عقل مند شاعر
رُوسی لوک ادب
گل رعنا صدیقی
دربار میں موجود ہر شخص ہنس ہنس کر دہرا ہورہا تھا۔
رُوس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں آدم نامی ایک مشہور شاعر رہتا تھا۔ اُس کے دوست اکثر اُسے مشورہ دیتے کہ وہ بادشاہ کے دربار میں اپنا کلام سنائے۔ بادشاہ ضرور اُسے انعام و اکرام سے نوازے گا۔
بادشاہ ولادی میر فنکاروں اور شاعروں کا بہت بڑا قدر دان تھا۔ آدم کو یہ تجویز پسند آئی۔ ایک دن بادشاہ کا خاص وزیر میکاو ¿لی قصبے کے قریب آکر ٹھہرا‘ تو آدم کے دوستوں نے اُسے میکاو ¿لی کے بارے میں بتایا۔ ایک دوست نے کہا:
”اُس سے جاکر ملو، وہ ضرور تمہاری مدد کرئے گا۔“
آدم اُسی وقت میکاو ¿لی سے ملنے چل پڑا۔ میکاو ¿لی نے جب یہ سُنا کہ آدم اپنے قصبے کا مشہور شاعر ہے تو فوراً اُس سے ملنے کے لیے رضا مند ہوگیا۔ آدم بہت ادب سے اُس سے ملا اور اپنی کچھ نظمیں سُنائیں۔ میکاو ¿لی بے حد متاثر ہوا۔
”تُم الفاظ کا بہترین استعمال جانتے ہو نوجوان! تمہاری سب نظمیں بہت اچھی ہیں اور یقینا اگر بادشاہ نے سُنیں تو اُنھیں ضرور پسند آئیں گی۔“
آدم کو تو اس موقع کا شدت سے انتظار تھا۔ اُسی نے میکاو ¿لی کا دلی شکریہ ادا کیا‘ لیکن میکاو ¿لی کے اگلے جملے نے اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔
”میں کوشش کروں گا کہ جب میں دربار میں حاضری دوں‘ تو تمہارا ذکر کرنا مجھے یاد رہے۔“ میکاﺅلی نے کہا۔
آدم اپنے قصبے میں واپس لوٹ آیا اور اُمید کرنے لگا کہ جلد ہی میکاو ¿لی اُسے دربار میں بُلائے گا‘ لیکن دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور بادشاہ کے دربار سے کوئی بُلاوا موصول نہیں ہوا۔
طویل انتظار کے بعد آدم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا‘ تو ایک دن اُس نے اپنی شاعری کا پورا دیوان اُٹھایا، سب اسباب باندھا اور اپنے گھر والوں کو بتا کر ملک کے دارالحکومت پہنچ گیا۔ اگلے دن وہ میکاو ¿لی کے محل پہنچا۔ دربانوں نے جب اُسے اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی‘ تو اُس نے انہیں ایک طرف دھکیل دیا:
”مجھے روکنے کی جُرا ¿ت بھی نہ کرنا، میں میکاو ¿لی کا دوست ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ سیدھا اندر چلا گیا۔ میکاو ¿لی بھاری بھرکم ناشتے کے بعد آرام کررہا تھا۔ وہ اس بن بُلائے مہمان کو دیکھ کر سخت حیران اور ناراض ہوا۔
”تم کون ہو اور یہاں کیا کررہے ہو؟“ وہ چلّایا۔
”میں آدم ہوں‘ آپ کو یاد ہے کہ آپ کو میری شاعری بہت پسند آئی تھی اور آپ نے مُجھ سے کہا تھا کہ….“ لیکن میکاو ¿لی نے اُسے جملہ پورا کرنے کی مہلت نہ دی اور چلانے لگا۔
”یہ کیا چکر ہے۔ دربان! اس احمق آدمی کو دھکے دے کر باہر نکالو!“
غریب آدم نے اپنی بات پوری کرنے کی بہت کوشش کی‘ لیکن دربانوں نے اُسے مار مار کر محل سے اُٹھا کے باہر پھینک دیا۔ آدم سڑک پر بیٹھا غُصّے سے پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اُس نے جی میں ٹھان لی کہ وہ بادشاہ کے دوست کی مدد کے بغیر ہی اُس کے دربار تک رسائی حاصل کرئے گا۔
