اُس کی عیش و عِشرت میں وقت گزرتا گیا، وہ سب کچھ بھول چکا تھا۔
”حاشر آخر میں کال ریسیو کیوں نہیں کررہا۔” ماں نے آفس سے آکر غصے سے صوفے پر بیگ رکھا۔
”ارے بھئی وہ مصروف ہوگا۔” باپ نے ٹائی کھولتے ہوئے کہا۔
”آپ کو نظر نہیں آرہا، خود تو وہ ہمیں کال نہیں کرتا اور ہماری کال ریسیو نہیں کرتا” ماں نے غصے سے کہا ”اچھا میں Try کرتا ہوں، آپ پریشان نہ ہوں” وہ کافی دیر فون ملاتا رہا مگر حاشر کا فون بند جارہا تھا، ”ارے بھئی اُس کا تو فون ہی بند ہے۔” باپ نے بیزاری سے کہا۔
”دیکھا اب اُس نے فون ہی بند کردیا” ماں نے شکایت کی۔
”اچھا آپ فکر نہ کریں، کپڑے بدل لیں، میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔ اور بہت بھوک لگی ہے کھانا بھی لگوا دیجیے”
”ہاں لگواتی ہوں، بس اس لڑکے نے مفت کی ٹینشن ڈال رکھی ہے” وہ بلبلائی۔
…٭…
ماں بیٹے کی فکر میں ہلکان ہورہی تھی کہ آخر وہ ہم سے رابطہ کیوں نہیں کرتا۔
”میں نے کہا تھا نا آپ سے، اس لاپرواہ لڑکے کو ساتھ ہی لے کر چلتے ہیں” کھانے کی میز پر اُس نے پھر سے بات چھیڑی۔
”وہ کہاں کسی کی سنتا ہے اور اپنے ڈھیروں دوست اور یونیورسٹی چھوڑ کر آنے پر راضی ہوتا تو میں اُسے لے کر آتا نا۔ اب زبردستی بھی تو نہیں کی جاسکتی اُس پر” باپ نے بیزاری سے کہا۔
”اچھا آپ پھر سے فون ملائیے” کھانا ختم کرتے ہوئے اُس نے التجا کی۔
باپ نے بار بار فون ملایا مگر فون بند جارہا تھا اچانک اُسے یاد آیا کہ کیوں نہ عثمان سے اُس کی خیریت معلوم کرلی جائے۔
”السلام و علیکم بیٹا”
”وعلیکم السلام انکل، کیسے ہیں آپ؟”
”میں ٹھیک ہوں بیٹا مجھے ذرا حاشر کے بارے میں پوچھنا تھا کہ وہ کیسا ہے؟ وہ میرا اور اپنی ماں کا فون ریسیو نہیں کرتا اور نہ ہی کال بیک کرتا ہے” ”انکل آپ پریشان نہ ہوں وہ بالکل ٹھیک ہے، اس کا فون بند جارہا ہے، شاید وہ پروجیکٹ میں مصروف ہے، آپ اُس کی خیریت مجھ سے معلوم کرلیا کریں۔”
”بہت شکریہ بیٹا تم اُسے بتانا کہ میں نے کال کی تھی”
”جی جی بالکل”
اُس نے تسلی سے فون بند کیا۔
”ارے آپ بلاوجہ پریشان ہورہی تھیں، عثمان نے بتایا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور کسی پروجیکٹ میں مصروف ہے آج کل”
”شکر ہے میرا بیٹا ٹھیک ہے” ماں نے سکون کی سانس لی۔
”ویسے آپ کو سُن کر عجیب نہیں لگا کہ حاشر پروجیکٹ میں مصروف ہے” وہ طنز کرتے ہوئے مسکرایا۔
”ایسی بھی بات نہیں ہے علی صاحب، میرا بیٹا آپ سے بھی زیادہ ذمہ دار ہوجائے گا ایک دن اور آپ حیران رہ جائیں گے” ماں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
”اللہ کرے” باپ پھر سے مسکرایا۔
ماں نے آنکھیں مٹکائیں اور چائے کا کپ بھرا۔
…٭…
اب وہ لوگ حاشر کے حال احوال کے بارے میں صرف عثمان سے پتہ کرتے، حاشر والدین کو جیسے بھول ہی چکا تھا۔
پورا ایک سال اسی طرح گزر گیا کہ ماں نے حاشر کی آواز تک نہ سُنی۔
باپ تو اُس کی خیریت معلوم کرنے کے بعد کام میں لگا رہتا مگر ماں کا دل بیٹے کی آواز تک سننے کو ترس رہا تھا۔
”میں خود پاکستان چلی جاتی ہوں” اُس نے آفس میں بیٹھے بیٹھے سوچا۔
کچھ دیر بعد وہ علی صاحب کے آفس میں گئی، وہ دونوں ایک ہی بزنس چلا رہے تھے اور بڑی محنت سے پیسہ کمارہے تھے، ایک ایک منٹ اُن کے لیے قیمتی تھا اس لیے وہ موبائل اور Skype پر بیٹے سے رابطہ رکھتے ورنہ پاکستان آنا اور جانا اُن کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔
”مگر آپ اچانک سے پاکستان کیوں جانا چاہتی ہیں؟” اُس نے حیرانگی سے پوچھا۔
”مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں نے صدیوں سے اپنے بیٹے کی آواز نہیں سُنی” وہ اُداس لہجے میں بولی۔
”لیکن اس مہینے بہت کام ہے، قمر آپ سمجھتی کیوں نہیں” اُس نے غصے سے کہا۔
”مجھے نہیں پتہ علی! پھر آپ حاشر کو یہاں بُلالیں”
”اچھا ابھی آپ جائیے مجھے میٹنگ میں جانا ہے ہم رات کو اس بارے میں مزید بات کریں گے” کھانے کی میز سجائے وہ بڑی مایوسی سے بیٹھی تھی کہ علی صاحب کپڑے بدل کر ہاتھ صاف کرتے ہوئے میز پر آئے،
”تو پھر کیا سوچا ہے آپ نے” قمر بیگم نے اُداسی سے پوچھا۔
”آپ بلاوجہ فکر مند ہوتی ہیں، میں نے آج پھر میٹنگ کے بعد عثمان کو کال کی تھی”
”مجھے عثمان سے نہیں حاشر سے بات کرنی ہے علی! مجھے عثمان پر اب ذرا اعتبار نہیں وہ آخر حاشر کو بتاتا کیوں نہیں کہ ہم ایک سال سے اُسے کال کررہے ہیں” وہ غصے میں چلائی۔
”کیا ہوگیا ہے قمر آپ کو؟ حاشر اتنا ذمہ دار ہوتا تو خود بات کرتا کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، اُسے خود نہیں پتہ کہ اُسے والدین سے بات کرنی چاہیے۔” علی نے بھی بے رخی سے جواب دیا۔
”ہاں تو اسی لیے میں پاکستان جانا چاہتی ہوں، کان کھینچوں گی اس نافرمان کے” ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
”آپ اطمینان رکھیں، اب وہ بڑا ہوگیا ہے اور میرا خیال ہے اپنے career پر فوکس کررہا ہے۔ اور ویسے بھی اس عمر میں بچوں کی space چاہیے ہوتی ہے” اُس نے نرم مزاجی بیوی کو دلاسہ دیا اور اُس کے کندھوں پر ہاتھ پھیلائے۔
”اچھا میں کوشش کروں گا اگلے مہینے آپ کو بھیج دوں پاکستان، مگر پہلے کافی adjust کرنا پڑے گا۔”
اُس نے پھر سے بیوی کو دلاسہ دیا۔
”نہیں میں سمجھ سکتی ہوں، یہاں بہت کام ہے، مجھے نہیں جانا چاہیے” آنسو صاف کرتے ہوئے وہ بولی۔
مگر علی آپ سعدیہ سے بات کیوں نہیں کرتے۔ وہ اُس کی منگیتر ہے شاید اُس کی حاشر سے بات ہوتی ہو” اُس نے مشورہ دیا۔
”سعدیہ بہت شرمیلی اور پرانے مزاج کی بچی ہے وہ کہاں حاشر سے بات کرتی ہوگی۔”
”نہیں بھی بات کرتی تو آپ کہیں وہ بات کرے یا ملے اُس سے اور مجھے اُس کے بارے میں بتائیے کہ وہ کہاں ہے؟ کیسا ہے؟”
”ٹھیک ہے ٹھیک ہے میں صبح سعدیہ سے بات کروں گا۔”
علی صاحب آج بیگم کے سو جانے کے بعد بھی جاگ رہے تھے، اُن کے دل میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی جب انہوں نے اپنی بیگم کے منہ سے سعدیہ کے لیے الفاظ سُنے۔ اُنہیں آج بھی اچھی طرح یاد تھا کہ انہوں نے کن حالات میں حاشر اور سعدیہ کی منگنی کی تھی اور قمر افروز صاحبہ اس رشتے کے کس قدر خلاف تھیں۔
علی صاحب اپنے والد کا بزنس سنبھال رہے تھے ان کے خاندان میں سب سے کامیاب اور امیر گھرانہ انہی کا تھا۔ حاشر کی پیدائش کے کچھ ہی ماں بعد علی صاحب کی چچا ذاد بہن سائرہ بی بی اُن کے پاس مدد مانگنے آئیں۔
وہ کرائے کے چھوٹے سے مکان میں اپنی چھ ماں کی بچی اور میاں کے ساتھ بڑی مشکل سے گزارہ کررہی تھی کہ مالک مکان نے دو ماہ کا کرایہ نہ دینے پر انہیں گھر سے نکال دیا، وہ دونوں بہت خودار تھے مگر حالات نے اُن سے اُن کی خوداری بھی چھین لی۔
