عشقِ کامل — نازیہ خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

"وہ کسی غیر ملکی ایجنٹ کے لوگ تھے، جو امیر لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھنسا کر اُن کی دولت ہتھیاتے تھے اور پھر اُنہیں خود کش حملوں میں استعمال کرتے تھے۔” مریم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اُسے بتایا۔
”کیا؟؟؟ وہ اس قدر خطر ناک لوگ تھے؟” سعدیہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
”ہاں سعدیہ! تمہیں پتہ ہے، وہ مختلف طریقوں سے لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کرتے تھے۔
کسی کو مذہب کے نام پر غلط Guide کرکے اور کسی کو دولت کا لالچ دے کر، کسی سے دولت چھین کر۔
اسی طرح یونیورسٹیوں سے کئی بچے راتوں رات غائب ہوئے ہیں۔”
”کیا وہ مسلمان تھے؟۔۔۔ مسلمان اتنے ظالم کیسے ہوسکتے ہیں؟” سعدیہ نے افسوس کا اظہار کیا۔
”تمنا تو غیر مسلم تھی مگر عثمان مسلم تھا۔۔۔ باقی ڈھیروں لوگ اُن کے ساتھ تھے، ناجانے اُن کا مذہب کیا تھا۔”
”تمہارا بہت شکریہ مریم۔۔۔ پتہ نہیں یہ لوگ اور کتنے لوگوں کو برباد کرنے والے تھے۔”
”شکریہ تو میں تمہارا ادا کرنا چاہتی ہوں، بلکہ میرے ماموں بھی تمہارا شکریہ ادا کر رہے تھے اور تمہاری ہمت اور جرأت کو داد دے رہے تھے۔
ماموں بتا رہے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے ہتھیاروں سے جنگ کیا کرتے تھے مگر اب چھپ کر وار کرتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کو تباہ کررہے ہیں۔” مریم نے اُسے بتایا۔ ”ہاں۔۔۔ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں تمہارے ماموں” سعدیہ نے افسوس کا اظہار کیا۔ ”خدا غارت کرے ہمارے ملک کے دشمنوں کو” سعدیہ نے غصے سے کہا۔
وہ دونوں کافی دیر فون پر بات کرتی رہیں۔
…٭…



حاشر کے کمرے میں سورة رحمن لگائے تقریباً 21 دن گزرے ہوں گے کہ حاشر کی طبیعت میں فرق صاف ظاہر ہونے لگا۔
وہ انگریز ڈاکٹر بھی حاشر کا رویہ اور رپورٹر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آخر اس معجزے کی وجہ کیا ہے۔
دوائیں جیسے اُس پر اثر کرنے لگی تھیں، اب وہ اپنے ہوش و حواس پر قابو پانے کے قابل ہورہا تھا۔۔۔ زیادہ سے زیادہ وقت ورزش پر لگاتا اور خود دوائیں مانگنے لگا۔ ناجانے کون لوگ کہتے ہیں معجزے آج کل نہیں ہوتے، خدا پر یقین ہو اور عشق کامل ہو تو معجزے صاف نظر آتے ہیں۔
سعدیہ کا عشق بھی تو کامل تھا وہ صبر اور نماز سے کام لیتی رہی اور اُس کی ہر مشکل ٹلتی گئی۔ اور ویسے بھی دُعائیں تو تقدیر بدل دیا کرتی ہیں، اُس کی دُعائیں تو ایک طرف۔
اُس کی ماں حرم میں کھڑی ہوکر اپنی بیٹی کے لیے دُعائیں مانگ رہی تھی اور حاشر کی زندگی مانگ رہی تھی۔
پھر بھلا کیسے اُس کی پریشانیاں نہ ٹلتیں۔
…٭…
وقت گزر رہا تھا اور حاشر تندرست ہورہا تھا۔ حاشر اور اُس کے ماں باپ حیران تھے کہ کیسے خدا نے اُسے موت کے منہ سے نکالا ہے۔ کچھ مہینوں بعد اُسے ہسپتال سے گھر بھیج دیا گیا اور وہ ہفتے بعد چیک اپ کرواتا اور دوائیں لیتا۔
…٭…
”سعدیہ تمہیں پتہ ہے میں، تمہارے اور حاشر کے رشتے سے کبھی بھی خوش نہ تھی۔” قمر بیگم نے سعدیہ کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے بات شروع کی۔
سعدیہ بھی غور سے بات سننے لگی۔
”مگر میں نے کبھی تمہارے ماموں کے سامنے اِس بارے میں اس قدر زور نہیں دیا جو میں دینا چاہتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ اُن کے فیصلے کے آگے اب انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔”
”شروع سے ہی تمہارے ماں، باپ غریب تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ میرا بیٹا بڑا ہوکر اپنے Status کی وجہ سے بغاوت ضرور کرے گا اور پتہ نہیں تمہارے جیسی غریب لڑکی ہمارے رہن سہن کو سمجھ پائے گی یا نہیں!
مگر بیٹا میں غلط تھی مجھے تو آدھی سے زیادہ زندگی گزار کر پتہ چلا ہے کہ امیری اور غریبی سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بچوں کی اچھی تربیت انسان کو قابلِ رشک بناتی ہے۔
اور کردار ہی انسان کا چھوٹا اور بڑا پن بیان کرتا ہے تم اور تمہاری ماں اس کی مثال ہو۔۔۔ تمہارے ماموں نے ساری زندگی تمہاری پڑھائی کی بہت فکر کی ہے مگر جو فکر تمہاری ماں نے تمہارے کردار کی کی ہے وہ بے مثال ہے۔”
سعدیہ بڑے پیار سے ممانی کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔



