داستانِ محبت — ندا ارشاد

نواں باب
ایک سال بعد…
وہ ایک سال سے امریکہ میں تھی۔ لالہ صاحب کی خاطر امید کی جو ڈور اس نے خود سے باندھ رکھی تھی وہ جب بھی کمزور پڑتی’ تو کسی کے الفاظ اسے دوبارہ زندگی کی طرف لے آتے۔
”ہماری ونڈر لیڈی جتنی بہادر دکھتی ہے اس سے کہیں زیادہ بہادر ہے۔” اور پھر ونڈر لیڈی خود کو بہادری کے تمام سبق یاد کراتی… علاج کے دوران وہ بہت کڑے دور سے گزر رہی تھی۔ کیمو تھراپی کے نتیجے میں اس کے تمام بال جھڑ چکے تھے’ لیکن اب آہستہ آہستہ نئے اُگنے لگے تھے۔ وہ سر پر ہر وقت اسکارف باندھے رکھتی۔ اس کی سرخ و سفید رنگت میں پیلاہٹ آگئی تھی۔ اگر کچھ نہیں بدلا تھا’ تو اس کی گہری بادامی آنکھیں جو اب بھی محبت کی لو میں چمکتی معلوم ہوتیں۔ ہر شام پارک میں بیٹھ کر وہ خود کو آزاد چھوڑ دیتی۔ پھر وہ ہوتی اور اس کے آس پاس مہرداد۔ اس کا انیگری برڈ جو اپنی ونڈر لیڈی کی اوٹ پٹانگ باتیں سن کر مسکراتا رہتا۔ خود میں مگن غرنیق اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ پچھلے کچھ ماہ سے کسی اور کی نظروں کے حصار میں ہے۔
٭…٭…٭




سیف اللہ خود سے بھاگ بھاگ کر تھک چکا تھا۔ سینڈی کی یادیں اور موم سی کی باتیں اسے بے سکون کردیتی تھیں۔ وہ ایک دن انہی سوچوں سے گھبرا کر پارک میں چلا آیا اور پھر وہاں روز آنے لگا۔ کیوں کہ یہاں اسے کوئی اپنے جیسا مل گیا تھا۔ وہ ایک بے حد خوب صورت لڑکی تھی۔ سیف کو اس کی بادامی آنکھوں نے بے حد متاثر کیا۔ اس کی آنکھوں میں اسے وہی درد محسوس ہوتا جو اس کی اپنی آنکھوں میں تھا جو عائشہ کی خاموش نگاہوں میں تھا۔ وہ درد تھا محبت سے بچھڑ جانے کا۔ کسی اپنے سے دوری کا۔ وہ لڑکی اسے پہلے ہی دن ذرا کمزور نظر آئی تھی۔ یہ پارک ہسپتال کے پاس تھا۔ اس لیے وہاں اکثر مریض شام کے وقت ٹہلنے آ جایا کرتے ۔اس نے اس لڑکی کو بھی ہسپتال سے نکلتے دیکھا تھا’ مگر وہ اس سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا۔ ایک دن اس نے تجسس ختم کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ۔وہ اس کے پاس جانے کے لیے پر تول رہا تھا کہ وہی لڑکی اس کے سامنے آگئی۔
”کیا آپ کے کوئی عزیز یہاں ہسپتال میں داخل ہیں۔” وہ شستہ انگریزی میں پوچھ رہی تھی حالانکہ چہرے سے وہ کوئی غیرملکی معلوم ہوتی تھی۔
سیف نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا وہ یقینا اسی سے مخاطب تھی۔
”جی… جی نہیں میرا گھر قریب ہی ہے۔”
”میں بہت عرصے سے محسوس کررہی ہوں آپ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔” سیف کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
”اسے کیسے پتا چلا۔” وہ بَڑ بَڑایا۔
”آپ کی آنکھوں میں چھپے قرب سے۔ آپ یقینا یہی سوچ رہے ہوں گے مجھے کیسے پتا چلا۔” اس کی بات پر وہ شرمندہ سا ہوکر مُسکرایا ۔
