”مگر حاشر ایک شرط پر۔۔۔ تمہیں یہ سب چھوڑنا ہوگا” وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔
”کاش کہ یہ سب کچھ میرے بس میں ہوتا” وہ مایوس کھڑا تھا۔
وہ مایوس کھڑا تھا۔
”اب مجھے جانا ہوگا” حاشر نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
سعدیہ ہکی بھکی کھڑی رہی، وہ بے بس کر بھی کیا سکتی تھی۔
وہ کچھ قدم آگے جاکر پھر سے واپس مڑا۔
”میں تمہیں ایک بات بتا دینا چاہتا ہوں۔” سعدیہ سننے کے لیے تیار کھڑی تھی مگر وہ کیا جواب نہ دے پائی۔
”میں جانتا ہوں میں اپنے والدین کے کہنے پر تم سے شادی کرنے والا تھا مگر تم مجھے بہت اچھی لگتی تھی، میری ٹائپ کی لڑکیوں سے میں صرف دوستی کرتا تھا مگر بیوی کے روپ میں صرف میں نے تم کو دیکھا تھا۔ تم سے زیادہ تمہارے کردار سے محبت تھی مجھے۔۔۔ مگر میں تمہیں کبھی احساس ہی نہیں دلا پایا کہ مجھے تم سے کِس قدر محبت ہے۔
شاید اس لیے کہ میں جانتا تھا کہ تم تو صرف میری ہو، تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ مگر وقت نے مجھے بہت اچھی طرح بتا دیا ہے کہ وہ کسی سے بھی کچھ بھی چھین سکتا ہے۔” اُس کی آنکھوں میں نمی تھی، نظریں چرائے ہوئے وہ تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
سعدیہ ساکت کھڑی رہی، پتہ نہیں اُسے خوش ہونا چاہیے تھا یا اُداس۔۔۔ وہ اتنی بڑی حقیقت جان کر اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی۔ پتہ نہیں وہ دن عجیب سا تھا، اُسے اُن الفاظ پر یقین نہیں ہورہا تھا۔
”کیا حاشر نے بھی کبھی مجھ سے محبت کی تھی” وہ اپنے آپ سے سوال کرنے لگی۔
وہ پاس پڑے بینچ پر بیٹھ گئی، چادر پوری کُھل چکی تھی اور ایک پَلو زمین سے جڑنے لگا، بال بار بار ہوا کے جھونکوں سے اُڑنے کی کوشش کررہے تھے اور وہ کسی گہری سوچ میں گُھم تھی۔
کچھ وقت گزرا اور اُس نے زارو قطار رونا شروع کردیا، اُس کی آزمائشیں کڑی سے کڑی ہوتی جارہی تھیں۔
”کیا وہ میری قسمت میں ہی نہیں؟” منہ آسمان کی طرف کرکے وہ زارو قطار رو رہی تھی۔
”اگر نہیں میری قسمت میں تو میری زندگی کا حصہ کیوں ہے وہ؟” روتے روتے اپنے رب سے اپنی بے بسی کا اظہار کرنے لگی۔
جب میسر نہیں حقیقت میں
سر پہ میرے سوار سا کیوں ہے
…٭…
گھر آتے ہی وہ اماں سے چھپ کر الماری کا سامان نکالنے لگی، کپڑوں کی نیچے والی تہہ سے ایک لفافہ ملا جس میں ماں نے سونے کی کچھ چیزیں بنوا کر رکھی تھیں تاکہ بیٹی کی شادی پر کام آسکیں۔
”ان چیزوں کی قیمت کتنی ہوگی” سعدیہ ہاتھ لگاتے ہوئے منہ میں بلبلائی۔
ماں کی آہٹ سُن کر اُس نے سارا سامان واپس الماری میں رکھا۔
…٭…
”ابا ماموں نے میری فیس نہیں بھیجی!” باپ کے گھر آتے ہی اُس نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔
”بھیج دیں گے بھیج دیں گے” باپ نے آہستہ سے جواب دیا۔
”ابا اس بار فیس میں خود جمع کروا دوں گی” وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
”کیوں؟” باپ نے گھورتے ہوئے پوچھا۔
”ابا میں بس آپ کے لیے ہی کہہ رہی تھی، آپ کہاں گرمی میں چکر لگاتے پھرو گے۔”
”پہلے بھی تو کرواتا ہوں بیٹا۔۔۔ اس بار بھی کروا دوں گا” باپ مسکرایا۔
”نہیں ابا۔۔۔ میں مریم کے ساتھ کروا دوں گی، یونیورسٹی کے سامنے ہی تو بینک ہے۔”
