کاؤنٹر پر پڑا شیشے کا گلاس بہت آہستگی سے کاؤنٹر پر سرک رہا تھا۔ سبزی والی ٹوکری میں سے ٹماٹر اٹھاتے ہوئے وہ ٹھٹکی تھی۔ شیشے کے اس گلاس میں پانی پی کر تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے اسے کاؤنٹر پر رکھا تھا۔ گلاس ابھی بھی آدھا پانی سے بھرا ہوا تھا او ر کاؤنٹر پر حرکت کر نے سے وہ پانی مسلسل ہل رہا تھا۔ خیر دین آٹا گوندھتے ہوئے ابھی بھی اسے قصہ سنانے میں مشغول تھا۔
”تو پھر صاحب نے مجھے کہا خیر دین میں نے تم سے اچھا خانساماں آج تک نہیں دیکھا۔ حالانکہ میں آٹھ شہروں میں پوسٹ رہا ہوں… لیکن جیسی دال تم بناتے ہو میں نے آج تک ہیں اور نہیں کھائی… اگر پورے پاکستان میں بیسٹ دال پکانے کا مقابلہ ہو جائے تو تم کو پہلا انعام ملے گا۔ تمہاری دال کے سامنے کسی کی دال نہیں گلے گی۔” وہ قصہ سناتے ہوئے آٹے کی پرات پر مکمل طور پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے اپنی بات پر خود ہی ہنسا۔ اس نے نوٹس نہیں کیا تھا کہ چڑیا نہ اس کی طرف متوجہ تھی نہ ہی اس کی بات سن رہی تھی۔
وہ اچھنبے کے عالم میں بس اس گلاس کو دیکھ رہی تھی جو کاؤنٹر پر خود ہی حرکت کر رہا تھا… یا شاید چل رہا تھا۔ اس کے ننھے ذہن نے اس کی حرکت کو نام دینے کی کوشش کی تھی۔ اس دن اس کی ٹیچر نے اسے اسکول میں یہی سکھایا تھا ہر ایکشن کے لیے درست لفظ کا استعمال کرنے کی کوشش… ہر حرکت کا ایک خاص نام بھی ہوتا ہے۔
”The glass is moving” اس کے ننھے ذہن نے اس حرکت کرتے ہوئے گلاس پر پہلی نظر ڈالتے ہوئے بے اختیار سوچا تھا اور پھر وہ اس موومنٹ کے لیے لفظ کی تلاش میں مشغول ہو گئی۔
”The glass is walking” اپنے محدود علم اور ذخیرہ الفاظ کا استعمال اس نے گلاس کی حرکت کو نام دینے کے لیے کیا اور اس نے دماغ نے جیسے اسے ریڈ سگنل دیا۔
”واک تو زندہ چیزیں کرتی ہیں۔” اس وقت پہلی بار اس کا ذہن گلاس کی حرکوت کو نام دینے کی جدوجہد سے ہٹ کر اس بات پر اٹکا کہ ایک بے جان چیز ”واک” بھی کیسے کر رہی تھی۔ وہ اب بے جان اور جاندار چیزوں کی خصوصیات کو skimکر رہی تھی۔ چند سیکنڈز میں اس کے ذہن نے skimming اورscreeningکے بعد گلاس کو بے جان کی کیٹگری میں ڈالا… اور اب اس نے اپنے ذہن کو جیسے اس اچھنبے کا شکار ہونے کی اجازت دی جس کا شکار وہ اس وقت تھی۔
”گلاس تو بے جان ہے پھر یہ حرکت کیسے کر رہا ہے؟” یہ سوال تھا جو اس وقت اسے کنفیوز کر رہا تھا اور کنفیوز کرنے سے زیادہ اسے متجسس کر رہا تھا ”کیا کوئی ایسی حالت ہوتی ہے جس میں بے جان گلاس بھی حرکت کر سکتا ہے…؟” اس کا ذہن اب جیسے کوئی نئی دریافت کرنا چاہ رہا تھا… اور وہاں کھڑے اس پراسرار انداز میں حرکت کرنے والے گلاس اور اس کے اندر تھرکتے پانی کو دیکھتے ہوئے چڑیا کو خوف یا دہشت نام کی کوئی چیز محسوس نہیں ہوئی تھی… محسوس ہونا تو دور کی بات تھی اس نے خوف نامی عنصر کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کی جگہ کوئی بڑا اچانک ایک گلاس کو اس طرح حرکت کرتے دیکھ لیتا تو یا تو چیخیں مارتے ہوئے اس کچن سے بھاگ جاتا یا پھر پورے گھر کو وہاں اکٹھا کر لیتا مگر کوئی بھی اس کی طرح وہاں کھڑے اپنے آج کے سبق کو اس گلاس پر اپلائی کرنے کی کوشش نہ کر رہا ہوتا۔
