”مجھے تیرے گھر میں موجود وہ بوڑھا ملازم بالکل پسند نہیں آیا” عثمان نے یونیورسٹی میں بیٹھے ہوئے گزرے دن کی بات چھیڑی۔
”تجھے میں کتنی دفعہ کہہ چکا ہوں، وہ ہمارے ملازم نہیں بزرگ ہیں، انہوں نے میرے بچپن سے مجھے بڑے پیار سے پالا ہے اور میرے ماما، پاپا بھی اُن کی بہت احترام کرتے ہیں” حاشر کا لہجہ تلخ تھا۔ ”اچھا اچھا ہے تو ملازم نا” عثمان نے بھی تلخی دکھائی۔ ”انہوں نے بھی تجھے کچھ خاص پسند نہیں کیا” حاشر نے گھورتے ہوئے کہا۔
”میں تو حیران ہوں تیرے جیسا آزاد خیال انسان کیسے اتنی نگرانی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اور تُو مجھ سے لکھوا لے وہ ایک ایک بات کی رپورٹ تیرے پاپا کو دیتا ہوگا۔” عثمان نے حاشر کے کان بھرے ”یار تیرا مسئلہ کیا ہے؟” حاشر غصے میں کھڑا ہوا ”حاشر تُو مجھے غلط سمجھ رہا ہے، یار تیرے گھر میں اور بھی تو ڈھیروں ملازم ہیں، میں نے اُن کا تو نہیں کہا کیونکہ وہ تیری اس طرح نگرانی نہیں کرتے” عثمان نے اُسے Convince کرنے کی خوب کوشش کی۔
کافی دیر بحث مباحثے کے بعد وہ دونوں کلاس لینے چلے گئے۔
…٭…
”حاشر تم نے سب لوگوں کو گھر میں پارٹی پر بُلایا ہے اور مجھے ہی بھول گئے” ارم نے غصہ کا اظہار کیا ”ہاں حاشر” پاس کھڑی ہُما نے بھی لقمہ دیا۔ ”I am sorry اگلی دفعہ تم دونوں کو بھی بلایا جائے گا۔” حاشر نے مسکراتے ہوئے بات ختم کی۔
”ہمیں اُس اگلی پارٹی کا انتظار رہے گا” اِرم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اور اگلی پارٹی بھی تمہارے گھر پر ہونی چاہیے، عثمان نے بہت تعریفیں کی ہیں تمہارے گھر کی” ہُما نے اونچی آواز میں کہا۔
”ایک تو یہ عثمان بھی نا” حاشر منہ میں بلبلایا۔
…٭…
”سعدیہ تمہیں پتہ ہے ہادی مجھے بہت اچھا لگتا ہے”
مریم نے راز داری سے سعدیہ کو کلاس سے نکلتے ہوئے بتایا۔
”مگر کل تک تم احمد کے لیے مری جارہی تھی” سعدیہ نے حیرانگی سے منہ موڑا۔
”ہاں! مگر اب مجھے ہادی سے محبت ہورہی ہے” مریم نے ہنستے ہوئے آنکھیں مٹکائیں۔
”اِسے تم محبت کیسے کہہ سکتی ہو۔ یہ محبت نہیں ہوسکتی۔ پل دو پل کی Attraction ہے اور وہ بھی شیطان کی طرف سے” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی ”اور ویسے بھی جو بار بار ہوجائے وہ محبت نہیں وقت گزاری ہوتی ہے۔ محبت تو ایک جگہ ٹھہر جانے کا نام ہے۔” وہ گہری سوچ میں گُھم تھی” ”اچھا تو تمہیں کبھی محبت ہوئی بھی ہے؟ جو مجھے محبت کے معنی سمجھا رہی ہو؟” مریم نے غصے سے پوچھا ”میں صرف زندگی میں ایک محبت کرنے کی قائل ہوں اور وہ بھی بے انتہا محبت، جس کے بعد کسی اور محبت کا تصور بھی ختم ہوجائے۔” کتابوں کو سینے سے لگائے وہ گہری سوچ میں گُھم تھی۔
”تو کیا تم نے محبت کی ہے سعدیہ؟” اُس نے حیرانگی سے پوچھا۔
