عشقِ کامل — نازیہ خان (پہلا حصّہ)

سعدیہ ایک بہت ہی خاموش، خوش طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی، درمیانے قد کی مگر خوبصورت۔ اُس کی آنکھوں میں اس قدر گہرائی تھی کہ انجان شخص بھی جان جائے کہ ناجانے کتنی بائیں چھپا کر بیٹھی ہے وہ اپنے اندر۔
وہ بہت سادہ لوح لڑکی تھی، سجنے سنورنے کا اُسے بالکل شوق نہ تھ، ہر وقت کتابوں میں مصروف رہنے والی یا اپنی ہی کسی دُنیا میں گُھم سُم۔
اُس کے زیادہ دوست نہ ہوتے تھے، یونیورسٹی میں آکر بھی اُس کی صرف مریم سے دوستی ہوئی مگر اُس سے بھی وہ کچھ share نہ کرتی۔
وہ لائبریری میں بیٹھی اپنی سہیلی کے ساتھ اپنی Assignment مکمل کررہی تھی کہ اُس نے فون کی وائبریشن سُنی، قلم کو بند کرتے ہوئے تیزی سے لائبریری سے باہر نکلی۔
”السلام و علیکم ماموں؟”
”وعلیکم السلام بیٹا” ”کیسی ہو”
”میں ٹھیک ہوں، آپ سنائیں، ممانی کیسی ہیں؟” ”میں بالکل ٹھیک ہوں، ممانی بھی ٹھیک ہیں، میری بیٹی کی پڑھائی کیسی جارہی ہے؟”
”جی ٹھیک جارہی ہے۔”



”بیٹا آپ کی حاشر سے کوئی بات ہوتی ہے آج کل” اُس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں ماموں! میں نے اُس سے کبھی بات نہیں کی”
”بیٹا تم اُس کی منگیتر ہو، بات کر لیا کرو تھوڑی بہت”
”جی اچھا”
”حاشر ہمارا فون نہیں اُٹھاتا، اُس کا ہمارے ساتھ کوئی contact نہیں، آپ پلیز اُس سے بات کرو اور مجھے بتاؤ وہ آخر ہوتا کہاں ہے۔”
”جی میں بات کروں گی اُس سے” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔
”Okay خدا حافظ”
”خدا حافظ” اُس نے آہستہ سے کہا۔
سعدیہ نے فون بند کیا اور کافی دیر کسی سوچ میں گُھم رہی، اچانک اُسے یاد آیا کہ وہ کام کررہی تھی، وہ بھاگتے ہوئے مریم کے پاس واپس لائبریری میں گئی۔
”کس کا فون تھا؟” مریم نے سرگوشی کی۔
”نہیں کسی کا نہیں” وہ جھجکتے ہوئے بولی۔
اُس نے دوبارہ قلم کھولا اور لکھنے لگی۔
…٭…
مریم نوٹ کررہی تھی کہ سعدیہ پہلے سے بھی زیادہ گُھم سُم اور پریشان رہنے لگی۔
”کوئی پریشانی ہے سعدیہ؟” اُس نے کلاس شروع ہونے سے پہلے پوچھا۔
”نہیں کوئی بھی نہیں” وہ تبک کر بولی۔
”کچھ تو ہے سعدیہ جو تمہیں بے چین کیے ہوئے ہے”
”نہیں بس یوں ہی دل اُداس ہے آجکل۔”
”کچھ تو ہے سعدیہ جو تمہیں بے چین کیے ہوئے ہے”
”نہیں بس یوں ہی دل اُداس ہے آج کل”
مریم خاموشی سے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کرتی رہی۔
…٭…
”سعدیہ میں کئی دنوں سے محسوس کررہی ہوں، کتابیں سامنے رکھ کر تم کسی اور ہی سوچ میں گھم ہوتی ہے” مریم نے لائبریری میں پھر سے بات چھیڑی، سعدیہ ہر بار اُس کی باتوں کو نظر انداز کردیتی۔
…٭…



