”سعدیہ چلو لیکچر لینے چلتے ہیں۔” مریم نے تیزی سے بیگ بندھ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں مریم میں آج لیکچر لینے نہیں جاؤں گی، مجھے ذرا کام ہے تو مجھے وہاں جانا ہوگا۔”
”کہاں؟” مریم نے حیرانگی سے پوچھا۔
”دراصل مریم اماں نے مجھے حاشر کی یونیورسٹی جانے کو کہا ہے۔” وہ جھجکتے ہوئے بولی۔
”او اچھا” اُسے سُن کر حیرت ہوئی کچھ دیر خاموشی رہی۔
‘دسعدیہ تم اکیلی چلی جاؤ گی یا میں بھی تمہارے ساتھ آؤں؟”
”مگر مریم تمہیں لیکچر چھوڑنا پڑے گا۔”
”کوئی بات نہیں میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں، تم اکیلی کیسے جاؤں گی۔”
سعدیہ کو ذرا حوصلہ ہوا اور وہ مریم کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
دونوں لیکچر چھوڑ کر یونیورسٹی سے نکل گئیں، ایک بند رکشہ کروایا اور دونوں حاشر کی یونیورسٹی کے سامنے جاکر اُتریں۔
لوگوں سے پوچھتے پوچھاتے اُس کا ڈیپارٹمنٹ بھی مل گیا۔
ڈیپارٹمنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے دو چار لوگوں سے اُس کے بارے میں پوچھا مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ آج کل کہاں ہوتا ہے، اُس کے بعد سعدیہ حاشر کے دوست عثمان سے ملی، اُس نے اُسے حاشر کے بارے میں پوچھا تو اُسے کافی تعجب ہوا کیونکہ اُس نے باقی سب لوگوں کے برعکس بتایا کہ
”حاشر روزانہ یونیورسٹی آتا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے مگر شاید کسی وجہ سے فون بند رکھتا ہے”
”اِس وقت وہ کہاں ہوگا؟ میں اُس کی کزن ہوں اور مجھے اُس سے ملنا ہے” سعدیہ نے گھورتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ یونیورسٹی سے باہر نکلا ہے، آپ پھر کبھی آجائیے گا۔” سعدیہ اور مریم حیرانگی سے اُس لڑکے کا چہرہ دیکھ رہی تھیں کیونکہ وہ سب کچھ جھوٹ بول رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اُن دونوں نے سوچا شاید یہ سچ بول رہا ہو کیونکہ یہ حاشر کا سب سے اچھا دوست ہے۔
سعدیہ پہلے سے بھی زیادہ Confuse ہوگئی، اُس کا حاشر سے ملنے کا تجسس اور بڑھا۔
عثمان نے سعدیہ کے جاتے ہی حاشر کو کال کی ‘دیہ سعدیہ کون ہے؟”
”وہ میری کزن ہے کیوں؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد حاشر نے جواب دیا۔
”آج وہ یونیورسٹی آئی تھی، تیرا پوچھ رہی تھی۔”
”کیا؟ وہ یونیورسٹی آئی تھی، تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا، مجھے اُس سے ایک بار ملنا تھا”
”مگر کیوں؟” عثمان نے تجسس سے پوچھا۔
”کیونکہ۔۔۔ کیونکہ وہ میری منگیتر ہے اور میں اُس سے ایک آخری بار ملنا چاہتا ہوں۔”
”پکی بات ہے کہ یہ ملاقات آخری ہی ہوگی؟”
”ہاں! اُسے یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ میرے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔”
”ٹھیک ہے اگر وہ دوبارہ آتی ہے تو میں تمہیں کال کرکے بتا دوں گا، تم اُس سے مل لینا۔”
…٭…
سعدیہ پریشانی کے عالم میں رکشے پر بیٹھ گئی ”سعدیہ تم فکر نہ کرو، ہم کل پھر آئیں گے۔” مریم نے اُسے دلاسہ دیا۔
”ہاں میں ضرور آؤں گی، مجھے کسی پر یقین نہیں” وہ غصے سے بولی۔
…٭…
”سعدیہ تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے۔”
ماں نے خوش ہو کر اُسے کہا۔
”کیا اماں؟”
”تیرے ابا کا اور میرا عمرہ کا ٹکٹ لگ گیا ہے، ہم اگلے مہینے کی دو تاریخ کو عمرے پر جارہے ہیں۔”
