عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

”نانا یہاں بونے ہیں کیا؟” اس نے بے حد جوش سے خیر دین سے پوچھا۔
”بیٹی آہستہ، اتنی اونچی آواز سے ان کا نام نہیں لو، وہ ناراض ہو جائیں گے۔” خیر دین نے اسے ٹوکا۔
”نانا۔ آپ مجھے دکھا سکتے ہیں، وہ کہاں ہیں؟” اس بار چڑیا نے خیر دین کے ساتھ چپک کر سرگوشی کے انداز میں پوچھا تھا۔ اس کے ذہن میں اس فیری ٹیل کی رنگینillustration گھوم رہی تھی۔ خوب صورت ٹوپیوں اور لباس میں ملبوس کیوٹ، موٹے اور شرارتی ہنس مکھ بونے جو سنو وائٹ کے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے اور سنو وائٹ کے سوجانے پر غم سے بے حال ہو گئے تھے۔
”نہیں، نہیں۔ میں نہیں دکھا سکتا لیکن جب بھی تمہیں گھر میں کوئی عجیب چیز ہوتی نظر آئے تو تم بس کلمہ پڑھنا، الحمد شریف پڑھنا، قل ہواللہ پڑھنا، ایت الکرسی پڑھنا… اور ڈرنا نہیں…” خیر دین اسے سمجھا رہا تھا۔




وہ کئی سالوں سے اس گھر کے بارے میں بہت کچھ سنتا آ رہا تھا اور وہاں کام کرنے کے دوران اس نے بہت سارے عجیب واقعات ہوتے دیکھے تھے۔ وہ شروع میں خوفزدہ ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس کا خوف ختم ہوتا گیا۔ ہ سب کچھ جیسے معمول کی بات تھی اس کے لیے ،بلکہ گھر میں کام کرنے والے دوسرے لوگوں کے لیے بھی… گھر میں موجود ان بولوں نے آج تک کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
”لیکن میں یہ سب کیوں پڑھوں؟” چڑیا الجھی۔
”تاکہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں وہ… ابھی تم نے دیکھا گلاس چلنا بند ہو گیا۔” خیر دین نے اسے رسانیت سے سمجھاتے ہوئے کہا۔ چڑیا نے کچھ مایوسی سے اس ساکت گلاس کو دیکھا وہ خیر دین کو بتا نہیں سکی کہ گلاس کی حرکت بند ہو جانے پر وہ مایوس ہوئی مطمئن نہیں۔ وہ اب ہر قیمت پر ان بونوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔
سنووائٹ کے ساتھیوں جیسے نٹ کھٹ تیزو طرار اور کیوٹ بونے۔
اپنی زندگی کے چھٹے سال میں یہ اس گھر میں ہونے والا پہلا غیر معمولی واقعہ تھا جو چڑیا نے دیکھا۔ اگر اس سے پہلے اس نے کچھ دیکھا تھا تو اس کا ذہن اسے مافوق الفطرت سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ اب خیر دین کی وجہ سے اس گھر کے اندر باقاعدگی سے آ رہی تھی اور ڈی سی کی بیوی کی نرم مزاجی اور رحم دلی کی وجہ سے گھر کے ان حصوں میں آ جا رہی تھی جہاں عام طور پر نوکروں کے اہل خانہ میں سے کبھی کوئی نہیں جاتا تھا۔ اس سرکاری رہائش گاہ میں ویسے بھی حلیمہ اور چڑیا کسی نوکر کے واحد اہل خانہ تھے جنہیں رہائش کی اجازت دی گئی تھی ورنہ ان کے علاوہ وہاں موجود تمام نوکر اپنی بیوی کو ساتھ نہیں رکھ سکتے تھے۔
وہ چلنے والا گلاس اور وہ بونے چڑیا کے ذہن پر سوار ہو گئے تھے۔ اگلے دن اسکول جا کر اس نے ریڈنگ روم میں پڑی اسٹوری بکس میں سے سنو وائٹ کی اسٹوری کی بک دوبارہ نکال لی تھی۔ کتاب کے صفحات پربونوں کی illustration اسے مکمل طور پر مسحور کئے رہیں۔ پورا دن وہ بونے اس کے سر پر ناچتے رہے وہ جیسے سنو وائٹ بنی ہوئی تھی۔
