چھ ماہ چڑیا اسکول جاتی رہی اور چھ ماہ اس کی استانیوں کو اسے کچھ پڑھانا نہیں پڑا اور جیسے ایک ritualتھی جو پوری ہو رہی تھی۔ چھ ماہ بعد حلیمہ اور چڑیا دوبارہ نئے شہر میں خیر دین کے پاس آگئے تھے اور یہاں جیسے چڑیا کا ایک نیا جنم ہوا تھا۔
ڈپٹی کمشنر کی بیوی ڈاکٹر فرح ایک بے حد رحم دل عورت تھی۔ حلیمہ اس کے تین بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی اور حلیمہ کی وجہ سے چڑیا بھی دن میں کئی بار ماں کے پیچھے گھر میں جاتی۔ ڈاکٹر فرح کو چڑیا اپنی عادتوں اورذہانت کی وجہ سے بے حد اچھی لگتی تھی۔ ایک گورنمنٹ کے سرکاری اسکول سے ایک انگلش میڈیم اسکول تک چڑیا کو لے جانے والی وہی تھیں اور اس انگلش میڈیم اسکول کے سلیبس کو چڑیا کے لیے آسان بنانے والی بھی وہی تھیں جو اکثر اوقات اپنے بچوں کو پڑھاتے ہوتے چڑیا کو بھی پاس بٹھا لیتی تھیں۔
چڑیا اردو میڈیم نصاب سے انگلش میڈیم نصاب میں جتنی آسانی اور سہولت سے ایڈجسٹ ہوئی تھی اس نے ڈاکٹر فرح کو حیرانی سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ چڑیا giftedتھی اور اس کا اظہار سب سے پہلے انہوں نے ہی خیر دین اور حلیمہ سے کیا تھا۔ چڑیا پر انہیں محنت نہیں صرف کچھ توجہ دینی پڑی تھی اور اس توجہ کا ثمر چڑیا نے ایک کے بعد ایک کلاس میں ٹاپ کر کے دیا تھا۔
مناسب سے نقش و نگار اور بے حد سیاہ گہری چمکتی آنکھوں اور سانولی رنگت والی چڑیا ایک چڑیا ہی کی طرح دبلی پتلی لیکن پھرتیلی تھی۔ اس کی سیاہ چمکتی آنکھوں سے جھلکتی ذہانت اور اس کی بے حد ملائم میٹھی سریلی آواز اس کی دو امتیازی خصوصیات تھیں جو اگر نہ ہوتیں تو چڑیا کو بچوں کے ہجوم میں پہچاننا مشکل ہوتا … لیکن وہ عجیب طریقے سے نوٹس ہوئی تھی۔
ڈاکٹر فرح کے بچوں کو ہفتے میں ایک بار میوزک ٹیچر موسیقی سکھانے آتے تھے اور وہ سارا وقت چڑیا کو سرگم سکھاتے رہتے۔ چڑیا کوئل کی طرح گاتی تھی اور فرح اور اس کا شوہر عابد مسعود اگر گھر پر ہوتا تو چڑیا کے گیت سننے کے لیے خود بھی آ کر اپنے بچوں کے پاس بیٹھ جاتا۔
”کیا بنو گی تم چڑیا بڑی ہو کر؟” ڈاکٹر فرح کو اس سے گپ شپ لگانے میں مزہ آتا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اکثر اس سے بھی بات چیت کرتی رہتی تھی۔
”میں ڈاکٹر بنوں گی۔” چڑیا بے حد اعتماد سے اسے بتاتی۔
”پھر کیا کرو گی؟” وہ اسے مسکراتے ہوئے مزید کریدتی۔
”پھر میں علاج کروں گی۔” کھٹاک سے جواب آتا۔
”کس کا علاج کرو گی؟”
”جو بیمار ہو گا۔”
”اور اگر کوئی بیمار نہ ہوا تو؟” فرح اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اس سے کہتی۔
”پھر ریسٹ کروں گی۔” بلاتوقف جواب آتا۔
”لیکن ڈاکٹر تو ریسٹ نہیں کرتے۔”
”پھر آپ کیوں کرتی ہیں؟” ڈی سی کی بیوی بے اختیار ہنستی۔ وہ لاجواب ہو جاتی اور یہ اکثر ہوتا تھا۔ اس بچی کی زبان بے حد صاف تھی۔ اعتماد بلا کا تھا۔ لب و لہجہ بے حد شستہ اور آواز میٹھی۔
”حلیمہ تمہاری بیٹی بڑی ترقی کرے گی۔ ماشاء اللہ بہت ذہین ہے۔ اسے بہت پڑھانا۔” وہ ہر بار چڑیا سے ایسے کسی مباحثے کے بعد کہتی۔ حلیمہ کا سیروں خون بڑھتا یہ سن سن کر باپ بیٹی چڑیا کی تعریفیں اگلے کئی دن ایک دوسرے کو دہرا کر سناتے اور ہر بار یوں سنتے اور سناتے جیسے پہلی بار ہو۔