سعدیہ کئی دنوں بعد آج دِل سے مسکرائی۔ ”مبارک ہو ماں! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے، وہاں جارہی ہو تو اپنی بیٹی کو بھی دُعاؤں میں یاد رکھنا۔”
”یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے سعدیہ” ماں نے اُسے پیار سے دیکھا۔
”ارے یاد آیا تو حاشر سے ملنے گئی تھی؟”
”ہاں اماں! مگر وہ نہیں ملا۔۔۔ کل پھر جاؤں گی۔”
”ہاں میں چاہ رہی تھی جانے سے پہلے تیرا اور حاشر کا نکاح کرکے جاؤں، تیرے ماموں سے بات کروں گی۔”
”نہیں اماں۔۔۔ نکاح نہ بھی ہوا تو میں ہوسٹل میں مریم کے ساتھ رہ لوں گی۔”
”نہیں اب میں نے سوچ لیا ہے میں تیرا اور حاشر کا نکاح کروا کرہی جاؤں گی۔”
سعدیہ نے غصے سے ماں کو دیکھا اور کمرے میں چلی گئی، زور سے دروازہ بند کیا اور ٹچخنی چڑھا دی۔
”میں جانتی ہوں تُو بھی یہی چاہتی ہے مگر وقت نے تجھے انکار کرنے پر مجبور کردیا ہے” ماں منہ میں بلبلائی۔۔۔
سعدیہ اگلے دن 9 بجے اکیلی حاشر کی یونیورسٹی چلی گئی، ایک گھنٹہ اُس کے ڈیپارٹمنٹ میں بے چینی سے چکر لگاتی رہی کہ شاید حاشر آجائے، کچھ دیر بعد عثمان نے دور سے سعدیہ کو دیکھا اور بھاگتا ہوا سعدیہ کی طرف آیا۔
”کیا تم آج بھی حاشر سے ملنے آئی ہو؟”
”ہاں”
عثمان نے فوراً حاشر کو فون ملایا اور اُسے یونیورسٹی آنے کو کہا۔
”مگر تم نے تو کہا تھا، حاشر کا فون آج کل بند ہوتا ہے تو پھر؟” سعدیہ نے تجسس سے پوچھا۔
”ہاں بند ہی ہوتا ہے مگر میں Try کررہا تھا کہ اچانک اُس نے میرا فون اُٹھا لیا۔” عثمان نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔
سعدیہ بڑے غصے سے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی، اُسے عثمان ایک بہت ہی دوغلا اور جھوٹا انسان لگا تھا۔
”اُس نے سعدیہ کو یونیورسٹی کے ہی ایک بینچ پر بیٹھ جانے کو کہا اور اُسے بتایا کہ حاشر اُسے وہیں پر ملے گا۔
وہ کافی دیر اُس بینچ پر بیٹھی انتظار کرتی رہی اردگرد کچھ زیادہ لوگ نہ تھے، دور ایک بینچ پر ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے تھے۔
اُسے وہاں بیٹھنا بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا مگر وہ حاشر کے انتظار میں وہاں بیٹھی رہی۔ کچھ دیر بعد سعدیہ نے دور سے حاشر کو آتے دیکھا، وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سعدیہ کے قریب آرہا تھا، اور سعدیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی۔
اُسے دیکھ کر وہ ایک دَم سے مسکرائی، وہ لمحہ بہت خوبصورت تھا جیسے ایک تھکے ہارے مسافر کو اچانک سے اپنی منزل نظر آنے لگے۔ مگر جیسے ہی وہ سعدیہ کے قریب پہنچ رہا تھا، (سعدیہ کی) اُس کی مسکراہٹ غائب ہونے لگی، اور سعدیہ پر غم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے جب اُس نے حاشر کو ہلکا سا لڑکھڑاتے ہوئے اپنے پاس آتے دیکھا، اُس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے تھے اُس کا گورا رنگ اب گندمی ہوچکا تھا، اُس کا صحت مند جسم اب کمزور ہوچکا تھا، کپڑے بھی کچھ خاص نہ تھے۔
جب وہ کچھ قدم پیچھے تھا سعدیہ بھاگ کر اُس کے پاس گئی۔
”حاشر تم ٹھیک تو ہو؟ اگر بیمار تھے تو مجھے بتا دیتے میں پھر کسی دن آجاتی۔”
”نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں”
اُن دونوں کی آنکھوں میں نمی تھی، کافی دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اپنا اپنا درد بیان کررہے ہوں۔
