رات کے دو بجے وہ اور عثمان اُس کے گھر پر میچ دیکھ رہے تھے کہ کسی کی کال آئی، حاشر نے نمبر دیکھا جو کہ جانا پہچانا نہ تھا مگر پھر بھی اُس نے فون اُٹھایا۔
"Who’s there?” اُس نے سوال پوچھا۔
"its Tamana” اُس نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔
”کون تمنا؟”
”آج ہی آپ سے ملاقات ہوئی تھی، آپ نے میرا پرفورما فِل کیا تھا” اُس نے یاد دلایا۔
حاشر مسکرایا،
”رات کے دو بجے بھی کوئی پرفورما فِل کروانا ہے؟”
وہ طنزیہ مسکرایا۔
”نہیں نہیں… وہ نیند نہیں آرہی تھی تو سوچا آپ سے بات کرلوں۔”
”مجھ سے ہی کیوں”
”پتہ نہیں کچھ تو خاص بات ہے کہ میں بھول ہی نہیں پارہی آپکو” وہ آہستہ سے بولی۔
حاشر سُن کر حیران ہوا، فون کو ذرا کان سے دور کرکے اُس نے بھنویں اچکائیں اور دوبارہ فون کان سے لگا لیا۔
”اواچھا” حاشر مسکرایا۔
وہ دیر رات تک ایک دوسرے سے بات کرتے رہے، عثمان بھی حیران تھا کہ حاشر اتنی دیر تک کس سیب ات کررہا ہے۔
حاشر کی زندگی میں لڑکیوں کو آنا اور جانا۔
ایک بہت ہی معمولی بات تھی۔
اسی طرح کئی مہینے گزر گئے۔
…٭…
حاشر تیزی سے اپنے بستر سے اُٹھا اور گھڑی دیکھ کر کپڑے بدلنے لگا، بھاگتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی اور یونیورسٹی کے لیے نکل گیا، سگنل توڑتا ہوا تیز رفتار کار کے ساتھ یونیورسٹی پہنچا۔ یونیورسٹی کے گارڈ سے بدتمیزی کرتے ہوئے غلط جگہ گاڑی کھڑی کرکے بغیر کارڈ دکھائے بھاگتا ہوا کیفے پہنچا۔
”تمہیں اندازہ بھی ہے میں کب سے تمہارا انتظار کررہی ہوں؟” تمنا نے غصے سے ٹائم دیکھا۔ حاشر نے بڑی بے زاری سے منہ چڑھایا اور کرسی سیدھی کرکے بیٹھ گیا، اُس نے اپنے دوستوں کو کیفے میں دیکھا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے اشارہ کیا، دوستوں نے بھی ہاتھ ہلاتے ہوئے اشارہ کیا اور وہ حاشر اور تمنا کو Disturb نہ کرتے ہوئے کیفے سے نکل گئے، سب جانتے تھے کہ حاشر سب سے پہلے تمنا سے ہی ملتا ہے۔
”اچھی لگ رہی ہو” حاشر نے بات بدلتے ہوئے کہا ”جانتی ہوں” تمنا غرور سے بولی۔
”ہم کل اتوار کو ملنے والے تھے نا؟ کتنی کالز کی میں نے اور تم نے میری ایک کال ریسیو نہیں کی” تمنا نے غصے سے سوال پوچھا۔
”جانتا ہوں… میں سورہا تھا۔”
”میں تمہیں کہیں لے کر جانا چاہتی تھی”
”تو آج چلتے ہیں، اس کے لیے چھٹی برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے” وہ منہ بسورتے ہوئے بولا ”سچ! تم چل رہے ہو میرے ساتھ؟” اس نے پرجوش انداز میں کہا۔
”ہاں چلتے ہیں لیکچرز کے بعد”
”ٹھیک ہے میں پارکنگ ایریا میں تمہارا انتظار کروں گی۔”
…٭…
وہ بار بار کلاس میں موبائل دیکھتا اور پھر لیکچر سننے لگتا۔ ”کیا بات ہے کسی کی کال کا انتظار ہے؟” عثمان نے اُس کی بے چینی دیکھتے ہوئے پوچھا ”ارے یار! آج تمنا مجھے کہیں باہر لے کر جانا چاہتی ہے اور کالز پہ کالز کررہی ہے” وہ بیزاری سے بولا۔
”واہ بھئی! یہ تمنا اور تیرے درمیان آخر چل کیا رہا ہے؟” عثمان نے طنز کی۔
”وہ صرف میری اچھی دوست ہے” حاشر نے عثمان کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔
”اتنی Tip Top لڑکیاں صرف دوست تو نہیں ہوتیں اور اوپر سے تجھے باہر بھی لے کر جارہی ہے” اُس کا انداز مشکوک تھا۔
