہ نے ان کے بوڑھے گالوں پر آنسو بہتے دیکھے، اپنے بھائی کا جھکا سر دیکھا، ماں کے کانپتے ہاتھ دیکھے اور اس کی وہ فطرت انگڑائی لے کر بیدا ہوگئی جسے بدرالدجا کی موت نے بے حسی کی نیند سلا دیا تھا۔ وہ تیزی سے اٹھی۔ شجاع اس کے پیچھے لپکا۔ اسے خیال ہوا کہ وہ صدمے کے مارے کچھ کرنے جارہی ہے۔ مگر اسمارہ کا رخ صحن میں پڑے کولر کی طرف تھا۔ پانی کا ایک گلاس بھر کر وہ بی بی جان کے پاس آگئی۔ بی بی جان کو پانی پلا کر اس نے زرینہ کو پانی پلایا اور اپنے ہاتھوں سے دونوں کے آنسو پونچھے۔
”کچھ نہیں ہوا۔ کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔” اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ”وہ دونوں پاگل تھے، اچھا ہوا میری ان سے جان چھوٹ گئی۔ یہ کاغذ کا ٹکڑا میری زندگی نہیں ہے۔ میری زندگی آپ لوگ ہیں۔”
”میری بچی، میری بچی۔ اتنا بڑا صدمہ اٹھایاتو نے۔” بی بی جان نے روتے ہوئے کہا۔
”مجھے کوئی صدمہ نہیں بی بی جان!” اسمارہ نے انہیں کسی چھوٹے بچے کی طرح گلے لگا لیا اور تھپکتے ہوئے تسلی دینے لگی۔
”اچھا ہوا میری جان بچ گئی، عزت بچ گئی، زندگی بچ گئی۔ میں خوش ہوں۔ آپ کے پاس آگئی ہوں۔ رونے کے بجائے شکرانے کے نفل پڑھیے۔ مجھے کوئی صدمہ نہیں۔”
وہ جتنی چاہے تسلیاں دیتی، جو مرضی کہتی۔ حقیقت یہ تھی کہ اس کے پیارے صرف اس کی طلاق پر نہیں رو رہے تھے۔ وہ اس پر ہونے والے ظلم پر روتے تھے۔ شجاع کی زبانی سارا واقعہ معلوم ہونے پر بی بی جان اور محی الدین غم و غصے میں بھرے دلاور حسین کے گھڑ پہنچے تھے۔ وہاں دلاور حسین تو نہ ملے۔ شہیر البتہ رو رو کر معافیاں مانگتا رہا۔ اسمارہ کو واپس بھیج دینے کی التجائیں کرتا رہا۔ محی الدین کے غیض و غضب کے آگے جب کوئی پیش نہ چلی تو اس نے پینترا بدلا اور بیان جاری کیا کہ اس سے طلاق کے کاغذ پر دستخط شجاع نے زبردستی اور دباؤ ڈال کر کروائے تھے اور اسمارہ اب بھی اس کی بیوی ہے اور وہ یہ طلاق کورٹ میں چیلنج کرے گا۔
گو کہ تمام خاندان کی بزرگ اب بی بی جان ہی تھیں مگر جو بھی بڑے بوڑھے خاندان میں تھے، ان کی پنچایت بلائی گئی او یہ معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ تعلیم یافتہ خاندن تھا لہٰذا دلاور حسین کے گزشتہ کرتوتوں، شجاع کی بطور عینی گواہ شہادت اور شہیر کے ہر پل بدلتے بیان کے پیش نظر یہ فیصلہ اسمارہ پر چھوڑا گیا۔ اسمارہ نے مضبوط لہجے میں خود کے ساتھ ہونے والا سلوک مختصراً بتایا اور صاف کہہ دیا کہ وہ شہیر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ شہیر کی آہ وزاری کی پروا کیے بغیر طلاق فائنل کردی گئی۔ خاندان کے بزرگ کی ہی سربراہی میں چند لوگ دلاور حسین کے گھر گئے اور اسمارہ کے جہیز کا سامان واپس لایا گیا۔
جس دن سامان واپس آیا، زرینہ سارا دن وقفے وقفے سے روتی رہیں۔ مگر اسمارہ نے حوصلے سے سارا سامان ٹھکانے لگایا۔ فرنیچر مختلف کمروں میں رکھوایا، کپڑے پیک کیے۔ رات کو وہ بی بی جان کے پاس آئی تو اس کے ہاتھوں میں زیورات کے مخملیں ڈبے تھے۔ اس نے اپنے زیوروں سے عالم آراء کے زیور علیحدہ کیے اور بی بی جان کی طرف بڑھا دیئے۔ ”یہ واپس کر دیجیے!” اس نے مضبوط آواز میں کہا۔
بی بی جان اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ” یہ تمہیں دیئے گئے تھے۔ قانوناً تم انہیں رکھ سکتی ہو۔” آخر انہوں نے آہستہ آواز میں کہا۔
اسمارہ پھیکی ہنسی ہنس پڑی ”ہاں قانوناً! مگر میری غیرت کو گوارا نہیں۔”
بی بی جان بے اختیار مسکرائیں۔ آخر تھی نا ان کی پوتی۔ دلیر، غیرت مند، خوددار اور پھر اسے کس چیز کی کمی تھی کہ ان زیوروں کے جانے سے کوئی فرق پڑا۔ انہوں نے زیور شہیر کے گھر بھجوا دیئے۔
محبت کا باب بند ہوا۔ شادی کا باب بھی بند ہوا۔ مگر اسمارہ نے زندگی کا دروازہ خود پر پھر سے کھول لیا۔ شاید کسی ایک صدمے سے سنبھلنے کے لیے دوسرا صدمہ ضروری ہوتا ہے جیسے گرنے سے لگنے والی کئی چوٹیں دوبارہ گرنے سے ٹھیک ہوتی ہیں۔ بدرالدجا کی موت کا غم اس کے دل میں پنجے گاڑے بیٹھا تھا، وہ وہاں سے نہیں نکل سکتا تھا۔ مگر اپنے ظاہری وجود کو اپنی پوری طاقت سے وہ بے بسی اور بے حسی کے پنجوں سے چھڑا لائی تھی۔ بدر کی موت نے اسے توڑا تھا، اس کے ماں باپ کو نہیں۔ مگر اس کی طلاق نے اس کے ماں باپ کو توڑ ڈالا تھا۔ پہلے وہ تھے جو اسے سنبھالا دیئے تھے۔ اب اس نے انہیں سنبھالا تھا اور اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ پہلے خود کو سنبھالے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