سعدیہ یونیورسٹی سے بہت کم چھٹی کرتی تھی، کچھ دنوں بعد اُس نے یونیورسٹی سے چھٹی بھی کرلی۔
مریم کا تجسس اور بڑھا کہ آخر سعدیہ کس مشکل میں ہے۔
اگلے دن مریم خود کو تیار کرکے بیٹی تھی کہ آج وہ سعدیہ سے اُس کی پریشانی کی وجہ ضرور پوچھے گی۔
مریم نوٹ کررہی تھی کہ سعدیہ اُس سے نظریں چُرا رہی تھی جیسے وہ جانتی ہو کہ مریم اُس سے کچھ پوچھنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ مریم خود بھی پریشانی کے عالم میں تھی اور سعدیہ کی خاموشی اُس کی پریشانی میں مزید اضافہ کررہی تھی۔
”سعدیہ آخر کیا چل رہا ہے آج کل تمہارے ذہن میں؟” مریم نے کیفے میں بیٹھے ہوئے کہا۔
”میں بہت confuse ہوں مریم” سعدیہ منہ میں بلبلائی۔
”تم کچھ بتاتی بھی تو نہیں! بتاؤ سعدیہ شاید میں تمہاری کچھ مدد کرسکوں” اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُس نے راز داری سے کہا۔
”ایک بہت ہی خاموش راز ہے میرے اندر، جسے میں نے کبھی کسی سے share نہیں کیا۔”
ایک شور ہے مجھ میں
جو خاموشی بہت ہے
”سعدیہ تم بھروسہ رکھو، میں تمہارے راز کو راز ہی رکھوں گی” مریم دلاسہ دیتے ہوئے بولی۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد سعدیہ نے بولنا شروع کیا۔
میں چھوٹی سی تھی کہ میری منگنی میرے ماموں کے بیٹے حاشر سے ہوگئی، یہ فیصلہ اُس وقت ہوا جب مجھے اور حاشر کو منگنی کا مطلب بھی معلوم نہ تھا، ہم دونوں ایک دوسرے سے صرف لڑتے رہتے، حاشر پڑھائی میں بالکل بھی اچھا نہ تھا اور میں ہمیشہ ہر کلاس میں 1st آتی، اُسے میری یہ بات بہت برُی لگتی کیونکہ ہر کوئی پڑھائی میں مجھے اُس سے compare کرتا، وہ ایک آزاد پرندے کی طرح تھا، کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا، اُس کے ڈھیروں دوست ہوتے جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں اور میرا صرف ایک ہی دوست تھا اور وہ حاشر تھا، وہ گزرتا گیا اور ہمیں ہمارے رشتے کی اہمیت کا پتہ چلتا گیا، میں اُس سے بہت محبت کرنے لگی مگر وہ مجھے کچھ خاص پسند نہ کرتا تھا۔
میں جانتی تھی کہ وہ میرا دوست صرف اس لیے ہے کہ میں پڑھائی میں اُس کی مدد کر سکوں، اُس کی کافی لڑکیوں سے دوستی ہوتی تھی مگر وہ ہمیشہ مجھ سے چھپاتا تھا لیکن میں اُس کی ایک ایک بات سے واقف تھی، میں نے اگر زندگی میں کسی سے محبت کی ہے تو وہ صرف حاشر ہے اُس کے علاوہ کوئی نہیں۔
میں جانتی ہوں وہ اپنے پاپا کا فیصلہ بھی نہیں ٹالے گا وہ مجھ سے ہی شادی کرے گا مگر میں یہ بھی جانتی ہوں وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا، محبت تو بہت دور کی بات ہے وہ شاید مجھے پسند بھی نہیں کرتا۔
میں نے بھی سوچ رکھا ہے کہ وہ میری پہلی اور آخری محبت ہے اس لیے میں صرف اُس سے شادی کروں گی، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ میرے علاوہ کِس کِس سے محبت کرے گا، میں اُسے اُس کی زندگی گزارنے کی پوری آزادی دوں گی۔
مگر ماموں چاہتے ہیں کہ میں اُس کی زندگی پر نظر رکھوں، یہ دیکھوں کہ وہ کیا کرتا ہے، کہاں جاتا ہے۔
یہ حق تو شاید وہ ساری زندگی مجھے نہیں دے پائے گا۔”
مریم غصے سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی اور اُس کی بات ختم ہونے کا انتظار کررہی تھی۔ ”سعدیہ میں تو تمہیںب ہت عقل مند سمجھتی تھی مگر تم تو بہت بے وقوف نکلی، جس انسان سے تم اتنی محبت کرتی ہو، تم اُس کو اتنی آزدای کبھی نہیں دے پاؤ گی۔ تمہیں اس طرح سوچنا بھی نہیں چاہیے۔



