حاشر کی حالت دیکھ کر ماں کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ حاشر سے سلام دُعا کرنے کے بعد وہ کیچن میں سعدیہ کے پاس آئی۔
”سعدیہ یہ اپنا حاشر ہے؟” ماں نے حیرانگی سے پوچھا۔
”ہاں اماں، وہ ذرا بیمار ہے آج کل” ابس نے ماں سے جھوٹ بولا۔
”نہیں مجھے تو کوئی اور ہی معاملہ لگتا ہے” ماں نے تجسس سے پوچھا۔
سعدیہ کو ماں کے چہرے پر حاشر کے لیے نفرت دیکھ کر شک ہونے لگا، پھر بھی اُس نے ماں سے نکاح کی بات کی۔
”اماں میں اور حاشر آج ہی نکاح کرنا چاہتے ہیں۔”
”نہیں سعدیہ تُو پاگل ہوگئی ہے، یہ وہ حاشر نہیں جس کی تُو منگیتر تھی، ہم سوچ سمجھ کر نکاح کی بات کریں گے” ماں نے سرگوشی کی۔ ”اماں میں شادی کروں گی تو صرف حاشر سے، وہ جیسا بھی ہے مجھے قبول ہے، میں نے اُس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اور مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”
”سعدیہ اس طرح محبت کے سہارے زندگیاں نہیں گزرا کرتیں۔” ”میں تیرے ماموں سے بات کروں گی۔”
”اماں خبردار تو نے حاشر کے بارے میں انہیں بتایا، انہیں کچھ نہیں بتانا حاشر انہیں کچھ نہیں بتانا چاہتا، بس تُو میرا اور حاشر کا نکاح کروا دے ابھی اور اسی وقت، میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔”
گھر میں مولوی بلوایا گیا۔
جھوٹے دلاسے دیتے ہوئے اُس لڑکی نے ماں باپ کو منایا اور اپنی محبت کے لیے اپنے آپ کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈال لیا، اب اُس کے لیے اپنے اللہ کو راضی کرنا بہت اہمیت رکھتا تھا مگر وہ اپنے خواب کو خدا کا ہی کوئی اشارہ سمجھ رہی تھی۔
نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ کئی بارے کانپے، ماں بھی منہ پر دوپٹہ رکھے ہوئے حیرانگی سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی، وہ اُسے روکنا چاہتی تھی۔
مگر وہ جانتی تھی کہ سعدیہ کی دعاؤں نے ہی اس لڑکے کا رخ اُس طرف موڑا ہے۔ لڑکے کا رُخ اس طرف موڑا ہے۔
وہ بیچاری پہلے بیٹی کا گھر بس جانے کی دعا کیا کرتی تھی اور اب وہ اُس کے نصیب کے لیے دعا کرنے لگی۔
حاشر بھی قلم ہاتھ میں پکڑے مجبور بیٹھا تھا وہ چاہ رہا تھا کہ کسی طرح یہاں سے بھاگ جائے اور سعدیہ اپنی زندگی برباد کرنے سے بچ جائے، آنکھوں میں بار بار آنسو بھرتے ہوئے وہ اپنی بے بسی سے کھیل رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں نکاح ہوگیا اور سعدیہ نے حاشر کے ساتھ جانے کی ضد کی۔
حاشر پھوپھی کے سامنے اپنی مجبوری تک بیان نہ کرسکا کہ وہ آخر سعدیہ کو کہاں لے کر جائے گا آخر اُسے سعدیہ کو اپنے ساتھ اُسی چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں لے جانا پڑا جہاں وہ آج کل رہ رہا تھا۔
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سعدیہ اُس چھوٹے اور گندے اپارٹمنٹ میں داخل ہوکر حیران پریشان کھڑی تھی جہاں حاشر اُسے لے کر آیا تھا۔
اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ حاشر جیسا لڑکا جو محل جیسے گھر میں زندگی گزار رہا تھا وہ اب اس جگہ پر رہ رہا ہے۔
حاشر بار بار سعدیہ سے نظریں چرا رہا تھا کیونکہ اُس کے پاس اُس کے کسی سوال کا جواب نہ تھا، سعدیہ نے گندہ کمرہ صاف کرنا شروع کیا، پھر وہ کیچن صاف کرنے لگی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔۔۔ حاشر اپنے جسم پر خارش کرتے ہوئے دروازہ کھولنے کے لیے گیا۔
اُس نے دروازہ کھولا کہ عثمان دو لڑکوں کے ساتھ دروازے پر کھڑا تھا۔
حاشر نے اُس سے آنے کی وجہ پوچھی تو اُس نے حاشر کا کالر پکڑا۔