اگلے دن جب آدم اپنے زخمی جسم اور انا کو سَہلا چُکا‘ تو وہ بادشاہ کے دربار کی جانب روانہ ہوا۔ اُس دن ہر خاص و عام بادشاہ کی طرف سے دربار میں مدعو تھا کیوں کہ آج دور دراز سے ایک جادوگر دربار میں اپنے کمالات دکھانے آرہا تھا۔ آدم بھی دُوسرے لوگوں کے ساتھ دربار میں داخل ہوگیا۔
اسٹیج کے بالکل سامنے پہلی قطار میں بادشاہ اور اُس کے قریبی ساتھی بیٹھے تھے۔ اُس کے بعد دیگر درباری تھے۔ عوام کونے میں کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے جارہے تھے۔ کچھ دیر بعد لمبے سے چوغے میں ملبوس ایک جادوگر اسٹیج پر نمودار ہوا۔ سب نے تالیاں بجا کر اُس کا استقبال کیا۔ جادو گر کے تمام کمالات شان دار تھے۔ آخری کمال کو دیکھ کر جس میں جادوگر نے اپنا سَر اُتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا تھا، لوگ تالیاں بجا بجا کر پاگل ہوگئے۔
آخر کار جادو گر نے بادشاہ کی طرف مُڑ کے بڑے ادب سے کہا: ”حضور! مجھے اُمید ہے کہ آپ کو میرے تمام کمالات بے حد پسند آئے ہوں گے۔ اب میں آپ کی اجازت سے دربار میں موجود تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی بھی اسٹیج پر آئے اور کوئی ایسا کمال دِکھائے جو میرے سب کمالات سے بڑھ کر ہو۔“
”اجازت ہے۔“ بادشاہ نے کہا اور پُراُمید نظروں سے سب کی طرف دیکھا‘ لیکن کسی نے بھی ہاتھ بلند نہیں کیا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بہت مایوس اور شرمندہ ہوا کہ آج اُس کے دربار میں کوئی ایک بھی ایسا جادوگر یا بہادر شخص موجود نہیں ہے جو دُوسرے ملک سے آئے اِس جادوگر کے چیلنج کو قبول کرسکے۔ میکاو ¿لی سمیت تمام وزرا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرف دیکھیں۔
اچانک دربار میں ہل چل سی ہوئی۔ یہ آدم تھا جو لوگوں کے درمیان سے اپنے لیے راستہ بنا رہا تھا۔ ”ہٹو، ہٹو! مجھے اسٹیج پر جانے کے لیے راستہ دو۔“ لوگوں نے فوراً اُسے راستہ دے دیا۔ آدم نے اسٹیج پر چڑھ کر بادشاہ کو ادب سے جھُک کر سلام کیا۔
”بادشاہ سلامت! آپ کی اجازت سے میں مہمان جادو گر کا چیلنج قبول کرتا ہوں۔ میرے پاس اس کے کمالات سے بہتر ایک کمال دکھانے کو موجود ہے۔“ بادشاہ اُس کی جرا ¿ت سے بہت متاثر ہوا: ”اجازت ہے نوجوان!“
”عالی جاہ! اپنا کمال دِکھانے کے لیے مجھے ایک چیز کی ضرورت ہوگی‘ کیا میں آپ کے کسی ملازم سے وہ چیز منگوا سکتا ہوں؟“
”ہاں! لیکن ذرا جلدی کرو‘ ہم یہاں پُورا دن نہیں بیٹھ سکتے۔“ بادشاہ نے بے صبری سے کہا۔ آدم نیچے اُترا اور بادشاہ کے ایک ملازم کے کان میں کچھ کہا۔ وہ فوراً محل کے اندرونی حصّے کی جانب دوڑ گیا۔ آدم دوبارہ اسٹیج پر چڑھ گیا۔
”نوجوان! تم کون ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟“ بادشاہ نے پوچھا۔
”حضور! میرا نام آدم ہے اور میں ایک چھوٹے سے قصبے نیتا یا سے آیا ہوں۔ اس دربار میں کوئی شخص یہاں تک کہ آپ کے بہترین دوست اور وزیر میکاو ¿لی بھی یہ نہیں جانتے کہ نیتایا اس مُلک میں کہاں واقع ہے۔“
میکاو ¿لی کا چہرہ سُرخ ہوگیا کیوں کہ آدم کی باتوں سے اُسے اپنا نیتایا جانا اور وہاں آدم سے ملنا یاد آگیا تھا۔ میکاو ¿لی کا نام سُن کر سب لوگ اُس کی جانب دیکھنے لگے۔ اُس نے اطمینان کا سانس اس وقت لیا جب محل کا ملازم آدم کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی پُڑیا تھمانے آیا۔ سب لوگوں کی توجہ دوبارہ آدم کی طرف ہوگئی لیکن آدم اتنے آرام سے میکاو ¿لی کی جان بخشنے والا نہیں تھا۔ اُس نے اپنی بات جاری رکھی:
