وقت گزر رہا تھا اور حاشر بہانے بہانے سے سعدیہ کو دیکھ رہا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہو۔
سعدیہ سب کچھ سمجھ رہی تھی مگر وہ بے بس تھی، ماں باپ بار بار کھانے کی میز بھر دیتے اور اُسے پیار کرنے لگتے۔
دراصل وہ سب کچھ جان کر بھی اُس کی حالت سے ناواقف تھے۔
وقت گزر رہا تھا اور حاشر کی بے چینی شروع ہونے لگی، وہ آہستہ آہستہ کبھی اپنے جسم پر خارش کرتا، کبھی ہانپتے ہوئے باتھ روم میں وقت گزارتا۔
رات کا اندھیرا چھانے لگا اور اُس کی تڑپاہٹ بڑھنے لگی۔
وہ والدین کے سامنے اپنے آپ پر قابو کیے ہوئے تھا کہ آخر وہ ہو اس کھونے لگا، اُس نے زور زور سے گھر کا سامان گِرایا، سعدیہ کو دھکا دیا اور پھر تڑپتے تڑپتے خود بے ہوش ہوگیا۔
ماں بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی۔
اب اُن دونوں کو سعدیہ کی اُس بے چینی کا اندازہ ہوا۔
اب اُن دونوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹ چکے تھے، جو ان بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر زندہ رہنا ہی مشکل بات ہے۔
بیٹے سے مل کر وہ دونوں جس خوشی میں جھول رہے تھے اب وہ کہیں غائب ہوچکی تھی۔ رات 11 بجے اُسے ہسپتال لے جایا گیا قمر بیگم کے آنسو تھے کہ تھم ہی نہیں پا رہے تھے وہ تو اپنے بیٹے کو اتنے نازوں سے پال رہی تھی کبھی کانٹا تک نہ چبھا ہوگا اُسے اور آج وہ اس قدر تکلیف میں تھا۔
”پیسوں کی کوئی فکر نہ کریں، بس میرے بیٹے کا علاج شروع کریں ابھی اور اسی وقت” علی صاحب نے کانپتے ہوئے ہونٹوں سے ڈاکٹر کو حکم دیا۔
ڈاکٹرز نے ٹیسٹ کرنے شروع کیے اور حاشر کو ہسپتال میں داخل کیا۔
وہ تینوں آنکھیں سُجائے، ہسپتال میں رات گزار رہے تھے۔
اب الفاظ بھی کوئی کام نہیں کررہے تھے، گہری خاموشی تھی اور وہ تینوں بے یارو مددگار بیٹھے تھے۔
تہجد کا وقت ہوا سعدیہ آپ بھی ہمیشہ کی طرح تہجد پڑھنے کے لیے اُٹھی۔
اُسے تو اِن آزمائشوں کی عادت ہوچکی تھی مگر اب اُس کی آزمائش میں ماموں اور ممانی بھی شامل ہوچکے تھے۔
آزمائشوں کے سمندر کے قابل کوئی کوئی ہوتا ہے
یہ وہ گہری کھائی ہے جہاں وہ اپنا نام و نشان کھوتا ہے
مگر جو اُتر جائے پورا اُس رب کی آزمائشوں پر
وہ اس دُنیا کی نہیں آخرت کی خوشیوں کا بھی حقدار ہوتا ہے
…٭…
اگلے دن ڈاکٹرز نے علی صاحب کو بتایا کہ حاشر کو ٹھیک ہونے میں ایک عرصہ لگے گا اور بہت محنت اور Care کی ضرورت ہوگی البتہ پھر بھی اُس کی واپسی کے چانسز بہت کم ہیں۔ علی صاحب نے اور سعدیہ نے یہ بات سُنی تو اُن کے چاروں گرد مایوسیاں چھگئیں البتہ ماں کو بات ذرا مختلف بتائی گئی کہ حاشر جلد ٹھیک ہوجائے گا۔
علی صاحب قمر بیگم کو زیادہ دیر ہسپتال نہ چھوڑتے۔۔۔ مگر اُن کے چہرے پر مایوسی دیکھ کر قمر صاحبہ ہروقت شُبے میں رہتیں۔
سعدیہ دن رات حاشر کے پاس رہتی، اُس کی دیکھ بھال کرتی۔
علی صاحب سعدیہ کی بہادری اور صبر سے حیران تھے، مایوسیوں کے بعد بھی اُن کے دل میں ایک اُمید تھی کہ اے اللہ اس بچی پر ترس کھا کر ہی میرے حاشر کو زندگی عطا کردے۔
…٭…
حاشر کا علاج شروع ہوئے ڈیڑھ مہینہ گزر چکا تھا مگر کچھ خاص فرق نہ تھا بس یہ خوشی تھی کہ اُس کی زندگی بچ رہی تھی، ڈاکٹرز نے حاشر کو جو بھی ہدایات دی ہوئیں وہ اُس پر پورا نہ اُترتا مگر سعدیہ بڑی محنت سے اُسے دوکھلاتی۔۔۔
