سونے کی ڈَلی
سیما صدیقی
چور اُسے گھسیٹتے ہوئے جھاڑیوں میں لے گئے تھے۔
بخشو ایک محنتی کسان تھا۔ اس کا ایک چھوٹا سا کھیت تھا، جس میں وہ کبھی سبزی اُگاتا تو کبھی اَناج۔ فصل تیار ہوجاتی تو شہر جا کر فروخت کر آتا۔ جو پیسے ملتے اِس سے مہینے کا راشن اور نئی فصل کے لیے بیج اور کھاد خرید لیتا۔ کبھی کبھی اس کی فصل بہت اچھی ہوتی تو اِسے زیادہ پیسے مِل جاتے۔ ان پیسوں سے وہ اپنے اور اپنی بیوی کے کپڑے یا جوتے خرید لیتا۔
اس کا مکان کچا تھا، جس کی چھت میں بہت سارے سُوراخ ہوگئے تھے۔ نئی چھت بنوانے کے لیے ڈھیر سارے پیسوں کی ضرورت تھی۔ بخشو کی بیوی ”گلابو” بڑی عقل مند تھی۔ اس نے بخشو سے کہا: ”کیوں نہ ہم ایک بڑی سی گُلّک خرید لیں اور ہر ماہ اس میں تھوڑے تھوڑے پیسے ڈالتے رہیں، جب گلّک بھر جائے تو اِن پیسوں سے نئی چھت بنوا لیں۔”
بیوی کے مشورے سے بخشو گُلّک خرید لایا اور دونوں نے اس میں پیسے جمع کرنے شروع کردیے، کافی دِن گزر گئے مگر ابھی تک گُلّک آدھی ہی تھی۔
ایک دِن کسان بیج بونے کے لیے زمین کھود رہا تھا کہ اچانک اسے ایک چمک دار چیز نظر آئی۔ بخشو نے اِس پر سے مٹی صاف کی اور دیکھا تو وہ ”سونے کی ایک ڈَلی” تھی۔ خوشی کے مارے بخشو کا برُا حال ہوگیا۔ وہ بھاگا بھاگا گھر آیا اور بیوی کو سونے کی چَم چَم کرتی ڈلی دکھائی۔ گلابو بھی بہت خوش ہوئی۔ ”تمہیں اس سے سونے کی بالیاں بنوا کر دوں گا۔” بخشو نے کہا۔
”نہیں! اس سے ہم مکان کی چھت بنوائیں گے۔” گلابو نے کہا۔
”چھت بنوانے کے بعد بہت سارے پیسے بچ جائیں گے۔” بخشو نے وضاحت کی۔ اس رات خوشی کے مارے دونوں کو نیند نہ آئی۔
شہر جانے کے لیے مہینے میں صرف ایک بس گاؤں سے چلتی تھی۔ اب بخشو کو انتظار تھا کہ کب بس روانہ ہو اور کب وہ شہر پہنچے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس کے پرَ لگ جاتے اور وہ اُڑ کر شہر پہنچ جاتا۔ اس دوران کسان نے نہ کھیتوں میں ہَل چلایا نہ بیج بویا۔ اس نے سوچا کہ اب تو میں اَمیر آدمی بن گیا ہوں۔ اتنی مصیبت اُٹھانے کی کیا ضرورت؟
آخر کار بس روانہ ہونے کا دن آپہنچا۔ بخشو سفر کے لیے تیار ہوا۔ سونے کی ڈلی اس نے اپنی پگڑی میں چُھپائی اور بس میں سوار ہوگیا۔ جب وہ شہر پہنچا تو بارش شروع ہوگئی۔ بارش سے بچنے کے لیے وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی بڑھ گئی تھی۔ بخشو کی پگڑی بھی پانی سے بھیگ گئی۔ اس نے پگڑی اُتار کر نچوڑی پھر سونے کی ڈلی کو دیکھنے لگا۔ ڈلی خوب چمک دمک رہی تھی۔ اتفاق سے وہیں جھاڑیوں میں دو چور چُھپے تھے۔ اُنہوں نے بخشو کے ہاتھ سونے کی ڈلی دیکھی تو فوراً اس کی طرف لپکے۔ چوروں نے پیچھے سے جَھپٹ کر اسے پکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئے جھاڑیوں کے اندر لے گئے۔ کانٹوں سے اُلجھ کر بخشو کے کپڑے پھٹ گئے، اُس کے جسم سے خون بھی نکلنے لگا۔ چوروں نے بخشو کے ہاتھ پاؤں باندھے اور سونے کی ڈلی لے کر بھاگ گئے۔ بخشو بے چارا چیختا ہی رہ گیا۔
اتفاق سے وہاں ایک نیک دِل آدمی کا گزر ہوا تو اس نے بخشو کورسی سے آزاد کیا۔ ہسپتال لے جا کر مرہم پٹی کرائی اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر گاؤں پہنچا دیا۔ بخشو کی بیوی نے اس کی یہ حالت دیکھی تو رونے لگی، پھر اس نے خود کو سنبھالا اور صبر سے اس کی دیکھ بھال کرنے لگی۔
بخشو کے زخم ٹھیک ہونے میں ایک ماہ لگ گئے۔ جب وہ ٹھیک ہوا تو گلابو نے بتایا کہ گھر میں کھانے پینے کا تمام سامان ختم ہوگیا ہے۔
”آہ! مجھ سے کتنی بڑی بھول ہوئی، میں نے اِس بار کوئی فصل نہیں اُگائی، اب کیا ہوگا؟ ہم کیا کھائیں گے؟” بخشو بے چارا افسردہ ہوگیا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ دونوں میاں بیوی سَر پکڑ کر بیٹھے تھے کہ اچانک گلابو خوشی سے چلاّئی۔
”ارے! ہم اپنی گُلّک کو تو بھول ہی گئے۔ جس میں ہم نے تھوڑے تھوڑے کرکے بہت سے پیسے جمع کیے تھے۔” یہ کہہ کر وہ بھاگی اور گُلّک اُٹھا لائی اور اِسے توڑ دیا۔ بہت سارے تُڑے مُڑے نوٹ اور چمک دار سکّے فرش پر بکھر گئے۔
گلابو نے کہا: ”ہم ان پیسوں سے مہینے کا خرچ چلا لیتے ہیں اور پھر جب تم فصل اُگاؤ گے تو ایک نئی گُلّک خرید کر چَھت کے لیے دوبارہ رقم جمع کریں گے۔” یہ سُن کر بخشو کی جان میں جان آئی۔ اس نے اللہ کا شکر اَدا کیا کہ گُلّک جیسی کام کی چیز ان کے پاس موجود تھی۔ جس میں جمع کی ہوئی رقم برُے وقت میں ان کے کام آرہی تھی۔ بخشو نے اپنی بیوی کو دیکھا اور ہنس کو بولا: ”بھئی واہ! یہ مَٹی کی گُلّک تو سونے کی ڈَلی سے زیادہ کام کی ہے۔”
”ہاں بالکل! آئندہ بھی ہم لالچ کے بجائے محنت ہی سے کمائیں گے۔” گلابو یہ کہہ کر پیسے گننے لگی۔
٭…٭…٭