”تم نے یہ اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے حاشر؟ کسی کا فون بھی نہیں اُٹھاتے، اپنا گھر چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں جاچکے ہو” وہ بڑی اُداسی سے بولی۔
‘دیہ سب باتیں چھوڑ دو، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، مجھے کہیں جانا ہے” وہ بیزاری سے بولا۔
”نہیں مجھے اِن سب سوالوں کے جواب چاہیے تمہیں پتہ ہے حاشر! ماموں اور ممانی تمہارے لیے کتنے پریشان ہیں؟”
(حاشر کے پاس کسی سوال کا جواب نہ تھا)
”کیا تم نے شادی کرلی ہے؟” سعدیہ نے مایوسی سے پوچھا۔
وہ حیران، پریشان سعدیہ کو دیکھ رہا تھا۔
”یا پھر تم مجھ سے شادی نہ کرنے کے لیے اس طرح چھپے بیٹھے ہو؟” وہ پھر سے بولی۔
”مجھے کچھ نہیں پتا۔۔۔ میں بس تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم میرے خواب دیکھنا چھوڑ دو، میں تم سے شادی نہیں کرسکتا۔” سعدیہ تبکی، ایسے لگا جیسے کچھ لمحوں کے لیے کسی نے اُس کی روح قبض کرلی ہو اور جب روح قبض ہوتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے ریشم کا کپڑہ کانٹے دار جھاڑیوں پر پھینکا ہو اور پھر زور دار طریقہ سے کھینچا جائے۔
اُس ریشم کے کپڑے کی طرح سعدیہ کے وجود کی بھی دھجیاں اُڑ گئیں۔
وہ اس حقیقت سے تو واقف تھی کہ حاشر اُسے پسند نہیں کرتا مگر وہ جانتی تھی کہ مجبوراً ہی سہی پر شادی وہ اُسی سے کرے گا۔
آنسوؤں سے آنکھیں ایک دَم سے بھریں، آنکھوں کی سُرخی دل کا درد خوب بیان کررہی تھی۔
وہ بھی اُس کی آنکھیں دیکھ کر شرمندگی سے مڑا۔ اپنے آپ پر قابو کرتے ہوئے وہ پھر سے بولی۔ ”میں جانتی تھی کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرو گے مگر تم مجھے صرف وجہ بتا دو تاکہ میں اپنے اور تمہارے گھر والوں کو بتا سکوں” آنکھوں میں آنسو لیے وہ بولی۔
”کوئی وجہ نہیں ہے اس انکار کی مگر میں تم سے شادی نہیں کرسکتا۔” وہ اونچی آواز میں چلایا کہتے ہیں مرد اپنی جھوٹی بات منوانے کے لیے اکثر گرج دار آواز کا استعمال کرتا ہے اُس نے بھی یہی کیا۔
وہ مایوسی سے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اُس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اُس کا لہجہ بدل گیا کیونکہ اُس کی حالت ترس کھانے لائق تھی۔ ”سعدیہ تم بہت اچھی لڑکی ہو، تمہیں مجھ سے کہیں زیادہ اچھا لڑکا ملے گا، جو تمہیں زندگی کی ہر خوشی دے گا۔” اُس کے لہجے میں نرمی تھی ”میری زندگی کی ہر خوشی تم سے منسوب تھی حاشر” اُس کی آنکھوں میں ڈوبتے ہوئے اُس نے کہا۔
”بے وقوف ہو تم” وہ پھر سے چلایا۔
”ہاں میں جانتی ہوں، مجھے بچپن سے ہی پتہ تھا کہ تم مجھے پسند نہیں کرتے اور کبھی شادی بھی نہیں کرنا چاہو گے، تم صرف ماموں کے کہنے پر میرے ساتھ ٹِکے تھے اور اپنے والدین کو تم نے بتایا ہی نہیں کہ میں تمہاری ٹائپ نہیں ہوں” وہ زارو قطار روتے ہوئے بولی ”میں یہاں تمہارا رونا دھونا دیکھنے نہیں آیا، مجھے صرف تمہیں یہ بتانا تھا کہ میں تم سے شادی نہیں کرسکتا، تم اپنے لیے کسی اور کو منتخب کرو۔” وہ بات کاٹتے ہوئے پھر سے چلایا۔
”یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے حاشر علی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں” وہ غصے میں چلائی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ وہاں سے چلی گئی، سارا راستہ روتے ہوئے وہ اپنی یونیورسٹی پہنچی۔