عدت کے بعد اس نے یونیورسٹی جاکر تھیسس کے لیے اپلائی کیا۔ اسے ٹائم، ٹاپک اور ممتحن اسائن ہوگئے۔ اپنے ماں باپ، دادی اور بھائیوں کے لیے اس نے خود کو خوش ظاہر کرنا شروع کردیا۔ مصروف رہنے لگی، ہنسنے بولنے لگی۔ وہ اس سے مطمئن ہوگئے۔ ویسے بھی انہیں بہادر بیٹی پر مان تھا۔ کچھ بھی ہو، وہ روتی نہیں تھی۔
دن کے وقت وہ ہر پل مصروف رہتی۔ رات کو زخم تازہ ہونے شروع ہوتے۔ خشک آنکھوں کے ساتھ وہ چت لپٹی چھت کو گھورتی رہتی۔ ایک ہی سوال دل پر کوڑے کی طرح برستا رہتا ۔”میں ہی کیوں؟ میرے ہی ساتھ کیوں؟”
کبھی کبھی تو کسی یادکی ٹیس اس زور سے اٹھتی کہ وہ دوہری ہوجاتی۔ اس کانوں میں آوازیں گونجتیں۔ کبھی بدر الدجا کی آواز، کبھی شہیر کی آواز، کبھی دلاور حسین کی آواز اور پھر یہ آوازیں گڈمڈ ہوجاتیں اور ایک آواز بن کر ایک مڑے تڑے کاغذ کی شکل میں اس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتیں ”میں اسمارہ محی الدین کوبوجہ بدکاری طلاق دیتا ہوں۔” بوجہ بدکاری… بدکاری… بدکاری۔” اس لفظ کی تکرار اس کا سینہ چھلنی کردیتی۔ یہ آوازیں اسے گولی کی طرح لگتیں۔ اس گولی کی طرح جو بدرالدجا کو لگی تھی اور جس کے بارے میں اس نے خواب دیکھا تھا، اسمارہ کو بتایا تھا اور اسمارہ نے اسے ہنسی میں اڑا دیا تھا۔ خوش قسمت تھا بدرجو موت کے ہاتھوں نجات پاگیا تھا۔ بد قسمت تھی وہ کہ زندگی کے نرک میں جل رہی تھی۔
اس نے اپنی راتوں کو بھی مصروف کرلیا۔ لائبریری سے ڈھیروں کتابیں ایشو کروا کر لانے لگی۔ رات کو اس وقت تک پڑھتی اور کام کرتی رہتی جب تک نیند سے آنکھیں خود بخود بند نہ ہوجاتیں۔ دن میں زرینہ کے ساتھ کچن میں، بی بی جان کے ساتھ ان کی حکیمی دواؤں کی تیاری میں اور محی الدین کے ساتھ ان کی میڈیسن ریسرچ میں مدد دینے لگی۔ آہستہ آہستہ اس کے زخم مندمل ہونے لگے۔ دھیرے دھیرے اسے قرار آنے لگا۔ کوشش کیے بغیرنیند آنے لگی۔
ماں باپ، بی بی جان، بھائیوں نے اس کے لیے سائبان کا کام کیا۔ وہ کڑی دھوپ سے گزر کر آئی تھی، انہوں نے اس کو اپنی محبت کی چھاؤں میں سمیٹ لیا۔ اگر یہ سائبان نہ ہوتا تو شاید وہ نارمل زندگی کی طرف نہ لوٹ سکتی۔ دن رات کی محنت نے رنگ دکھایا اور اس نے بیچلرز ٹاپ آنرز کے ساتھ پاس کرلیا۔ جس دن اس کارزلٹ آیا، محی الدین نے اسے پاس بلایا۔
”کیا لوگی تحفے میں؟” انہوں نے شفقت سے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔” وہ مسکرائی۔ وہ اسے دیکھتے رہے۔ کبھی وہ لڑجھگڑکر ضد کرکے تحفے لیا کرتی تھی۔ بات بے بات، وقت بے وقت، لیکن وہ خوش تھے کہ اب وہ نارمل زندگی گزار رہی تھی۔ ان کی بہادر بیٹی۔
”لیکن میں تو تحفہ دینا چاہتا تھا ہوں۔” انہوں نے اصرار سے کہا ۔”اب تم اپنی پسند سے لے لو یا میری پسند سے۔”
”آپ اپنی پسند سے دے دیجیے۔” اس نے ان کا دل رکھا۔
”قاسم کو بھیج رہا ہوں جرمنی۔ اگر تم بھی وہاں پڑھنا چاہو تو…” وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔
وہ خوش ہوگئی۔ ”واقعی ابو؟ آپ قاسم بھائی کے ساتھ بھیج دیں گے مجھے؟”
وہ چپ ہوگئے۔ وہ تو اسے شادی کرکے اس کے شوہر کے ساتھ بھیجنا چاہتے تھے مگر ابھی بہت کم وقت گزرا تھا۔ وہ پڑھ لیتی، کچھ مزید وقت گزرتا، پرانی یادیں بھول جاتیں تو پھر وہ اسے کسی نئے رشتے میں باندھنے کا سوچتے۔
”ہاں۔ تمہاری امی بھی تمہارے ساتھ جائیں گی۔ چار مہینے رہیں گی تمہارے پاس۔ وہ واپس آئی گی تو چند مہینے بعد میں آجاؤں گا۔ اور قاسم تو ہوگا ہی۔ اسی طرح اپنا ماسٹرز کرلینا۔” انہوں نے اس کا ہاتھ تھپک کر کہا۔
وہ اپنے سائبان کو دیکھتی رہی۔ انہوں نے ہر بات سوچ رکھی تھی۔ ہر پہلو سے اس کے سکھ کا خیال رکھا تھا۔ جس لاڈلی بیٹی کو پروں میں چھپا کر پالا تھا، اسے دور بھیج کر بھی اپنی حفاظت کا حصار اس کے گرد قائم رکھ رہے تھے۔ اپنے کام چھوڑ کر اس کے پاس رہنے کو تیار تھے۔