”وہ… آپ کو کب سے ایسا محسوس ہوا کہ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”کچھ ہی دن ہوئے، مجھے لگا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے، پھر میں نے محسوس کیا کہ آپ کی حالت اور میری حالت میں کچھ تو مماثلت ہے’ آپ کی آنکھیں بہت بولتی ہیں۔”
”جی میں آپ کو پچھلے چھے مہینے سے دیکھ رہا ہوں۔ آپ بُرا نہ مانیے میں کوئی غلط شخص نہیں ہوں۔ آپ نے ٹھیک کہا مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ ہمارے حالات میں کچھ تو مماثلت ہے۔”
”میرا نام رونلڈ ویلبر ہے۔ میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں انجینئر ہوں۔”
”اچھا! میں غرنیق شاہ ہوں یہاں کی رہائشی نہیں ہوں، میرا وطن پاکستان ہے۔”
”کیا ہوا؟ کیا آپ کو میرا نام پسند نہیں آیا؟” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں ایسی بات نہیں آپ کا نام اچھا ہے بس یونہی مجھے لگا۔ خیر آپ سے مل کر خوشی ہوئی مسٹر رونلڈ ویلبر۔”
”مجھے بھی، آپ بُرا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟”
”جی ہاں ضرور۔”
”کیا آپ بیمار ہیں۔ اتنا تو پتا ہے کہ آپ بیمار ہیں میرا مطلب کہ کیا مرض ہے آپ کو؟”
”مجھے بلڈ کینسر ہے۔ ”وہ اس کی بات پر مُسکرا کر بولی۔
سیف نے تاسف سے اس لڑکی کو دیکھا جو بہ مشکل چوبیس پچیس سال کی تھی اور کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا تھی۔
”آپ بہت باہمت ہیں۔” وہ بس یہی کہہ پایا تھا۔
”مجھے پہلے بھی کسی نے ایسا کہا تھا، اب تو اسی ہمت کا سہارا ہے۔”
میں اجنبی ہوں، مگر میرا یقین کریں میںآپ کا درد محسوس کرسکتا ہوں۔ آپ مجھ پر بھروسا کرسکتی ہیں۔” اس کی آنکھوں میں سچائی کی رمق تھی۔ غرنیق کو ایک مخلص دوست مل گیا ۔ پھر وہ اسے روزانہ پارک میں ملنے لگا۔ سیف اس سے ہلکی پھلکی باتیں بھی کرلیتا۔ غرنیق بھی اس کی بہت عزت کرتی تھی۔
٭…٭…٭
چاند کی شہزادی نے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ تمام باندھیاں اور سہیلیاں بھی اس کی بگھی کے ساتھ تھیں۔ شہزادی پائوں تک اچھوتے سفید مخملی لباس میں تھی۔ سر سے ذرا اوپر سفید ہالہ تھا جو شہزادی کی حفاظت کرتا تھا۔ مختلف ستاروں اور سیاروں کے راجا رانیوںسے ملاقات کے بعد شہزادی اپنی منزل تک پہنچ گئی تھی’ مگر منزل جتنی قریب تھی اتنی ہی دور بھی۔ سورج کے شہزادے تک رسائی آسان نہ تھی۔ ہر طرف آگ کے دریا تھے۔ ان دریائوں میں آگ کے شیطان اپنی تمام تر بدصورتی کے ساتھ موجود تھے۔ یہ منظر بہت ہول ناک تھا۔ کہانی ذرا مختلف تھی۔ اب کی بار شہزادی کو شہزادے تک پہنچنا تھا۔ اس کا واحد سہارا وہ بے انتہا نازک پل تھا جسے پار کرکے وہ سورج کے شہزادے تک جاسکتی تھی’ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ شہزادی کو پل آنکھ بند کرکے پار کرنا تھا۔ پل دونوں اطراف سے کھلا تھا۔ ذرا سی غلطی شہزادی کو اس کے شہزادے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور کرسکتی تھی۔ معاملہ بے حد سنگین تھا۔ فاصلہ کم تھا’ مگر دوری بڑھ سکتی تھی اور گھٹ بھی سکتی تھی۔