اس کا میاں اصغر جسے کچھ ہی دن پہلے ایک گھر میں کام ملا تھا اُس نے ان سے گزارش کی کہ اُس کی بیوی اور بچی کو بھی ساتھ رہنے کی اجازت دے دیں مگر چھوٹی بچی کی وجہ سے انہوں نے اصغر کو بھی چھٹی کرانے کی دھمکی دی، سائزہ بی بی وہاں سے بھی بھاگ آئی کہ کہیں اُس کے میاں کی یہ نوکری بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے، اُس نے اپنے میاں کو دلاسہ دیا کہ وہ کچھ دن اپنے چچا زاد بھائی کے گھر رہ لے گی۔
پتہ ایک پرچی پر لکھے ہوئے وہ علی صاحب کے آفس پہنچ گئی۔
”علی بھائی مجھے صرف رہنے کے لیے چھت دے دیجیے، باقی اخراجات میں خود اُٹھالوں گی” وہ روتے ہوئے علی کے دفتر میں بیٹھ کر اُسے اپنی داستان سناتی رہی۔
علی صاحب اُسے اپنے ساتھ گھر لے آئے، قمر بیگم کو ساری بات بتائی، وہ علی صاحب کی کسی بات کا انکار کرنے کی ہمت نہ رکھتی تھی اس لیے ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔
سائرہ بی بی ایک کمرہ لے کر آرام سے وہاں رہنے لگی، وہ پورا دن اُن کے گھر کام کرتی، اُن کے کپڑے سلائی کرتی تاکہ اُن کے احسان کا بدلہ چُکا سکے، علی صاحب بھی اُسے بہنوں کی طرح پیار دیتے۔
قمر افروز بیگم کو اندر ہی اندر یہ بات کھائے جارہی تھی کہ علی صاحب اس عورت کی اس قدر پرواہ کیوں کرتے ہیں اور اس کی بیٹی کو حاشر کی طرح ہر بات میں شریک کیوں کیا جاتا ہے۔
عورت کا ذہن تو ویسے ہی شک و شبہات کی دوکان ہوتا ہے وہ اپنے اندر ناجانے کیا کیا شک پالتی رہی۔
کچھ مہینوں بعد آخر جب اُس کی بردایت ختم ہوگئی تو اُس نے علی صاحب کو تانہ مار ہی دیا کہ کہیں یہ اُن کی دوسری بیوی تو نہیں۔
سائرہ بی بی کے پیروں تلے زمین نکل گئی، علی صاحب کو بھی سُن کر بہت دُکھ ہوا مگر وہ تحمل مزاج انسان تھے، وہ الفاظ کا سہارا لینے کی بجائے عمل کرنے پر یقین رکھتے تھے، اپنی سچائی کا ثبوت دینے کے لیے سائرہ بی بی کے روکنے کے باوجود حاشر اور سعدیہ کی منگنی کا اعلان کردیا۔
قمر افروز بیگم اپنے الفاظ پر خوب پچھتائیں اُن کے دل سے وہ شبہات تو نکل گئے جب علی صاحب نے دونوں بچوں کو منگنی کرکے اپنے اور سائرہ بی بی کے بھائی بہن ہونے کا ثبوت دیا مگر مستقل ٹینشن پیدا ہوگئی۔
وہ روز روز علی صاحب کی منتیں کرتی کہ خدا کے لیے اس منگنی کو ختم کردیجیے حاشر بڑا ہوکر بغاوت ضرور کرے گا کیونکہ وہ اتنے امیر خاندان میں پلتے والا کسی غریب اور اَن پڑھ لڑکی کے ساتھ گزارہ نہیں کر پائے گا۔ علی صاحب اپنی بات پر پورا اُترنے والے انسان تھے انہوں نے سعدیہ کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی اپنے سر پر لے لی تاکہ کل کو کوئی اُن کی بہو کو اَن پڑھ نہ کہے،
سائرہ بی بی قمر افروز بیگم کا الزام سُن کر مزید وہاں نہ رہ پائی، وہ اپنے میاں کے پاس واپس گئی، ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا، علی صاحب نے انہیں کریانے کی چھوٹی سی دوکان ڈال دی، اور وہ علی صاحب کے گھر سے نکل گئی، حاشر اور سعدیہ کا رشتہ ہوجانے کی وجہ سے میل ملاپ پھر بھی ہوہی جاتا تھا۔
وقت گزرتا گیا قمر بیگم نے تھک ہار کر مان ہی لیا کہ سعدیہ ہی اُن کی بہو بنے گی، مگر کبھی دل سے قبول نہ کیا۔
علی صاحب نے سعدیہ اور حاشر کو ایک ہی سکول میں داخل کرادیا۔
اُس کے والدین نے کوئی تو نیکی کی ہوگی کہ وقت نے اپنا رخ اُس کی طرف کیا، وہ غریب ماں باپ کی لڑکی بھی امیروں کے سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے لگی۔
…٭…