”چپ کر یار… تیری بکواس سننے کا بالکل موڈ نہیں ہے… تُو بس سر کو چپ کروا دے، مجھے جانا ہے” حاشر نے سرگوشی کی۔
…٭…
حاشر لیکچر ختم ہوتے ہی بھاگتے ہوئے کار تک پہنچا، اُس نے تمنا کو دیکھتے ہوئے سر کھجایا اور گاڑی کا دروازہ کھولا۔
”آج میں تمہیں جہاں لے کر جارہی ہوں، وہ میرے لیے بہت سپیشل جگہ ہے” تمنا نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پرُجوش انداز میں کہا۔
”OK” حاشر نے مجبوراً جواب دیا۔
”کیا تم میرے ساتھ آنے پر خوش نہیں ہو؟” اُس نے گھورتے ہوئے پوچھا۔
”حاشر!” تمنا چلائی۔
”اچھا میں مذاق کررہا تھا۔”
کچھ دیر کے لیے مکمل خاموشی رہی اور پھر حاشر نے ایک انگلش گانا لگایا۔
گاڑی ایک آئس کریم کی چھوٹی سی دوکان کے سامنے کھڑی کی گئی، حاشر حیران ہوکر دیکھ رہا تھا کہ آخر یہ ہے وہ سپیشل جگہ جہاں تمنا اُسے لے کر آئی ہے۔
تمنا نے حاشر کا ہاتھ پکڑا اور اُسے آئس کریم والی دوکان کے اندر لے گئی جہان گنی چنی 10 یا 12 کرسیاں ہونگی، وہ جگہ زیادہ صاف ستھیر بھی نہ تھی، حاشر اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کیونکہ وہاں اُن کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا۔
”تمنا تم مجھے یہاں پر لے کر آنے والی تھی؟” حاشر نے حیرانگی سے پوچھا۔
”ہاں! کیوں تمہیں یہ جگہ اچھی نہیں لگی؟ حاشر میں ابھی تمہیں یہاں جوس پلواؤں گی پھر تم مان جاؤ گے کہ یہ جگہ کتنی اچھی ہے۔”
”اب ہم یہاں جوس بھی پیئیں گے؟” حاشر نے غصے سے پوچھا۔
”ہاں جوس کے لیے ہی تو میں تمہیں یہاں لائی ہوں”
”Sorry تمنا مگر مجھے جوس نہیں پینا”
”پلیز حاشر میرے لیے” اُس نے درخواست کی اچھا جلدی سے منگواؤ۔ مجھے یہاں گھبراہٹ ہو رہی ہے” حاشر بے زاری سے بولا۔
سفید شرٹ اور کالی پینٹ پہنے ہوئے لڑکے نے اُن دونوں کو جوس پیش کیا، حاشر جوس پیتے پیتے تمنا کو دیکھ رہا تھا کیونکہ اُسے وہ جوس کچھ خاص نہ لگا تھا۔ دونوں نے جوس ختم کیا اور باہر آگئے۔ ”کیسا لگا جوس؟” تمنا نے پرُجوش انداز میں پوچھا۔
”اتنا بھی خاص نہیں تھا جتنا تم نے بتایا تھا۔” حاشر نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو تھا” اُس نے بات کو زور دیا۔
حاشر غصے سے گاڑی میں بیٹھا اور اُس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے تمنا نے بھی گاڑی کا دروازہ کھولا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔
”تمنا ہم نے انہیں Pay نہیں کیا” کچھ فاصلے پر جاکر حاشر نے اچانک بریک لگائی۔
”کچھ نہیں ہوتا حاشر، میں یہاں آتی رہتی ہوں، اگلی دفعہ Pay کردوں گی۔” اُس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”لیکن جب ہم وہاں سے نکل رہے تھے وہ ہمیں دیکھ رہا تھا اور دروازے پر نکلتے ہوئے وہ تمہیں دیکھ کر مسکرایا بھی تھا۔ کیا تب اُسے پیسے نہیں مانگنے چاہیے تھے؟” اُس نے تجسس سے پوچھا ”حاشر یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے وہ اگلی دفعہ مجھ سے پیسے لے سکتا ہے” اُس نے حاشر کی بات کاٹی اُس نے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی، تمنا نے آنکھیں مٹکائیں اور دوسری طرف دیکھنے لگی۔