٭…٭…٭




وہ بدل گئی تھی۔ یہ وہ نہیں اس کی سکھیاں کہا کرتی تھیں۔ محبت یوں ہی انسان کا سراپا بدل دیتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ وہ اپنے گائوں کی جان تھی۔ جب ہنستی تو یوں لگتا ایک دنیا خوش ہے اور جب اُداس ہوتی تو ہر طرف ویرانی محسوس ہوتی۔ اس کے ہاتھ سے بنے پکوان گائوں بھر میں مشہور تھے۔ مشہور کیوں نہ ہوتے وہ ہر کام دل سے جو کرتی تھی اور دل سے کیے گئے کام تو دلوں کو جیت ہی لیتے ہیں ناں۔ وہ بھی ایسی ہی تھی۔ دلوں کو جیت لینے والی سویرا جہانگیر اپنی اماں بی اور بڑی دادی کی لاڈلی تھی۔ وہ تھی بھی بہت خوب صورت شلوار قمیص اور پراندہ باندھے گائوں کی سب سے حسین مٹیاروں کو پیچھے چھوڑ تی تھی۔ دن بھر حویلی میں بھاگ دوڑ کرتی رہتی۔ کبھی یہ کام تو کبھی وہ۔ اسے اپنے خدا اور اس کے رسولۖ سے بہت محبت تھی اور یہی محبت اس کے بدلنے کی وجہ تھی۔ بچپن کی سویرا اور آج کی سویرا میں زمین آسمان کافرق تھا۔ کہاں وہ نک چڑھی سی بچی اور کہاں ذمے دار، سمجھ دار اور نیک دل لڑکی۔
”بڑی دادی کھانا تیار ہے آپ سب آجائیں۔” اس نے کچن سے آواز لگائی اور پھر کھانے کی میز پر کھانا چن دیا۔ قیمے کے کباب، پھلا چپاتی اور رائتہ بڑی دادی کا پسندیدہ کھانا تھا۔ کھانا دیکھ کر بڑی دادی خوش ہوگئیں۔
”جیتی رہو میری بچی، اللہ تمہیں ہر خوشی سے نوازے۔” بڑی دادی نے اسے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
”بڑی دادی آج عشاکی نماز کے بعد ہم علی احمد سے مل آئیں۔ وہ دراصل بڑے دن ہوگئے نا مجھے اسے دیکھے’ تو میں نے سوچا ہم دونوں آج چلیں گے۔”
”ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو، ٹھیک ہے آج چلیں گے۔” بڑی دادی جانے کے لیے مان گئی’ سویرا بہت خوش تھی۔
٭…٭…٭
آج اس نے اپنی داستانِ محبت کا وہ حصہ سیف کے ساتھ شیئرکیا جس کے بارے میں اس کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ یہ بات صرف وہ جانتی تھی یا اس کا دل۔ سیف نے اس کی بات سنتے ہوئے ایک منٹ کے لیے بھی نظریں اس کے چہرے سے نہیں ہٹائیں۔
”تو تم امید پر یقین رکھتی ہو؟” بات کے اختتام پر اس نے استفسار کیا تھا۔
”مطلب…؟”
”میرا مطلب ہے کہ تمہیں اُمید ہے کہ تمہاری اُمید نہیں ٹوٹے گی۔” اس کی بات سمجھ کر وہ بولی تھی۔
”کوئی بھی کام بہترین امیدوں کے ساتھ سرانجام دینا چاہیے اور ساتھ ہی کسی خلاف توقع نتیجے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔”
”تو تم نتیجے کے بارے میں سوچتی ہو؟”
ہاں! مگر میں پہلے ایسی نہیں تھی۔ میں کریپ ڈیم crape diemپر یقین رکھتی تھی۔
”crape diem!! کیا یہ کوئی اردو لفظ ہے؟”