”نہیں… پتہ نہیں… چھوڑو ان باتوں کو… تمہاری فضول باتوں میں میری بس نکل جائے گی” سعدیہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
سعدیہ کے جانے کے بعد مریم کو خوب شک ہوا مگر وہ جانتی تھی سعدیہ کچھ نہیںبتائے گی۔
…٭…
عثمان حاشر کا بہت اچھا دوست بن چکا تھا، وہ ایک ہوسٹل میں ہائش پذیر تھا اور رحیم یار خان کا رہنے والا تھا، وہ ایک غریب گھر کا لڑکا تھا، گھر میں ایک بوڑھی ماں، ایک بڑا بھائی اور بھابی اور بوڑھا باپ تھا، بہن کی شادی ہوئے تین سال ہوچکے تھے۔
باپ اور بھائی اپنی ہی زمینوں پر سبزیاں اُگاتے اور شہر جاکر بیچ دیتے، عثمان کو پڑھنے کے لیے لاہور بھیج دیا، اُسے پڑھنے کا کچھ زیادہ شوق نہ تھا بس ڈھیر سارا پیسہ کمانے کے لالچ میں شہر آگیا۔ لاہور جیسے رنگین شہر میں آئے ہوئے اُسے 4 سال ہوچکے تھے، وہ حاشر کا سینئر تھا، جو دو سال پہلے بھی اسی سمیسٹر میں تھا۔ دوسال سے عثمان ناجانے کیا کاروبار کررہا تھا کہ رحیم یار خان میں اُس کے غریب ماں باپ کروڑ پتی بن کر زندگی گزارنے لگے۔
غربت جب ہر حد پار کرلیتی ہے تو پیسہ کمانا ہی زندگی کا مقصد لگنے لگتا ہے، عثمان نے بھی اپنے بچپن میں بہت غربت دیکھی تھی۔
وہ چھوٹا سا تھا کہ اُس کا باپ اور بھائی بہت محنت کرکے سبزیاں اُگایا کرتے تھے تاکہ شہر میں بیچ کر گھر کا راشن بن جائے مگر وہ دونوں بہت بھولے اور سیدھے تھے کہ گاؤں کے لوگ انہیں پاگل بنا کر یا باتوں میں لگا کر آدھی سے زیادہ سبزی اُٹھا کر لے جاتے، عثمان عمر میں چھوٹا ضرور تھا مگر ذہن سے اپنے بھائی اور باپ دونوں سے زیادہ چالاک تھا، وہ جیسے جیسے بڑا ہونے لگا لوگوں کے ساتھ اسی بات پر جھگڑنے لگا، کبھی عورتوں سے لڑتا، کبھی مردوں سے۔ باپ اور بھائی نے لوگوں سے اُس کی لڑائی ختم کروانے کے لیے اُس کو اپنے ساتھ کام پر لے جانا چھوڑ دیا اور چھوٹے سے سکول میں داخل کرا دیا۔
عثمان اپنے اندر روز روز کی چھوٹی چھوٹی نا انصافیوں کا غصہ لے کر بڑا ہوتا گیا، وقت گزرتا گیا وہ غربت کے مزے بھی چکھتا گیا، اُس نے اپنے آپ سے خود ہی وعدہ کرلیا کہ زندگی میں کچھ اور کرے نا کرے پیسہ بہت کمائے گا۔
پیسہ تو وہ بہت کمارہا تھا مگر پڑھائی بھی مکمل کرنا چاہتا تھا اس لیے بار بار فیل ہونے کے باوجود بھی ڈگری لینے کے لیے یونیورسٹی موجود تھا، عثمان حاشر کے ماں باپ سے بھی مل چکا تھا اور وہ بیٹوں کی طرح اُن کی عزت کرتا، فون پر بھی اُن سے بات کرلیا کرتا، وہ لوگ بھی حاشر کی خیریت اب عثمان سے معلوم کرلیتے۔
حاشر گھر میں بہت کم آتا، وہ زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ گزارتا اگر کبھی وہ گھر جانے کا ارادہ کرتا بھی تو عثمان اُسے اپنے ہوسٹل لے جاتا اور کہتا کہ اُسے اُس کے گھر میں موجود فیکہ بالکل پسند نہیں، عثمان اکثر حاشر سے گِلہ کرتا کہ وہ لوگ گھر کی پارٹی کو خوب Enjoy کریں اگر وہاں کوئی نگرانی کرنے والا ملازم نہ ہو، حاشر ہر بار اُس کی بات ٹال دیتا۔
