دوپہر کے 2 بج رہے تھے حاشر سو رہا تھا کہ سعدیہ اپنا پرس پکڑ کر چپکے سے باہر نکلی چہرے کو چادر سے ڈھانپے ہوئے وہ تیز تیز جارہی تھی، ایک بند رکشہ لیا اور ہسپتال پہنچ گئی۔ اپنے بیگ سے انجیکشن نکالا، ڈاکٹر کو چیک کروانے کے لیے دیا۔
انجیکشن کو لیبارٹری میں بھیج دیا گیا اور سعدیہ کو ایک گھنٹہ انتظار کرنے کو کہا۔ وہ بہت پریشان تھی کیونکہ وہ حاشر سے چھپ کرسیاں آئی تھی۔
کبھی بے چینی سے چکر لگانے لگتی، کبھی وقت دیکھنے لگتی۔
…٭…
سعدیہ کے جانے کے بعد حاشر آدھے گھنٹے بعد اُٹھا۔
جب اُس نے سعدیہ کو گھر میں موجود نہ پایا تو وہ پریشان ہونے لگا۔
اُس کے ذہن میں طرح طرح کے خیال آرہے تھے کہ کہیں وہ پولیس کے پاس تو نہیں چلی گئی۔
حاشر بار بار اُسے فون ملا رہا تھا مگر فون بھی گھر پر تھا۔
وہ پریشانی سے ہلکان ہورہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اُن لوگوں کو خبر ہوگئی تو وہ سعدیہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
…٭…
ڈاکٹر نے سعدیہ کو بتایا کہ یہ کس قدر خطرناک ڈرگز ہیں، اِن ڈرگز کا عادی انہیں بہت مشکل سے چھوڑ پاتا ہے۔
”اُس کا علاج باہر کے ملکوں میں موجود ہے مگر واپسی کے چانسز پھر بھی کم ہیں” ڈاکٹر نے مایوسی سے کہا سعدیہ کے چہرے کے رنگ اُڑ چکے تھے۔ وہ مایوسی سے واپس مڑی۔
رکشے میں بیٹھے ہوئے وہ بار بار انجیکشن کو دیکھتی اور آنکھیں آنسوؤں سے بھرتی۔
پریشان، گرمی میں ہلکان گھر پہنچی۔
”میں نے منع کیا تھا نا تمہیں؟” حاشر نے غصے سے پوچھا۔
”کہاں گئی تھی تم؟ کیوں اتنی نڈر ہو تم؟ تمہیں اندازہ نہیں ہے وہ کتنے ظالم لوگ ہیں” وہ چلایا سعدیہ حاشر کی اونچی آواز سُن کر ڈر رہی تھی اور خوفزدہ ہوکر نظریں جھکائے کھڑی تھی، اُس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
”کیا تم پولیس کے پاس گئی تھی؟۔۔۔ بتاؤ سعدیہ؟” حاشر نے گھورتے ہوئے پوچھا۔
اُس کے حلق سے آواز تک نہ نکل رہی تھی۔
”بتاؤ سعدیہ کہاں گئی تھی تم؟۔۔۔ پلیز بتاؤ اگر تم پولیس کے پاس گئی تھی تو ہمیں ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکلنا ہوگا۔” وہ سعدیہ کے کندھوں کو پکڑ کر راز داری سے بولا ”کہاں جائیں گے ہم؟” سعدیہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
”کہیں بھی چلے جائیں گے مگر میں تمہیں اُن کے حوالے نہیں کر پاؤں گا۔” اُس نے روتے ہوئے کہا۔
”ہم ماموں کے پاس چلتے ہیں حاشر۔۔۔ ہم نیو یارک چلتے ہیں۔” وہ التجا کرتے ہوئے آگے بڑی۔
”پاگل ہوگئی ہو تم؟ اُن سے تو میں کبھی بھی نہیں مل سکتا۔۔۔ میں اُن سے نظریں کیسے ملا پاؤں گا۔” وہ مایوسی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔
”نہیں حاشر۔۔۔ ہمیں ماموں کے پاس ہی جانا چاہیے، اب وہ ہی ہماری مدد کرسکتے ہیں۔” اُس نے گھٹنے ٹیک کر اُس کے سامنے التجا کی۔