”اچھا تم ہی کروا لینا۔۔۔ اماں کہاں ہے تمہاری؟” ”وہ تو اندر کمرے میں ہیں” اُس نے جواب دیا۔
…٭…
سعدیہ دن رات بس ایک ہی سوچ میں گُھم تھی کہ کسی طرح وہ حاشر کو اس دلدل سے نکال دے۔
”میں حاشر کو اس طرح نہیں دیکھ سکتی” وہ منہ میں بلبلائی۔
”میں کیا کروں؟۔۔۔ کیسے واپس لے آؤں اُسے” آنکھوں میں نمی چھپائے وہ بلبلاتی رہی۔
…٭…
نمازِ فجر پڑھنے کے بعد وہ پھر سے سو گئی۔کچھ ہی دلیر میں نیند گہری ہوگئی۔
اُس نے خواب میں دیکھا کہ وہ لہنگا پہنے ہوئے دلہن بنی بھیڑ میں کھڑی ہے، اپنے چاروں طرف دیکھ رہی تھی، جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو مگر اپنے اِردگرد انجان لوگوں کو دیکھ کر گھبرانے لگی اور لہنگا اُٹھاتے ہوئے ننگے پاؤں بھاگنے لگی۔
بہت دور جاکر اُس نے دیکھا کہ حاشر بھی اُس کے ساتھ بھاگ رہا تھا، کچھ آگے جاکر وہ دونوں ہاتھ پکڑ کر بھاگنے لگے اور اُن دونوں کے پیچھے ایک کالا، لمبا سانپ ڈسنے کے لیے بھاگ رہا تھا۔
آہستہ آہستہ حاشر کا سانس پھولنے لگا اور وہ رُک گیا۔
سعدیہ بار بار چیختے ہوئے حاشر سے کہہ رہی تھی۔ ”حاشر بھاگو۔۔۔ وہ سانپ تمہیں ڈس لے گا” حاشر نے سعدیہ کی آواز سُن کر پھر سے بھاگنا شروع کیا، آگے جاکر کسی چیز سے ٹکرا کر حاشر نیچے گِرا اور سانپ اُس کو ڈسنے ہی والا تھا کہ سعدیہ نے پیچھے سے ہاتھ مارتے ہوئے اُسے نیچے گِرایا اور حاشر کا ہاتھ پکڑ کر پھر سے بھاگنے لگی۔ وہ دونوں تیز تیز بھاگ رہے تھے کہ دور سے خانہ کعبہ نظر آنے لگا۔
ابھی بھی سانپ اُن دونوں کا پیچھا کررہا تھا جیسے جیسے وہ خانہ کعبہ کے قریب جارہے تھے ویسے ویسے سانپ کی رفتار سست ہونے لگی، کچھ دیر بعد سانپ غائب ہوگیا اور سعدیہ حاشر کا ہاتھ پکڑ کر طواف کرنے لگی۔
کچھ ہی دیر میں سعدیہ کی آنکھ کُھلی، اُس کی سانس پھول چکی تھی، اُٹھ کر تیزی سے اُس نے پانی کا گلاس بھرا اور پینے لگی۔
”یہ کیسا خواب تھا؟” وہ اپنے آپ سے سوال کرنے لگی۔
پورا دن وہ اس خواب کے بارے میں سوچتی رہی کہ آخر دن کے آخری پہر میں اُس نے اللہ پر بھروسہ کرتے وہئے فیصلہ کیا کہ وہ حاشر سے نکاح کرلے گی۔
…٭…
”کچھ پیسوں کا انتظام ہوگیا ہے” سعدیہ نے حاشر کو فون ملایا۔
”ٹھیک ہے میں کل یونیورسٹی میں اُسی جگہ ملوں گا”
…٭…
اپنی فیس اور سونے کی کچھ چیزیں گھر سے چراتے ہوئے وہ گھر سے نکل گئی۔
حاشر اپنی یونیورسٹی کے بینچ پر بیٹھا اُس کا انتظار کررہا تھا۔
”یہ لو حاشر! یہ کچھ رقم اور سونے کی چیزیں ہیں جو اماں نے میرے لیے بنوا کر رکھی تھیں۔”
اُس کا انداز مایوس کن تھا۔
”بہت شکریہ سعدیہ۔۔۔ میں تمہارا احسان مند رہوں گا” اُس نے شکرکا کلمہ پڑا۔
”تم اِن لوگوں کے بارے میں پولیس کو اطلاع کیوں نہیں کرتے” سعدیہ غصے میں چلائی۔
”خاموش!۔۔۔ اس بارے میں کبھی سوچنا بھی مت۔۔۔ ورنہ وہ لوگ تشدد کریں گے یا قتل کروا دیں گے” اُس نے راز داری سے ڈرتے ہوئے سعدیہ کو بتایا۔
سعدیہ خوفزدہ ہونے لگی۔
”میں اپنے سامنے اس طرح کے لوگوں پر ظلم ہوتے دیکھ چکا ہوں۔۔۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں” وہ مایوسی سے بولا۔
”حاشر کسی کو نہ بتاؤ مگر تم یہ سب چھوڑ دو۔” سعدیہ نے اُس کا ہاتھ پکڑے ہوئے التجا کی۔
”یہ بھی ناممکن ہے۔۔۔ میں اس کا عادی ہوچکا ہوں” اُس نے سعدیہ کے آنسو صاف کیے۔