وہ چڑیا کی زندگی کا جیسے ایک نیا باب تھا۔ وہ گھر پہلے اس کے لیے گھومنے پھرنے کی جگہ تھا اب ایک دریافت گاہ تھا۔ وہ بونوں سے دوستی کرنا چاہتی تھی ویسی دوستی جیسی سنو وائٹ نے کی تھی اور وہ اس فرینڈ شپ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ بالکل سنو وائٹ کی طرح جو ان بونوں کے لیے کھانا بناتی، ان کے کپڑے دھوتی، ان کا گھر صاف کرتی۔
خیر دین نے یہ نہیں کہا تھا کہ گھر میں سات بونے ہیں کیونکہ گھر میں کتنے بونے تھے یہ مکمل یقین کے ساتھ کوئی بھی نہیں جانتا تھا لیکن چڑیا نے خود ہی اپنے ذہن میں ان بونوں کی تعداد متعین کر لی تھی۔ وہ بھی سات تھے… اور اس نے ان کے نام بھی رکھ لیے تھے۔ انہیں دیکھے بغیر صرف اسٹوری بک کی illustrations کو دیکھ دیکھ کر اس کے ذہن میں سات بونوں کی شکلیں اور حلیے بیٹھ گئے تھے۔
سب سے بڑا بونا بہت موٹا تھا اور اس کے پیروں جتنی داڑھی تھی۔ اس کا نام ٹوکو تھا، دوسرا بونا بہت ہی پتلا اور بے حد چالاک لگتا تھا اس کی آنکھیں بٹن کی طرح گھومتی رہتی تھیں اس کا نام کٹو تھا، تیسرا بونا جوکر جیسی گول اور موٹی ناک والا تھا جو ہر وقت چھینکتا رہتا تھا اس کا نام شنٹو تھا، چوتھا بونا گنجا تھا اور اس کا موٹا سا پیٹ تھا وہ دونوں پاؤں پورے کھول کر بہ مشکل چلتا تھا۔ اس کا نام ٹوفو تھا، پانچواں بونا عینک لگائے رہتا تھا اور پھر بھی چیزوں سے ٹکراتا پھرتا تھا اس کا نام منٹا تھا، چھٹا بونا لمبے لمبے بالوں والا تھا اور چلتے ہوئے بے مقصد ہانپتاتھا اس کا نام کنٹا تھا اور ساتواں بونا سب سے چھوٹا اور سب سے شرارتی تھا، اس کا نام ڈیڈو تھا اور ڈیڈو چڑیا کا فیورت بونا بھی تھا۔
چڑیا کی زندگی میں یکدم جیسے بہت سارے رنگ بھر دئیے تھے ان سات تصوراتی بونوں نے… جو اس گھر میں کہیں رہتے تھے لیکن کہاں رہتے تھے یہ کوئی یقینی طور پر نہیں جانتا تھا اور نہ ہی کسی کو یہ اشتیاق تھا کہ ان کا حدود اربعہ دریافت کرے ماسوائے چڑیا کے جو اس گھر کے ہر کونے کھدرے میں اب ٹوکو، کٹو، کنٹا، منٹا، شنٹو ، ٹوفو اور ڈیڈو کو ڈھونڈتی رہتی تھی۔




اسکول سے واپسی کے بعد وہ ہمیشہ اس وقت خیر دین اور حلیمہ کے پاس ضرور جا کر کچھ وقت گزارتی تھی جب وہ گھر میں کچن کا کام کرتے یا ڈاکٹر فرح کے بچوں کو سنبھال رہے ہوتے تھے لیکن اب وہ بے مقصد ایک چکر گھر میں ان بونوں کی تلاش میں ضرور لگاتی تھی۔ یہ اس کا وہ راز تھا جس کے بارے میں خیر دین اور حلیمہ نہیں جانتے تھے۔
چڑیا نے دوبارہ ان بونوں سے متعلقہ کوئی چیز چند مہینوں بعد ایک دن لنچ کے لیے ڈائننگ ٹیبل ارینج کرتے دیکھی تھی۔ ٹیبل کے سینٹر میں ایک vaseمیں کچھ پھول شاخوں سمیت رکھے ہوئے تھے۔ چڑیا ہمیشہ خیر دین کی ٹیبل سیٹ کرنے میں مدد کرتی تھی اور اس وقت بھی وہ ٹیبل پر میٹس رکھنے میں مصروف تھی جب اس نے ان پھولوں میں سے ایک کی پتیاں نیچے گرتے ہوئے دیکھی تھیں۔ وہ ٹھٹک گئی، پتیاں یوں نیچے گر رہی تھیں جیسے کوئی انہیں نوچ نوچ کر پھینک رہا تھا۔ چڑیا کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی… اس نے ایک نظر خیر دین کو دیکھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھا اس کا دھیان پھولوں کی طرف نہیں تھا۔ چڑیا نے ان دن خیر دین کی توجہ ان گرتی پتیوں کی طرف نہیں کرائی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ سب کچھ پہلے کی طرح رک جائے اس کے آیت الکرسی پڑھنے پر… وہ کن انکھیوں سے گرتی پتیوں کو دیکھتے ہوئے ٹیبل پر کانٹے چھریاں لگاتی رہی۔
ایک کے بعد ایک پھول کی پتیاں گرتی گئی تھیں چند منٹوں میں ٹیبل کے درمیان … ایک vaseمیں صرف پتوں والی کچھ ڈنڈیاں پڑی تھیں۔ ان کی تمام پتیاںvaseکے اردگرد ایک سرکل کی شکل میں بکھری ہوئی تھیں۔ خیر دین نے اپنے دوسرے چکر میں وہ پتیاں اور پھولوں کی خالی ڈنڈیاں نوٹس کر لی تھیں۔ وہ ٹھٹکا تھا۔
”یہ تم نے کیا ہے چڑیا؟” اسے یقین نہیں تھا کہ چڑیا ایسا کام کر سکتی ہے لیکن اس نے پھر بھی پوچھا۔ چڑیا خیر دین کے سوال پر چونکی پھر اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”نہیں نانا… میں نے تو کچھ نہیں کیا، یہ خود بخود گر گئیں۔” خیر دین اس کی بات پر ایک دم پھر کچھ گھبرائے انداز میں اس طرح لاحول اور آیت الکرسی پڑھنے لگا چڑیا نے بے اختیار گہری سانس لی۔ نانا اب پھر ان بونوں کو بھگا رہا تھا۔ وہ آج بھی ان کو نہیں دیکھ سکتی تھی وہ بری طرح سے مایوس ہوئی تھی۔
اور پھر اکثر ایسی بہت ساری چیزیں وہ دیکھنے لگی تھی جس پر دوسرے آیت الکرسی پڑھتے اور چڑیا دعا کرتی… کہ وہ کسی نہ کسی طرح کوئی بونا دیکھ لے۔
گھر کا ایک صرف اوپر والا حصہ تھا جہاں چڑیا کبھی نہیں گئی تھی اور جہاں جانے کا اسے بے حد اشتیاق تھا۔ ایک آدھ بار وہ اوپر گھوم پھر آئی تھی مگر اوپر کے سارے کمرے بند تھے اور چھت بھی… اور اوپر والے حصے میں ایک عجیب سی خاموشی اور ویرانی کا راج تھا۔ اسے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کے لیے وہ دوبارہ اوپر والی منزل پر جاتی۔
اس ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں یہ چڑیا کی زندگی تھی۔ اسکول جانا… اور اسکول کے بعد ڈاکٹر فرح کے پاس پڑھنا… اس کے بچوں کو کھلانا… خیر دین کے ساتھ کچن میں چھوٹے موٹے کام کرنا… کچن گارڈن میں لگی سبزیوں کی دیکھ بھال کرنا… اور گھر میں بونوں کی تلاش کرنا… ٹوکو، کٹو، منٹا، کنٹا، شنٹو، ڈیڈو ٹوفو سے خود ہی باتیں کرتے رہنا۔وہ اس کے ساتھ اس کے کچن گارڈن کی سبزیاں اتارتے تھے، پچھلے لان میں لگے آم کے درخت پر جھولا جھولتے اور اسے جھلاتے تھے، اس کے ساتھ جامن اور لوکاٹ اور انگور توڑ کر کھاتے تھے اور اسے پتا نہیں کن کن دنیاؤں کے قصے سناتے… یا پھر آپس میں جھگڑا کرتے رہتے تھے… اس کے ساتھ شرارتیں کرتے تھے۔ اس کی پونی کھینچ لیتے… جوتا لے کر بھاگ جاتے… اس کی کتابیں چھپا دیتے… اس کے کھلونوں سے کھیلتے… اس کی قمیص کھینچتے… اس کی جرابیں پہن لیتے، وہ ہنستی کبھی غصہ کرتی، کبھی ڈانٹتی کبھی ان کی پٹائی کر دیتی۔