ان کے جانے سے پہلے شجاع کی شادی طے ہوگئی۔ وہ اس خوش گوار ہنگامے میں مصروف ہوگئی۔ شادی کے بعد شجاع باہر چلا گیا۔ اسمارہ قاسم کے ساتھ جرمنی چلی گئی۔ جرمنی میں دو سال بھی اس نے اسی طرح گزارے جیسے پاکستان میں گزارتی تھی۔ دن رات مصروف، ہمہ وقت مشغول۔ یادیں اب بھی کبھی کبھی ستاتی تھیں مگر ان میں وہ کاٹ نہ رہی تھی جو دل کو چیر دیتی اور روح کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی۔
زندگی گھٹتے بڑھتے چاند کی مانند ہے۔ چودھویں کے چاند کی طرح جگمگاتی ہے، پھر گھٹنے لگتی ہے۔ حتیٰ کہ اماوس کی رات آن کھڑی ہوتی ہے۔ اس رات کے گھپ اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا، روتا چلاتا بھٹکتا پھرتا ہے۔ پھر چاندنی دوبارہ بڑھنے لگتی ہے حتیٰ کہ چودھویں کا چاند پھر سے جگمگانے لگتا ہے۔ اسمارہ کی زندگی بھی اپنی اماوس کی رات گزار چکی تھی۔ اب اس کی زندگی کا چاند آہستہ آہستہ پھر سے بڑھنے لگا تھا۔
اس نے ماسٹرز بھی اسی طرح ٹاپ نمبروں کے ساتھ کیا جس طرح بیچلرز کیا تھا۔ اس کے ماں باپ نے فخر سے اسے کانوکیشن پر گولڈ میڈل لیتے دیکھا۔ وہ خوش تھی کہ آج ماں باپ کے لیے دکھ کا نہیں، فخر کا باعث تھی۔ تحفے کے طور پر محی الدین نے اسے یورپ کے ٹور کا تحفہ دیا۔ ماں باپ بھائیوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزار کر وہ پاکستان لوٹی۔ کچھ عرصہ دعوتوں میں گزرا۔ ایک رات اسے محی الدین نے بلایا۔ وہ ان کے کمرے میں گئی تو وہ اپنے بستر میں تکیوں سے ٹیک لگائے میڈیسن کی ایک موٹی سی کتاب چڑھ رہے تھے۔ وہ ان کے پاس بیٹھ گئی۔ ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد وہ مطلب کی بات پر آگئے ”پڑھائی ختم ہوگئی تمہاری۔ میں چاہتا ہوں کہ اب تمہارے فیوچر کے بارے میں کچھ سوچا جائے۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
اسمارہ نے سرجھکا لیا۔ وہ کیا کہہ رہے تھے، وہ سمجھ گئی تھی آج بھی یہ ذکر اسے تکلیف دیتا تھا۔
”چند رشتے ہیں تمہارے لیے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ان میں سے کسی پر غور کرو۔” انہوں نے کہا۔
وہ انکار کرنا چاہتی تھی مگر جانتی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو یہ ہونا ہی ہے۔ دونوں بڑے بھائی باہر جاچکے تھے۔ وہ ساری زندگی ماں باپ کے گھر بیٹھی نہیں رہ سکتی تھی۔ جذبات کو ایک طرف رکھ کر پریکٹیکل ہوکر سوچتی تو یہ فیصلہ جلد بدیر ا سے کرنا ہی تھا۔ لیکن یہ کسی قدر مشکل ہوگا، اس کا اسے بخوبی انداز تھا۔ وہ دو مرتبہ اجڑ چکی تھی۔ تیسری مرتبہ قسمت کو آزمانے کے خیال سے اس کا دل کانپ جاتا تھا۔
اسے سوچ میں پڑا دیکھ کر محی الدین نے اس کا سر تھپکا۔ ”نہ کوئی جلدی ہے نہ مجبوری۔ بس میں چاہتا ہوں، اپنی زندگی میں تمہیں گھر کا کردوں۔”
وہ تڑپ گئی۔ ”ابو ایسے مت کہیں۔”
وہ ہنس پڑے ”اچھا نہیں کہتا۔ لیکن سچی بات یہ ہے بیٹا کہ برتن میں ترپڑ آگئی ہے۔ کس وقت ٹوٹ جائے کچھ پتا نہیں۔”
”ٹھیک ہے ابو۔ جیسے آپ کی خوشی۔” اس نے جھکے سر کے ساتھ کہا۔ اب بھی تو وہ ان ہی کی خوشی کے لیے جی رہی تھی۔ تو پھر یہ بھی سہی۔
وہ خوش ہوگئے۔ شفقت سے اس کا سر تھپکا۔ ”جیتی رہو۔” وہ اٹھ کر آگئی۔
اسے جیتے رہنے کی دعا دینے والا اس رات سویا تو اگلی صبح نہ اٹھا۔ اماوس کی رات ایک مرتبہ پھر آن کھڑی ہوئی۔
٭…٭…٭

۱۳۔ کون ہو تم؟

اسمارہ نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور آگے جھک کر ونڈ سکرین سے جھانک کر مال کی بلڈنگ کو دیکھا۔ گلبرگ میں یہ نیا مال کھلا تھا اور اسمارہ کے آفس سے صرف پانچ منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ چند دن پہلے اس مال کے آگے سے گزرتے ہوئے اس کی نظر اس پر پڑی تھی اور اس کا پیر خود بخود بریک پر جاپڑا تھا۔ وہاں اس امریکن برانڈ کے بڑے بڑے بورڈ لگے تھے جو بدر کا پسندیدہ تھا اور وہ ہر مرتبہ امریکہ سے اس کے لیے زیادہ اس برانڈ کی چیزیں لایا کرتا تھا۔
