عشقِ کامل — نازیہ خان (پہلا حصّہ)

اب ذہن میں ایک اور خیال دوڑنے لگا کہ کہیں حاشر مجھ سے شادی نہ کرنے کے لیے تو چھپ کر نہیں بیٹھا۔ بے چینی اور بڑھی۔ ساری رات اسی بے چینی میں گزار رہی تھی کہ دور کسی مسجد سے تہجد کی اذان کی آواز آئی ایک دَم سے آنکھیں کُھلی تو یاد آیا۔ ہاں وہی ہے جو میری تڑپ کو جانے گا۔
”مانا کہ نامحرم کو اس تڑپ سے چاہنا گناہ ہے مگر یہ شوق بھی اِن دنیا والوں نے اس دال میں ڈالا ہے، یا تو اُس تڑپ کو ختم کردے یا اِسے انجام تک پہنچا دے مولا” آنکھوں میں آنسو لیے وہ بلبلائی اور وضو کرنے لگی۔ ”سعدیہ کیا کررہی ہو بیٹا” ابَّا آنکھیں ملتے ہوئے پانی کی آواز سبن کر حیرانگی سے دیکھنے لگا۔ ”کچھ نہیں ابّا وضو کررہی تھی۔”
”ماشااللہ! اللہ تیری عبادت قبول کرلے بیٹا” سرگوشی کرتے ہوئے۔
بے چینی بے قراری کا یہ عالم تھا کہ جائے نماز پر کھڑے ہوئے ہی آنسو گِرنے لگے، دو نفل پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا لیے:
”میں نے آج تک تجھ سے کچھ نہیں مانگا یا رب! تُو نے جو بھی میری تقدیر میں لکھا اُسی پر راضی ہوگئی، بیوقوف تھی نا سمجھ تھی جب حاشر کا نام میرے نام کے ساتھ سمجھ تھی جب حاشر کا نام میرے نام کے ساتھ جوڑ دیا گیا مگر میں اُسی کو اپنی زندگی میں آنے والا آخری مرد سمجھ بیٹھی، دن گزرتے گئے۔ سال گزرتے گئے اور میں تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے اُس سے محبت کرنے لگی۔
اے اللہ یہ کیسا امتحان ہے اب اگر میں اُس کے علاوہ کسی اور کا تصور نہیں کرسکتی اب وہ میرا ہو نہیں سکتا۔ پتہ نہیں کس حال میں ہے وہ! اُسے اپنے حفظ و امان میں رکھ، اُسے میرا نصیب بنا دے یا رب! اُس اکیلے مرد کو ہی تو مانگتی ہوں اور کسی کی چاہت نہیں۔
مجھ پر رحم کر یا رب۔۔۔ مجھ پر رحم کر یا رب مجھ پر رحم کر”
وہ راز و قطار رو رہی تھی۔
…٭…