عثمان کے بار بار کہنے پر حاشر نے فیکے کوگھر سے جانے کو کہہ دیا تاکہ وہ دونوں آزادی سے گھر میں رہ سکیں اور حاشر آرام سے گھر میں لڑکیوں اور لڑکوں کی پارٹی Arrange کرسکے۔
”مگر بیٹا کوئی غلطی ہوئی ہے مجھ سے؟” فیکے نے آنکھوں میں آنسو لیے پوچھا۔
”نہیں بابا آپ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی مگر میں اب اکیلا ہی ہوں تو آپ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، کھانا تو میں باہر سے ہی کھا لیتا ہوں” وہ ہچکچاتے ہوئے شرمندگی سے بولا۔
”میں ہر مہینے آپ کو خرچہ بھیج دیا کروں گا۔” وہ آگے بڑھا۔ ”نہیں بیٹا! رزق تو وہ اللہ دینے والا ہے، میں کہیں اور کام کرلوں گا، ہمارے جیسوں کو محنت کرکے کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ مگر اس گھر سے خاص لگاؤ ہوچکا تھا، ساری زندگی تو یہاں پر گزاری ہے” اُس کی آنکھوں میں آنسو خوب چمک رہے تھے۔
حاشر بڑے پیار سے فیکے کو دیکھ رہا تھا جیسے ایک فرماں بردار بیٹا اپنے باپ کو دیکھتا ہے، فیکے نے حاشر کو گلے لگایا۔
”میں جانتا ہوں تیرے دوستوں کو میں ایک آنکھ نہیں بھاتا” فیکے نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
حاشر شرمندگی سے نظریں چرانے لگا۔
اگلے ہی دن فیکہ حاشر کے اُٹھنے سے پہلے اپنے گاؤں چلا گیا۔
…٭…
”حاشر یہ کیا کیا تم نے؟ فیکے کو اُس کے گاؤں بھیج دیا؟ ماں نے غصے سے فون کیا۔
”ماما اُن کا اب کوئی کام ہی نہیں ہوتا تھا، بس اس لیے”
اُس نے آہستہ سے جواب دیا۔
”مگر وہ تمہارے بڑے تھے، بزرگ تھے اُن کے سائے میں تمہیں ہماری کمی کبھی نہ محسوس ہوتی”
”میں زیادہ وقت یونیورسٹی ہی گزارتا ہوں اور گھر آکر سو جاتا ہوں، ان سے ملاقات ہی کبھی کبھار ہوتی تھی اور اُس میں بھی اُن کی نصیحتیں” حاشر نے اُکھڑی ہوئی آواز میں کہا۔
”اُن نصیحتوں کو سنتے ہوئے ہی تم اتنے بڑے ہوئے ہو” اُس کا لہجہ تلخ تھا۔
”بہت برُا کیا تم نے حاشر، انہیں بہت برُا لگا ہے” ”Okay ماما! میں ذرا مصروف ہوں، بعد میں بات کرتا ہوں” اُس نے جان چھڑاتے ہوئے فون بندھ کیا۔
حاشر کی ماں کی باتیں سُن کر خوب ملامت ہونے لگی ”واقعاً مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا، صرف عثمان کی باتوں میں آکر میں نے بابا جی کو بھیج دیا۔”
…٭…
”واہ حاشر تو نے اُس فیکے کو گھر سے نکال ہی دیا آخر” عثمان نے یونیورسٹی میں بیٹھے ہوئے خوش ہوکر کہا جب حاشر نے اُسے فیکے کے چلے جانے کے بارے میں بتایا۔
”تجھے پتہ ہے مجھے ماما سے کتنی ڈانٹ پڑی ہے اور بابا جی کو کس قدر برُا لگا ہے” حاشر نے غصے سے کہا ”ارے چھو یار، بڑے اسی طرح Emotional blackmail کرتے ہیں۔” عثمان نے بات کاٹی۔