بدرالدجا کے نام کی طرح اس کی یاد بھی بدرالدجا تھی۔ اندھیری رات میں چمکتا ہوا پورا چاند۔ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی اس کے دل میں یہ یاد تایاں تھی۔ کسی بھی مشکل، کسی بھی مصیبت کا اندھیرا اس چاند کو گہنا نہ سکا تھا۔ ہر غم نے اس ایک غم کو تازہ کیا تھا جس نے کبھی اس کی زندگی کی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں۔ محی الدین کے انتقال نے اسے بے سائبان کر دیا تھا مگر اس وقت وہی تھی جس نے ماں، دادی اور چھوٹے بھائی کو سہارا دیا تھا۔ اس کے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ اس نے ایک بیٹے ہی کی طرح باپ کے بعد سب انتظام کیے تھے۔ بڑے دونوں بھائی آئے مگر ان کی نوکریوں کی مجبوری تھی، چلے گئے۔ چھوٹا اسد ابھی پڑھ رہا تھا۔ اسمارہ نے نہ صرف بچ رہ جانے والے چھوٹے سے خاندان کو جذباتی سہارا دیا بلکہ جائیداد کی دیکھ بھال بھی اپنے ذمے لے لی۔ زرعی زمینوں کے ٹھیکے، فارم ہاؤس کو فنکشز کے لیے کرائے پر دینے اور تمام آمدنی کے حساب کتاب کا ذمہ اس نے اٹھالیا۔ پھر ان سب پر سوا اس کی جاب تھی۔ وہ اس قدر مصروف رہنے لگی تھی کہ کچھ سوچنے کا بھی وقت نہ ملتا تھا۔ اس کا آفس گلبرگ میں تھا۔ حضوری باغ سے گلبرگ آنے جانے میں اسے وقت تو بہت لگتا تھا مگرجاب اس کی پسند کی تھی، کولیگ اچھے تھے، وہ اپنی جاب سے بہت مطمئن تھی۔ سب کے باوجود کبھی کبھی کوئی یاد اس شدت سے اور اچانک اس پر حملہ آور ہوتی تھی کہ کچھ لمحوں کے لیے وہ سانس لینے کے قابل نہیں رہتی تھی۔ جیسے اُس وقت جب اس نے مین بلیوارڈ پر واقع مال میں بدر کے پسندیدہ برانڈ کا بورڈ دیکھا تھا۔ اس نے اس سے نظریں چرانے کی کوشش کی، ہمیشہ کی طرح دل میں اٹھتی یادوں کو دبانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکی۔
آج وہ آفس سے جلدی اٹھ آئی تھی۔ اس کا ارادہ صرف یہاں کچھ دیر گھوم پھر کر چند چیزیں دیکھنے کا تھا۔ گاڑی سے باہر نکل کر اس نے سر اٹھا کر سائن بورڈ کو دیکھا اور پھر اس کی پارکنگ کے پرے کنارے پر کھڑی BMW پر پڑی۔ ویسی ہی چھوٹی سی، نیچی،beamer جس میں اس نے پہلی مرتبہ بدر کو دیکھا تھا۔ اسمارہ نے نظریں اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ”کیا چاہتے ہو؟” اس نے سرگوشی میں پوچھا۔ ”پہلے یہ برانڈ اور اب یہ گاڑی۔ کچھ کہنا چاہتے ہو؟ کوئی اشارہ ہے کیا یہ؟”
وہ یونہی بدر نے سے باتیں کیا کرتی تھی۔ بدر اکثر ایک شعر گنگنایا کرتاتھا۔
کرو کج جبیں پر سرِ کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو۔
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا۔
اسمارہ کو اکثر لگتا تھا کہ وہ یہ بات اسے یاد کرواتا رہتا تھا، کسی نشان میں، کسی آہٹ میں، کسی لفظ میں، کسی گمان میں۔ غرورِ عشق کا وہ بانکپن جو اسے اپنی زندگی میں اپنا عزیز تھا، مرنے کے بعد بھی اس کی پرچھائیں اسمارہ کے اردگرد جھلملا رہی تھی۔
وہاں کھڑے اس نے حساب لگایا کہ اس نے کتنے سال پہلے بدرالدجا کو پستہ قد beamer میں بیٹھے دیکھا تھا۔ پورے آٹھ سال پہلے۔ جب وہ اٹھارہ سال کی تھی اور بدر اس سے تین سال بڑا۔ وہ بے اختیار مسکرائی۔ بچے ہی تھے دونوں۔ اسے خیال آیا کہ اگر بدرزندہ ہوتا تو شاید آج وہ اس کے ساتھ یہاں آئی ہوتی۔ اس نے سر جھٹک کر ان خیالوں سے پیچھا چھڑایا اور مال میں داخل ہوگئی۔
برانڈ کا آؤٹ لیٹ تقریباً آدھے فلور پر محیط تھا۔ اس کے وسیع ہال میں کپڑوں کے ریک اور بیگز کے شیلف دیکھتے وہ ایک ریک کے پاس سے گزری تو اس کے قدم جم گئے۔ کوٹ اور جیکٹس۔ بے اختیار وہ اس ایک کی طرف کھنچی چل گئی۔ بدر ہمیشہ اس کے لیے کوٹ اور جیکٹس لایا کرتا تھا۔ جینز اور ٹاپ وہ پہنتی نہ تھی، جوتوں کے سائز میں بدر کو گڑ بڑ ہونیکا دھڑکا رہتا تھا لہٰذا کوٹ اور جیکٹس ہی بچتے تھے۔
وہاں ایک اور شخص پہلے سے کھڑا ایک جیکٹ ہاتھ میں لیے دیکھ رہا تھا۔ اچانک وہ مڑا اور اسمارہ کی نظر اس کے چہرے پر پڑی۔ اسمارہ کو لگا اس نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ اسمارہ کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ شخص ہلکا سا، بڑے فارمل انداز میں مسکرایا جیسے کسی اجنبی سے نظریں ملنے پر مہذب لوگ کرتے ہیں۔ اسمارہ کے قدم جیسے زمین نے پکڑلیے۔ اسے ادراک ہوا کہ یہ شخص اسے جانا پہچانا کیوں لگا تھا۔ اس کی آنکھیں بالکل بدر جیسی تھیں اور جب وہ مسکرایا تھا تو وہی خوشدلی، نرمی اور شفقت اس کی آنکھوں میں چمک اٹھی تھی جو بدر کا خاصہ تھی۔ اسمارہ نے گہرا سانس لیا۔ کیا ہورہا تھا آج۔ ہر چیز اسے بدر کی یاد کیوں دلا رہی تھی۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھ کر ریک میں لگے کپڑے دیکھنے لگی۔ ایک بلیک اینڈوائٹ کراپ جیکٹ کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک دوسرے ہاتھ نے بھی اسی وقت اسے پکڑلیا۔