”بیٹا مجھے لگتا تھا اولاد اور دولت اس دُنیا کی سب سے قیمتی چیزیں ہیں مگر آج میں تمہیں یہ دونوں چیزیں دے کر بھی خود کو چھوٹا محسوس کررہی ہوں۔
جو احسان تم نے ہم پر کیا ہے اُس کا صلہ ہم نہیں خدا ہی تمہیں دے گا۔”
اُس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
سعدیہ نظریں جھکا کر مسکرائی اور پھر ممانی کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے ساس بہو کو اس طرح پیار سے بیٹھے دیکھ کر علی صاحب دور سے مسکرائے، انہیں آج بھی اپنے کئی سال پرانے فیصلے پر فخر ہورہا تھا۔
سعدیہ دِل ہی دِل میں اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھی۔
”بے شک وہ صبر کرنے والے کو پھل ضرور دیتا ہے اور جس سے وہ محبت کرتا ہے اُس کی عزت ہر دل میں ڈال دیتا ہے۔” ممانی کے اُٹھ کر چلے جانے کے بعد اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔
…٭…
حاشر نے سعدیہ کے لیے کچھ سرخ پھول اور ایک ہیرے کی انگوٹھی منگوائی۔
اُس نے سعدیہ کے لیے یہ پہلا تحفہ خریدا ہوگا، سعدیہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی، وہ گُٹنے ٹیک کر کھڑا تھا۔
"I Love you!”
کاش محبت کے اظہار کے لیے اس سے بھی بڑا کوئی لفظ ہوتا جو میرے جذبات کو بیان کرپاتا۔
تم نے بہت احسانات کیے ہیں مجھ پر میری زندگی بچائی، مجھے محبت کرنا سکھائی، مجھے اُس محبت کا احساس دلایا جس سے میں دور دور تک واقف نہ تھا۔ اللہ کی محبت” سعدیہ مسکرائی اور ہاتھ حاشر کے آگے بڑھایا "I Love you too” اُس نے آہستہ سے کہا اور انگوٹھی دیکھنے لگی۔
”محبت وہی کامل ہوتی ہے جو عاشق کو محبوب کی خاطر خدا کے سامنے گڑگڑانے پر مجبور کردے۔” اُس کی آنکھوں میں ڈوبتے ہوئے وہ بولی۔
…٭…
سعدیہ صبح اُٹھی کہ اُس نے دیکھا آج گھر میں ڈھیر سارے کھانے بن رہے تھے، اُس نے قمر بیگم سے اِن انتظامات کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے پاکستان سے سعدیہ کے ماں باپ کو بُلایا ہے تاکہ وہ اُن کو سعدیہ سے ملوا سکیں۔
سائرہ بی بی نے قمر بیگم سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ سعدیہ کو ملنے کے لیے کس قدر بے چین ہیں اس لیے قمر بیگم نے انہیں یہیں پر بُلالیا۔
یہ سن کر سعدیہ خوشی سے مسکرائی ”سچ ممانی! آج اماں، ابا آنے والے ہیں؟” اُس نے پر جوش انداز میں پوچھا۔
…٭…
سعدیہ کے ماں باپ بھی اب یہیں رہنے لگے، کیونکہ قمر بیگم اپنی پرانی غلطی کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھیں۔
…٭…
ممانی اور ماموں نے سعدیہ اور حاشر کو عمر پر بھیجنے کا انتظام کیا جسے سُن کر سعدیہ بہت خوش ہوئی، اور اُسے آج اپنا خواب یاد آنے لگا۔ یہی تو اُس کا خواب تھا جس کو حقیقت میں اُس نے خود بدلا اُس نے شکرانے کے دو نفل ادا کیے۔
”اے اللہ آج تک تیرے آگے کچھ نہ کچھ مانگنے کے لیے ہاتھ اُٹھائے ہیں۔
آج تیرا شکر ادا کرنے کے لیے ہاتھ اُٹھا رہی ہوں تُو نے تو میرا دامن اُن خوشیوں سے بھی بھر دیا ہے جن کو مانگنے کی کبھی ہمت بھی نہ تھی۔”
…٭…
حاشر کو آج بھی سعدیہ کے ہنسنے کی آواز اسی طرح اچھی لگتی تھی جس طرح بچپن میں لگا کرتی تھی۔ وہ دونوں سچ میں ایک دوسرے کے لیے بنے تھے اُن کا عشق کامل تھا، ایک دوسرے کو تو پایا ہی تھا مگر خدا کی محبت پانے کے لیے دونوں ایک دوسرے کے لیے سیڑھی بن گئے، سعدیہ کے پاک وجود نے حاشر کو بھی پاک ہونے مجبور کردیا، کیا یہی ہوتی ہے نیک عورتوں کی محبت؟
٭…٭…٭
(ختم شد)

Loading

Read Previous

عشقِ کامل — نازیہ خان (پہلا حصّہ)

Read Next

چاند پر پاکستانی — ارم سرفراز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!