”میں اُن کا سامنا نہیں کر پاؤں گا۔” وہ ماتھے پر ہاتھ رکھے ہوئے آنسو گِرانے لگا۔
”وہ تمہارے ماں باپ ہیں حاشر، وہ تمہیں ضرور معاف کردیں گے۔” اُس نے پھر سے اُس کا بازو ہلایا۔
”نہیں جاسکتا میں وہاں۔۔۔” سعدیہ کا ہاتھ دوسری طرف پھینکتے ہوئے وہ کھڑا ہوا۔
”ہاں تو ٹھیک ہے۔۔۔ پھر مرنے دو مجھے اُن سے۔۔۔ میں تو پولیس کو ضرور بتاؤں گی۔۔۔ انہوں نے میرے حاشر کی زندگی تباہ کی ہے میں اُن کی زندگی تباہ کردوں گی۔” آنسو صاف کرتے ہوئے وہ غصے سے بولی۔
”میں بہت مشکل میں ہوں، مجھے مزید مشکل میں نہ ڈالو سعدیہ” اُس نے التجا کی اور کمرے میں چلا گیا۔
زور سے دروازہ بند کیا اور اپنے آپ کو کوسنے لگا۔
”میں تو تمہیں ہر مشکل سے نکالنا چاہتی ہوں حاشر” اُس کے چلے جانے کے بعد وہ مایوسی سے منہ میں بلبلائی پورا دن اُس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند رکھا، سعدیہ بھی آنکھیں سُجائے ہوئے زمین پر بیٹھی تھی اور سر صوفے پر رکھے بار بار رو رہی تھی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اُس نے سر اُٹھایا تو صوفہ آنسوؤں سے بیگ چکا تھا۔
فرق صرف اتنا تھا پہلے اُس کا تکیہ گیلا ہوا کرتا تھا آج وہ حاشر کا صوفہ تھا۔
لاکھوں میں بکتا تکیہ میرا
ہوتی جو آنسوؤں کی قدر و قیمت کوئی
…٭…
پورا دن اپنے آپ کو کمرے میں بند رکھنے کے بعد جب حاشر کمرے سے نکلا، اُس نے سعدیہ کو بتایا کہ وہ ماما، پاپا سے ملنے کے لیے تیار ہے۔
سعدیہ سُن کر بہت خوش ہوئی۔
اُس نے کچھ دیر بعد ہمت باندھ کر ماموں کو فون ملایا۔
ہچکچاتے ہوئے اُس نے بات شروع کی اور حاشر کی ساری داستان اپنے ماموں کو سُنا چھوڑی، سنتے ہی علی صاحب کا دل درد سے بھر گیا اور وہ رونے لگے۔
”سعدیہ بیٹا، میں ابھی تم لوگوں کو یہاں بُلانے کا انتظام کرتا ہوں، تم میرے بیٹے کو یہاں لے آؤ” وہ روتے روتے بول رہا تھا۔
حاشر بالکل خاموش تھا، وہ اپنے والدین سے ملنے سے کتراتا تھا کیونکہ وہ اُن کے چہروں پر مایوسی نہیں دیکھنا چاہتا تھا مگر سعدیہ کی خاطر اُس نے جانے کے لیے ہاں کردی۔
…٭…
وہ سعدیہ سے کوئی بات نہیں کررہا تھا اور نہ ہی اُس کے کسی سوال کا جواب دے رہا تھا۔
”حاشر تم مجھ سے ناراض ہو؟” اُس نے آہستہ سے پوچھا۔
”میرا یقین کرو حاشر میں کل پولیس کے پاس نہیں گئی تھی” اُس نے آہستہ سے کہا۔
”تو پھر کہاں گئی تھی؟” اُس نے حیران ہوکر پوچھا ”وہ چھوڑو۔۔۔ میں بس تمہیں یہاں سے نکالنا چاہتی ہوں، اِن لوگوں کے چنگل سے نکالنا چاہتی ہوں تاکہ تم پہلے کی طرح زندگی گزار سکو۔” اُس کی آنکھوں میں ڈوبتے ہوئے وہ بولی۔
”کیا ایسا ممکن ہے؟” اُس نے مایوسی سے پوچھا۔
”ممکن اور ناممکن صرف ہماری حدود میں ہوتا ہے مگر اللہ پاک کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں جب وہ پاسا پلٹنے پر آتا ہے تو ہم دُنیا والے اُس کی قدرت سے حیران رہ جاتے ہیں۔ ہماری عقل بہت چھوٹی ہے اور اُس کی قدرت بہت بڑی۔” وہ گہری سوچ میں گُھم تھی اُس کے الفاظ حاشر کے دل پر اُتر رہے تھے، سعدیہ کے ساتھ آج اُس نے بھی وضو کرکے عصر کی نماز پڑھی۔