”پلیز۔” اس شخص نے جلدی سے ہاتھ ہٹا کر اشارہ کیا جیسے کہتا ہو آپ دیکھ لیجیے۔
”اٹس اوکے!” اسمارہ نے کہا۔ ”آپ دیکھ لیجیے پلیز۔”
”میں تو ایک گھنٹے سے دیکھ رہا ہوں۔” بدر جیسی آنکھوں والے نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا۔
”اپنی بہن کے لیے تحفہ لینا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔”
”یہ جیکٹ اچھی ہے۔” اسمارہ نے بلیک اینڈوائٹ جیکٹ کی طرف اشارہ کیا۔
”ہاں۔ لیکن میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیشہ اس کے لیے بلیک ہی خرید لیتا ہوں۔ اب تک چار بلیک کوٹ ہوچکے ہیں اس کے پاس۔” اس نے بھنویں اچکا کر کہا۔
اسمارہ دم بخود کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ کون تھا یہ شخص، بدر جیسی آنکھوں والا، بدر جیسی باتوں والا۔ اور پھر اس شخص نے دوسرابم پھوڑا۔ ”لیکن کیا کرسکتے ہیں؟ یہ جو لڑکیوں نے ایک ایک رنگ کے ہزار شیڈز نکال رکھے ہیں، یہ مجھے سمجھ نہیں آتے۔ So black is the best option۔”
اسمارہ کا سانس اس کے گلے میں اٹک گیا۔ بے اختیار وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور اس کے منہ سے سرسراتی ہوئی آواز میں نکلا۔ ”کون ہوتم؟”
اس شخص نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے کا رنگ سفید پڑ چکا تھا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں؟” اس نے کچھ کہنا چاہا مگر اسمارہ تیزی سے مڑی اور بھاگتی ہوئی باہر نکلی گئی۔ وہ بلیک اینڈ وائٹ جیکٹ ہاتھ میں تھامے کھڑا رہ گیا۔
٭…٭…٭
زرینہ اس کے کمرے میں آئیں تو وہ اندھیرا کیے آنکھوں پر بازورکھے بستر پر لیٹی تھی۔ انہوں نے لائٹ جلائی تو اس نے بازو ہٹایا۔ انہیں دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی اور اٹھ بیٹھی۔ لمحے بھر کے لیے زرینہ کو گمان ہوا کہ شاید وہ روتی رہی ہے مگر اس کی آنکھیں خشک تھیں۔ کبھی کبھی زرینہ کا دل چاہتا تھا وہ آنسو بہائے، کبھی تو دل کا حال کہے۔ کبھی تو عام لڑکیوں کی طرح رو کر جی کو ہلکا کرے مگر وہ اسمارہ تھی۔ سات نسلوں میں پہلی لڑکی، جس پر اس کے باپ بھائیوں کو فخر تھا کہ وہ روتی نہیں۔
”کھانا نہیں کھانا تم نے؟” زرینہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”کھالیتی ہوں۔” اس نے فرمانبرداری سے کہا مگر زرینہ دیکھ چکی تھیں کہ یہ مسکراہٹ کوشش کرکے ہونٹوں پر سجائی گئی ہے اور آنکھوں تک نہیں پہنچی۔
”بی بی جان کہاں ہیں؟” اسمارہ نے بال باندھتے ہوئے پوچھا۔
”مریض عورتوں کے پاس بیٹھی ہیں۔” زرینہ نے کہا۔ محی الدین کے بعد بی بی جان بہت بدل گئی تھیں۔ کچھ عرصہ تو بالکل صاحبِ فراش رہیں۔ اسمارہ ان کے کمرے میں سونے لگی تھی۔ وہ انہیں اس غم کی حالت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ جس عورت کو اس نے بہت کم روتے دیکھا تھا، اب ساری ساری رات ان کی سسکیاں لیتے گزار دیتی۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی حالت دیکھ سنبھلنے لگی۔ مگر اب بھی وہ صاحب فراش تھیں۔ گھر، جائیداد، ملنا جلنا کسی چیز سے کچھ واسطہ نہ رہا تھا۔ اپنی نماز تھی اور اپنی تسبیح۔ یا پھر شام کو مریض عورتیں آجایا کرتی تھیں۔
”اسد آگیا؟” اسمارہ نے پوچھا۔
”ہاں۔ اب بھوک بھوک کا شور مچاتا پھررہا ہے۔” زرینہ نے ہنس کر بتایا۔
”آپ چلیں میں منہ ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔” اسمارہ نے مسکرا کرکہا۔
زرینہ کے جانے کے بعد وہ کتنی ہی دیر یونہی بیٹھی رہی۔ آج مال میں جو ہوا، وہ ابھی تک اس کی گرفت سے نہیں نکل سکی تھی۔ پہلے اس برانڈ کا دیکھنا، پھر وہ پستہ قد BMW اور پھر بدر جیسی آنکھوں والا وہ شخص جو بدر ہی کی طرح رنگوں میں فرق نہیں کرسکتا تھا اور بلیک کو بیسٹ آپشن قرار دیتا تھا۔ اسمارہ کو اپنے روئیے پر کچھ شرمندگی بھی تھی۔ وہ چیزوں کو اپنے حواس پر سوار کرکے ان کے مطلب کیوں نکالنے لگی تھی۔ بہت سے انٹرنیشنل برانڈ پاکستان میں کھل رہے تھے۔ BMW کوئی اتنی انوکھی گاڑی نہیں تھی کہ یہاں کسی کے پاس نہ ہوتی اور رہی اس شخص کی بات تو بہت سے لوگوں کی آنکھیں شفقت اور نرمی سے چمکتی ہیں اور بہت سے مردوں کو رنگوں کی سمجھ نہیں ہوتی اور وہ بلیک اینڈ وائٹ کو بیٹ آپشن قرار دیتے ہیں۔ مگر وہ تار بلیک کوٹ۔ اسمارہ کے دل کو پنکھے لگے تھے۔ وہ جتنا اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کرتی، دل تھا کہ مڑ مڑ کر اس بات کی گردان کیے جاتا تھا۔ کون تھا وہ بدر جیسی آنکھوں والا اور بدر جیسی باتوں والا۔