”اب ہم پارٹی کریں گے اور اُس میں کلاس کی لڑکیاں بھی invite کریں گے اور تیری اِرم کو بھی بلائیں گے” عثمان نے اُس کے سینے پر تھپکتے ہوئے کہا اور وہ طنزیہ مسکرایا۔
”میری اِرم؟ اب اتنی بھی پسند نہیں وہ مجھے”
”ہا ہا ہا! اُسے تو تُو بہت پسند ہے” عثمان پھر سے مسکرایا۔ ”اِس میں کونسی بڑی بات ہے، حاشر علی تو ہر لڑکی کو پسند ہے” اُس نے غرور سے کہا۔
…٭…
آئے دن حاشر گھر میں بے ہودہ پارٹیاں رکھتا اور خوب Enjoy کرتا، اب تو کوئی روکنے والا بھی نہ تھا۔ اسی لیے تو اپنے والدین کے کہنے کے باوجود بھی وہ اُن کے ساتھ نہ گیا تھا کیونکہ اُسے اس آزادی اور آوارگی کی عادت ہوچکی تھی اور اپنے دوستوں کے بغیر تو وہ ایک منٹ نہیں گزارتا تھا۔
وہ پہلے سے بھی زیادہ آزاد خیال ہوچکا تھا، پڑھائی میں تو بچپن سے ہی اُس کا دل نہ لگتا تھا، کلاس کی ہر لڑکی کی بہانے بہانے سے اُس کی مدد کردیتی اور وہ ہر سمیسٹر پاس کرلیتا۔
…٭…
ایک دن وہ یونیورسٹی کے پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرکے اندر آرہا تھا کہ اُس نے ایک (خوبصورت) سُریلی آواز سنی: "Excuse Me”
وہ پیچھے مڑا اور اُسے غور سے دیکھنے لگا، وہ جینز اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے ایک خوبصورت لڑکی تھی، اُس کے گنے لمبے بال، خوبصورت چہرہ، معصوم سی مسکراہٹ۔
"Yes” حاشر نے حیران ہوکر جواب دیا۔
”میرا نام تمنا ہے، میں History ڈیپارٹمنٹ سے ہوں، کیا آپ مجھے یہ پرفورما (Performa) فِل کرکے دے سکتے ہیں؟” اُس نے نرمی سے پوچھا۔
”لیکن میرا لیکچر سٹارٹ ہونے والا ہے” وہ جلد بازی میں بولا۔
"Please” اُس نے التجا کی۔
"Ok” حاشر نے پرفورما فِل کیا، وہ پرفورما فل کرتے ہوئے محسوس کررہا تھا کہ وہ لڑکی لگاتار حاشر کو دیکھ رہی تھی جیسے ایک ہی نظر میں اُسے وہ بہت اچھا لگا ہو، حاشر نے بھی ایک دوبار ہچکچاتے ہوئے اُسے دیکھا۔
”آپ کا نام؟” اُس نے آہستہ سے پوچھا۔
”حاشر… حاشر علی”
”Okay… اب میں چاہتا ہوں،” اُس نے پرفورما پکڑاتے ہوئے کہا۔
"Thank you” وہ مسکرا کر بولی۔
…٭…
حاشر نے کلاس میں دیکھا کہ تمنا نے اُسے فیس بُک پر request بھیجی ہے کیونکہ اُس نے پرفورما میں اپنا فیس بُک ID اور فون نمبر بھی لکھا تھا۔
حاشر بہت حیران ہوا کیونکہ ابھی اُن کی ملاقات کو آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا ہوگا۔
وہ مسکرایا اور Request قبول کی، آج کل کے دور میں دوستیاں کرنا کونسا مشکل کام ہے، سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کے لیے اتنی آسانیاں پیدا کردی ہیں کہ ناچاہتے ہوئے بھی ہر کوئی اس چنگل میں پھنسا ہوا ہے اور حاشر جیسے لڑکے کے لیے تو یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔
…٭…