”تمنا نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے نکاح کرلیا ہے، کیا ٹھیک کہا اُس نے؟”
”ہاں اُس نے ٹھیک کہا” حاشر اپنا کالر چھڑواتے ہوئے بولا۔
”کون ہے وہ بیوقوف لڑکی جو تیرے جیسے Drug addicted کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے راضی ہوگئی۔”
”تم یہ ب پوچھنے والے کون ہو؟” حاشر نے لڑکھڑاتے ہوئے پوچھا۔
”میں تیرا باپ۔۔۔ اب جب تڑپتے ہوئے انجیکشن لینے کے لیے آئے گا نا ہمارے پاس تو ڈبل پیسے لیے جائیں گے۔” وہ حاشر کے کان میں بلبلایا۔
”کہا تھا نا تجھ سے کہ دوستوں اور رشتہ داروں سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا۔” عثمان چلایا اور اُس کے منہ پر ایک گھونسا مار کر پھینک گیا سعدیہ کیچن سے بھاگتی ہوئی دروازے تک پہنچی جب اُس نے کچھ گِرنے کی آواز سُنی۔
”حاشر۔۔۔ حاشر۔۔۔” وہ چلائی اور حاشر کو تھامنے لگی۔
اُس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔
…٭…
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی سعدیہ” حاشر نے بیڈ پر لیٹے لیٹے کہا۔
”کیا؟” سعدیہ نے تجسس سے پوچھا۔
”عثمان اس سب میں شامل ہے درحقیقت یہ سب اُسی کا Plan ہوگا۔۔۔ وہ میرا سب سے اچھا دوست تھا، میرے گھر بھی آچکا تھا کئی بار” ”میں جان ہی نہیں پایا اُس کمینے گھٹیا انسان کو” وہ مایوسی سے بولتا رہا۔
”تم پولیس میں ان کی رپورٹ کیوں نہیں کرتے” سعدیہ نے غصے سے کہا۔
”نہیں سعدیہ، ہم ایسا کچھ نہیں کرسکتے، وہ ہم دونوں کو مار ڈالیں گے، اُن کے لیے ہمارے جیسوں کی جان لینا ایک معمولی بات ہے” اُس کا انداز مایوس کن تھا۔
”زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ ناجانے کتنے لوگوں کی زندگیاں برباد کرتے ہوں گے یہ لوگ” سعدیہ نے غصے سے کہا۔
حاشر حیران ہوکر سعدیہ کو دیکھ رہا تھا، اُس کے دل میں یہ ڈر خوب بیٹھ رہا تھا کہ کہیں سعدیہ کا اُن لوگوں سے سامنا نہ ہوجائے۔
…٭…
رات ہو رہی تھی اور حاشر کی بے چینی بڑھ رہی تھی، وہ نہیں چاہتا تھا کہ سعدیہ اُس کی یہ حالت دیکھے، وہ اپنے آپ پر قابو پا رہا تھا۔
سعدیہ دھیانی بے دھیانی میں حاشر کی بڑھتی تڑپا ہٹ کو دیکھ رہی تھی مگر اُس نے ایک بار بھی حاشر کو محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ آہستہ آہستہ اُس کی حالت سے واقف ہو رہی ہے۔
کچھ ہی دیر میں سعدیہ نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کیں۔
وہ حاشر کو اپنے سامنے شرمندہ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
حاشر اپنے جسم پر بے قابو ہوکر خارش کرنے لگا، ایسے لگ رہا تھا جیسے اُس کے جسم میں شدت کی درد تھی، اُس کا وجود ایک خوفزدہ پاگل کی مانند ہورہا تھا۔
وہ تیز تیز بیڈ کے پاس دراز کو کھول کر چیزیں پھینکنے لگا، پھر اُس نے الماری میں سے کچھ ڈھونڈنا شروع کیا۔
سعدیہ ذرا سی آنکھیں کھولے وہ منظر دیکھ رہی تھی وہ اُس کی حالت دیکھ کر خوفزدہ ہوچکی تھی۔۔۔ آخر حاشر کو انجیکشن ملا اور وہ اُسے لگانے کے بعد سکون کی نیند سونے لگا،
اُس کے سوجانے کے بعد سعدیہ نے چادر اُتاری اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
اُس کے جسم میں کپکپی طاری ہوچکی تھی، وہ اُٹھی، آنکھوں میں آنسو بھرے بڑے خوف سے حاشر کو دیکھ رہی تھی جب وہ اپنے پاس انجیکشن رکھے بڑی بے دھیانی سے زمین پر دیوار سے ٹیک لگائے سو رہا تھا۔
سعدیہ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بڑے پیار سے حاشر کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اُس کا ہاتھ زمین سے اُٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھا زارو قطار روتے ہوئے اُس نے ہاتھ پر بھوسہ دیا۔