”حضور! اصل میں تو میں کوئی جادوگر نہیں ہوں بلکہ ایک غریب شاعر ہوں۔ میرے پاس نہ تو دھن دولت ہے اور نہ اثرورسوخ جیسا کہ آپ کے محترم وزیر میکاو ¿لی کے پاس ہے۔ اس لیے قابلیت کے باوجود میری قسمت میں شاید دھکے کھانا ہی لکھا ہے۔“ نوجوان کی بات سن کر بادشاہ نے زیرلب مُسکرا کر سر ہلایا۔
”بہت خوب آدم! آج بطور شاعر تمہارا تعارف اس دربار میں ہوگیا ہے۔ اب اگر تم نے آج کوئی ایسا کمال کرکے دِکھا دیا جس کا مقابلہ ہمارا مہمان جادوگر نہ کرسکا‘ تو ہم تمہیں مالا مال کر دیں گے‘ لیکن یاد رکھو! اگر تم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو ہمارا وقت ضائع کرنے کے جُرم میں تمہیں سو کوڑے مارے جائیں گے۔“
”جی حضور!“ آدم نے سر خم کرتے ہوئے کہا اور پھر جادوگر کی طرف مُڑا۔
”جناب! اب میں ایک کمال آنکھیں بند کرکے پیش کروں گا۔ اس کے بعد آپ کو وہی کمال آنکھیں کھول کر پیش کرنا ہوگا۔“ جادوگر نے یہ سُنا‘ تو ہنس، ہنس کر دُہرا ہوگیا۔
”آنکھیں کھول کر کیوں بھئی؟ مجھے کوئی مشکل نہیں جو کمال تم آنکھیں بند کرکے پیش کرسکتے ہو، وہ میں بھی آنکھیں بند کرکے دِکھا سکتا ہوں۔“
”جی نہیں! آپ کو وہ کمال آنکھیں کھول کرہی دکھانا ہوگا جب کہ میں وہ آنکھیں بند کرکے دکھاو ¿ں گا۔“ آدم نے نفی میں سرہلاتے ہوئے ضد کی۔
”اچھا اچھا! یوں ہی سہی۔“ جادوگر نے ہنستے ہوئے کہا۔
اب آدم نے وہ پُڑیا کھولی جو مُلازم اُس کے حوالے کرکے گیا تھا۔ اُس میں سے تھوڑا سا سفوف نکالا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں پھر اُس نے وہ سفوف اپنے پُورے چہرے اور آنکھوں کے اُوپر بکھیر لیا۔
”آچھوں…. آچھوں۔“ وہ زور سے چھینکا پھر اُس نے رومال سے اپنا چہرہ اور آنکھیں صاف کرلیں اور آنکھیں کھول دیں۔ حاضرین حیرت کے عالم میں اُسے دیکھ رہے تھے۔
”اب آپ کی باری ہے۔“ آدم نے جادو گر سے کہا: ”لیکن یاد رکھیے گا کہ یہ کمال آپ کو آنکھیں کھول کر دِکھانا ہے۔“
”ارے! یہ…. یہ سفوف کیسا ہے؟“ جادو گر نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے حیران و پریشان ہوکر پوچھا۔
”یہ پسی ہوئی سُرخ مرچ ہے۔“ آدم مُسکرایا اور جادوگر ہکّا بکّا رہ گیا۔
دربار میں قہقہے اور تالیاں گونج اُٹھیں۔ بادشاہ بھی بہت دیر تک ہنستا رہا۔ یہاں تک کہ میکاو ¿لی بھی مُسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
”بہترین!“ آخر کار بادشاہ نے ہنسی پر قابو پاکر کہا: ”تم واقعی انعام کے مستحق ہو ذہین نوجوان! نہ صرف انعام کے حق دار ہو بلکہ آج سے تم ہمارے دربار کا حصّہ ہو۔ مجھے کوئی آج تک اتنا نہیں ہنسا سکا جتنا میں آج ہنسا ہوں۔ اگلی نشست میں تم اپنا کلام پیش کرنا یقینا وہ بھی تمہاری طرح لاجواب ہوگا۔“
آدم یہ سُن کر خوشی سے نہال ہوگیا جس منزل کو وہ کسی وزیر کے توسط سے حاصل نہ کرسکا۔ وہ آج اُسے اپنی ذہانت سے مل گئی۔ انسان کی قابلیت اور ذہانت ہی اُس کی بہترین سفارش ہے۔ روس کے لوگ آج بھی یہ قصّہ مزے لے لے کر اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔
٭….٭….٭