وہ سمجھ چکی تھی کہ حاشر اُس کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل چکا ہے مگر دل اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر امادہ نہ تھا، پورا دن یونیورسٹی کے ایک کونے میں روتی رہی، قیامت ٹوٹ چکی تھی اُس معصوم لڑکی پر، آج اُس کی ساری اُمیدوں نے دَم توڑ دیا، نہ پیروں تلے زمین رہی نہ سر پر آسمان اپنے اوپر آنے والی قیامت کو وہ اکیلی جھیل رہی تھی، کسی کو بتانے کی ہمت تک نہ تھی اُس میں، آنسوؤں کو تھامے ہوئے جھوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ گھر پہنچی، اُس کے زخموں پر نمک ڈالتے ہوئے ماں نے آج پھر سے پوچھا:
”سعدیہ حاشر سے ملی تھی؟”
”نہیں اماں۔۔۔ وہ یونیورسٹی نہیں آتا” بڑی مشکل سے جواب دے کر وہ منہ چھپانے لگی۔
اُس کا نام تک سُن کر تو اُس کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں، رات کا کھانا کھائے بغیر وہ بستر پر لیٹ گئی۔
”وہ اُسی لڑکی سے محبت کرتا ہے جس کے ساتھ وہ ریسٹورنٹ میں تھا” آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ بلبلائی۔
ماں بیٹی کا چہرہ دیکھ کر خوب جان چکی تھی کہ آج یہ حاشر سے ہی مل کر آئی ہے اور وہ اس کی مایوس کرچکا ہے، وہ بیٹی کے لیے بہت پریشان تھی مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ اُس کے ہاتھوں میں ہوتا تو زندگی کی ساری خوشیاں بیٹی کی جھولی میں ڈال دیتی مگر وہ کچھ نہ کرسکی۔
”اے اللہ تُو نے اُس معصوم کو کس امتحان میں ڈال رکھا ہے اِس نے تو کبھی کسی کا برُا نہیں چاہا، یہ تو میری فرماں بردار بیٹی ہے” آنکھوں میں آنسو لیے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بلبلائی، جب اُس نے مغرب کے وقت ہی سعدیہ کو صحن میں سوتے دیکھا۔
…٭…
اپنے اماں، ابا سے نظریں کتراتے ہوئے وہ بستر پر لیٹ گئی، رات کو تاریکی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی، چاند بھی آج کچھ خاص روشن نہ تھا، وہ چاند پر نہیں اُس کے داغ پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔۔۔ آنکھیں آنسوؤں سے بار بار بھر رہی تھیں، آج پہلی دفعہ وہ رات کی خاموشی محسوس کررہی تھی، آج اُس نے فجر کے بعد کوئی اور نماز نہ پڑھی تھی۔
اب ایسا کیا بچا تھا جو اُسے نماز کے لیے کھڑا کرنے پر مجبور کرتا، وہ تو ایک اُمید کی کِرن لے کر جائے نماز پر کھڑی ہوتی تھی مگر آج اُس اُمید نے ہی دَم توڑ دیا۔
یہ رات اُس کے لیے بہت طبی تھی وہ جان چکی تھی اس رات کی صبح کبھی نہیں ہوگی۔
آج پھر اُس نے دور سے تہجد کی اذان کی آوزا سنی۔ مگر اُس کے جسم میں آج طاقت نہ تھی کہ وہ نماز کے لیے اُٹھے۔ اُس کی روح بھی تھک ہار چکی تھی، آنکھوں کو آہستہ سے بند کرتے ہوئے اُس نے پھر سے آنسو صاف کیے،
پتہ نہیں کیا ہوا اُسے کہ اچانک سے اُٹھی، وضو کیا اور جائے نماز ڈھونڈنے لگی۔
اُس کا دل و دماغ ایک ساتھ نہیں چل رہا تھا نا جانے کون سی طاقت اُسے اُس کے خدا کے سامنے کھینچ لائی۔
ہمیشہ کی طرح دو نفل پڑھے مگر آج انداز کچھ مختلف تھا، آج وہ آہستہ آہستہ نماز پڑھ رہی تھی۔۔۔ رُک رُک کر۔۔۔ جیسے ایک ایک لفظ کا مطلب سمجھ کر التجا کررہی ہو۔۔۔ اُسے نماز پڑھتے پڑھتے محسوس ہورہا تھا کہ نماز میں وہ کسی قدر اچھی دعا مانگتی تھی، وہ صراطِ مستقیم مانگتی تھی۔۔۔ وہ نیک لوگوں میں شامل ہونے کی التجا کرتی تھی۔ وہ آخرت کی بھلائی مانگتی تھی مگر اُس نے دل سے تو کبھی یہ سب مانگنے کا ارادہ کیا ہی نہیں۔
وہ تو نماز کے لیے محض نامحرم کے لیے کھڑی ہوتی تھی۔
اُس نے وہ نماز تو آج تک پڑھی ہی نہیں جو نماز ہم مسلمانوں پر فرض کی گئی تھی۔