…٭…
”سعدیہ تم کہاں ہوتی ہو؟ اتنے دنوں سے یونیورسٹی بھی نہیں آئی؟” مریم نے فون پر غصہ کیا۔
”میں اب کبھی یونیورسٹی نہیں آؤں گی۔” اُس نے آہستہ سے جواب دیا۔
”مگر کیوں؟” مریم نے حیرانگی سے پوچھا سعدیہ نے مریم کو اپنے اور حاشر کے نکاح کے بارے میں بتایا۔
مریم بہت خوش ہوئی لیکن جب سعدیہ نے حاشر کی حالت کا تذکرہ کیا تو مریم حیران ہو گئی۔
”تم نے اتنا بڑا رِسک لیا؟” مریم نے حیرانگی سے پوچھا۔
”ہاں! خدا کو یہی منظور تھا۔” سعدیہ نے تسلی سے جواب دیا۔
مریم فون کان سے لگائے خاموش کھڑی تھی۔
”مریم تم میرا ایک کام کردوگی؟” اُس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”ہاں ہاں بولو!”
”کچھ ہی دنوں مِیں میں تمہیں فون کروں گی اور بتاؤں گی، تمہیں وہ کام بڑی راز داری اور ہوشیاری سے کرنا ہوگا۔” سعدیہ نے سرگوشی کی۔
”ٹھیک ہے سعدیہ! میں تمہارے فون کا انتظار کروں گی۔” مریم نے فون بند کیا۔
…٭…
اگلے ہی دِن سعدیہ کے ماموں نے سعدیہ کو اور حاشر کو نیویارک بلانے کا انتظام کرلیا، چھپتے چھپاتے وہ دونوں لاہور چھوڑ کر نیویارک پہنچ گئے۔
نیویارک پہنچتے ہی سعدیہ نے مریم کو فون کیا، تمنا اور عثمان کے بارے میں معلومات دی اور مریم کو بتایا کہ وہ اس سب کے بارے میں اپنے ماموں کو بتائے جو کہ پولیس کے محکمے میں بڑے افسر تھے تاکہ ان لوگوں کو پکڑ کر جیل میں بند کیا جائے اور معصوم لوگوں کی زندگیاں برباد ہونے سے بچ جائیں۔
مریم نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور اُن لوگوں کو پکڑوانے کی حامی بھرلی۔
…٭…
حاشر کو گلے لگا کر اُس کی ماں خوب روئی۔ ”ہم سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہم تمہیں وہاں اکیلا چھوڑ آئے۔” وہ روتے ہوئے بولی۔
آج پہلی دفعہ قمر صاحبہ نے سعدیہ کو پیار کی نظر سے دیکھا اور ماموں کے دل میں اُس کی عزت اور بھی بڑھ گئی۔
بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر اُن دونوں کا کلیجہ ہِل چکا تھا۔
…٭…
سعدیہ نے پاکستان میں اپنی ڈاکٹر سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں ماموں کو بتایا اور اُس نے درخواست کی کہ حاشر کو آج ہی ہسپتال داخل کرا دیا جائے تاکہ وہ لوگ حاشر کی تڑپاہٹ نہ دیکھ سکیں۔
مگر وہ لوگ اتنے سالوں بعد بیٹے سے ملے تھے اُسے اتنی جلدی اپنی نظروں سے پرے کرنے پر کیسے راضی ہوتے۔
علی صاحب نے سعدیہ کی بات ٹال دی اور اگلے دن پر بات ڈال دی۔
مگر سعدیہ بے چین کھڑی تھی وہ جانتی تھی حاشر Dose لینے کا عادی ہے کچھ ہی دیر میں اُس کی تڑپاہٹ شروع ہوجائے گی اور اُسے اُسی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے وہ ڈر رہا تھا۔
…٭…