تمہارے ماموں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، اگر حاشر بھی تم سے شادی کرنا چاہتا ہے تو پورے دل سے کرے نا کہ تمہارے ماموں کی باتوں میں آکر تمہیں اپنا لے۔”
”نہیں مجھے حاشر ہر حالت میں قبول ہے میں اُس کے بغیر نہیں رہ پاؤں گی” سعدیہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔
”مگر سعدیہ تم بہت ناانصافی کررہی ہو اپنے ساتھ۔”
”مجھے یقین نہیں ہورہا کہ آج کل کے دور میں بھی تمہارے جیسی خواتین موجود ہیں، اتنی بے حسی سے زندگی نہیں گزرتی اور وہ بھی اُس انسان کے ساتھ جس سے آپ نے اس قدر محبت کی ہو۔”
”میں نے اُس کے علاوہ کبھی کسی اور کا تصور بھی نہیں کیا” سعدیہ گہری سوچ میں گھم تھی ”تم پڑھی لکھی ہو، خوبصورت ہو، اچھے کردار کی ہو۔ آج کل کے دور میں تمہارے جیسی لڑکی ہیرے کی مانند ہے مگر تم اپنے آپ کو ایسے انسان کو سونپ رہی ہو جو تمہارا ہوکر بھی تمہارا نہیں ہو پائے گا” مریم نے افسوس کا اظہار کیا۔
”تمہیں پتہ ہے مریم میں نے قرآنِ پاک میں پڑھا تھا، نیک عورتوں کے لیے نیک مرد اور بد عورتوں کے لیے بد مرد۔
اگر اللہ پاک کو میری نیکیوں کا پلڑا بھاری لگے گا تو وہ حاشر کو بھی راہِ راست پرلے آئے گا۔”
”پتہ نہیں سعدیہ تم کس دُنیا میں زندگی گزار رہی ہو۔
ایک سال بعد تم اپنی ڈاکٹری کی ڈگری مکمل کر لو گی مگر کیا فائدہ اس ڈگری کا جو تمہاری اس سوچ کو ہی نہ بدل سکی۔”
”میں جانتی ہوں میں کبھی اپنی سوچ نہیں بدل پاؤں گی، مرد کے لیے روز روز لڑکی بدلنا آسان ہے مگر عورت کے لیے روز روز مرد کا نام تک بدلنا مشکل ہے۔”
”مجھے تمہاری سوچ پر افسوس رہے گا” مریم آہستہ سے بلبلائی۔
”چلو کلاس میں چلتے ہیں اس بارے میں پھر بات کریں گے” وہ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے بولی۔
…٭…
سعدیہ دیر رات تک موبائل ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھی رہی کہ حاشر کو کال کرے۔
وہ بار بار ہمت باندھتی اور پھر آدھا نمبر ڈائل کرکے کاٹ دیتی اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ حاشر سے کیا بات کرکے کیونکہ یونیورسٹی جانے کے بعد اُن دونوں نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ بات نہ کی تھی، بات کئے ہوئے تین سال گزر چکے تھے، یونیورسٹی شروع ہونے سے پہلے پھر بھی حاشر پڑھائی کے سلسلے میں سعدیہ سے بات کرلیتا تھا۔
بے چینی سے اُس نے صحن میں چکر لگانے شروع کردیے، سب لوگ گہری نیند سورہے تھے مگر وہ اکیلی جاگ رہی تھی۔
اپنے آپ سے لڑتے لڑتے اب وہ جھولے پر جھولنے لگی۔
اب وہ حاشر کو فون اس لیے نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اُس کے ماموں نے کہا ہے بلکہ اس لیے کرنا چاہتی تھی کہ وہ حاشر کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھی، اُسے یہ پریشانی کھائے جارہی تھی کہ آخر وہ سب لوگوں سے اتنا قطع تعلق کیوں ہوچکا ہے۔ رات کا 1 بج چکا تھا مگر اُس کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہ تھا، ہمت باندھی ملا دیا فون۔
بڑی ہمت کرکے خود کو باندھ کر بیٹھی تھی، زبان دانتوں کے نیچے دبائے ہوئے کہ اُمید ایک بار پھر ٹوٹ گئی، جب پتہ چلا کہ اُس کا نمبر بند جارہا ہے۔
پھر سے کال ملائی۔۔۔ پھر سے کال ملائی۔۔۔ پھر سے کال ملائی۔
بار بار فون سے لڑ جھگڑ کر آخر فون سرہانے کے نیچے پھینکا، دو آنسو تکیے پر گِرائے اور کروٹیں بدلنے لگی۔
لو بھلا محبوب کی خیر خواہی جانے بغیر نیند کِس کو آئے۔

Loading

Read Previous

جامن کا پیڑ — کرشن چندر

Read Next

عشقِ کامل — نازیہ خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!