روشن چہرہ
تنزیلہ یوسف
دانیال بیٹا! تمہاری دوسری خواہش بھی پوری ہوئی۔
بابا جی مسکرائے۔
”ہے کوئی سخی! جو مجھ اندھے کو سڑک کے اُس پار لے جائے اور بدلے میں اپنی دو خواہشیں پوری کروائے؟” سڑک کنارے کھڑے باباجی صدا لگارہے تھے مگر کوئی بھی ان کی صدا پر کان دھرنا گوارا نہیں کررہا تھا۔ دانیال اسکول جارہا تھا۔ وہ سڑک پار کرنے لگا تو اس کے کانوں سے یہ صدا ٹکرائی۔
”ہے کوئی سخی! جو مجھ اندھے کو سڑک کے اُس پار لے جائے اور بدلے میں اپنی دو خواہشیں پوری کروائے؟”
دانیال نے حیرت سے باباجی کو دیکھا۔ اسی دوران باباجی نے پھر صدا لگائی۔ دانیال نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھاما اور بولا: ”آئیے باباجی! میں آپ کو سڑک کے اس پار لے جاؤں۔”
”جیتے رہو میرا بچہ!” باباجی نے بے اختیار دعا دی۔
دانیال نے اپنے دائیں طرف دیکھا پھر اشارہ بند پاکر سڑک پار کرلی۔
”لیجیے باباجی! آپ سڑک کے اس پار آگئے۔ مجھے اجازت دیں میں اسکول جاؤں۔” دانیال نے باباجی سے اجازت چاہی۔
”ارے ایسے کیسے میرا بچہ! ابھی تو مجھے تمہاری دو خواہشیں پوری کرنی ہیں۔” باباجی نے یاد دلایا۔
”اوہ میں تو بھول ہی گیا۔” دانیال کو یک دم یاد آیا۔ ”لیکن باباجی! مجھے اسکول کے لیے دیر ہورہی ہے۔” اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ پاس ہی تو ہے اسکول، پھر کیوں دیر ہورہی ہے؟” باباجی نے اپنی لاٹھی سے بائیں جانب اشارہ کیا۔
”ارے! آپ کو کیسے معلوم ہے بابا جی؟ میرا مطلب کہ آپ تو دیکھ ہی نہیں سکتے۔” دانیال نے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا۔
”جو دیکھ نہیں سکتے ان کے کان کُھلے ہوتے ہیں۔ بچوں کے شور کی آواز ادھر سے ہی تو آرہی ہے۔” باباجی دانیال کو سمجھاتے ہوئے بولے۔
”آئیں ادھر بنچ پر بیٹھیں۔ میں آپ کو اپنی دو خواہشیں بتاتا ہوں۔” دانیال نے ہاتھ پکڑ کر انہیں بٹھایا: ”ہاں بھئی جلدی بولو! ایسا نہ ہو کہ اسکول کا وقت شروع ہوجائے۔”
”باباجی! میری پہلی خواہش یہ ہے کہ آپ مجھے روشن پاکستان کی خیالی تصویر دکھائیں۔ میرا ہم جماعت وسیم پاکستانی قوم کو ہر وقت طعنے دیتا ہے۔” دانیال نے کہا۔
”بھئی میں تمہیں روشن پاکستان کی خیالی نہیں بلکہ عملی تصویر دکھاتا ہوں۔” بابا جی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہ دیکھو!” باباجی نے کہا تو دانیال کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آیا پھر سامنے ایک سکرین روشن ہوئی اور اس پر کچھ چلنے لگا۔
”یہ کیا ہے باباجی؟” دانیال کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
”خود ہی دیکھو مثالی پاکستان کا روشن چہرہ!”
سکرین پر ٹریفک جام کا منظر تھا۔ مغرب کی اذان ہوئی تو کچھ لوگ ٹریفک میں پھنسے لوگوں میں پانی کی بوتلیں تقسیم کررہے تھے۔ اگلا منظر اس سے بھی بڑھ کر تھا۔ سڑک کنارے ایک بڑی سی گاڑی کھڑی تھی۔ اس میں کھانے کی اشیا تھیں۔ گاڑی کے پاس کھڑے کچھ لوگ راہ گیروں میں ڈبے تقسیم کرتے جارہے تھے۔ منظر بدلا اور ایک ویران سڑک کے کنارے ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے کولر تھوڑے تھوڑے سے فاصلے پر نصب دکھائی دیے۔
اگلا منظر ایک بڑے ہسپتال کا تھا۔ پاس ہی سڑک پر ایک حادثہ ہوا تھا۔ زخمیوں کے لیے خون کا عطیہ دینے والوں کی بڑی تعداد اپنی باری کی منتظر تھی۔
”یہ تو صرف پاکستان کے ایک شہر کی ہلکی سی جھلک ہے۔ میرے پاکستان کا چہرہ اس سے کئی گنا زیادہ روشن ہے۔ یہاں اگر ایدھی جیسے بوڑھے، لاوارث بچوں کو گود لیتے ہیں، لاوارث لاشیں دفناتے ہیں، یتیموں کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہیں، وہیں حماد صافی، ایّان قریشی، بابر اقبال اور ارفع کریم جیسے بچے اس ملک کا مستقبل روشن کیے ہوئے ہیں۔ جنگ ہو یا امن، مشکل پڑنے پر پاکستانی قوم یک جان نظر آتی ہے۔” باباجی کی آواز میں جوش نمایاں تھا۔
”زبردست بابا جی! اور میری دوسری خواہش؟” دانیال پُر جوش انداز میں بولا۔
”ہاں بھئی جلدی بولو اپنی دوسری خواہش۔” باباجی نے دوسری خواہش پوچھی۔
”میری دوسری خواہش ہے کہ پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن جائے۔” دانیال نے جلدی سے کہا۔
”یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔” باباجی دھیمے انداز میں مسکرائے۔
”وہ کیسے؟” دانیال حیرانی سے بولا۔
”وہ ایسے کہ جب تک پاکستان کا نصیب تم جیسے ہونہار بچے ہیں، پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دیکھنا! تم جیسے بچوں کی وجہ سے آئندہ چند سال میں پاکستان صفِ اول کے ترقی یافتہ ممالک میں کھڑا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔” بابا جی نے کہا۔
”آہا! میرے روشن پاکستان کا مثالی چہرہ! یہ چہرہ ہم پوری دنیا کو دکھا کر دم لیں گے۔” دانیال نے پُر جوش انداز میں کہا۔
”ان شاء اللہ…” بابا جی نے مسکرا کر کہا تو دانیال اسکول کی طرف روانہ ہوگیا۔
٭…٭…٭