آنسو صاف کرتے ہوئے جائے نماز اُٹھایا اور چارپائی پر لیٹ گئی۔
اب وہ بالکل پرُسکون چارپائی پر لیٹی، اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے، کچھ ہی لمحوں میں آنکھیں بند ہوئیں اور گہری نیند سونے لگی۔
…٭…
جو سکون اُس نے تہجد کی نماز کے بعد محسوس کیا تھا وہ اُس سکون کی عادی ہونے لگی، اپنی بے چینی اور بے قراری وہ کُھل کر صرف خدا کے سامنے بیان کرتی۔
پانچ وقت نمازیں پڑھنے لگی، تہجد پڑھنے لگی۔ اب تہجد پڑھے بغیر اُسے نیند نہیں آتی تھی۔
اُس کا تعلق اپنے خدا سے مضبوط ہورہا تھا مگر وہ اُس کے سامنے صرف حاشر کے لیے کھڑی ہوتی اُس کی ہر دُعا حاشر سے شروع ہوتی اور حاشر پر ختم ہوتی۔
اُس کے دل میں ایک کھٹک سی رہنے لگی کہ شاید حاشر اُس سے شادی بھی نہیں کرے گا اور وہ اپنے اللہ کے سامنے گڑگڑاتی۔
روز روز اُس کی عبادت کا وقت بڑھ را تھا وہ مستقل سکون کی تلاش میں نکل چکی تھی مگر بے چینی تھی کہ روز روز پہلے سے بھی زیادہ بڑھ رہی تھی۔
…٭…
وہ جانتی تھی کہ حاشر کی محبت پانا تو شاید ناممکن ہے وہ صرف حاشر کو پانے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ اُسے مایوسیوں سے جوڑ دیتا مگر پھر بھی وہ اُمید نہ چھوڑتی۔ کبھی منت مانگتی و کبھی وظیفے کرتی۔
اذان ہوتے ہی نماز کے لیے بھاگتی کہ شاید کوئی دعا اُس کے دِل کی چاہ پوری کردے۔
پتہ نہیں یہ اُس کا عشق تھا یا کوئی جنون جو اُس کے دل کے ساتھ ساتھ اُس کی روح کو بھی جھنجھول رہا تھا۔
…٭…
”ہیر، رانجا، سسی، پنو، لیلا، مجنو اب ان کے بعد تمہارا عشق مشہور ہوگا سعدیہ”
میرم نے طنز کرتے ہئے کہا جب اُس نے سعدیہ کو پورا ایک گھنٹہ دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے دیکھا۔
سعدیہ نے تبک کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرے اور تیزی سے اُٹھی۔
”تمہاری اُس دُعا کے چکر میں میرا آدھا لیکچر گزر گیا” مریم نے بھنویں اچکائیں۔
”Sorry…..Sorry مجھے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا” سعدیہ نے شرمندگی سے کہا ”یقین کرو سعدیہ وہ لڑکا تمہارے قابل نہیں ہے بس اسی لیے اللہ تعالیٰ تمہاری دُعا قبول نہیں کررہے۔ ورنہ ایسی دُعا جو انسان کو دُنیا سے غافل کردے۔ کیسے قبول نہیں ہوتی۔” کلاس میں جاتے جاتے اُس نے پھر سے طنز کی ”بس کرو مریم” سعدیہ نے اُداسی سے کہا۔ ”اچھا اچھا۔۔۔ Sorry” مریم مسکرائی۔
…٭…