حاشر جب بھی ذرا ہوش میں ہوتا وہ بہت محنت سے ورزش کرنے کی کوشش کرتا کیونکہ ڈاکٹر ہر بار اُسے ہدایت کرتے کہ وہ اُسی صورت میں ٹھیک ہوگا اگر زیادہ سے زیادہ Work out کرے گا، سعدیہ کی خاطر وہ بھی اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں تھا مگر وہ زیادہ دیر اپنے ہوش و ہواس پر قابو نہیں رکھ پاتا تھا۔
…٭…
سعدیہ کی دعاؤں کا وقت اب پہلے سے بھی زیادہ لمبا ہوچکا تھا مگر اب وہ بہت تھک چکی تھی جیسے اب اُس میں کچھ برداشت کرنے کی ہمت نہ بچی ہو۔
دعا میں بھی گھنٹوں ہاتھ اُٹھا کر بیٹھی رہتی نہ کچھ بولتی اور نہ ہی روتی۔
اُس کے آنسو بھی سوکھ چکے تھے شاید یا پھر وہ گڑگڑاتے ہوئے تھک چکی تھی۔
حاشر کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی اُسے ہِلا کر رکھ دیتا تھا۔
…٭…
قمر بیگم نے آفس جانا چھوڑ دیا اور نمازیں پڑھنے لگیں، اپنے بیٹے کے لیے رو رو کر دعا مانگتی تھیں۔
”اے اللہ تو مجھے موت دے دے مگر میرے بیٹے کو اس تکلیف سے نکال دے۔”
…٭…
وقت اسی طرح گزر رہا تھا اُمید کی ہلکی سی روشنی اُن لوگوں کو تھامے ہوئے تھی۔
قمر بیگم کی طبیعت بھی کچھ خراب رہنے لگی بیٹے کی ٹینشن سے اُن کو بھی بلڈ پریشر کا مسئلہ ہونے لگا۔
”اے اللہ جب تو نے نا ممکن کو ممکن کردیا ہے تو یہ سب تیرے لیے کونسا مشکل کام ہے۔
تو نے بار بار میری ٹوٹتی اُمید جوڑی یا رب، میں کسی کی مثال کیا لوں میرے پاس میں ہی بہت بڑی مثال ہوں۔ تو اُس مشکل کو بھی ٹال دے مولا۔
میرے حاشر کو تندرست کردے۔
اے اللہ اُس کے ماں باپ برداشت نہیں کر پائیں گے یا اللہ تُو کسی کو اُس کی بردایت سے زیادہ دُکھ نہیں دیتا۔
اے دلوں کے حال جاننے والے اب تو ہمت جواب دے چکی ہے۔”
روتے روتے اُس کے ہاتھوں پر پڑا دوپٹہ پورا بھیک چکا تھا۔
سعدیہ نے نماز ظہر ادا کرنے کے بعد جائے نماز اُٹھایا اور کھانا لے کر ہسپتال چلی گئی۔
حاشر جانتا تھا کہ اُس کے ماں باپ اُس کی تکلیف برداشت نہیں کرپائیں گے، وہ جب بھی ہوش سنبھالتا سعدیہ سے صرف ایک ہی سوال پوچھتا۔
”ماما، پاپا کیسے ہیں؟۔۔۔ وہ دونوں ٹھیک تو ہیں؟”
سعدیہ ہر بار جھوٹا دلاسہ دیتی” ہاں وہ دونوں بالکل ٹھیک ہیں۔”
اُس نے ایک بار بھی حاشر کو قمر بیگم کی روز بروز بگڑتی طبیعت کے بارے میں نہیں بتایا۔
…٭…
سعدیہ روزانہ حاشر کو ورزش کرواتی ایک دن حاشر نے بے دھیانی میں اپنے حواس کھوتے ہوئے سعدیہ کو دھکا دیا اور اُس کے سر پر اس قدر چوٹ آئی کہ خون بہنے لگا۔
وہ اپنی لاچاری پر حیران تھی کہ اتنی محنت کے باوجود بھی حاشر ٹھیک نہیں ہورہا تھا۔
علی صاحب نے اُس بیچاری پر ترس کھا کر اُسے کچھ دیر کے لیے گھر بھیج دیا تاکہ وہ کچھ دیر آرام کرسکے۔
…٭…
سعدیہ کے سر پر پٹی لگی دیکھ کر قمر بیگم کا دل گھبرایا۔
سعدیہ نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے انہیں گلے لگایا اور خوب روئی۔۔۔ قمر بیگم نے سعدیہ کی آنکھیں صاف کیں، ”ہمت کرو بیٹا۔۔۔ تم تو ہمیں دلاسے دیا کرتی تھی” قیمر بیگم روتے ہوئے بولی۔
سعدیہ کے آنسو تھے کے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، آج وہ قمر بیگم کے سینے پر سر رکھے خوب روئی۔
بہت دیر ہوچکی تھی اُسے اس طرح کُھل کر کسی کے سامنے روئے ہوئے۔