٭…٭…٭
اس شخص سے اس کی دوسری ملاقات اوپن مائیک میں ہوئی۔ اسمارہ کے آفس کے قریب ہی ایک کیفے اور بک شاپ تھی جہاں مہینے میں ایک دومرتبہ اوپن مائیک ہوا کرتے تھے۔ مختلف لوگ وہاں اکٹھے ہوئے اور کسی ایک موضوع پر اپنی کہانیاں، مضمون اور شاعری سناتے۔ اسمارہ ہمیشہ وہاں آڈئنس کے طور پر جاتی تھی۔ اسے اچھا لگتا تھا ادبی باتیں سننا اور ان لوگوں میں گھلنا ملنا۔
اس دن اوپن مائیک میں خواب کا تھیم دیا گیا تھا۔ اسمارہ کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے اٹھ کر ایک چھوٹی سی نظم پڑھی۔ وہ واپس آکر بیٹھی تو اسمارہ نے اس کی نظم کی تعریف کی۔ وہ اس کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھی اس لیے اس نام کو نہ سن سکی جو اس کے بعد پکارا گیا تھا۔ پچھلی سیٹوں سے کوئی اٹھ کر آگے گیا اور مائیک کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اسمارہ کی نظر اس پرپڑی اور اس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ وہ ہی تھا۔
اس نے کہنا شروع کیا۔ ”میری نظم کا عنوان ہے خواب مرتے نہیں۔”
اسمارہ دم بخود اسے دیکھتی رہی۔ ”خواب مرتے نہیں؟ مگر بدرالدجا تو مرگیا تھا۔ اس کے ساتھ اسمارہ کے خواب بھی مرگئے تھے۔”
اس شخص نے اپنی نظم شروع کردی تھی۔
”خواب مرتے نہیں
ٹوٹ جاتے ہیں
ان کو جوڑنے کی کوشش میں
انگلیاں فگار ہوتی ہیں
اک نہیں کئی بار ہوتی ہیں
خواب مرتے نہیں جل جاتے ہیں
اور ان کی راکھ سے ققنس کی طرح
نئے خواب جنم لیتے ہیں
خواب مرتے نہیں
وہ اک پیہم شوقِ آرزو
بے قیاس جستجو
حسرتوں کی آب جو
میں بہہ جاتے ہیں
خواب مرتے نہیں
عشق پیچاں کی بیل کی طرح
کنج دِل سے لپٹ جاتے ہیں
کسی آسیب کی مانند
طلب کو رحمت جاتے ہیں
خواب مرتے نہیں
عقدِ ثریا کی طرح
تمنا کے طاس نیلگوں پر جگمگاتے ہیں
کبھی چھاؤں میں، کبھی دھوپ میں
کبھی خود فریبی کے روپ میں
کبھی انکساری کے رنگ میں
کبھی شان و شوکت کے ڈھنگ میں
کبھی اِس طرف، کبھی اُس طرف سے آتے ہیں
خود تو مرتے نہیں
ہم کو مار جاتے ہیں۔”
اسمارہ نے اپنے گرد تالیاں بجتے سنیں۔ اسے لگا وہ بھی ایک خواب میں بیٹھی ہے۔ خواب جو مرتے نہیں، خواب جو نئی نئی شکلوں میں سامنے آتے ہیں۔ خواب جو آنکھ میں رہ جاتے ہیں۔ کیا وہ بھی ایک خواب دیکھ رہی تھی؟
اپنی سیٹ پر جاتے ہوئے وہ اسمارہ کے پاس سے گزرا اور اسے دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا۔ اس کی مہربان نظروں میں پہچان کا رنگ ابھرا اور وہ مسکرایا۔ بدر جیسی مسکراہٹ جس میں ہونٹوں سے زیادہ آنکھیں مسکراتی ہیں۔
”ہیلو۔” اس نے مسکرا کر اسمارہ سے کہا۔
”ہیلو۔” اسمارہ نے بمشکل کہا۔ وہ آگے بڑھ گیا۔ اسمارہ نے گہرا سانس لے کر خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ کیا ہوگیا ہے؟ اس طرح ری ایکٹ کیوں کررہی ہوں میں؟ اس نے خود کو سمجھنا چاہا۔ مگر وہ کیا کرتی۔ اس شخص کو دیکھ کر یوں لگتا تھا بدر سامنے آکھڑا ہوا ہو۔
اوپن مائیک ختم ہوا تو اس نے حسب معمول لوگوں سے بات چیت کرنے کے بجائے تیزی سے وہاں سے نکل جانا چاہا مگر راستے میں کھڑے دو تین لوگوں کے سبب اسے رک جانا پڑا۔ وہ مڑی تاکہ دوسری سائیڈ سے نکل جائے اور کسی سے ٹکرا گئی۔ وہاں وہ کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر مسکرایا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے کا فطری حصہ معلوم ہوتی تھی۔ نظر ملتے ہی مسکراتا تھا۔ شفاف، بے ریا مسکراہٹ۔ بدر کی طرح۔ اسمارہ اپنے پچھلے دونوں رویوں پر شرمندہ تھی۔ اس خفت کو مٹانے کے لیے اس نے کہا ”بہت اچھی نظم تھی آپ کی۔”
اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ ”اچھی لگی آپ کو؟” اس نے پوچھا۔