”صاحب نے جب کمشنر صاحب کو کھانے پر بلایا تھا تب بھی انہوں نے خاص طور پر مجھ سے وہ دال پکوائی۔ کمشنر صاحب کو اتنی پسند آئی کہ وہ پچاس روپے انعام دے کر گئے مجھے۔ ان کی جو بیگم صاحبہ تھیں انہوں نے تو باقاعدہ ترکیب لکھوائی مجھ سے۔” خیر دین اب بھی مگن انداز میں آٹا گوندھتے ہوئے دال نامہ سنا رہا تھا۔
”کہہ رہی تھیں کہ کسی رسالے میں بھی بھیجیں گی وہ اس دال کی ترکیب کو… میں نے بھی کہا بیگم صاحبہ جہاں مرضی چھپوا لیں جو ذائقہ خیر دین کے ہاتھ کا ہے وہ خیر دن کی پکی ہوئی دال میں ہی ملے گا اور…”
”نانا کوئی گلاس چل سکتا ہے کیا خود ہی؟” چڑیا نے ایک دم خیر دن کو ٹوکا، وہ اب اپنے ایک ہاتھ کے اٹگوٹھے کے ناخن کو دانتوں سے کترتے ہوئے بے حد الجھے ہوئے انداز میں گلاس پر نظریں مرکوز کئے ہوئے تھی۔ یوں بھی وہ کچھ سوچ رہی تھی۔
”ہیں…” خیر دین آٹا گوندھتے ہوئے گڑبڑایا۔ اس نے چڑیا کو دیکھا اس کو لگا اس نے سننے میں کوئی غلطی کی تھی۔
”کیا پوچھ رہی تھیں تم؟” اس نے چڑیا کی نظروں کا تعاقب کئے بغیر صرف ایک نظر اسے دیکھ کر پوچھا۔
”کیا کوئی گلاس چل سکتا ہے؟” چڑیا نے اسی سنجیدگی کے ساتھ گلاس پر نظریں جمائے سوال دہرا دیا۔ خیر دین بے اختیار ہنسا یوں جیسے وہ چڑیا کے سوال سے بے حد محظوظ ہوا ہو۔
”لو بھلا، گلاس کیسے چل سکتا ہے؟ گلاس کوئی زندہ تھوڑی ہوتا ہے۔” وہ دوبارہ آٹا گوندھنے لگا۔
”ہو سکتا ہے کوئی گلاس زندہ ہوتا ہو۔” اس بار خیر دین اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسا تھا لیکن آٹا گوندھتا رہا۔
”نہیں بیٹا۔ کوئی بھی گلاس زندہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی چل سکتا ہے۔” اس نے بڑی محبت سے چڑیا کے سوال کا جواب دیا۔ وہ سارا دن یہی ایک کام کرتا تھا… صبح سے لے کر رات تک چڑیا کے سوالوں کا جواب دیتا رہتا تھا اور یہ اس کی زندگی کا پسندیدہ ترین کام تھا وہ اس سے کئی گنا زیادہ شوق سے اس کے سوالوں کا جاب دیتا تھا جتنے شوق سے وہ اپنی مشہور زمانہ دال بناتا تھا۔
وہ اس کی اکلوتی نواسی تھی… اس کی اکلوتی بیٹی کی اکلوتی اولاد۔ حلیمہ کے دوسرے شوہر سے زندہ بچ جانے والی واحد اولاد۔ حلیمہ اور خیر دین کی متاعِ حیات۔
پنجاب کا ایک پسماندہ گاؤں خیر دین کا آبائی علاقہ تھا اور وہ اس علاقے سے دس جماعتیں پڑھنے والا پہلا لڑکا تونہیں تھا لیکن سرکاری ملازمت میں آنے والا پہلا آدمی ضرور تھا اور وہ سرکاری ملازمت بھی ڈپٹی کمشنر کے گھر کا مالی…تقرر نامہ ملتے ہی گاؤں میں خیر دین کے گھر کا اسٹیٹس ہی بدل گیا تھا۔ وہ ذات کا لوہار تھا اور گاؤں کا کمی کمین اور سارا بچپن اور نو عمری اس نے گاؤں کے کمی کمین کی حیثیت سے چوہدری، نمبردار، پٹواری اور اونچی ذات اور زمینوں والوں کی رعایا کے طور پر ان کی جی حضوریوں ہی میں گزاری تھی۔ گاؤں میں تھانے دار نہیں تھا ورنہ ان کے آقاؤں میں ایک اور اضافہ ہو جاتا اور ویسی زندگی اس نے اپنے ماں باپ اور ددھیال ننیھال کے لوگوں کو گزارتے دیکھی تھی۔ ان کے گھر کا راشن فصلوں کی کٹائی سے ملنے والے دانوں سے نکلتا تھا اور اس گاؤں میں ان کی زمین بس ایک کنال کا وہ احاطہ تھا جس کے ایک کونے میں اس کے باپ نے لوہے کے اوزار بنانے اور مرمت کرنے کی بھٹی لگا رکھی تھی اور دوسرے کونے میں ماں نے دانے بھوننے کی اور تیسرے کونے میں ایک گدھے، دو بھینسوں، چار بکریوں، پچیس مرغیوں، تین کتوں، چار بلیوں، آٹھ بطخوں اور خرگوشوں کے تین جوڑوں کا ایک خاندان آباد کیا گیا تھا اور احاطے کے چوتھے کونے میں چار کمروں، برآمدے اور دالان پر مشتمل ان کا گھر 21افراد کے زیر رہائش تھا جن میں خیر دین کے دس بہن بھائیوں کے علاوہ دادا، دادی اور کچھ ددھیالی رشتے دار بھی شامل تھے اور اکیس افراد کے اس کنبے کو رزق فراہم کرنے کی مستقل ذمہ داری صرف خیر دین کے ماں باپ پر تھی۔
ان اکیس افراد میں خیر دین واحد خواندہ تھا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور خیر دین کے ماں باپ کی دوسری اولاد سات سال بعد ہوئی تھی تو وہ سات سال اپنے محدود وسائل اور غربت کے باوجود خیر دین نے بادشاہ کی طرح گزارے تھے۔ اس کے ماں باپ کو اسے پڑھانے کا شوق گاؤں میں انگریزوں اور ان کے ساتھ آنے والے سوٹ بوٹ میں ملبوس ان ہی کی طرح گٹ پٹ کرنے والے ہندوستانیوں، کاٹھے انگریزوں اور ان کے ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر ہوا تھا۔
”میں نے تو اپنے خیر دین کو پڑھا لکھا کر افسر بنانا ہے۔” خیر دین ابھی دو سال کا تھا جب اس کی ماں نے ایک دن ڈپٹی کمشنر کے دورے کے بعد خیر دین کے باپ کے سامنے اعلان کیا تھا۔
”یہ تیری میری طرح بھٹی میں نہیں جھونکے گا اپنی زندگی… افسر بنے گا، جیپ میں آیا کرے گا… اس کے ساتھ بندوقوں والے سنتری ہوں گے اور جو بھی اس سے ملنے آئے گا وہ پہلے کئی کئی گھنٹے انتظار کرے گا پھر لائن میں لگے گا پھر میرے بیٹے کو ملے گا۔” خیر دین کا باپ حقے کی نے اپنے منہ میں دبائے بیوی کے خیالی پلاؤ سن سن کر ہنستا رہا۔ ان کے گاؤں کے پاس سے نہر گزاری جا رہی تھی اور اس کی تعمیر و توسیع کے سلسلے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی سرکاری افسر اپنے جتھے کے ساتھ وہاں آن موجود ہوتا تھا۔ گاؤں کے لوگ ان دوروں کے عادی ہو گئے تھے۔ انگریز کا زمانہ تھا اس لیے افسروں کی بڑی تعداد انگریزوں ہی کی تھی۔ ہندوستانی صرف ان کے ماتحت کے طور پر دم ہلاتے ان کے ساتھ چلتے پھرتے رہتے صرف ایک بار ایک ہندوستانی افسر وہاں آیا تھا اور گاؤں میں دھوم مچ گئی تھی۔ اس ہندوستانی افسر کے پاس ہاجرہ بی بی بھی پہنچی تھی اور واپس آتے ہوئے دو سال کے خیر دین کو اٹھائے وہ طے کر چکی تھی کہ خیر دین نتھو لوہار کی بھٹی نہیں سنبھالے گا بلکہ وہ دفتر میں کام کرے گا۔ گدھے اور ریڑھے پر سفر کرتے اپنی زندگی نہیں گزارے گا بلکہ اس ہندوستانی افسر کی شاندار جیپ میں بیٹھ کر کہیں بھی آیا جایا کرے گا۔