”نہیں یہ لاطینی کہاوت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کے رنگوںکو جی بھر کے جی لو اور کل کے بارے میں مت سوچو۔” مگر میں نے کل کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ جب سے میرا اینگری برڈ میری زندگی میں آیا۔” وہ ہنس کر بولی ۔
”مگر امید جتنی بڑی ہے مایوسی بھی اتنی ہی بڑی ہوسکتی ہے۔” وہ ابھی تک وہیں اٹکا ہوا تھا۔
”امید زندگی کا لنگر ہے۔ اس کا سہارا چھوڑ دینے سے انسان کی کوششیں گہرے پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔” زندگی کے سفر میں اگر امید کے پھول نہ ہوں’ تو زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ امید ہی تو زندگی کی تاریکیوں میں جگنوئوں کے مانند ہمیں راستہ دکھاتی ہے۔ میں نے یہ جگنو تھام لیے ہیں اور مجھے تاریکی چھٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔”
”میں نے جان لیا ہے کہ میرے رب نے اس آزمائش کے لیے میرا انتخاب کیا ہے اور وہ تو اپنے پسندیدہ بندوں ہی کو آزماتا ہے’ تو پھر ناامیدی کیسی؟ گلہ کیسا؟ آج مجھے معلوم ہے کہ وہ ہی مجھے ان اندھیروں میں راستہ دکھائے گا۔”
”میرا نام سیف اللہ رحمن ہے۔ وہ اچانک ہی بیچ میں بول پڑا تھا۔
”کیا؟”
”ہاں… میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔ وہی جھوٹ جو میں نے بہت سے لوگوںسے بول رکھا ہے اور شاید خود سے بھی’ مگر تم سے مل کر میں نے زندگی کے نئے معانی پائے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اللہ کی آزمائش پر اس سے شکوہ کیا۔ اسلام سے دور رہا یہاں تک کہ اپنی پیاری موم سی کا دل بھی دُکھایا’ مگر میں غلط تھا۔ اسلام تو زندگی گزارنے کا قرینہ سکھاتا ہے۔ جہاں امید ہے، روشنی ہے، محبت ہے، رنگ ہے، وہی اسلام ہے۔ میں نے خود کو اندھیروں سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے غرنیق۔” پھر وہ اسے سب بتاتا چلا گیا۔ رحمن بن عوف کا جانا، اس کی محرومیاں، خوب صورتی سے چڑ، سینڈی کا اس کی زندگی میں آکر چلے جانا سب کچھ۔ غرنیق کی صورت میں اسے ایک ہمدرد دوست مل گیا تھا، ایک ساتھی اور ایک غم گسار۔
٭…٭…٭
یہ چھے مہینے بعد کی بات ہے۔ وہ صحن میں بیٹھی کھیر کے لیے چاول چن رہی تھی اور ساتھ بیٹھی سویرا پھل کا ٹ رہی تھی۔
”یہ محبت کس قدر ظالم شے ہے ناں۔” یہ سوال تھا یا تبصرہ غرنیق سمجھ نہ سکی۔ سویرا بول رہی تھی۔
”بڑی دادی کو ہی دیکھ لو۔ ساری عمر بڑے دادا کے ظلم سہے’ لیکن زبان سے ایک لفظ نہ نکالا۔ بڑے دادا کے جاتے ہی پورا خاندان بکھر گیا’ مگر بڑی دادی آج بھی سب کو کس قدر چاہتی ہیں۔ ان سب کو جو، انہیں اکیلا چھوڑ گئے۔ اگر بھولے بھٹکے سے وہ لوگ انہیں فون کر ہی دیں’ تو کیسے بچوں کی طرح خوش ہو جاتی ہیں۔ اب آج کی دعوت ہی کو دیکھ لو۔ کیسی خوش ہیں وہ ۔”