کلاس کی ایک لڑکی نے سب لڑکیوں کو برتھ ڈے پارٹی دینے کا فیصلہ کیا اور سعدیہ اور مریم کو بھی اُس میں Invite کیا، جس کے لیے انہیں ایک ریسٹورنٹ جانا پڑا۔ وہاں کھانا کھانے کے بعد سعدیہ نے حاشر کو ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھے دیکھا، وہ منظر اُس کے لیے بہت عجیب تھا۔
ساکت بغیر آنکھیں جھپکائے وہ اُس کو دیکھنے لگی، وہ اُسے اس لڑکی کے ساتھ دیکھ کر بہت پریشان ہوئی مگر پریشانی کی انتہا اُس وقت ہوئی جب اُس نے حاشر کے بکھرے بال، گندے کپڑے اور آنکھوں کے گِرد ہلکے دیکھے،
سعدیہ کا دِل ہِل چکا تھا، وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ حاشر جیسے اپ ٹو ڈیٹ لڑکے کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے مگر وہ اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے یہ ناقابلِ یقین منظر دیکھتی رہی، کچھ دیر بعد حاشر کی نظر بھی سعدیہ پر پڑی وہ اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا جیسے وہ بھی اُس سے ملنا چاہ رہا تھا مگر پھر اچانک وہ اپنا منہ چھپانے لگا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا،
اُن دونوں کی آنکھوں میں ہزاروں سوال جھلک رہے تھے، ایسے لگ رہا تھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ ایک دوسرے کی روح میں جھانک رہے ہوں۔
مریم بھاگتی ہوئی آئی اور سعدیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے ساتھ لے گئی۔
”سعدیہ تم کہاں رہ گئی تھی؟ میں تو پریشان ہوگئی تھی تمہیں سب میں نہ دیکھ کر”
سعدیہ اپنی سوچوں کے سمندر میں گُھم سُم چلتی جارہی تھی۔
…٭…
نمازِ عصر کا وقت تھا، سعدیہ نے وضو کرنا شروع کیا۔
اپنی سوچوں میں گُھم وضو کرکے جائے نماز پر کھڑی ہوئی، ناجانے کیسی نماز پڑھی اُس نے اور پھر اپنے رب سے اپنی بے بسی کا اظہار کرنے لگی:
”اے اللہ یہ سب کیا ہے؟ اُس کی یہ حالت کیوں تھی؟ کیا وہ بیمار ہے؟ کیا ہوا ہے اُسے؟ وہ لڑکی کون تھی؟” وہ اپنے آپ سے جنگ میں مصروف تھی کہ مریم نے اُسے بتایا کہ اُس کی بس کا ٹائم ہوچکا ہے۔
…٭…
”میں کیا کروں؟ مجھے حاشر سے ملنا چاہیے” ”کیا وہ اُس لڑکی سے شادی کرچکا ہے؟ جو وہ گھر والوں سے بات نہیں کرتا” خود سے باتیں کرتے ہوئے وہ آنسو پونچھ رہی تھی۔
”میں کیا کروں؟ کس کو بتاؤں؟ اے اللہ تو میرے مشکل آسان کردے، بے شک تو ہی اس مشکل کو آسان کرنے والا ہے” اُس نے روتے ہوئے دل ہی دل میں دُعا کی۔
”کیا مجھے مریم سے بات کرنی چاہیے، شاید وہ کچھ بتاسکے” وہ کتاب گھٹنوں پر رکھے سوچ رہی تھی۔
”سعدیہ بیٹا ذرا ایک کپ چائے تو بنا دو مجھے” اماں نے کپڑے سلائی کرتے ہوئے آواز دی۔
”جی اچھا”
سعدیہ کچن میں چائے بنانے لگی اور پھولا کر اماں کو دی۔
ماں نے چائے پیتے ہی بہت برُا منہ بنایا۔
”ہائے سعدیہ یہ تم نے کیا بنایا ہے؟ کم بخت اس میں تو چینی نہیں ڈالی۔”
”شاید میں چینی ڈالنا بھول گئی اماں، ابھی لائی چینی” وہ شرمندگی سے بولی۔
”پتہ نہیں اُس لڑکی کا دماغ کہاں رہتا ہے” ماں بلبلائی۔
‘دیہ لو اماں” سعدیہ کہہ کر مڑی۔
‘دسنو اِدھر بیٹھو سعدیہ، میرے پاس آؤ، کوئی پریشانی ہے بیٹا؟ میں دیکھ رہی ہوں تم آج کل پریشان سی رہتی ہو۔”
”نہیں اماں کچھ نہیں”
”کچھ تو ضرور ہے۔۔۔ جس نے تمہیں تمہارے رب کے بھی قریب کردیا ہے، تہجد پڑھنے لگی ہو، نمازیں پوری ہوگئی ہیں، ہر نماز کے بعد آنکھیں سوجی ہوتی ہیں۔ لگتا ہے کسی کڑی آزمائیں ہو۔
مگر بیٹا! جو آزمائش ہمیں ہمارے رب کے ساتھ جوڑ دے وہ تو کامیابی کی طرف لے جانی ہے۔
میں تیری ایک ماں ہوں جس کا دِل تجھے اس طرح دیکھ کر تڑپ اُٹھتا ہے وہ ستر ماؤں جتنی محبت کرنے والا ہے اُس پر یقین رکھ اور مایوس نہ ہوا کر۔”
”اماں مایوسی سے ہی تو دور بھاگتی ہوں مگر وہ شاید میرا مقدرہے۔”
”نہ سعدیہ! مایوسی کسی مسلمان کا مقدر نہیں ہوسکتی۔”
سعدیہ ماں کا چہرہ بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔
اُس نے اماں کو اپنے ماموں کے فون اور حاشر کے بارے میں بتایا۔
ماں گھبرا گئی کیونکہ وہ تو اپنی بیٹی کا رشتہ حاشر سے کرکے بڑے سکون کی نیند سوتی تھی۔
”نہیں سعدیہ۔۔۔ میرا دل نہیں مانتا۔۔۔ بیٹا حاشر آزاد خیال ہے مگر اتنا برُا بھی نہیں، وہ تجھ سے ہی شادی کرے گا۔”
ماں نے کپڑے سلائی کرنا چھوڑ دیے اور سلائی مشین پیچھے کرتے ہوئے سعدیہ کو نصیحت کرنے لگی۔
سعدیہ تُو ایک کام کیوں نہیں کرتی، اُس کی یونیورسٹی چلی جا، آخر وہ تیسرا منگیتر ہے۔” ”نہیں میرے اندر اتنی ہمت نہیں۔”
”ہمت پیدا کرنا بیٹا۔۔۔ وہ جس سے دن رات رو روز کر دُعائیں مانگتی ہے اُس پر بھروسہ رکھ۔”
”تُو کل ہی اُس سے مل کر آ” ماں نے حکم دیا۔
”مگر اماں”
”اگر مگر کچھ نہیں تو حاشر سے مل کسی طرح”
…٭…

Loading

Read Previous

جامن کا پیڑ — کرشن چندر

Read Next

عشقِ کامل — نازیہ خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!