قمر بیگم سعدیہ کو اس طرح روتے دیکھ کر اور بھی پریشان ہوگئیں۔
…٭…
سعدیہ اپنا سر قمر بیگم کی گود میں رکھے آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی۔
قمر بیگم بے دھیانی میں اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے خیالوں میں گُھم بیٹھیں تھیں۔
ایک دَم قمر بیگم کو خیال آیا کہ وہ سعدیہ کو اور اُس کی ماں کو کس قدر حقارت کی نظر سے دیکھا کرتی تھیں۔
اور آج وہ اُسی کو اس طرح اپنی گود میں لٹائے بیٹھی تھیں، خدا نے کس طرح وقت بدل دیا کہ آج امیر اور غریب کا فرق ہی نہیں رہا، وہ غریب، حقیر لڑکی اب قمر بیگم جیسی عورت کا دل جیت چکی تھی۔
”ایسا کیا ہوجائے کہ میں اس لڑکی کی جھولی اُن ساری خوشیوں سے بھردوں، جن کی یہ مستحق ہے” آنسو اُس کے بالوں پر گِراتے گراتے قمر بیگم نے سوچا۔
سعدیہ کئی دنوں بعد آج گہری نیند سورہی تھی، اُسے ایسا لگا جیسے وہ اپنی ماں کی گود پر سر رکھے ہوئے ہے۔
…٭…
قمر بیگم کی طبیعت دن بَہ دن بگڑ رہی تھی اور پھر انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا، سعدیہ کبھی حاشر کے پاس ہوتی اور کبھی قمر بیگم کے ساتھ ہوئی۔
علی صاحب نے پھر ایک دن سعدیہ پر ترس کھا کر اُسے آرام کرنے کے لیے گھر بھیجا مگر ٹوٹی پھوٹی بے چین روح کو بھلا چین کیسے آئے گھر آکر عصر کی نماز پڑھی اور قرآنِ پاک پڑھنے لگی،
پڑھتے پڑھتے یاد آیا کہ ایک دن اماں کے پاس ایک عورت آئی تھی اور اُس نے بتایا تھا کہ اُسے ہیپاٹائٹس ہوا تھا اور اُس کی آخری سٹیج تھی کہ کسی اللہ والے نے اُسے سورة رحمن سننے کو کہا۔
خدا کا کرشمہ ایسا ہوا کہ جیسے ڈاکٹرز بھی جواب دے چکے تھے، وہ صحت یاب ہونے لگی۔ اُس کے جسم میں ہر سی دوڑی جس نے اسے چونکایا، وہ اُٹھی، قرآن پاک رکھا اور سورة رحمن ڈھونڈنے لگی۔
موبائل میں سورة رحمن Download کی اور واپس ہسپتال چلی گئی۔
حاشر کے کمرے میں سورة رحمن اونچی آواز میں لگا دی۔
ڈاکٹرز کے منع کرنے کے باوجود علی صاحب کی سفارش پر حاشر کے کمرے میں وہ سورة مستقل لگا دی گئی۔
…٭…
سعدیہ سورة رحمن قمر بیگم کو بھی بلا ناغہ سُنا رہی تھی، وہ اِس سورة کو سننے کی عادی ہوگئیں۔
”اُس آواز میں، اِن الفاظ میں بہت سکون ہے سعدیہ” قمر بیگم نے سعدیہ کو بتایا ”ایسے لگتا ہے جیسے میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی ہوں۔”
سعدیہ حاشر کے پاس ہی بیٹھی تھی کہ فون کی وائبریشن ہوئی، اُس نے فون اُٹھایا۔
”اسلام و علیکم سعدیہ”
”وعلیکم السلام۔۔۔ کیسی ہو مریم؟” سعدیہ نے خوش ہوکر پوچھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں، تم کیسی ہو؟ اور حاشر کیسا ہے؟” مریم نے آہستہ سے پوچھا ”حاشر کی حالت بہت Serius ہے، اُس کے لیے دُعا کرنا” سعدیہ نے آہستہ سے جواب دیا ”ہاں میں ضرور دُعا کروں گی۔” مریم نے دلاسہ دیا۔
”میں نے تمہیں خوشخبری سنانے کے لیے فون کیا تھا” مریم نے پرجوش انداز سے کہا۔
”خوشخبری کیسی خوشخبری”
”سعدیہ عثمان اور تمنا دونوں کو پولیس نے پکڑ لیا ہے۔ اور تم سوچ بھی نہیں سکتی وہ کس قدر خطرناک لوگ ہیں۔
وہ ناجانے کتنے معصوم لوگوں کی زندگیاں برباد کرچکے ہیں۔
وہ تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑتے تھے، پتہ نہیں حاشر کیسے بچ گیا۔