”جی ہاں اچھی لگی۔” اسمارہ نے کہا۔ اسے محسوس ہوا وہ زیادہ دیر وہاں کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اس شخص نے مسکرا کر سر خم کیا۔ ”تشکر… لفظوں کے لیے اور لفظوں کو سمجھنے والوں کے لیے۔” اسمارہ کے ہاتھ میں پکڑی ڈائری گر گئی۔ ”کون ہو تم؟” اس نے چیخنا چاہا مگر آواز حلق میں اٹک گئی۔ سوال ایک سرگوشی کی صورت میں اس کے منہ سے نکلا اور ان دونوں کے بیچ معلق ہوگیا۔ ساری کائنات سانس روک کر اس سوال کے جواب کا انتظار کرنے لگی۔
”میں؟” سامنے کھڑے شخص نے کچھ حیرت سے اس کا سوال سنا۔
”میں مرتضیٰ ہوں۔ یہاں…” اسمارہ نے اسے کہتے سنا مگر اسمارہ وہ سنڈریلا تھی جس کے لیے رات آدھی بیت چکی تھی۔ مزید وہاں کھڑی رہتی تو آشکار ہوجاتی۔ اس کی بات پوری سنے بغیر وہ تیزی سے مڑی اور لوگوں کے بیچ رستہ بناتی غائب ہوگئی۔ مرتضیٰ نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا۔ پھر اس کی نظر زمین پر پڑی ڈائری پر پڑی۔ سنڈریلا اپنا بلوریں جوتا چھوڑ گئی تھی۔ اس نے جھک کر ڈائری اٹھالی۔
٭…٭…٭
اسمارہ نے تیسری مرتبہ پیرا گراف ڈیلیٹ کیا اور کمپیوٹر شٹ آف کردیا۔ کوشش کرنا فضول تھا۔ وہ فوکس نہیں کر پارہی تھی۔ اس کا ارتکاز بار بار ٹھیک رہا تھا۔ وہ آواگون پر یقین پر رکھتی تو سمجھتی کہ بدر واپس دنیا میں آگیا تھا۔ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ نہ بھلا دینے کے وعدے کو اپنا کرنے کے لیے۔ مگر یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ یہ عجیب اسرار تھا کہ وہ شخص اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا جو اپنی ہر بات سے اسے بدر کی یاد دلاتا تھا۔ کیا بدر کو اس کے لیے کسی اور کی شکل میں مجسم کردیا گیا تھا؟ کیا بدر واپس آگیا تھا؟
اس نے ڈیسک کے دراز میں سے بدر کی تصویر نکالی۔ یہ واحد تصویر تھی جو اس کے پاس تھی۔ گھر میں اس نے کچھ نہ چھوڑا تھا۔ نہ کوئی تصویر، نہ خط، نہ تحفہ، نہ یادگار۔ کچھ بھی نہیں۔ بس یہ ایک تصویر تھی جو وہ نہیں پھینک سکی تھی۔ یہ تصویر اس نے آفس میں اپنے ڈیسک کی دراز میں سنبھال رکھی تھی۔ آج عرصے بعد اس نے اسے نکالا تھا۔ وہ یک ٹک تصویر کو دیکھے گئی۔ یہ امریکہ کی تصویر تھی۔ اس میں وہ یونیورسٹی گراؤنڈ میں کھڑا تھا اور اس کی آنکھوں میں وہی نرم اور مہربان مسکراہٹ تھی جس میں اسمارہ کی جان بند تھی۔
اسمارہ نے تصویر سے نظریں اٹھائیں اور اسے ہارٹ اٹیک ہوتے ہوئے بچا۔ سامنے مرتضیٰ کھڑا تھا۔ ویسی ہی آنکھوں اور ویسی ہی مہربان مسکراہٹ کے ساتھ جو وہ ابھی تصویر میں دیکھ رہی تھی۔
”اسلام و علیکم۔” مرتضیٰ نے سرخم کرکے کہا۔
اسمارہ دم بخود اسے دیکھے گئی۔ مرتضیٰ نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اوردوبارہ کہا
”کیسی ہیں آپ؟” اس کی آواز سن کر اسمارہ ہوش میں آئی۔ اسے احساس ہوا کہ ہونق پن سے آنکھیں پھاڑے اسے گھورے جارہی ہے۔ شرمندگی سے اس کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔
”آپ یہاں کیسے؟” اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
مرتضیٰ نے ہاتھ میں پکڑی ڈائری لہرائی۔ ”یہ آپ کل وہاں چھوڑ آئیں تھیں۔ اس میں آپ کے آفس کا پتا لکھا تھا۔ میں نے سوچا آپ کو دیتا چلوں۔”
اسمارہ نے شکریہ کہہ کر ڈائری اس کے ہاتھ سے لے لی۔ آفس کی ڈائری تھی جس میں وہ کچھ حساب کتاب اور To Do لسٹ لکھا کرتی تھی۔
”تھینک یو۔ بیٹھیے۔” اس نے اخلاقیات نبھانے کی غرض سے کہا۔
”شکریہ۔” وہ واقعی بیٹھ گیا۔
”کیا لیں گے آپ؟ چائے، کافی؟” اسمارہ نے اخلاقیات نبھانے کی دوسری کوشش کی۔
”بس ایک گلاس پانی پلا دیجیے۔” اس نے کہا۔
جتنی دیر میں اس نے پانی پیا، اسمارہ مکمل طور پر خود پر قابو پا چکی تھی۔
”سالگرہ ہوگئی آپ کی بہن کی؟” اسمارہ نے پوچھا۔
”جی ہاں۔” وہ ہنسا۔ ”اور اس بار بھی میں نے اسے بلیک اینڈ وائٹ جیکٹ ہی گفٹ کی۔”
”I am sure انہیں پسند آئی ہوگی۔” اسمارہ مسکرائی۔
وہ پھر سے ہنسا۔ ”آج اسے لے جارہا ہوں exchange کروانے کے لیے۔ حالانکہ میں نے اسے بہت کہا کہ دیکھو جمیلہ لڑکیوں پر بلیک بہت سوٹ کرتا ہے مگر اس کو…” اس کی نظر اسمارہ کے دھواں دھواں ہوتے چہرے پر پڑی اور اس کا جملہ اس کے منہ میں دم توڑ گیا۔ اس نے بے حد حیران ہوکر اس نے اسمارہ کو دیکھا۔
”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟” اس نے فکر مندی سے پوچھا۔
