”یہ مجھے تو نہیں پتا…کتنے بونے ہیں یہاں؟” پی اے نے وہاں کھڑے گھر کے ایک ملازم سے پوچھا۔
”ٹھیک سے تو نہیں پتا لیکن کہتے ہیں چار پانچ ہیں۔” ملازم نے اس اچانک آنے والے سوال پر کچھ گڑبڑا کر جواب دیا۔
”اور کب سے ہیں یہ یہاں…؟” شیر دل نے اب براہ راست اس ملازم سے سوال جواب شروع کر دئیے۔
”یہ بھی ٹھیک سے نہیں پتا سر جی… کہتے ہیں ہمیشہ سے ہیں۔” اختر، شیر دل کے براہ راست سوال سے کچھ اور گڑبڑایا تھا۔
”ہمیشہ سے کب سے؟ جب سے گھر بنا ہے؟” شیر دل نے بے ساختہ مسکرا کر شہر بانو کو دیکھا۔ وہ نہیں مسکرائی وہ کچھ متوحش تھی وہ وہمی نہیں تھی لیکن وہ بہرحال ان چیزوں پر یقین رکھتی تھی۔
”جن بھوتوں کا تو میں نے سنا ہے لیکن یہ بونوں کے بارے میں، میں پہلی بار سن رہا ہوں۔ تمہارا کوئی ایکسپرینس یا انفارمیشن ہے؟” شہر بانو نے شیر دل کے سوال کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ وہ جانتی تھی وہ سوال نہیں تھا وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ اسے ہورر اسٹوریز پڑھنے کا شوق تھا اور خاص طور پر supernaturalچیزوں کے حوالے سے۔
”تنگ کرتے ہیں؟” شیر دل نے دوبارہ اختر سے پوچھا۔
”جی کبھی کبھی…”
”مثلاً کیا کرتے ہیں؟” شیر دل نے مزید دلچسپی لی۔
”چیزیں چھپا دیتے ہیں… آوازیں دیتے ہیں… اسی طرح کے کام کرتے ہیں…” اختر کچھ ہچکچا رہا تھا۔ اس کمرے میں کھڑے ہو کر بونوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ جیسے کچھ پریشان تھا۔
”آوازیں دیتے ہیں؟ اچھا…” شیر دل کو مزید تجسس ہوا۔ ”کسی نے دیکھا ہے انہیں…؟”
”بہت دفعہ۔” اختر نے بے ساختہ کہا۔
”کس نے؟” شیر دل سنجیدہ ہوا۔
”گھر میں جو ملازم ہیں انہوں نے دیکھے ہیں کئی بار۔”
”بس اس کمرے میں رہتے ہیں…؟” شیر دل اب جیسے تفتیش کے موڈ میں تھا۔
”نہیں۔ صرف اس کمرے تک نہیں رہتے۔ گھر میں گھومتے پھرتے ہیں خاص طور پر کچن میں۔” شیر دل، اختر کی سنجیدگی سے کہی بات پر بے اختیار ہنسا۔
”اچھا۔ کچن میں بھی گھومتے پھرتے ہیں۔”
”اس کمرے کے بعد سب سے زیادہ کچن میں ہی اثر ہے ان کا۔” اختر نے سنجیدگی سے بتایا۔ شیر دل بے حد معنی خیز انداز میں شہر بانو کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا پھر اس نے اختر سے کہا۔
”تو اس کمرے کو صرف بونوں کے رہنے کی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے…؟” اختر چند لمحوں کے لیے ہچکچایا پھر اس نے کہا۔
”اس کمرے میں کچھ اور بھی مسئلہ ہے۔” اس نے بالآخر کہا۔
”اچھا ابھی کچھ اور باقی ہے… فرمائیں اور کیا مسئلہ ہے اس کمرے کا۔” شیر دل نے ایک گہری سانس لی۔ اسے ان تمام باتوں میں سے کسی ایک بات پر یقین نہیں آیا تھا لیکن فی الحال وہ ان ملازمین کے ساتھ بحث کے موڈ میں نہیں تھا خاص طور پر شہر بانو کے سامنے۔
”وہ جی… وہ… انگریزوں کے زمانے میں کسی ڈپٹی کمشنر کو اس کی بیوی نے قتل کیا تھا یہاں…” شہر بانو کو جیسے کرنٹ لگا… شیر دل اپنے سوال پر اب پچھتایا… تجسس یقینا ایک انتہائی مضر چیز ثابت ہوئی تھی اس لیے اب اگر شہر بانو اس گھر میں رہنے سے انکار کر دیتی تو یہ بالکل سمجھداری کی بات سمجھی جاتی۔
”اس کمرے میں قتل کیا گیا…؟”شیر دل نے اب سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ اس کمرے میں نہیں اوپر چھت سے گرایا تھا اس نے اپنے شوہر کو۔” شیر دل نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے کہا۔