آج وہ سجدے سے سر نہیں اُٹھانا چاہتی تھی وہ اُس کے آگے جھک کر دل کھول کر رونا چاہتی تھی۔
روتے روتے اُس نے سلام پھیرا۔
”یہ میں کیا کررہی تھی؟
آخر کیوں میری دُعا قبول کرتا وہ؟
میں تو نافرمان لڑکی ہوں، نمازیں تک تو پوری نہیں تھیں میری اور اگر اُس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہوہی گئی تھی تو ایک نامحرم کے لیے۔
کیوں کررہی تھی میں ایسے؟
(وہ گہری سوچ میں گُھم تھی)
میں اُس محمدۖ کی امتی ہوں جو راتوں میں جاگ جاگ کر اپنی اُمت کے لیے رو رو کر دعا مانگا کرتے تھے اور انہوں نے زندگی میں کتنی تکلیفیں دیکھیں مگر اُف تک نہ کہا، اپنے رب سے کبھی شکایت تک نہیں کی تو پھر میں کیوں؟
میں کیوں صرف ایک مرد کی محبت پانے کے لیے تڑپ رہی تھی مجھے تو اپنے رب کی محبت کے لیے تڑپنا چاہیے تھا۔
(وہ شرمندگی سے چہرے پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی)
اے اللہ مجھے معاف کردے
اے اللہ مجھے معاف کردے
اے اللہ مجھے معاف کردے
میں غلط راستے پر ہوں، مجھے سیدھے راستے پر چلا، تو اپنی محبت سے نواز دے۔
کیا تھی وہ محبت جس کے لیے میں تجھے بھول بیٹھی تھی، جس کے لیے میں نے اپنے وجود کا مقصد نہیں جانا۔ مجھے اس عشق سے نکال کر اُس عشق میں ڈال دے جس سے میری روح پرُسکون ہوجائے اور دِل کا اطمینان ملے۔
میں کب تک دل و دماغ کی جنگ لڑوں گی یارب۔۔۔ وہ عشق جو حسن حسین کو عطا کیا تو نے۔۔۔ جو اویس قرنی کو عطا کیا۔۔ جو حضرت ابراہیم کو تھا۔۔۔ جو تیرے انبیایٔ، تیرے نیک بندوں کو ہے تجھ سے۔۔۔ جو تیرے محبوبۖ کو تھا تجھ سے۔۔۔
نہیں! میں اس کے قابل کہاں ہوں! مگر تیری رحمت کا ایک قطرہ ہی میری دُنیا اور آخرت سنوار دے گا۔۔۔
مولا مجھے تُو وہ فقیری ہی عطا کردے جو ایک درویش کو بادشاہ بنا دے۔
معاف کردے مولا۔۔۔ تُو بس معاف کردے۔” وہ زارو قطار روتی رہی۔۔۔ آنسوؤں سے ہاتھ بھیگ چکے تھے۔
گہری سوچ میں گُھم تھی، ندامت ہورہی تھی جیسے اپنے رب سے شرمندہ ہونے لگی۔
”اللہ پاک تُو بس مجھے معاف کردے، اگر وہ میری قسمت میں نہیں تو نکال دے اُسے دل سے، تو مجھے اپنی فرماں بردار بنا دے، یا رب ایسی بنا دے کہ تجھے پسند آجاؤں، میری دُنیا اور آخرت سنوار دے مولا۔” وہ جائے نماز اُٹھاتے ہوئے بلبلائی۔
مانگنے کچھ گئی اور مانگ کچھ آئی۔۔۔ دراصل وہ سب کچھ ہی مانگ آئی تھی، اب بلا رب اُسے وہ سب کیوں نہ دیتا جو وہ چاہتی تھی کیونکہ رب تو پہلے ہی اپنے بندے سے کہتا ہے:
اے ابنِ آدم ایک میری چاہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے پس اگر تو نے سپرد کردیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہیت ہے تو وہ بھی میں تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے، اگر تو نے مخالفت کی اُس کی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں جو تیری چاہت ہے پھر بھی ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔
سعدیہ نے بھی تو اپنی چاہت چھوڑ کر اپنے رب کو منانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔۔۔
آنکھیں صاف کرتے ہوئے وہ اپنی چارپائی پر آئی، چادر کھولی اور لیٹ کر سوچنے لگی کہ اب وہ صرف اپنے رب کو راضی کرے گی اور کوئی نماز نہیں چھوڑے گی۔
کچھ ہی دیر ہوئی کہ ایسا لگا جیسے کسی پیاسے کو پانی مل گیا ہو، ڈوبتے کو کنارہ مل گیا ہو اور اُس بے چین لڑکی کو چین مل گیا ہو اور وہ گہری نیند سونے لگی۔