چڑیا کو گھر میں بونے نظر آتے تھے اس نے اپنے تصوراتی سات بونوں کو اس گھر میں جگہ دے دی تھی۔ وہ ان بوٹوں کی سنووائٹ تھی اور وہ اس کے loyal friendsجو اس پر جان دیتے تھے… اور یہ وہ راز تھا جو صرف چڑیا کو پتا تھا۔ خیر دین اور حلیمہ کو بھی نہیں۔
خیر دین اور حلیمہ اسے کئی بار اکیلے میں کھیلتے، پڑھتے، کام کرتے اپنے آپ سے باتیں کرتے دیکھتے تھے… یہ ایک نئی عادت تھی جو چڑیا میں آئی تھی لیکن اس نے کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا۔ بچے اس عمر میں یہی سب کچھ کرتے تھے… کنٹا ، منٹا، شنٹو، ٹوفو، ڈیڈو، کٹو، ٹوکو کے نام بھی انہوں نے کئی بار سنے تھے۔ وہ یہی سمجھتے تھے کہ یہ چڑیا مختلف چیزوں کے لیے یہ نام استعمال کرتی ہے۔ کسی بونے تک ان کا ذہن بھی نہیں گیا تھا لیکن چڑیا اب بہت خوش رہنے لگی تھی ان دونوں نے صرف یہ نوٹس کیا تھا۔




انہی دنوں ڈاکٹر فرح کے شوہر کی پوسٹنگ آ گئی تھی۔ یہ خیر دین اور حلیمہ کے لیے پریشانی کی چیز تھی۔ اس بار وہ کوشش کے باوجود خیر دین اور حلیمہ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ البتہ انہوں نے آنے والے ڈپٹی کمشنر سے بات کر کے خیر دین کو حلیمہ اور چڑیا کو سرکاری کوارٹر میں ساتھ رکھنے کی اجازت لے لی تھی نہ صرف یہ بلکہ ڈاکٹر فرح نے اس نئے ڈپٹی کمشنر کی بیوی سے حلیمہ کو اپنی بچی کی آیا کے طور پر رکھنے کے لیے بھی بات کی، وہ حلیمہ کے لیے ایک مستقل آمدنی کا سلسلہ برقرار رکھ جانا چاہتی تھی تاکہ حلیمہ کو چڑیا کے تعلیمی اخراجات کے لیے دقت نہ ہو۔ نیا ڈپٹی کمشنر اس کے شوہر کا بیج میٹ تھا اور اس حوالے سے ڈاکٹر فرح اس کی بیوی کو بھی اچھی طرح جانتی تھی۔
”آپ لوگ فکر نہ کریں… وہ دونوں میاں بیوی بہت اچھے ہیں، بہت اچھے خاندان کے ہیں دونوں اور نوکروں اور عملے کا بہت ہی خیال رکھتے ہیں۔” ڈاکٹر فرح نے جانے سے پہلے خیر دین اور حلیمہ کو تسلی دی تھی۔
”میں نے ان سے چڑیا کی تعلیم کے حوالے سے بھی بات کی ہے… آیا کے طور پر حلیمہ کو تو شاید وہ نہ رکھیں کیونکہ ان کی ابھی ایک ہی بیٹی ہے اور وہ بھی چھوٹی ہے لیکن ڈی سی کی بیوی نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ چڑیا کی تعلیم کا خیال رکھیں گے۔ تعلیم کے اخراجات اٹھانے پڑے تو وہ بھی اٹھا لیں گے لیکن چڑیا کے اسکول فیس تو میں ہی بھجواتی رہوں گی۔ اس لیے اس کے بارے میں تو آپ پریشان نہ ہوں۔”
چڑیا نے اس گھر میں بونے تو نہیں دیکھے تھے لیکن خیر دین اور حلیمہ کو ڈاکٹر فرح کی شکل میں ایک پری ضرور ملی تھی جس کے چلے جانے پر خیر دین اور حلیمہ ہی نہیں بلکہ چڑیا بھی بے حد رنجیدہ تھی۔
ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں نیا ڈپٹی کمشنر اپنی بیوی اور تین سالہ بیٹی کے ساتھ آنے والا تھا… اور چڑیا اپنی زندگی کا پہلا حقیقی، بدصورت اور خوفناک بونا دیکھنے والی تھی۔
…٭…




Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!