بیٹی کو ڈاکٹر بنانے کا خواب حلیمہ نے ڈی سی کی اس بیوی کو دیکھ دیکھ کر ہی کیا تھا چڑیا کی جگہ اس کا بیٹا ہوتا تو وہ اسے ڈپٹی کمشنر بنانے کا خواب دیکھتی جیسے اس کی دادی نے خیر دین کے بارے میں دیکھا تھا مگر چڑیا لڑکی تھی اور وہ لیڈی ڈاکٹر ہی بن جاتی تو بھی بہت بڑی بات ہوتی۔ وہ ان کے گاؤں اور برادری کی پہلی ڈاکٹر ہوتی… جیسے خیر دین پہلا سرکاری ملازم… حلیمہ دسویں جماعت پاس کرنے والی پہلی لڑکی… اور چڑیا…
٭٭٭
خیر دین نے چڑیا کی بات پر چونک کر کاؤنٹر پر دیکھا جہاں وہ اشارہ کر رہی تھی۔ گلاس ابھی تک اسی طرح ادھر سے ادھر جا رہا تھا… خیر دین نے بے اختیار آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا۔ چڑیا نے الجھے ہوئے انداز میں خیر دین کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نانا۔ اگر یہ گلاس زندہ نہیں ہے تو پھر یہ گلاس کیوں چل رہا ہے؟”
”بیٹا۔ آیت الکرسی پڑھو۔” خیردین نے جواباً اسے کہا۔ چڑیا کچھ حیران ہوئی لیکن پھر اس نے آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی تھی۔ چند منٹوں بعد گلاس کی حرکت رک گئی خیر دین اطمینان سے دوبارہ آٹا گوندھنے میں مصروف ہو گیا یوں جیسے چند لمحے پہلے وہاں کچھ ہوا ہی نہیں ہوا۔
”اب صاحب نے کہا ہے کہ مونگ کی بھنی ہوئی دال اور…” اس نے دوبارہ قصہ شروع کیا۔ چڑیا نے اسے ٹوکا۔
”نانا یہ گلاس کیوں چل رہا تھا؟” اگر خیردین کی یہ کوشش تھی کہ چڑیا کا دھیان اس گلاس کی طرف سے ہٹ جائے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔ وہ ٹماٹر چھوڑ کر خیر دین کے پاس آ گئی تھی۔ یہ جیسے اس بات کا اعلان تھا کہ اسے دال کی فتوحات سے زیادہ اس چلتے ہوئے گلاس میں زیادہ دلچسپی تھی۔ خیر دین نے گہری سانس لی۔
”یہ جو دنیا ہے نا بیٹا اس میں ہمارے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں۔” خیر دین نے اسے سمجھانا شروع کیا۔
”اور کون سی چیزیں…؟” چڑیا نے ٹوکا۔
”کچھ ایسی چیزیں جو نظر نہیں آتیں۔” خیر دین نے کہا۔
”جیسے ہوا، حرارت۔” چڑیا نے بے ساختہ جواب دیا۔ ایک لمحے کے لیے خیر دین لاجواب ہوا۔
”اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو نظر نہیں آتیں… جیسے جن بھوت، پریاں اور بونے وغیرہ…” خیر دین نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ جن بھوت، پریوں پر نہیں اٹکی تھی بونوں کے لفظ پر اٹک گئی تھی ۔ جن بھوتوں اور پریوں سے تو وہ ماں اور نانا کی سنائی ہوئی کہانیوں کے ذریعے پہلے ہی متعارف تھی لیکن بونوں کا لفظ اس کے لیے نیا تھا۔
”یہ بونے کیا ہوتے ہیں؟” اس نے کچھ الجھ کر خیر دین سے پوچھا۔
”یہ ہماری طرح بہت چھوٹے چھوٹے لوگ ہوتے ہیں۔”
”کتنے چھوٹے؟” خیر دین نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا۔
”اتنے چھوٹے۔” چڑیا کی آنکھیں اور ہونٹ اکٹھے پھیلے تھے۔
”سچی میں نانا…؟” تجسس، اشتیاق اور ایک عجیب سی خوشی کے ساتھ اس نے خیر دین سے پوچھا۔
”جیسے snow white dwarafsکے دوست تھے۔” برقی رفتاری سے اس کے ذہن نے اسے ایک illustratedاسٹوری بک کی یاد دلائی۔ خیر دین کو سنو وائٹ کا پتا تھا نہ اس کے دوست سات بونوں کا… لیکن اس نے سر ہلا دیا تھا۔ چڑیا کا دل جیسے بلیوں اچھلا تھا۔