”حاشر میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ میں پولیس کو یہ سب بتادوں گی” اُس کی آنکھوں میں خون ابتر چکا تھا۔ ”نہیں۔۔۔ تم ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔۔ سعدیہ وہ لوگ بہت خطر ناک ہیں” حاشر چلایا۔
”ٹھیک ہے اگر تم مجھے بچانا چاہتے ہو تو تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہوگا” اُس نے دھمکی دی۔ ”پاگل ہوگئی ہو تم؟ دونوں راستوں پر بربادی ہی ہے سعدیہ۔۔۔ تم اس طرح اپنی زندگی برباد نہیں کرسکتی” وہ ہچکچاتے ہوئے اُس کو گھورتے ہوئے بولا۔
”کل کس نے دیکھا ہے حاشر۔۔۔ تم مجھ سے نکاح کرلو۔۔۔” وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی ”میں بہت خطر ناک Drugs عادی ہوں” ”میری محبت تمہاری ہر عادت کو بدل دے گی” اُس کی آنکھوں میں نمی تھی۔
”عادت محبت سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے سعدیہ” وہ اُس کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔
”مجھے تم سے مدد مانگنی ہی نہیں چاہیے تھی۔”
وہ خود کو ملامت کرتے ہوئے چلایا۔
”اگر تم نے مجھ سے نکاح نہیں کیا تو میں ابھی اور اسی وقت پولیس کے پاس چلی جاؤں گی اور رہی بات میری بربادی کی تو اُس کے ذمہ دار صرف تم ہوگئے۔” اُس کی آنکھوں میں جرأت اور نفرت خوب جھلک رہی تھی۔
”سعدیہ تم بہت برُا کررہی ہو اپنے ساتھ” وہ ڈرتے ہوئے بولا۔
”نہیں دیکھ سکتے نہ مجھے اس طرح مرتے ہوئے۔۔۔ تو مجھے دیکھو حاشر! میں کس طرح تمہیں اس دلدل میں جانے دوں” وہ روتے ہوئے بولی۔
”میں اس دلدل میں جا چکا ہوں۔ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی؟” وہ چلایا۔
”میں وعدہ کرتی ہوں حاشر! میں کسی کو اس بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گی بس تم مجھ سے نکاح کرلو۔”
”نہیں سعدیہ! میں یہ سب نہیں کرسکتا۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی، کس طرح تڑپ تڑپ کر رات گزرتی ہے میری” وہ روتے ہوئے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔
”میں نے آج تک بہت کچھ برداشت کیا ہے، میں یہ بھی برداشت کرلوں گی” سعدیہ ایک بار پھر التجا کی۔
”نہیں سعدیہ۔۔۔ یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔۔۔ نہ رہنے کو کوئی مستقل جگہ۔۔۔ نہ کِھلانے کو کچھ۔۔۔ اور میرا وجود ایک ٹوٹے پھوتے ویران مکان کی مانند ہے۔
بتاؤں کس طرح نکاح کرلوں تم سے” اُس کا انداز مایوس کن تھا۔
”مجھے کچھ نہیں چاہیے حاشر۔۔۔ مجھے میرے خدا پر پورا یقین ہے وہ نکاح جیسے مقدس رشتے کا مان رکھے گا” وہ حاشر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
حاشر بہت حیرانگی اور شرمندگی سے اُس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہی ہوگا حاشر!” اپنا سر اُس کے سامنے جھکائے وہ زارو قطار رونے لگی۔
حاشر اپنے آپ کو بے بس اور بے یارو مددگار محسوس کررہا تھا، وہ جانتا تھا کہ سعدیہ کے لیے ہر راستہ ہی خطر ناک ہوگا۔
ناچاہتے ہوئے بھی اُسے سعدیہ کی بات ماننی پڑی، اُسے اُن خطرناک لوگوں سے بچانے کے لیے اُس نے نکاح کے لیے ہاں کردی۔
وہ اس بات سے تو واقف تھا کہ سعدیہ اُس کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔
سعدیہ نے حاشر ا ہاتھ پکڑا اور اپنی بات منواتے ہوئے اُسے گھر لے آئی۔