اُس کی آنکھوں سے نیند اُڑ چکی تھی، پوری رات بس اس سوچ میں گزر رہی تھی کہ وہ کیا کرے، کیسے حاشر کو بچائے۔
اُس نے حاشر کے قریب پڑے انجیکشن کو اپنے بیگ میں رکھا اور پھر آنکھیں صاف کرتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گئی۔
…٭…
صبح حاشر کے اُٹھنے سے پہلے وہ ناشتہ تیار کرچکی تھی۔
اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے حاشر کو جگانے کے لیے گئی جیسے کہ وہ گزری رات کے بارے میں کچھ جانتی ہی نہیں۔ اُس نے مسکراتے ہوئے حاشر کو آواز دی اور پھر ہلکا سا ہلاتے ہوئے اُسے جگایا۔
وہ تبکتے ہوئے اُٹھا اور اُٹھتے ہی اپنے اردگرد اُس انجیکشن کو ڈھونڈنے لگاتا کہ سعدیہ کے دیکھنے سے پہلے اُسے چھپا سکے۔
سعدیہ پھر سے مسکراتے ہوئے اُسے ناشتے کے لیے بُلانے آئی۔
حاشر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر جیسے کھو سا گیا، اُس نے کئی سالوں بعد سعدیہ کو ہنستے دیکھا۔
مانا وہ صرف حاشر کو دکھانے کے لیے مسکراہٹ چہرے پر سجائے بیٹھی تھی مگر وہ اُس کے لیے بہت خوشی کا باعث بنی۔
سعدیہ حیران تھی کہ حاشر اُسے اس طرح کیوں دیکھ رہا ہے۔
حاشر نے سعدیہ کو دیکھتے ہوئے بڑی آہستہ سے بات شروع کی۔
سعدیہ تمہیں پتہ ہے مجھے بچپن سے ہی تمہاری ہنسی کی آواز اور مسکراہٹ بہت دلکش لگتی تھی، جب بھی میں اس آواز کو سنتا تھا ایسے لگتا تھا جیسے وہ لمحہ میرے لیے رُک سا گیا ہے، تم کبھی بھی میرے لیے معمولی نہ تھی مگر میں نے کبھی تمہیں وہ اہمیت نہیں دی جو دِل ہی دِل مِیں میں نے تمہیں دے رکھی تھی۔۔۔ تمہیں یاد ہے میں اپنی ہر بات تم سے چھپایا کرتا تھا مگر ہر مشکل وقت میں صرف تم سے مدد مانگنے آیا کرتا تھا۔۔۔ مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔
مگر آج سب کچھ سمجھ آرہا ہے تم صرف میرے دل سے نہیں میری روح سے بھی جڑی تھی اس لیے اُن چیزوں میں عجیب سا مزہ اور بھروسہ تھا جو قابل بیان ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ میں کبھی تمہیں کوئی خوشی نہیں دے پایا، خوشی تو دور کی بات ہے، یہ احساس بھی نہیں دلا پایا کہ کس قدر محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔”
وہ مایوسی سے اپنے احساسات کا اظہار کررہا تھا ”نہیں حاشر اگر ان حالات میں بھی خدا نے ہمیں ملایا ہے تو ہماری محبت سچی ہی تھی۔ ورنہ میں تو ساری اُمیدیں توڑ چکی تھی۔” ”نہیں سعدیہ! صرف تمہاری محبت سچی ہے میری نہیں، اگر میری محبت سچی ہوتی تو میں بھی صرف تمہارے لیے زندگی گزارتا۔
مگر نہیں۔۔۔ میں نے تو اپنا دل ہر نامحرم عورت کے لیے کشادہ کررکھا تھا اور یہ سب اُسی کی سزا ہے۔
پتہ نہیں ہم مرد یہ دوغلا پن کیوں کرتے ہیں نیک اور پاک دامن عورت کی خواہش کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کسی کی خواہش ہیں۔
میں تمہارے قابل نہیں ہوں سعدیہ۔۔۔ تم مجھے معاف کردو۔”
وہ ملامت کرتے ہوئے دوسری طرف مڑا۔
”معافی اپنے اللہ سے مانگو حاشر، ایک بار سچے دل سے معافی مانگ لو وہ ضرور معاف کردے گا۔۔۔ بلکہ نہ صرف معاف کرے گا تمہاری ہر مشکل آسان کردے گا۔”
وہ دونوں آنکھوں میں آنسو لیے اپنا اپنا درد بیان کررہے تھے کہ کچھ جلنے کی بو آنے لگی۔
سعدیہ کیچن میں بھاگی جہاں انڈہ جل چکا تھا، فریج میں ایک ہی انڈہ تھا اور وہ بھی جل چکا تھا۔
ڈبل روٹی اور پانی میز پر سجائے وہ پرُسکون ناشتے کی میز پر حاشر کا انتظار کررہی تھی۔ اُن دونوں کے لیے ایک دوسرے کی موجودگی ہی اس قدر معنی رکھتی تھی کہ بڑی خوشی سے ایک دوسرے سے نظریں ملائے ہوئے وہ سادی ڈبل روٹی کھا رہے تھے۔
…٭…