…٭…
حاشر گھر آکر مسلسل سوتا رہا۔
”آج میری طبیعت اتنی بھاری بھاری کیوں ہے” منہ کے اوپر تکیہ رکھتے ہوئے وہ خود سے باتیں کررہا تھا۔
وہ بار بار اُٹھنے کی ناکام کوشش کرتا مگر اُٹھ نہ پاتا، عثمان بھی کچھ دنوں کے لیے گاؤں جاچکا تھا اور حاشر یونیورسٹی سے آکر لگاتار 19 گھنٹے سوتا رہا۔
…٭…
وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھا باتیں کررہا تھا کہ تمنا آئی ”حاشر جلدی سے میری ساتھ چلو” وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولی۔
”مگر کہاں؟” حاشر نے آہستہ آواز میں پوچھا۔
وہ بڑی شرمندگی کے ساتھ کھڑا ہوا۔
”اچھا تو ہم بعد میں ملتے ہیں” کہتے ہوئے تمنا کے ساتھ چلا گیا۔
”تمنا یہ کیا طریقہ ہے؟ میں وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا، تمہیں برُا نہیں لگتا اس طرح لڑکوں کے درمیان آکر مجھ سے بات کرنا۔” وہ غصے سے دیکھ رہا تھا۔
”حاشر تمہیں یاد ہے کل ہم پیسے دیے بغیر وہاں سے آگئے، تم میرے ساتھ چلو، آج ہم انہیں Pay کردیں گے” تمنا نے اُس کی بات کاٹی۔
”لیکن کل تو تم کہہ رہی تھی کہ تم یہاں آتی رہتی ہو، تو مجھے ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟” اُس نے تجسس سے پوچھا۔
”حاشر میں اکیلی کیسے جاؤں گی؟ تم بھی میرے ساتھ آجاؤ” اس کا انداز معصومانہ تھا۔
”یار تم اپنی کسی دوست کو کیوں نہیں ساتھ لے جاتی” اُس نے بے زاری سے کہا۔
”میری کوئی دوست نہیں ہے تم آرہے ہو یا میں جاؤں؟” وہ غصے سے بولی۔
”اچھا چلتا ہوں” مجبوراً اُس نے ساتھ جانے کا ارادہ کیا۔
راستے میں جاتے ہوئے حاشر کبھی تمنا کو دیکھتا اور کبھی باہر دیکھتا۔
”میں حیران ہوں کہ تمہاری کسی اور سے دوستی نہیں” اُس نے طنزیہ انداز اپنایا۔
”مجھے جو انسان اچھا لگتا ہے میری صرف اُسی سے دوستی ہوتی ہے اور وہ صرف تم ہو” اُس کی آنکھوں میں محبت تھی۔
”تم کبھی کبھی مجھے بہت irritating لگتی ہو۔” وہ بیزاری سے بولا۔
تمنا نے اُسے غصے سے دیکھا اور پھر باہر دیکھنے لگی۔ حاشر نے گاڑی روکی اور اندر جاکر اپنے بٹوے سے پیسے نکالنے لگا۔
”حاشر ابھی نہیں! اب آگئے ہیں تو جوس بھی پی کر جاتے ہیں، اکٹھا ہی Pay کردیں گے” اُس نے حاشر کو روکتے ہوئے کہا۔
”نہیں نہیں تمنا! تم پی لو اگر پینا چاہتی ہو، میں نہیں پیوں گا۔”
”نہیں میں تمہارے ساتھ ہی پیوں گی اگر تم بھی ساتھ پیو ورنہ رہنے دو” اُس نے ضد کی حاشر ایک منٹ کے لیے رُکا اور پھر مجبوراً جوس پینے کے لیے راضی ہوگیا۔
دونوں نے جوس ختم کیا، حاشر نے Pay کیا اور وہ دونوں یونیورسٹی واپس آگئے حاشر آج پھر بھاری بھاری محسوس کررہا تھا، وہ کچھ دیر بعد ہی یونیورسٹی سے چلا گیا۔
حاشر کو پہلے بخار تک نہیں ہوا تھا، وہ اپنے اندر آنے والی اِس تبدیلی کو محسوس کررہا تھا۔ اِن دونوں میں وہ کسی کو کال تک نہیں کر پایا، اُس کے جسم میں عجیب سی تھکان ہوتی۔
…٭…
تمنا اور حاشر کی دوستی بڑھتی گئی، وہ اب زیادہ سے زیادہ وقت تمنا کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔ وہ اپنے ماما، پاپا کی کال تک ویسیو نہیں کرتا تھا، وہ لوگ بہت پریشان ہوتے کہ حاشر اپنی اطلاع تک دینا گوارہ نہیں کرتا۔
…٭…