”محبت انسان کو صبر سکھاتی ہے۔ بڑے دادا چاہے ظالم تھے’ مگر بڑی دادی نے صبر کیا اور پھر اس کا پھل انہیں اللہ نے ایک دن دے دیا۔ بڑے دادا کو اپنی کو تاہیوں کا احساس ہوگیا اور انہوں نے اپنے رویے بدل ڈالے اور رہے باقی سب تو انسان کب تک اپنے اصل سے دور رہ سکتا ہے۔ دیکھنا ایک نہ ایک دن وہ سب بھی اپنے مدار میں واپس آجائیں گے اور پھر ہم دونوں ہیں ناں ان کے ساتھ ہماری محبت ان کے زندہ رہنے کی تمام امنگوں کو جوان رکھتی ہے۔”
”کیا تمہیں کبھی کسی سے محبت ہوئی ہے۔” سویرا نے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
”ہاں مگر میں نے اپنی محبت کھودی۔” غرنیق کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔
”تمہیں ایک بات بتائوں؟” وہ یوں بولی جیسے اس کے پاس بتانے کے لیے کچھ خاص تھا۔
”ہاں بتائو۔”
”محبت کرنا اور اسے کھو دینا محبت نہ کرنے سے بہتر ہے۔” سویرا نے بہت دھیمے انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ کر جو بات کہی وہ اسے محبت کا ایک نیا مفہوم سمجھا گئی تھی۔ ٹھیک ہے اسے محبت نہیں ملی’ مگر محبت جیسا خوب صورت جذبہ کبھی اس کی زندگی کا حصہ تو بنا تھا ناں۔ یہ بات زیادہ اہم تھی، اس کے ذہن میں سویرا کے الفاظ گونجنے لگے۔
٭…٭…٭




اس نے گہرے جامنی رنگ کا کُرتا اور نیچے چمکیلا والا سلور پاجامہ زیب تن کر رکھا تھا۔ سر پر سلور دوپٹا اوڑھے، کانوں میں ہلکے ہلکے ٹاپس اور ہونٹوں پر گلابی لپ سٹک اس پر بہت جچ رہی تھی۔ وہ آج بہت خوش تھی۔ آج لالہ صاحب، سیف اور اس کے والدین آرہے تھے۔ سیف کے والد رحمن بن عوف عائشہ اور سیف سے ملنے آئے تھے۔ وہ بہت عرصے سے انہیں تلاش رہے تھے۔ انہوں نے عائشہ سے اپنے تمام گزشتہ رویوں کی معافی مانگی۔ وہ تمام عمر تنہا رہے، پہلے تو اپنے شوق کے ہاتھوں انہیں وقت نہیں ملا’ مگر جب وقت ملا’ تو کوئی مخلص ہم سفر نہ مل سکی۔ انہیں عائشہ اور سیف کا خیال ہر وقت ستاتا رہتا۔انہیں عائشہ سے محبت تھی’ مگر احساس دیر سے ہوا ۔ عائشہ نے انہیں کھلے دل سے معاف کردیا۔ سیف بھی ان کے گلے لگ گیا اور آج سب غرنیق سے ملنے یہاں پاکستان آرہے تھے۔ ائیرپورٹ پر انہیں لالہ صاحب لینے جا رہے تھے اور وہاں سے وہ اس چھوٹے سے گائوں میں آنے والے تھے جو ساہیوال کے قریب تھا۔ انہی سوچوں میں گم وہ مسکراتی کمرے میں داخل ہوئی’ تو آئینے کے سامنے کھڑی سویرا کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ ہمیشہ سادہ سی شلوار قمیص میں ملبوس رہنے والی سویرا نے گہرے سبز رنگ کا پائوں تک اچھوتا فراک پہنا ہوا تھا جس کے گلے پر تلے کانہایت نفیس کام کڑھا ہواتھا اور ساتھ میں سلور پاجامہ اور سبز دوپٹا۔
” آج تو وہ پہچانی نہیں جارہی تھی۔ آج تو میاں علی احمد کی خیر نہیں۔”
”وہ کیوں؟”
”ارے تم اس قدر خوب صورت جو لگ رہی ہو، ضرور تمہارا ہاتھ مانگ لیں گے۔” غرنیق کی بات پر وہ حیران ہوئی اور پھر مسکراتی ہوئی بولی۔
”یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میاں جی کی بیوی جی آپ بن جائیں کیوں کہ چاند کا ٹکڑا ‘تو آپ بھی لگ رہی ہیں میڈم۔” غرنیق اس کی تعریف پر مُسکرا دی۔ سویرا ایسی ہی تھی، بے حد مخلص اور سمجھ دار۔ جب وہ امریکہ سے پاکستان آئی تو اس کا علاج ابھی پرہیز کی حد تک باقی تھا۔ لالہ صاحب اسے اپنی خالہ کے پاس گائوں لے آئے تھے کیوں کہ غرنیق کے علاج کے دوران وہ بہت عرصہ تک بزنس سے دور رہے۔ اب اتنا سب کچھ کرنے والا تھا دراصل وہ ان دنوں اپنا بزنس سمیٹنے کے چکر میں تھے۔ اسی مصروفیت کی وجہ سے وہ اسے یہاں چھوڑ گئے۔ لالہ صاحب کی خالہ جنہیں سب بڑی دادی بلاتے تھے ان کے ساتھ اُن کی پوتی سویرا جہانگیر رہتی تھی اور ساتھ ہی ایک پرانی خادمہ صفرہ بیگم جنہیں سب اماں بی پکارتے تھے۔ اسے یہاں آئے چار مہینے ہونے والے تھے اور اس دوران سویرا نے اس کا پورا خیال رکھا تھا۔ اب اس کی رپورٹس مکمل طور پر کلیئر آئیں اور وہ اللہ کے بعد لالہ صاحب، سیف اور سویرا کی شکرگزار تھی۔ لالہ صاحب اس کے مشفق والد، ماموں اور دوست تھے۔ جنہوں نے اس کی بیماری کے دنوں میں اپنا کاروبار بالکل چھوڑ دیا تھا۔ سیف جو اس کے بھائی کی طرح تھا جس نے اس کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیا اور سویرا اس کی پیاری بہن اور سکھی جس نے غرنیق کی بے حد خدمت کی۔اتنی ساری محبتیں پاکر وہ خوش تھی ان سب کے علاوہ وہ ایک اور شخص کی ممنون تھی جس کا ایک جملہ اسے یہاں تک لے آیا تھا۔
٭…٭…٭
وہ دونوں جب نیچے آئیں تو بڑی دادی نوکروں سے مخاطب تھیں۔
”ارے جلدی جلدی ہاتھ چلائو مہمان بس آتے ہی ہوں گے۔ سیف سے اس کی بات ہوگئی اور وہ لوگ بس آدھے گھنٹے میں پہنچنے والے تھے۔ باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی تو وہ جلدی سے باہر بھاگی۔ شاید وہ لوگ آگئے۔ گاڑی سے نکلنے والے نے سفید کلف لگی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ ہاتھوں میں گلاب کے پھول پکڑے وہ کسی شہزادے سے کم ہرگز نہیں لگ رہا تھا۔
غرنیق کی تو جیسے سانسیں تھم گئی تھیں۔ جسم وہیں منجمد ہوگئے تھے اور روحیں بے اختیار نکل کر ایک دوجے سے جاملی تھیں۔ ملن کے گیت تھے۔ بہاریں تھیں اور نغمے تھے۔ آسمان سے پریاں اتر آئی تھیں۔ نظارہ ہی اس قدر دل فریب تھا۔ داستانِ محبت کے دو خوب صورت کردار اک دوجے کے سامنے تھے۔ بے اختیاری بڑھی یا کم ہوئی تھی یہ کہنا قبل از وقت تھا۔
کون آیا ہے باہر۔ سویرا کی آواز پر وہ دونوں واپس لوٹے تھے۔ روحیں پلٹ تو آئی تھیں’ مگر نظریں ہنوز وہیں تھیں۔ اک دوجے کے قریب بہت قریب۔
”آپ یہاں’نظروں نے استفسار کیا۔”
”مجھے کہاں ہونا چاہیے تھا۔” جواب فوری آیا تھا۔ ایک دم ہی غرنیق کو اپنی پوزیشن کا احساس ہوا’ اس کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھ کر انہیں چنتا وہ کچن کے دروازے کی طرف بھاگ گئی۔ کچن کا ایک دروازہ باہر صحن میں کھلتا تھا۔ سب کی نظروں سے بچنے کے لیے غرنیق کو وہی جگہ مناسب لگی ۔ وہ پریشان سا اندر داخل ہوا۔