”چلو۔ کم از کم اس کمرے میں تو کچھ نہیں کیا اس نے۔” شیر دل نے جیسے شہر بانو کو تسلی دینے کی کوشش کی لیکن اس کا جملہ اس کے منہ میں ہی رہ گیا۔
”اس کمرے میں اس نے خودکشی کی تھی۔” اختر نے باقی بات بتائی۔ شیر دل نے شہر بانو کو دیکھا۔ اس کا چہرہ اسے جو کچھ بتا رہا تھا اس کے بعد اس کمرے کو بے حد پسند کرنے کے باوجود شیر دل کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کمرے میں رہائش اختیار کرنے کا اس کا خواب صرف خواب ہی رہنے والا تھا۔ شہر بانو اب یہ داستان سننے کے بعد اگر اس گھر میں رہائش اختیار کرنے پر تیار ہو جاتی تو یہ بھی بہت بڑی فیور ہوتی اس کے لیے۔ وہ کمرا بھی اب تک اس سے پہلے وہاں آنے والے کسی بھی ڈی سی نے کیوں استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب وہ جان گیا تھا۔
”اور قتل کیوں کیا تھا، اب یہ بھی بتا دیں اختر صاحب؟” شیر دل نے کچھ استہزائیہ انداز میں کہا۔ وہ ہفتہ پہلے اس گھر کا ایک سرسری جائزہ لینے کے لیے یہاں ہو کر گیا تھا اور یہ ماسٹر بیڈ روم اس نے تب بھی دیکھا تھا جب کسی نے اتنی لمبی چوڑی تفصیلات بتانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”اس افسر کا کسی عورت کے ساتھ چکر تھا… اس کی بیوی نے دونوں کو دیکھ لیا تھا پھر اس کے بعد ہی اس نے اپنے شوہر کو قتل کیا۔” اختر نے سنجیدگی سے کہا۔
”اس کہانی سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی چکر ہو تو کم از کم بیوی کے ہاتھوں پکڑے نہیں جانا چاہیے۔ برا افسر تھا جو پکڑا گیا… اچھا افسر ہوتا تو کبھی پکڑا نہ جاتا… یقینا وہ اس سزا کا مستحق تھا۔” شیر دل نے بے حد سنجیدگی سے اس بار انگریزی میں تبصرہ کیا تھا جو صرف شہر بانو سن اور سمجھ سکی لیکن وہ بالکل محظوظ نہیں ہوئی تھی۔
”اس عورت کا کیا ہوا؟” شیر دل نے کمرے سے نکلتے ہوئے پوچھا۔
”اس نے خودکشی کر لی۔” اخترپیچھے آتے ہوئے بولا۔
”نہیں۔ میں اس عورت کا پوچھ رہا ہوں جس کے سامنے اس نے شوہر کو پکڑا تھا۔” شیر دل نے کہا۔
”پتا نہیں سر اس کا تو مجھے پتا نہیں۔” اختر گڑبڑایا۔ ”مجھے بس اتنی ہی کہانی آتی ہے۔”
”نہیں پتا تو پتا کر کے بتانا مجھے۔”
”شیر دل۔” ساتھ آتی شہر بانو نے جیسے اسے ٹوکا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ شیر دل کو کسی بات کا یقین نہیں آیا تھا اور وہ اسے گوسپ کے سوا کچھ نہیں سمجھ رہا۔ شیر دل نے مسکرا کر اس کو دیکھا اور کہا۔
”Myths and fabrication” شہر بانو نے کہا۔
”What ever but that’s what they believe”
”ذرا چھت پر بھی لے جاؤ… دیکھیں ڈی سی صاحب کہاں سے گرائے گئے تھے۔” شیر دل نے شہر بانو کی بات کا جواب دینے کے بجائے عملے سے کہا۔ عملے کے لوگوں میں یکدم افراتفری کے آثار پیدا ہوئے۔ چھت کے دروازے کی چابی ان کے پاس نہیں تھی۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی مسٹر اور مسز ڈی سی چھت پر جانے کی خواہش کا اظہار کریں گے یا دوسرے لفظوں میں اس کی ہمت کر پائیں گے۔یہاں مسز ڈی سی کو چھت دیکھنے کا کوئی اشتیاق نہیں تھا لیکن ڈی سی صاحب اگر چھت دیکھنے کے لیے بے قرار ہو رہے تھے تو اس کی وجہ جائے وقوع کے نظارے کی خواہش سے زیادہ چھت کے معائنے کی خواہش تھی۔ اگر اوپر والی منزل کی چھت پچھلے کئی سالوں سے اس لیے ٹپک رہی تھی کیونکہ وہاں کوئی رہائش پذیر نہیں تھا تو 150سال پرانی چھت کی یقینا مناسب مرمت بھی نہیں کی جا رہی ہو گی اور زیادہ مخدوش ہو جانے پر وہ heavyچھت پورے مون سون میں زمین بوس بھی ہو سکتی تھی۔