اسمارہ نے اٹھ کر ایک گلاس میں پانی ڈالا اور ایک ہی سانس میں پی گئی۔ پانی پی کر اس نے اپنے کانپتے ہاتھوں کو چھپایا اور پوچھا۔ ”جمیلہ آپ کی بہن کا نام ہے؟”
”نہیں۔ نام تو اس کا مریم ہے۔ میں اسے جمیلہ کہتا ہوں۔” اس نے کہا۔
”کیوں؟”
وہ کچھ شرمندہ سا ہوکرہنسا۔ ”میرے ایک دوست کے ابا کالج میں عربی کے پروفیسر تھے۔ ان سے ایک مرتبہ ایک کہانی سنی تھی جس کی ہیروئن بہت خوبصورت تھی اور اس کا نام جمیلہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ خوبصورت لڑکی کو ویسے بھی جمیلہ ہی کہا جاتا ہے۔ بس تب سے مجھے عادت ہوگئی۔ ہر جمیلہ لڑکی کو جمیلہ کہنے کی۔”
اسمارہ کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ اس کا دل چاہا پوچھے۔ ”کوئی جمیلہ ہے تمہاری زندگی میں؟” وہ کوشش کرکے مسکرائی۔
”میں چلتا ہوں۔ بس یہ ڈائری دینے آیا تھا۔” اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”Thank you” اسمارہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ چند لمحے کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے بہت نرمی، بہت امید کے ساتھ کہا۔”امید ہے آپ سے دوبارہ ملاقات ہوگی۔”
وہ کہہ کر چلا گیا مگر اس کے جملے کی بارگشت اسمارہ کے کانوں میں گونجتی رہی۔ دوبارہ ملاقات۔ دوبارہ ملاقات۔ دوبارہ ملاقات ہی تو ہورہی تھی اسمارہ کے اس سے۔
٭…٭…٭
اگر قسمت کسی کو بار بار ملانے پر تلی ہو تو کسی کی کیا مجال کہ اس کا راستہ روک سکے۔ PC میں ایک آفیشل ڈنر کے موقع پر اس کی تیسری ملاقات مرتضیٰ سے ہوئی۔ گیدرنگ کافی بڑی تھی اس لیے وہ اسے آتے ہوئے نہیں دیکھ سکی۔ بونے ٹیبل کے قریب کھڑی وہ کھانا لینے کا انتظار کررہی تھی کہ اچانک اس نے اسے اپنے قریب کھڑا پایا۔
”ہیلو جمیلہ!” اس نے بے تکلفی سے کہا ۔”کیسی ہو؟”
اسمارہ نے اپنے دل میں پھوٹتی خوشی کو محسوس کیا اور حیران رہ گئی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟” اس نے مسکرا کر پوچھا۔
”اب تو بہت خوش ہوں۔” اس نے ہنس کر کہا۔ اس کے آگے جگہ خالی ہوگئی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر چمچہ اٹھایا اور تھوڑی سی سلاد اسمارہ کی پلیٹ میں ڈال دی۔ اس سے باتیں کرتے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے اسمارہ کو ایک بار بھی اپنی پلیٹ میں کچھ نہ ڈالنا پڑا۔ وہ اس کی پلیٹ میں چیزیں رکھتا گیا۔
”پلیز بس۔ میں اتنا نہیں کھا سکتی۔” اسمارہ نے احتجاج کیا اور پلیٹ پیچھے کھینچ لی۔ وہ ہنس پڑا۔ اس ساری شام وہ اس کے ساتھ رہا۔ اسمارہ اس کی باتیں سنتی رہی اور ہر دوسری بات پر اسے یوں لگتا رہا کہ بدر اس کے پاس بیٹھا باتیں کررہا ہے۔ وہ اس کی باتوں پر چونک جاتی۔ حیران ہوکر دل میں کہتی۔ ”کون ہو تم؟” لیکن پوچھ نہ سکی۔ وہ ایک موبائل کمپنی میں مارکیٹنگ ایگزیکٹو تھا۔ اس کے ابا بینک سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی۔ وہ اس کی باتیں سنتی رہی اور اسے وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ ڈنر ختم ہوا۔ لوگ آہستہ آہستہ جانے لگے۔ وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ اسے گاڑی تک چھوڑنے آیا۔ ”تمہیں فون کروں گا میں۔” اس نے بے تکلفی سے کہا۔
”کیوں؟” اسمارہ نے بے ساختہ پوچھا۔
”اب یہ کیوں بھی بتانا پڑے گا؟” وہ بڑ بڑایا۔
وہ منتظر نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔
”اچھا! اس کیوں کی وجہ سوچ لینے دو۔ پھریہ جواب دینے کے لیے فون کروں گا۔” اس نے چٹکی بجا کر کہا۔
”ٹھیک ہے۔ کوئی کام ہو تو فون کر لینا۔” اسمارہ نے کہا۔
”اور اگر کوئی کام نہ ہوا؟” اس نے چمکتی آنکھیں اس پر جما کر پوچھا۔
اسمارہ کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر اس کے دل کے بہت اندر سے ایک ننھی سی روشن نمودار ہوئی اور بڑھتے بڑھتے مسکراہٹ بن کر اس کے ہونٹوں پر آن ٹھہری۔
”تب بھی کرلینا۔” اس نے کہا۔
اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور مرتضیٰ کی آنکھوں کی چمک کے آگے ستارے ماند پڑ گئے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Read Next

تہذیب کے دائرے — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!