السلام علیکم! بڑی دادی…
”وعلیکم السلام! میرے بچے خوش رہو اللہ تمہیں ہمیشہ آباد رکھے۔ خوشیاں تمہارا مقدر بنیں۔” وہی پرانی عادت ڈھیر ساری دعائوں سے نوازنا اسے ان کی یہ عادت بے حد پسند تھی۔
”آہم… السلام علیکم! علی احمد جی… کیا حال چال ہیں آپ کے۔”
”وعلیکم السلام! میں بالکل ٹھیک ہوں سویرا جی’ مگر آپ میرا نام تو صحیح لیا کریں براہ مہربانی۔”
اس کی بات پر سویرا نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔ مجھے تو ناموں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا شوق ہے۔ مسٹر مہرداد عالم یا میں کہوںمہر… سویرا کی بات پر وہ مُسکرا دیا۔ سویرا تھی ہی ایسی مہرداد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیا کرتی تھی۔ ادھر غرنیق کچن کے سنک پر پانی کے چھینٹے منہ پر مارتی خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
”خود کو سمجھتے کیا ہیں آخر… مجھے کہاں ہونا چاہیے تھا۔ ہونہہ تب کہاںتھے جب مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ میں بھی ان سے بات نہیں کروں گی۔ آئے بڑے اینگری برڈ۔” وہ غصہ کررہی تھی اور ہنس بھی رہی تھی۔ ایک دم ہی دل میں ڈھیروں سکون اتر آیا تھا۔
گیٹ پر دوبارہ گاڑی رکنے اور پھر گیٹ کھلنے کی آواز پر غرنیق کچن کے دروازے سے دوبارہ باہر آئی۔ لالہ صاحب سیف اور اس کے والدین گاڑی سے اتر رہے تھے۔ اس نے سب کو سلام کیا اور عائشہ نے محبت سے اسے گلے لگایا تھا۔ سیف اور دیگر لوگوں کی وجہ سے وہ لالہ صاحب سے بھی انگریزی میں ہی بات کررہی تھی۔گو کہ اس کے کہنے پر سیف نے اردو سیکھ لی تھی’ مگر عائشہ اور عبدالرحمن صاحب ابھی بھی اردو سے نابلد تھے۔ وہ سب اندر داخل ہوئے’تو غرنیق اور سیف سب سے پیچھے تھے۔
بڑی دادی نے سیف کو بھی ڈھیر ساری دعائوں سے نوازا ۔ غرنیق مترجم کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے خود کو مصروف ظاہر کررہی تھی۔ مہرداد اسے نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا اور وہ اسے مکمل طور پر اگنور کرنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔ مہرداد اس کی حالت سے لطف اُٹھا تا رہا۔
لالہ صاحب نے مہرداد سے اپنے تعلق کی نوعیت بتائی تو بڑی دادی مہرداد کی مزید مداح ہوگئی تھیں۔
ادھر غرنیق سے باتیں کرتا سیف کچھ بے چین سا تھا۔
”کیا مسئلہ ہے سیف میں کب سے نوٹ کررہی ہوں’ تمہارا دھیان کہیں اور ہے۔”
ہاں… نہیں… اصل میں مجھے ذرا واش روم جانا ہے۔”
”چلو میں لے چلتی ہوں۔”
”ارے نہیں تم مجھے بس راستہ بتا دو میں خود ہی چلا جائوں گا۔” غرنیق نے اسے راستہ سمجھا دیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحبِ حال — بلال شیخ

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!